بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قربانی، عقیقہ اور صدقہ کے جانوروں میں فرق!

قربانی، عقیقہ اور صدقہ کے جانوروں میں فرق!


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :
مختلف فلاحی اداروں میں صدقے کے بکرے کے سلسلے میں جاتاہوں، لیکن ایک چیز جو مجھے پریشان کرتی ہے اور دل گرفتہ بھی، وہ یہ کہ جو جانور صدقے یا عقیقے کے مقصد کے لیے لائے جاتے ہیں وہ کسی طور پر بھی اس قابل نہیں ہوتے کہ ان کو صدقہ یا عقیقے کے لیے استعمال میں لایاجاسکے۔ ایک تو یہ انتہائی کم عمر ہوتے ہیں، یا یوں کہئے کہ جسامت میں بچے اور انتہائی کمزور ہوتے ہیں اور معذرت کے ساتھ جو رقم ان اداروں میں اس مد میں لی جاتی ہے اس کے عوض جو جانور پیش کیے جاتے ہیں، وہ کسی بھی طرح اس رقم سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ اور چھری چلاتے وقت اس بات کا بھی دل میں اندیشہ سا رہتا ہے کہ ہم (نعوذ باللہ!) ان بچوں پہ چھری چلاتے ہوئے گناہ کے مرتکب تو نہیں ہورہے؟! مسئلہ پیسوں کا نہیں ہے، بلکہ انسانی صحت کا بھی ہے، یقینا جو گوشت یہاں پر جمع ہوتا ہے، وہ ایسے لوگوں کو ہی دیاجاتا ہوگا جو حقیقۃً اس کے مستحق ہیں، جبکہ اتنے کمزور یا یوں کہئے کہ کم عمر جانور کی قربانی اسلام میں بھی سختی سے منع ہے، بلکہ اس کا گوشت بھی سائنسی بنیادوں پر انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے اور صدقہ کا تو مقصد ہی بہت عظیم ہے، لیکن اس طرح ہم اللہ کی رضا حاصل کرنے کے بجائے اس کی ناراضگی تو مول نہیں لے رہے؟! اس سلسلے میں مجھ ناچیز کو آپ سے درج ذیل اُمور پہ قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی درکار ہے۔ 
۱:… جو جانور صدقے یا عقیقے کے مقصد سے فروخت کیے جائیں ان کی کم از کم عمر کیا ہونی چاہیے؟
۲:… جانوروں کی قیمت کا تعین کیا ان کی نسل سے ہونا چاہیے یا صحت سے؟
۳:… جانوروں کی ویکسینیشن کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کیا صدقے یا عقیقے کے جانوروں میں کسی قسم کی تفریق جائز ہے؟ اگر کوئی ادارہ یا فرد اس سلسلے میں کوئی تفریق کرتا ہے تو اس سلسلے میں جانور خریدنے اور بیچنے والا دونوں کے بارے میں کیا احکامات ہیں؟
۴:…اگرکوئی شخص یا ادارہ جانور کی عمر یا صحت کے سلسلے میں خریدار سے غلط بیانی کرتا ہے، جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، اس کا علم خریدار کو جانور کٹنے اور اس کے گوشت کی تقسیم کے بعد ہوتا ہے تو کیا اس کا گناہ جانور فروخت کرنے والے پر واجب ہوگا یا خریدار پر بھی؟
جناب عالی! میری دانست میں جو سوالات تھے، میں نے بیان کردیئے، اب آپ سے قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی چاہتاہوں۔ مستفتی:محمد شفیق احمد ولد محمد دستگیر مرحوم، کراچی
الجواب حامدًا ومصلیًا
۱:۔۔۔۔۔۔ واضح رہے کہ قربانی کے جانوروں کے لیے شرعاً عمر مقرر ہے کہ اتنی عمر کا جانور ہو تو اس کی قربانی جائز ہے، ورنہ قربانی نہیں ہوگی، چنانچہ بکری، بکرے، دنبہ اور بھیڑ کے لیے کم از کم ایک سال کی عمر کا ہونا ضروری ہے۔ (والتفصیل فی الفقہ) البتہ اگر دنبہ، بھیڑ پورے سال کا نہ ہو، لیکن اتنا توانا اور صحت مند ہو کہ سال بھر کے دنبہ اور بھیڑوں کے ساتھ کھڑا کیا جائے تو یہ ان سے چھوٹا نظر نہ آئے تو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔ اسی طرح جانور عیب دار نہ ہو، جس کی تفصیلات کتابوں میں مذکور ہیں، جب کہ صدقہ کے جانور میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی، بلکہ صدقہ کرنے والا جتنی مالیت کا جانور اللہ کے راستہ میں صدقہ کرنا چاہے کرسکتا ہے اور وہ جتنی مالیت صدقہ کرے گا اتنی مالیت کا اُسے اجر وثواب ملے گا۔ البحر الرائق میں ہے:
’’وجاز الثنی من الکل والجذع من الضأن ، لقولہٖ علیہ الصلاۃ والسلام: لاتذبحوا إلامسنۃ، إلا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن … والثنی من الضأن والمعز ابن مسنۃ۔ ‘‘ (البحر الرائق، کتاب الأضحیۃ، ج:۷، ص:۱۷۷، ط:رشیدیہ)
المحیط البرہانی میں ہے:
’’والثنی من الغنم الذی تم علیہ السنۃ وطعن فی الثانیۃ۔ ‘‘ (ج:۲، ص:۹۲، ط:ادارۃ القرآن)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
’’حتی لو ضحّٰی بأقل من ذٰلک شیئًا لایجوز ، ولو ضحّٰی بأکثر من ذٰلک شیئًا یجوز ویکون أفضل۔ ‘‘ (ج:۵، ص:۲۹۷، ط:ماجدیہ)
عمر کی تعیین کے بعد قربانی کے جانوروں کے انتخاب میں ایسے جانور کا انتخاب کرنا مستحب ہے جو بڑے جسم کا، دیکھنے میں خوبصورت، فربہ اور گوشت سے بھراہواہو، اور دام میں مہنگا اور گوشت میں زیادہ ہو، تاہم قربانی کی شرائط جانور میں پائے جانے کی صورت میں جس مالیت کا بھی جانور لے، کوئی حرج نہیں۔بدائع الصنائع میں ہے:
’’وأما الذی یرجع إلی الأضحیۃ فالمستحب أن یکون أسمنَہا وأحسنَہا وأعظمَہا ، لأنہا مطیۃ الآخرۃ۔ ‘‘ (بدائع الصنائع، ج:۵، ص:۸۰، ط:سعید)
اور جو جانور بالکل لاغر ہو اور خود نہ چل سکتا ہو یا اندھا ہو کہ دیکھ نہ سکتا ہو یا ایسا بیمار ہو کہ اس کے صحیح ہونے کی اُمید نہ ہو یا اُس میں کوئی ایسا شرعی عیب ہو جو قربانی کی صحت کے لیے مانع ہو تو ایسے جانوروں کی قربانی جائز ہی نہیں۔ البحر الرائق میں ہے:
’’ (لا بالعمیاء والعوراء والعجفاء والعرجائ) أی التی لاتمشی إلی المنسک أی المذبح ، لما روي عن البراء بن عازبؓ أنہٗ علیہ السلام قال:’’ أربع لاتجوز فی الأضاحی : العوراء البین عورہا ، والمریضۃ البین مرضہا ، والعجفاء البین ضلعہا ، والکسیرۃ التی لاتنقی۔ ‘‘ (البحر الرائق، ج:۸، ص:۱۷۶، ط:سعید)
المحیط البرہانی میں ہے:
’’ولابأس بالمہزولۃ إذا بقی لہا بعض اللحم، فإن لم یبق شیئًا من ذٰلک لایجوز۔ ‘‘ (ج:۶، ص:۹۳)
عقیقہ کے لیے بھی وہی جانور معتبر ہیں جن کی قربانی جائز ہو، اس لیے ان کا بھی یہی حکم ہے، لہٰذا جو جانور عقیقہ یا قربانی کے لیے خریدے جائیں تو ان کا قربانی کی عمر کا ہونا ضروری ہے۔ الدر المختار میں ہے:
’’ثم یعق عند الحلق عقیقۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی شاۃ تصلح للأضحیۃ۔ ‘‘ 
 (الدر المختار مع شرحہ رد المحتار، ج:۶، ص:۳۳۶، ط:سعید)
۲:۔۔۔۔۔۔ قربانی وغیرہ کے جانوروں کی قیمت کا تعین ان کی نسل سے ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ ان میں مطلوبہ شرائط کا پایا جانا کافی ہے اور جسامت میں عمدگی مستحب ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک حصہ کی قربانی کے لیے اگر پچاس ہزار روپے میں ایک عمدہ گائے میسر ہوسکتی ہو تو اتنی مالیت کے اعلیٰ نسل کے بکرے، بکری کے مقابلے میں یہ گائے خریدنا بہتر اور مستحب ہوگا، بوجہ گوشت کی زیادتی اور غرباء کے نفع کے اور اگر اسی قیمت میں فربہ اور گوشت سے پُر بکری مل سکتی ہو تو لاغر اعلیٰ نسل کے بکرے کے مقابلے میں اس کو خریدنا زیادہ اولیٰ اور باعثِ ثواب ہوگا۔ المحیط البرہانی میں ہے:
’’البقرۃ أفضل من الشاۃ فی الأضحیۃ إذا استویا فی القیمۃ ۔۔۔۔۔۔ والأصل فی ہٰذا أنہما إذا استویا فی اللحم والقیمۃ فأطیبہا لحماً أفضل وإذا اختلفا فی القیمۃ واللحم فالفاضل أولٰی ۔ إذا ثبت ہٰذا فنقول: العجل بعشرین وذٰلک قیمتہٗ أفضل من خصی بخمسۃ عشر و إن کان الخصی أطیب لحما لأن الآخر أکثر۔ ‘‘ (المحیط البرہانی، ج:۶، ص:۹۳، ط:ادارۃ القرآن)
۳:۔۔۔۔۔۔ جب قربانی اور عقیقہ کے جانور میں عمر کی شرط ہے، عیوب سے پاک ہونا لازم ہے اور صدقہ میں یہ پابندی نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ دونوں کے درمیان واضح فرق ہے اور جو دونوں کے درمیان فرق کرے وہ درست ہے۔ چونکہ صدقہ کرنے سے غریبوں کی امداد اور ان کے ساتھ تعاون کرکے اللہ کی خوشنودی مقصود ہونی چاہیے، اس لیے جس سے غرباء کا تعاون زیادہ ہوگا اس میں اجر زیادہ ہوگا۔ بعض لوگ صرف خون بہانے کو صدقہ میں زیادہ اہمیت دیتے ہیں، خواہ مالیت کم ہی کیوں نہ ہو، یہ اُن کی غلط فہمی ہے، بلکہ کثرتِ اجر وثواب کا مدار کثرتِ مالیت اور اخلاص پر ہے۔ 
۴:۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی نمائندہ غلط بیانی کرتے ہوئے کم قیمت میں خرید کردہ جانور زیادہ قیمت ظاہر کرکے صدقہ دینے والے یا قربانی کرنے والے سے زیادہ رقم وصول کرے تو یہ خیانت ہے، جوکہ حرام ہے، اس کا گناہ خیانت کرنے والے کی گردن پر ہوگا، ہاں! اگر صدقہ یا قربانی کرنے والے کو پہلے سے اس کا علم یا اندازہ ہو تو اُسے چاہیے کہ ایسے ادارے کو وکیل نہ بنائے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
۱-’’ الوکیل بالشراء إذا وجد بالمشتریٰ عیبًا ورضی بہ وقبضہٗ ، فإن کان العیب لیس باستہلاک، مثل العمی وغیرہٖ لزم الأمر وإن کان استہلاکاً مما لایتغابن الناس فی مثلہٖ لم یلزم الأمر وکان الأمر أن یلزم المشتری۔ ‘‘(الفتاویٰ الہندیۃ، ج:۳، ص:۵۸۵، ط:ماجدیہ)
۲-’’وأما حکمہا: منہ قیام الوکیل مقام الموکل فیما وکلہٗ بہٖ ولایجبر الوکیل فی اتیان ما وکل بہٖ إلا فی دفع الودیعۃ ۔۔۔۔۔۔ ‘‘ (الفتاوی الہندیۃ، ج:۳، ص:۵۶۶، ط:ماجدیہ)
۳-’’ومنہ أنہٗ أمین فیما فی یدہٖ کالمودع فیضمن بما یضمن بہٖ المودَع ویبرأ بہٖ۔‘‘ (الفتاوی الہندیۃ، ج:۳، ص:۵۶۷، ط:ماجدیہ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
 الجواب صحیح الجواب صحیح الجواب صحیح کتبہٗ
 ابوبکرسعید الرحمن محمد انعام الحق محمد عبد القادر محمد نیاز ( رحمۃ اللہ علیہ )
 دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین