بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

بینات

 
 

قربانی سے متعلق چند اہم مسائل


قربانی سے متعلق چند اہم مسائل


’’ماہنامہ بینات میں ہر ماہ دارالافتاء کے عنوان کے تحت اہم اور جدید مسائل میں سے ایک آدھ فتویٰ شائع کیا جاتا ہے، چونکہ قربانی کے ایام قریب ہیں، اور قربانی سے متعلق چند اہم مسائل اور فتاویٰ کا ایک ساتھ شائع کرنا مفید معلوم ہوا، اس لیے اس شمارہ میں قربانی کے متعلق دارالافتاء سے جاری شدہ چند فتاویٰ اختصار کے ساتھ شائع کیے جارہے ہیں۔‘‘  (ادارہ)


مسئلہ: ہبہ شدہ جانور کی قربانی کرنے سے قربانی کی فرضیت ادا ہوگی یا نہیں؟

ایک شخص دوسرے آدمی سے قربانی کے لیے کوئی جانور خریدے، لیکن دوسرا آدمی کہے کہ میں تمہیں قربانی کے لیے جانور تو دے دوں گا، لیکن اس جانور کے پیسے نہیں لوں گا، اس صورت میں پہلے شخص پر جو قربانی فرض تھی وہ ادا ہوگی یا نہیں؟ تو واضح رہے کہ اپنی ذاتی رقم سے براہِ راست قربانی کا جانور خریدنا شرعاً ضروری نہیں ہے، بلکہ کسی بھی جائز ذریعہ (ہبہ، گفٹ، وراثت) سے قربانی کے جانور کا مالک بننے کے بعد اس کی قربانی کرنے سے واجب قربانی ادا ہوجائے گی۔                                   (فتویٰ نمبر: 8828)

مسئلہ: پیدائشی طور پر تین یا چار کان والے جانور کی قربانی کرنے کا حکم

اگر کسی جانور کے پیدائشی تین یا چار کان ہوں تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے، کیونکہ یہ عیب ہے جو کہ قربانی کے جواز سے مانع ہے۔                                            (فتویٰ نمبر: 8909)

مسئلہ: فوت شدہ والدین کی طرف سے قربانی کا طریقہ

اگر اولاد بڑے جانور (اونٹ، گائے وغیرہ) کی قربانی کررہی ہو اور اپنے کسی مرحوم کی طرف سے بھی نفلی قربانی کرنا چاہتی ہو تو اسی جانور میں سے ساتواں حصہ اپنے والد یا والدہ یا کسی بھی مرحوم کے لیے مختص کرسکتے ہیں، الگ سے جانور لینا ضروری نہیں ہے۔ اور ایک سے زائدافراد مل کر ایصالِ ثواب کےلیے ایک حصے کی قربانی کرنا چاہیں تو اس صورت میں وہ افراد کسی ایک شخص کو اس رقم کا مالک بنادیں، بعد ازاں وہ قربانی اس بیٹے کی طرف سے والد کے ایصالِ ثواب کے لیے ہوگی اور ثواب دیگر افراد کو بھی ملے گا۔
اور اگر کوئی بیٹا/بیٹی اپنے مرحوم والد کے ایصالِ ثواب کے لیے قربانی کرنا چاہے تو وہ بھی کرسکتا ہے، البتہ اولاد میں سے جس پر صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے اپنی قربانی کرنا واجب ہو تو والد کی طرف سے بطور ایصالِ ثواب قربانی کرنے کی وجہ سے اس سے اپنی قربانی کا وجوب ساقط نہیں ہوگا۔    (فتویٰ نمبر: 21418)

مسئلہ: قربانی کا گوشت بیچناجائز نہیں

قربانی کرنے والے کا اپنی قربانی کا گوشت فروخت کرنا جائز نہیں، اگر فروخت کردے تو اس کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہے۔ ریسٹورنٹ والے کا اپنی قربانی کا گوشت پکاکر فروخت کرنا جائز نہیں، اسی طرح پارٹی میں اپنی قربانی کا گوشت پکاکر اس کا خرچہ لینا جائز نہیں، البتہ گوشت کے علاوہ دیگر چیزوں کا خرچہ لینا جائز ہے۔      (فتویٰ نمبر: 10227)

مسئلہ: اجتماعی قربانی کا گوشت کس طرح تقسیم کیا جائے؟ ترازو سے یا اندازہ سے؟

سب شرکاء یا کوئی ایک شریک قربانی کے گوشت میں سے اپنا حصہ وصول کرنا چاہتا ہے تو قربانی کا گوشت اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں، وزن کرکے برابر برابر تقسیم کرنا ضروری ہے، ورنہ ایسا کرنا گوشت کے بدلے گوشت لینے کا عمل ٹھہرے گا، اگر کسی حصہ میں کمی بیشی ہوگی تو سود ہوجائے گا اور سود لینا، دینا، کھانا سب حرام ہے۔ البتہ اگر گوشت کے ساتھ سری پائے اور کھال کو بھی شریک کرلیا جائے تو جس طرف مذکورہ چیزیں ہوں اس طرف اگر گوشت کم ہو تو درست ہے۔
 نیز اگر قربانی میں شریک تمام افراد اس بات پر رضامند ہیں کہ گوشت کو تقسیم نہ کیا جائے، بلکہ ایک جگہ پکاکر کھایا جائے یا صدقہ کردیا جائے تو یہ جائز ہے، تقسیم کی ضرورت نہیں، لیکن اگر ان میں سے کو ئی بھی ایک حصہ دار اس کے خلاف ہو اور وہ اپنا حصہ تقسیم کرکے لینا چاہے تو تقسیم کرنا ضروری ہوگا، گوشت کو وزن کے ذریعہ سے تقسیم کرنا ضروری ہوگا، اندازے سے تقسیم کرنا درست نہیں۔ چاہے سب شرکاء راضی ہوں تب بھی گوشت کو ترازو سے تقسیم کرنا ضروری ہوگا۔   (فتویٰ نمبر: 10038)

مسئلہ: کھلے عام قربانی کی اجازت نہ ہو تو قربانی کے لیے قصائی سے ذبح شدہ بکرا خریدنا

بعض ممالک جیسے فرانس وغیرہ میں قربانی پر پابندی ہے، البتہ قصائی کی دکان سے ذبح شدہ بکرے مل جاتے ہیں، ایسی صورت میں قصائی کی دکان پر ذبح کیے گئے جانور کو خریدنے سے قربانی کا وجوب ادا نہیں ہوگا، البتہ اگر قصائی سے زندہ بکرا خرید کر مسلمان قصائی کی دکان پر قربانی کے دنوں میں ذبح کرالیں تو قربانی دا ہوجائے گی۔
اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پاکستان میں اپنی طرف سے قربانی کرائی جاسکتی ہے، اس کی شرط یہ ہے کہ اس کی طرف سے قربانی اس دن کی جائے جس دن دونوں جگہ عید کے ایام ہوں۔ اور اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ایک جگہ میں عید کی پہلی اور دوسری جگہ میں عید کی دوسری تاریخ ہو، صرف دونوں جگہوں میں عید کے ایام کا ہونا ضروری ہے۔   (فتویٰ نمبر: 8908)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین