بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآن کریم کی تلاوت کے آداب (دوسری اور آخری قسط)

قرآن کریم کی تلاوت کے آداب!             (آخری قسط)

پہلا ادب:عظمتِ قرآن کا استحضار  کلام اللہ کی عظمت ، علو شان اور اس کے مرتبہ ومنزلت کا دل وجان سے اعتراف کرے اور یہ استحضار کرے کہ نزولِ قرآن بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان کا ایک عظیم نمونہ ہے کہ اس نے عرش بریں سے اپنا کلام اپنے بندوں کی رشد وہدایت کے لئے اتارا، ورنہ اس کتاب کے روحانی بوجھ اور تجلی کا عالم یہ ہے کہ اگر عالم مثال میں ظاہر ہوجائے تو سخت ترین پہاڑ بھی اسے برداشت نہ کرسکیں۔ دوسرا ادب:اللہ تعالیٰ (صاحبِ کلام) کا استحضار دوسرے ادب کا تعلق صاحبِ کلام کی عظمت سے ہے۔ جب تلاوت کرنے والا تلاوت کرے تو اپنے دل میں متکلم (اللہ تعالیٰ) کی عظمت ورفعتِ شان کا استحضار ضرور کرے اور یہ یقین رکھے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے ، بلکہ خالق کائنات کا کلام ہے اور اس کی تلاوت کے بہت آداب وتقاضے ہیں۔ ہر دل اس کا اہل نہیں کہ قرآن کی حکمتوں اور اس کے عظیم الشان معانی کا بار گراں برداشت کرسکے، اس لئے ضروری ہے کہ آدمی کا دل پاک اور عظمت وتوقیر کے نور سے منور ہو۔ حضرت عکرمہؓ جب قرآن پاک کھولتے تو بے ہوش ہوجاتے اور فرماتے ’’ہذا کلام ربّی، ہذا کلام ربّی‘‘۔ ’’یہ میرے رب کاکلام ہے، یہ میرے رب کا کلام ہے‘‘۔ کلام کی تعظیم دراصل متکلم کی تعظیم ہے اور متکلم کی تعظیم کا حق اس وقت تک ادا نہیں ہوسکتا، جب تک قاری اس کی صفات وافعال میں غور نہ کرے۔ تیسرا ادب: حضورِ قلبی تلاوت کرتے وقت انسان کا دل حاضر ہو، دیگر خیالات، سوچ وبچار میں دل مشغول نہ ہو۔ یہ ادب دراصل پہلے ادب کا نتیجہ ہے۔ اگر دل میں کلام وصاحب کلام کی عظمت ہوگی تو یہ صفت خود بخود پیدا ہوجائے گی، کیونکہ جب کلام کی عظمت ہوگی تو اُنسیت بڑھے گی اور یہ اُنسیت اُسے غافل نہ ہونے دے گی۔ چوتھا ادب:غور وفکر یہ ہے کہ انسان آیاتِ قرآنیہ میں غور وفکر کرے۔ یہ حضور قلبی سے ایک الگ ادب ہے۔ بسا اوقات دل تو پوری طرح حاضر ہوتا ہے اور پڑھنے والا ہمہ تن تلاوت میں مشغول ہوتا ہے، لیکن غور نہیں کرتا، جبکہ تلاوت کا مقصد ہی تدبر ہے، اسی وجہ سے ترتیل مسنون قرار دی گئی ہے، کیونکہ ٹھہر ٹھہر کر  پڑھنے سے سوچنے کا موقع ملتا ہے او رغور وفکر میں آسانی ہوتی ہے۔ پانچواں ادب: ہرآیت کامفہوم اخذ کرنا یہ ہے کہ ہر آیت سے اس کے مطابق معنی ومفہوم اخذ کرے اور قوتِ فکر استعمال کرے۔ قرآن کریم مختلف مضامین پر مشتمل ہے: اس میں باری تعالیٰ کی صفات وافعال کا ذکر بھی ہے، انبیاء علیہم السلام کے حالات بھی ہیں اور ان اقوام سابقہ کے احوال بھی مذکور ہیں جنہوں نے پیغمبر کی تکذیب کی اور خدائے تعالیٰ کے اوامر ونواہی بھی ہیں اور ان ثمرات ونتائج کا ذکر بھی ہے جو اوامر ونواہی کی تعمیل پر مرتب ہوںگے۔ چھٹا ادب: فہمِ قرآن سے مانع امور سے اجتناب یہ ہے کہ قاری ان تمام امور سے خالی ہو جو فہم قرآن کی راہ میں مانع ہوں۔ گناہوں کا ارتکاب، کبر وغرور، طمع ولالچ میں مبتلا ہونا، دنیا کی محبت میں گرفتار ہونا، یہ تمام امور دل کو تاریک وزنگ آلود کردیتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: ’’إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوْا الأَلْبَابِ‘‘ ۔                                     (الزمر:۹) ترجمہ:…’’وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اہل عقل (سلیم) ہیں‘‘۔ جو شخص دنیاوی خواہشات ومحبت میں مبتلا ہو اور ان اشیاء کو آخرت کی نعمتوں پر ترجیح دے، وہ صاحب عقل وفہم نہیں، اسی لئے ایسا شخص فہم وتدبرِ قرآن سے محروم رہتا ہے، اس پر کتاب اللہ کے اسرار ومعانی منکشف نہیں ہوتے۔ ساتواں ادب: قرآنی خطاب کو اپنے لئے خاص سمجھنا یہ ہے کہ قرآن کریم کے ہر خطاب کو اپنے لئے خاص سمجھے۔ جب کوئی آیتِ نہی یا آیتِ امر سامنے آئے تو یہ سوچے کہ مجھے ہی حکم دیا گیا ہے اور مجھے ہی منع کیا گیا ہے۔ وعدو وعید کی آیات تلاوت کرے تو اُنہیں اپنے حق میں فرض کرے۔ انبیاء علیہم السلام کے قصے پڑھے تو یہ سمجھے کہ یہاں قصے مقصود نہیں، بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی آزمائش، صبر، نصرت اورثابت قدمی کے جو واقعات اپنی کتاب میں بیان کئے ہیں، ان سے ہماری تعلیم اور اپنے دین پر ثابت قدمی مقصود ہے۔ قرآنی خطابات کو اپنے لئے فرض کرنے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک کسی ایک شخص کے لئے نازل نہیں ہوا، بلکہ تمام دنیا کے لئے شفائ، ہدایت، رحمت وپیغام خداوندی ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کو نعمتِ کتاب پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا: ’’وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اﷲِ عَلَیْکُمْ وَمَآ أُنْزِلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ‘‘۔                                                                                        (البقرۃ:۲۳۱) ترجمہ:…’’اور حق تعالیٰ کی جو نعمتیں تم پر ہیں ان کو یاد کرو اور (خصوصاً) اس کتاب اور (مضامین) حکمت کو جو اللہ نے تم پر (اس حیثیت سے) نازل فرمائی ہیں کہ تم کو ان کے ذریعے نصیحت فرماتے ہیں‘‘۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ہٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَہُدًی وَّمَوْعِظَۃٌ لِّلمُتَّقِیْنَ‘‘۔                            (آل عمران:۱۳۸) ترجمہ:…’’یہ بیان کافی ہے تمام لوگوں کے لئے اور ہدایت اور نصیحت ہے خاص خدا سے ڈرنے والوں کے لئے‘‘۔ معلوم ہوا کہ تمام لوگ قرآن کے مخاطب ہیں، اس اعتبار سے یہ خطاب تلاوت کرنے والوں سے بھی ہے، اس لئے ہر شخص کو فرض کرنا چاہئے کہ قرآن کا مقصود میں ہوں۔ آٹھواں ادب: تأثّرِ قلبی یہ ہے کہ قرآنی آیات سے متأثر ہو۔ جس طرح کی آیت تلاوت کرے، اس طرح کا تأثر دل میں ہونا چاہئے۔ اگر آیتِ خوف ہے تو خوف طاری کرے اور آیتِ حزن ہے تو غمگین ہوجائے، آیتِ رجاء ہے تو امید کی کیفیت پیدا کرے، جب جنت کا ذکر ہو تو دل میں اس کا شوق پیدا ہونا چاہئے، دوزخ کے بیان پر دل میں خوف کی کیفیت پیدا ہونی چاہئے، چنانچہ روایات میں ہے کہ سرکار دو عالم ا نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے فرمایا: قرآن سناؤ! حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ: میں نے سورۂ نساء کی تلاوت شروع کی، جب میں اس آیت پر پہنچا: ’’فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہَؤُلآئِ شَہِیْداً‘‘۔    (النسائ:۴۱) ترجمہ:…’’سو اس وقت بھی کیا حال ہوگا جبکہ ہم ہر ہر امت میں ایک ایک گواہ حاضر کریںگے اور آپ کو ان لوگوں پر گواہی دینے کے لئے حاضر لائیںگے‘‘۔ تو آنحضرت ا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، آپ ا نے فرمایا: ’’أمسک الآن‘‘ ،’’ اب ٹھہر جاؤ‘‘۔ (بخاری شریف) آپ ا کی یہ کیفیت اس لئے پیدا ہوئی کہ آپ ا کا قلب مبارک پوری طرح اس منظر کے مشاہدے میں مصروف تھا، بعض لوگ وعید وانذار کی آیات تلاوت کرتے وقت بے ہوش ہوجاتے تھے اور ایسے بھی گزرے ہیں جو اس طرح کی آیات سنتے ہوئے انتقال کرگئے۔ الغرض مؤمن کو تلاوت کے دوران ہر آیت کے مضمون کے مطابق اس طرح تأثر لینا چاہئے کہ اس کے ظاہر وباطن پر وہ اثر محسوس بھی ہو۔ نواں ادب: تصوّرِ متکلم (اللہ تعالیٰ) یہ ہے کہ تلاوت میں اتنی ترقی وکمال حاصل کرے کہ گویا اپنے بجائے خود متکلم سے اس کا کلام سن رہا ہے، پڑھنے کے تین درجات ہیں:  ۱…ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ بندہ یہ تصور کرے کہ میں باری تعالیٰ کے سامنے دست بستہ کھڑا تلاوت کررہا ہوں اور باری تعالیٰ دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں ۔  ۲…دوسرا درجہ یہ ہے کہ دل میں یہ احساس کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہے ہیں اور اپنے لطف وکرم سے اسے مخاطب کررہے ہیں اور اپنے انعام واحسان کا ذکر فرمارہے ہیں۔  ۳…تیسرا درجہ یہ ہے کہ کلام میں متکلم کا اور کلمات میںصفات متکلم کا مشاہدہ کرے، اپنے اوپر اور اپنی قرأت پر نظر نہ رکھے،بلکہ فکر وخیال کا مرکز باری تعالیٰ کی ذات ہونی چاہئے، گویا وہ متکلم کے مشاہدے میں اس قدر مشغول ہے کہ اس کے علاوہ ہر شئے اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے۔ دسواں ادب: خود کو ہیچ سمجھنا یہ ہے کہ طاقت وقوت سے برأت کرتا رہے اور کسی بھی لمحہ اپنے نفس کو اہمیت نہ دے، مثلاً قرآن پاک کی وہ آیات پڑھے جن میں نیک بندوں کی مدح کی گئی ہے تو یہ خیال نہ ہو کہ میں بھی ان میں شامل ہوں، بلکہ یہ سمجھے کہ یہ درجہ تو بہت بلند ہے اور اونچے لوگوں کا ہے، ان نیک بندوں میں اپنی شمولیت کی امید رکھتے ہوئے پڑھے اور جب وہ آیات پڑھے جن میں گناہ گار بندوں کا ذکر ہے اور عذاب سے ڈرایاگیا ہے تو یہ سمجھے کہ ان آیات کامیں بھی مخاطب ہوں۔ اس موقع پر خدا کے غضب سے ڈرے اور فسق وفجور، کفر وشرک میں مبتلا ہونے سے خدا کی پناہ مانگے۔ جو شخص دوران تلاوت اپنی کوتاہیوں پر نظر رکھے اور یہ خیال کرے کہ میں سرتاپا تقصیر ہوں تو اسے خدا کا قرب نصیب ہوگا، جب قربِ خداوندی نصیب ہوا تو تلاوت کا مقصود بھی حاصل ہوگیا۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین