بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآنی علوم کے متعلق علمائے امت کے قابل تحسین کارنامے

قرآنی علوم کے متعلق علمائے امت کے قابل تحسین کارنامے


قرآن کریم اللہ کی وہ کتاب ہے جس کے متعلق خودباری تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وانہ لکتاب عزیز لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل حکیم حمید﴾ (حم سجدہ:۴۲)
ترجمہ:۔”اور وہ کتاب ہے نادر ،اس پر جھوٹ کا دخل نہیں ،آگے سے اور نہ پیچھے سے اتاری ہوئی ہے حکمتوں والے سب تعریفوں والے کی۔“ اور یہ واقعی ایسی کتاب ہے جس نے انسانی عقل کو حیرت میں ڈال رکھا ہے اور بڑے بڑے حکماء،فصحاء،عارف ا ور دانشوروں کو مسحور کردیا ہے جس کے نظم میں موجود عجیب تناسق وترتیب اور اس کے عاجز کردینے والے بیان کے آگے بڑے بڑے فصحاء کی جبین نیاز خم ہے بلکہ اس قرآن نے تو اپنی آب وتاب اور حیرت انگیز رونق سے عقول کو گویا مسخر کرلیا اور اس کی گراں مایہ حکمتوں اور دقیق اسرار نے بڑے بڑے حکماء کو چہروں کے بل گرادیا اس لئے کہ ان حکمتوں تک کی ان کی عقل وسمجھ کبھی رسائی نہ حاصل کرسکتی تھی بلکہ ان حکمتوں کی بلندیوں تک پہنچنے سے ان کے افکار اور ان کے ادراکات عاجز تھے ،بڑے بڑے اہل معرفت اس کے معارف وحقائق کے سمندر میں غوطہ زن رہے لیکن اس کے دقیق اسرار تک پہنچنے سے اس کی بھاری موجوں نے ان کو تھکا دیا اور ان کوپانے سے پہلے ہی ان کی امیدیں ڈھیر ہوگئیں علماء امت اور فقہائے ملت نے اس کی گہرائیوں میں غور وخوض کیا اور امت کے لئے عمدہ اور قیمتی مگر چھپے ہوئے موتی اور جواہرات نکالے جس کے نتیجہ میں گویا کہ یہ قرآن نظام عالم کے سرکا تاج اورہر ہرزمانے کی تہذیب وثقافت کے ماتھے کا حسین جھومر بن گیا۔ قرآن کریم تو وہ عظیم کتاب ہے جس کو باری تعالیٰ شانہ نے اپنے علم کے ساتھ نازل فرمایا اور اس کی توصیف یوں فرمائی کہ:
﴿کتاب انزلناہ الیک مبارک لیدبروا آیاتہ ولیتذکر اولو الالباب﴾(ص:۲۹)
ترجمہ: یہ ایسی کتاب ہے جو اتاری ہم نے تیری ( آپ علیہ الصلوةو السلام کی) طرف ‘ برکت والی تاکہ غوروفکر کریں لوگ اس کی آیتوں میں اورتاکہ عبرت حاصل کریں عقل والے ۔ اسی طرح فرمایا کہ:
﴿وانہ لکتاب عزیز لایأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ تنزیل من حکیم حمید﴾ ( حم سجدہ:۴۲)
ترجمہ :۔”اور وہ کتاب ہے نادر‘ اس پر جھوٹ کا دخل نہیں آگے سے اور نہ پیچھے سے، اتاری ہوئی ہے حکمتوں والے سب تعریفوں والے کی طرف سے۔“ ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
﴿اللہ نزل احسن الحدیث کتاباً متشابہاً مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربہم ثم تلین جلودہم وقلوبہم الی ذکر اللہ﴾ ( زمر:۲۳)
ترجمہ:۔”اللہ نے اتاری بہتر بات ‘ کتاب آپس میں ملتی دوہرائی ہوئی ،بال کھڑے ہوتے ہیں اس سے کھال پر ان لوگوں کے جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے پھر نرم ہوتی ہیں ان کی کھالیں اور ان کے دل اللہ کی یاد کی طرف مائل ہوتے ہیں۔“ اور فرمایا کہ:
﴿وانہ لتنزیل رب العالمین نزل بہ الروح الامین علی قلبک لتکون من المنذرین بلسان عربی مبین﴾ (شعراء:۱۹۲تا۱۹۵)
ترجمہ :۔”یہ قرآن ہے اتارا ہوا پروردگار عالم کا لے کر اترہے اس کو فرشتہ معتبر تیرے دل پر کہ تو ہو ڈر سنا دینے والا کھلی عربی زبان میں۔“ اور فرمایا کہ:
﴿وانہ فی ام الکتاب لدینا لعلی حکیم﴾ ( شوریٰ:۴)
ترجمہ:اور تحقیق یہ قرآن لوح محفوظ میں ہمارے پاس ہے برتر مستحکم۔ کائنات کے فصیح وبلیغ انسان حرف ضاد کو سب سے زیادہ واضح طور پر ادا کرنے والے،جن کو حکمت وفراست اور واضح کلام وخطاب مرحمت کیا گیا ،جو گذرے اور آئندہ تمام زمانوں میں آنے والے سب لوگوں پر علمی برتری وتفوق کے حامل ‘ خدائے پاک کی سب سے زیادہ معرفت رکھنے والے اور مخلوق میں خداوند تعالیٰ کے اسرار وحکم کے متعلق سب سے زیادہ گہری بصیرت سے سرفراز‘ رسولوں کے سردار اور خاتم الانبیاء حضرت محمد ا نے قرآن پاک کی توصیف کچھ اس طرح بیان فرمائی کہ اس کے بعد اس کی تعریف میں کسی بڑھنے والے کے لئے کوئی انتہا نہ چھوڑی چنانچہ فرمان عالیشان ہے کہ: ” قرآن کریم اللہ کی وہ کتاب ہے جس میں تم سے پچھلوں اور تم سے اگلوں کے متعلق اہم خبریں ہیں، اس میں تمہارے آپس کے معاملات کے متعلق فیصلے ہیں‘ یہ خدا کا واضح اور فیصلہ کن کلام ہے جس میں کچھ مذاق نہیں جس متکبر نے اس کو چھوڑا خداوند تعالیٰ نے اس کو تباہ کیا، اور جس نے اس کے علاوہ کسی دوسری کتاب میں ہدایت تلاش کی اللہ نے اس کو گمراہ فرمایا‘ یہ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی اور ذکر حکیم ہے‘ یہ صراط مستقیم ہے کہ اس کے مطابق عمل پیرا ہونے میں خواہشات نہ بھٹکیں گی اور زبانیں التباس نہ کھائیں گی‘ علماء اس سے سیر نہ ہوں گے اور کثرت سے پڑھے جانے کے باوجود یہ پرانا نہ ہوگا اور نہ اس کتاب کے عجائبات کبھی ختم ہوں گے یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کو سن کر جن بھی رک نہ سکے اور بول پڑے:
﴿انا سمعنا قرآنا عجباً یہدی الی الرشد فآمنا بہ﴾ (جن:۱ )
ترجمہ:۔” ہم نے سنا ہے ایک قرآن عجیب کہ راہ نمائی کرتا ہے راہ راست کی طرف نیک راہ سو ہم اس پر ایمان لائے۔“ جس شخص نے اس کے مطابق کہا، اس نے سچ کہا۔ اور جس نے اس پر عمل کیا، ماجور ٹھہرا ۔اورجو اس کے مطابق فیصلہ کرے، اس نے انصاف کیا۔ اور جس نے اس کی طرف بلایا ،سو اس نے سیدھے راستے کی طرف رہبری ورہنمائی کی ۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی جامع میں حارث الاعور سے جنہوں نے حضرت علی  سے اس روایت کو نقل کیا ہے، ذکر فرمایا ہے اور علامہ زیلعی ”تخریج احادیث الکشاف“ میں اس حدیث کے متعلق یوں فرماتے ہیں کہ:اس حدیث کو ابن ابی شیبہ‘ اسحاق‘ دارمی اور بزار رحمہم اللہ نے حارث سے نقل شدہ طریق پر ذکر فرمایا ہے اور اس حدیث کے لئے امام طبرانی کی ذکر کردہ حضرت معاذ بن جبل سے منقول روایت شاہد ہے ‘ حاکم نے اس حدیث کو ابن مسعود کے حوالے سے بھی مرفوعاً ذکر فرمایا ہے لیکن یہ تمام احادیث بہر حال ضعف سے خالی نہیں۔ اورآپ نے فرمایا کہ ”قرآن مختلف معانی کا حامل ہے ،ظاہری معانی اور باطنی حقائق پر مشتمل ہوتا ہے، اس کے عجائبات ختم نہ ہوں گے اور نہ اس کی مضامین کی انتہاء تک کبھی پہنچا جا سکے گا، جس شخص نے دل کی نرمی سے اس میں غور وفکر کیا اس نے نجات حاصل کی اور جس نے سختی سے غور وخوض کیا وہ گر پڑا، اس میں خبریں اور مثالیں ‘ حلال وحرام‘ ناسخ ومنسوخ‘ محکم ومتشابہ اور ظاہر وباطن ہیں ظاہر تو اس کا تلاوت وقراء ت ہے اور باطن اس کی تفسیر وتاویل ہے پس اس کو تھام کر علماء کی صحبت اختیار کرو اور کم عقلوں سے کنارہ کش ہوجاؤ“ ۔ صاحب ”اتقان “ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو ابن ابی حاتم نے ضحاک کے طریق سے حضرت ابن عباس سے نقل فرمایا ہے۔ چنانچہ اس نایاب اور سرچشمہٴ قوت نازل کردہ کتاب قرآن مجید نے اپنے حسن نسق وترتیب اور اپنی بلند پایہ فصاحت وبلاغت سے عرب و عجم کے خطباء اوردنیا کے بلغاء کی کھوپڑیاں اڑادیں‘ ان کے گویوں کو گونگا اور ان کی چناں وچنیں کو خاموش کر چھوڑا جس کے نتیجہ میں وہ اس کی رونق وحلاوت اور اس کے شہد کے مانند شیریں اسلوب کے سامنے حیرت زدہ رہ گئے ، اس کی طمازت وتپش ان میں سرایت کر گئی جس کی وجہ سے آپ ان کو نشہ میں مدہوش پائیں گے حالانکہ وہ کچھ مدہوش نہیں ،اور قرآن تو ایسی قابل قدر کتاب ہے جیساکہ ایک عربی شاعر کہتا ہے:
وعینان قال اللہ کونا فکانتا فعولان بالألباب ما یفعل الخمر
ترجمہ:دو چشمے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہو جاؤ پس وہ چشمے آپس میں مل گئے اور عقلوں کے ساتھ شراب کا سامعاملہ کررہے ہیں۔ اور ذرا ولید بن مغیرہ کے اس قول کو بھی مد نظر رکھیے جب اس نے رسول اللہ ا سے سورہ ” حم سجدہ“ کی ابتدائی آیات سنیں تو کہنے لگا : ”بخدا ! اس قرآن میں تو ایک عجیب قسم کی حلاوت اور رونق ہے اس کا نچلا حصہ خوشہ دار اور اوپر کا حصہ سرسبز وشاداب ہے اور بیشک یہ غالب ہوگا مغلوب نہ ہوگا اور یہ اپنے نہ ماننے والوں کو ہلاک کردے گا“۔ ا س کتاب کی آیات مضبوط اور حکیم وخبیر کی نازل کردہ ہیں اس کی حکمتوں کے آگے مشرق ومغرب کے حکماء تہی دست ہیں اور فقہاء عراق وحجاز ، خراسان وقرطبہ کو اس کتاب نے احکام شرعیہ فقہی جزئیات ومسائل کے استنباط میں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ،فلاسفہٴ زمانہ اور دانشوران اقوام قرآن کریم میں بیان کردہ تہذیب انسانیت اور قوانین تربیت کو شمار کرتے کرتے ہکلانے اورتتلانے لگے ہیں، خدا بھلا کرے شیخ علامہ محدث حافظ تقی الدین سبکی کا کہ انہوں نے شیخ صلاح الدین صفدی کو بعض مسائل کے متعلق جواب دیتے ہوئے قرآن کے اعجاز کے بارے میں درجہ ذیل اشعار پڑھے:
لأسرار آیات الکتاب معان

تدق فلا تبدو لکل معان
وفیھا لمرتاض لبیب عجائب

سنا برقھا یعنو لہ القمران
اذا بارق منھا لقلبی قد بدا

ہممت قریر العین بالطیران
سرورا و ابھاجا وصولا علی العلی

کأنی علی ہام السماک سمانی
وہاتیک منھا قد أبحت کما تری

فشکرا لمن أولی بدیع بیان
وان جنانی فی تموج ابحر

من العلم فی قلبی تمد لسانی
وکم من کناس فی حمای مخدر

الی أن أری أھلا ذکی جنان
فیصطاد منی ما یطیق اقتناصہ

ولیس لہ بالشاردات یدان
منای سلیم الذہن ریض ارتوی

بکل علوم الخلق ذو لمعان
فذاک الذی یرجی لایضاح مشکل

ویقصد للتحریر عند عیان
وکم لی فی الآیات حسن تدبر

بہ اللہ ذو الفضل العظیم حبانی
بجاہ رسول اللہ قد نلت کل ما

أتی وسیأتی دائما بأمان
فصلی علیہ اللہ ما ذر شارق

وسلم ما دامت لہ الملوان
۱-قرآن کی آیات کے معانی وحقائق اتنے دقیق ہیں کہ ہر مشقت اٹھانے والے کے سامنے ظاہر نہیں ہوتے۔
۲-ان آیات میں عقل مند اور زحمت کرنے والوں کے لیے عجائبات ہیں،ان آیات کی روشنی وانوارات کے سامنے سورج وچاند جھک جاتے ہیں۔
۳-جب ان آیات کی چمک میرے دل پہ نمودار ہوتی ہے تو خوشی کی وجہ سے میرا ہوا میں اڑنے کو جی کرتا ہے ۔
۴-سرور وخوشی اور اونچے مراتب تک پہنچنے کی وجہ سے گویا میں اپنے آپ کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا ہوا سمجھتا ہوں۔
۵-قرآن کی روشنیوں سے فائدہ اٹھاوٴ جیسا کہ میں نے اس بات کا اظہار کیا ہے اور تم خود بھی جانتے ہو ، قابل شکر ہے وہ ذات جس نے ایسا عمدہ اور بلیغ بیان اپنے ذمے لیا ہے ۔
۶-میری زندگی قرآنی علوم کے سمندر میں موج زن ہے اور ان ہی قلبی علوم کی وجہ سے میں زبان درازی کرنے کے قابل ہوا ہوں۔
۷-بہت سے صاف کرنے کی قابل چیزیں میرے باطن میں پوشیدہ ہیں یہاں تک کہ میں کسی اہل کو دیکھوں جو میرے دل کو پاک کر سکے ۔
۸-جو شکار کرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ آکر مجھ سے حاصل کرے کیونکہ ان نامانوس نکات تک پہنچنا ہر ایک کی دست قدر ت میں نہیں ہے۔
۹-میری آرزو ایسا شخص ہے جو سلیم الذہن اور محنت کش ہو ، مخلوق کے علوم سے سیراب ہوا ہو اور علم کی روشنی سے چمکتا رہے۔
۱۰-ایسے شخص کے بارے میں امید کی جاتی ہے کہ قرآنی مشکلات کے واضح بیان اور تفسیر کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جائے۔
۱۱-قرآن اور اس کی آیات کے بارے میں میرے یہ اچھے افکار اللہ کی مہربانی اور فضل وعنایت کا نتیجہ ہیں۔
۱۲-جو کچھ مجھے ملا ہے رسول اللہ کی برکت سے ہی میں نے حاصل کیا ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ میرے پاس عافیت کے ساتھ ایسے علوم آتے رہیں گے ۔
۱۳-جب تک ہر روشن چیز کی روشنی باقی ہے تب تک اس پیغمبر پر اللہ کی رحمت ہواور جب تک دن رات باقی ہیں تب تک اس پیغمبر پر اللہ کی سلامتی ہو۔
ان اشعار کی حلاوت اور شیرینی نے مجھے مجبور کیا کہ میں تمام اشعار یہاں ذکر کردوں ،یہ اشعار علامہ سبکی کے صاحبرزادے بہاء الدین سبکی نے ”عروس الافراح شرح تلخیص المفتاح“ میں ذکر فرمائے ہیں۔ حاصل یہ کہ باری تعالیٰ کا یہ کلام فصاحت وبلاغت کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے اور علوم ومعارف اور حقائق واسرار میں عالی شان ہونے کی وجہ سے گویا اتنا بعید المرتبہ ہے جس تک پہنچنے سے خالص عربی تیز دوڑنے والا اونٹ اور مہاری اونٹ ( مہرہ بن حمیة کا وہ تیز رفتار اونٹ جو دوڑ نے میں مشہورتھا ) قاصر ہے اسی طرح نظام عالم کے متعلق مختلف احکام ‘ انسانیت کی تربیت ان کے اخلاق کی تہذیب اور قلوب وارواح کی پاکیزگی سے متعلق دیگر کئی قوانین کے سلسلہ میں اتنا بلند مقام رکھتا ہے کہ نظر وفکر کی رسائی وہاں تک ممکن نہیں اور اسی طرح انوکھی معلومات، مختلف عجائبات پر مشتمل اور دیگر کئی خصائص اور امتیازات کا حامل ہے ،یہی وجہ ہے ملت اسلامیہ کے فضلاء نے اپنی مبارک زندگیاں اور پاکیزہ لمحے قرآن کریم کے مختلف اسرار وحکم کی تلاش اور ان کے واضح کرنے میں گزار دیے اور الفاظ قرآنی کے محاسن سے حاصل شدہ دلائل عظمت کو بیان فرمایا امت محمدیہ کے انہی اکابر نے اپنی کامیاب کوششوں کو قرآن کریم کے متعلق خرچ کیا اور اس کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوکر لعل وجواہرات نکالے اور ان مختلف حاصل شدہ جواہرات کوکتابوں کی صورت میں منظم ومرتب کردیا۔
(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین