بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

قرآن کریم کا تعارف ( اور ہماری ذمہ داری)

قرآن کریم کا تعارف

( اور ہماری ذمہ داری)


قرآن کیا ہے؟

قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پاک کلام ہے، جو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے انس وجن کی رہنمائی کے لیے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ نازل فرمایا۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، مخلوق نہیں۔ قرآن کریم لوحِ محفوظ میں ہمیشہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے جو فیصلے ملأ اعلیٰ یعنی آسمانوں کے اوپر تحریرہیں، وہ کسی بھی تبدیلی سے محفوظ ہونے کے ساتھ شیاطین کے شر سے بھی محفوظ ہیں، اس لیے اس کو لوحِ محفوظ کہا جاتا ہے۔ اس کی شکل وصورت وحجم کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے، مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔ 
قرآن ’’قَرَأَ‘‘ کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں: پڑھی جانے والی کتاب۔ واقعی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن کریم ہے، جس کی بغیر سمجھے بھی لاکھوں لوگ ہر وقت تلاوت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہوں پر اپنے پاک کلام کے لیے قرآن کا لفظ استعمال کیا ہے: ’’إِنَّہٗ لَقُرْأٰنٌ کَرِیْمٌ‘‘ (الواقعہ: ۷۷)۔ اسی طرح فرمایا: ’’بَلْ ہُوَ قُرْأٰنٌ مَّجِیْدٌ‘‘ (البروج :۲۱) 
قرآن کریم عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ہم نے اس کو ایسا قرآن بناکر اُتارا ہے جو عربی زبان میں ہے، تاکہ تم سمجھ سکو۔‘‘ (یوسف: ۲) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے، مگر اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہی اس کتاب سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ البقرۃ آیت: ۲ اور سورۂ آل عمران آیت: ۱۳۸ میں موجود ہے۔

نزولِ قرآن

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف طریقوں سے وحی نازل ہوتی تھی: 
۱:- گھنٹی کی سی آواز سنائی دیتی اور آواز نے جو کچھ کہا ہوتا، وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد ہوجاتا۔ جب اس طریقہ پر وحی نازل ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔ 
۲:- فرشتہ کسی انسانی شکل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا اور اللہ تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچادیتا۔ ایسے مواقع پر عموماً حضرت جبرئیل علیہ السلام مشہور صحابی حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں تشریف لایا کرتے تھے۔ 
۳:- حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنی اصل صورت میں تشریف لاتے تھے۔ 
۴:- بلاواسطہ اللہ تعالیٰ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم کلامی ہوئی۔ یہ صرف ایک بار معراج کے موقع پر ہوا۔ نماز کی فرضیت اسی موقع پر ہوئی۔ 
۵:- حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر کوئی بات القاء فرمادیتے تھے۔ 

تاریخ نزولِ قرآن

ماہِ رمضان کی ایک بابرکت رات لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسبِ ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔ قرآن کریم کا تدریجی نزول اُس وقت شروع ہوا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال تھی۔ قرآن کریم کی سب سے پہلی جو آیتیں غارِ حرا میں اُتریں، وہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں۔ اس پہلی وحی کے نزول کے بعد تین سال تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا۔ تین سال کے بعد وہی فرشتہ جو غارِ حرا میں آیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سورۃ المدثر کی ابتدائی چند آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائیں۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک وحی کے نزول کا تدریجی سلسلہ جاری رہا۔ غرض تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن کریم مکمل نازل ہوا۔

حفاظتِ قرآن

جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ قرآن کریم ایک ہی دفعہ میں نازل نہیں ہوا، بلکہ ضرورت اورحالات کے اعتبار سے مختلف آیات نازل ہوتی رہیں۔ قرآن کریم کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے حفظِ قرآن پر زور دیا گیا، چنانچہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم الفاظ کو اسی وقت دہرانے لگتے تھے، تاکہ وہ اچھی طرح یاد ہوجائیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی نازل ہوئی کہ عین نزولِ وحی کے وقت جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ خود آپ میں ایسا حافظہ پیدا فرمادے گا کہ ایک مرتبہ نزولِ وحی کے بعد آپ اسے بھول نہیں سکیں گے۔ اس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے حافظ قرآن ہیں، چنانچہ ہر سال ماہِ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور فرمایا کرتے تھے۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن کے معانی کی تعلیم ہی نہیں دیتے تھے، بلکہ انہیں اس کے الفاظ بھی یاد کراتے تھے۔ خود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن کریم یاد کرنے کا اتنا شوق تھا کہ ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتا تھا۔ چنانچہ ہمیشہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک اچھی خاصی جماعت ایسی رہتی جو نازل شدہ قرآن کی آیات کو یاد کرلیتی اور راتوں کو نماز میں دہراتی تھی۔ غرضیکہ قرآن کی حفاظت کے لیے سب سے پہلے حفظِ قرآ ن پر زور دیا گیا اور اُس وقت کے لحاظ سے یہی طریقہ زیادہ محفوظ اور قابلِ اعتماد تھا۔ 
قرآن کریم کی حفاظت کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو لکھوانے کا بھی خاص اہتمام فرمایا، چنانچہ نزولِ وحی کے بعد آپ کاتبینِ وحی کو لکھوادیا کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو آپ کاتبِ وحی کو یہ ہدایت بھی فرماتے تھے کہ: اسے فلاں سورت میں فلاں فلاں آیات کے بعد لکھا جائے۔ اس زمانہ میں کاغذ دستیاب نہیں تھا، اس لیے یہ قرآنی آیات زیادہ تر پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانور کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ کاتبینِ وحی میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ، خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام خاص طور پر ذکر کیے جاتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے، وہ عموماً متفرق اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ 
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں جب جنگِ یمامہ کے دوران حفاظِ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ابتداء میں اس کام کے لیے تیار نہیں تھے، لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لیے تیار ہوگئے اور کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ خود کاتبِ وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے، اُن کے علاوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظِ قرآن موجود تھے، مگر انہوں نے احتیاط کے پیشِ نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا، بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی، جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی جو آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں، وہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس محفوظ تھیں، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں یکجا فرمایا، تاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔ جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر دور دراز عجمی علاقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے علاقہ کے لوگ ان صحابہؓ وتابعینؒ سے قرآن سیکھتے، جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی ۔
 صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف قراء توں کے مطابق سیکھا تھا، اس لیے ہر صحابیؓ نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا تھا۔ اس طرح قراء توں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قراء توں کو غلط سمجھنا شروع کردیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قراء توں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ 
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ t کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تیار کرائے ہوئے) جوصحیفے موجود ہیں ، وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن میں سورتیں بھی مرتب ہوں، چنانچہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر ارسال کردیا گیا، تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردئیے جائیں۔ 
اس طرح اُمتِ مسلمہ میں اختلاف باقی نہ رہا اور پوری اُمتِ مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں کی سہولت کے لیے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر، زیر اور پیش) بھی لگائے گئے، نیز بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدِنظر قرآن کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تلاوتِ قرآن کی سہولت کے لیے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔ 

فضائلِ قرآن

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن کا ماہر جس کو خوب یاد ہو، خوب پڑھتا ہو، اُس کا حشر فرشتوں کے ساتھ قیامت کے دن ہوگا۔‘‘ (بخاری) حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ قیامت کے دن صاحبِ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ، جیسا کہ تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا، پس تیرا مرتبہ وہی ہے جہاں آخری آیت پر پہنچے۔‘‘ (مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے اس کے والدین کو قیامت کے دن ایک تاج پہنایا جائے گا، جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔ اگر وہ آفتاب تمہارے گھروں میں ہو تو کیاگمان ہے تمہارا اُس شخص کے بارے میں جو خود اس پر عمل پیرا ہو؟!۔‘‘ (ابوداود)

فہمِ قرآن

اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں تدبر و تفکُّر کرنے کا حکم دیا ہے، مگر یہ تدبُّر و تفکُّر مفسرِ اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں ہی ہونا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے ارشاد فرمایا ہے: ’’یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اُتاری ہے، تاکہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔‘‘ (النحل :۴۴) ’’ یہ کتاب ہم نے آپ پر اس لیے اُتاری ہے، تاکہ آپ ان کے لیے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔‘‘ (النحل: ۶۴) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسرِ اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُمتِ مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دی۔ صحابۂ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے ذریعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال یعنی حدیثِ نبوی کے ذخیرہ سے قرآن کریم کی پہلی اہم اور بنیادی تفسیر انتہائی قابلِ اعتماد ذرائع سے اُمتِ مسلمہ کوپہنچی ہے، لہٰذا قرآن فہمی حدیث کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

مضامینِ قرآن

علماء کرام نے قرآن کریم کے مضامین کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں، تفصیلات سے قطع نظر ان مضامین کی بنیادی تقسیم اس طرح ہے: 
۱:- عقائد            ۲:- احکام         ۳:- قصص۔ 
قرآن کریم میں عمومی طور پر صرف اُصول ذکر کیے گئے ہیں، لہٰذا عقائد واحکام کی تفصیل احادیثِ نبویہ میں ہی ملتی ہے، یعنی قرآن کریم کے مضامین کو ہم احادیثِ نبویہ کے بغیر نہیں سمجھ سکتے ہیں۔ 

قرآن اور ہماری ذمہ داری

یہ کتابِ مقدس حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر رہتی دنیا تک مشعلِ راہ بنی رہے گی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو اتنا جامع اور مانع بنایا ہے کہ ایمانیات، عبادات، معاملات ، سماجیات ، معاشیات واقتصادیات کے اصول قرآن کریم میں مذکور ہیں۔ ہاں! ان کی تفصیلات احادیثِ نبویہ میں موجود ہیں۔ مگر بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلق اس کتاب سے روز بروز منقطع ہوتا جارہا ہے۔ یہ کتاب ہماری مسجدوں اور گھروں میں جزدانوں میں قید ہوکر رہ گئی ہے، نہ تلاوت ہے نہ تدبر ہے اور نہ ہی اس کے احکام پر عمل، آج کا مسلمان دنیا کی دوڑ میں اس طرح گم ہوگیا ہے کہ قرآن کریم کے احکام ومسائل کو سمجھنا تو درکنار اس کی تلاوت کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے اپنے دور کے مسلمانوں کے حال پر رونا روتے ہوئے اسلاف سے اس وقت کے مسلمان کا مقارنہ ان الفاظ میں کیا تھا:

وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

آج ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں، انہیں عصری علوم کی تعلیم دینے پر اپنی تمام محنت وتوجہ صرف کرتے ہیں اور ہماری نظر صرف اور صرف اس عارضی دنیا اور اس کے آرام وآسائش پر ہوتی ہے اور اُس ابدی ولافانی دنیا کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرتے، الا ما شاء اللہ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا اور اپنے بچوں کا تعلق وشغف قرآن وحدیث سے جوڑیں، اس کی تلاوت کا اہتمام کریں، علماء کی سرپرستی میں قرآن وحدیث کے احکام سمجھ کر ان پر عمل کریں اور اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ ہمارے ساتھ، ہمارے بچے، گھر والے، پڑوسی، دوست واحباب ومتعلقین بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے طریقہ پر زندگی گزارنے والے بن جائیں۔ آج عصری تعلیم کو اس قدر فوقیت واہمیت دی جارہی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن کریم ناظرہ کی بھی تعلیم نہیں دی جارہی ہے، کیونکہ ان کو اسکول جانا ہے، ہوم ورک کرنا ہے، پروجیکٹ تیار کرنا ہے، امتحانات کی تیاری کرنی ہے، وغیرہ وغیرہ، یعنی دنیاوی زندگی کی تعلیم کے لیے ہر طرح کی جان ومال اوروقت کی قربانی دینا آسان ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے کلام کو سیکھنے میں ہمیں دشواری محسوس ہوتی ہے۔ غور فرمائیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس نے ہماری رہنمائی کے لیے نازل فرمایا ہے اور اس کے پڑھنے پر اللہ تعالیٰ نے بڑا اَجر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے والا اور قرآن وحدیث کے احکام پر عمل کرنے والا بنائے، آمین۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین