بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآن وسنت میں نماز ادا کرنے کے آداب واحکام

قرآن وسنت میں نماز ادا کرنے کے آداب واحکام



جس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور نماز ادا کرنا فرض ہے‘ اسی طرح ہرنمازی پریہ بھی فرض ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کے دوران قرآن وسنت کے احکام کی پابندی کرے۔ صلوٰة (نماز) کے معنی ہیں: کسی کی جانب رخ کرکے آگے بڑھنا‘ اس کے قریب ہوجانا اور دعاء کرنا۔ لہذا نماز کی لفظی ومعنوی حقیقت تین نکات پر مشتمل ہے۔
۱:- یہ کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں شعوری طور پر بڑھ کر حاضر ہوجانا
۲:- اللہ تعالیٰ کے حضور ہمہ تن متوجہ ہوجانا۔
۳:- اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوجانا۔ نماز کے ان تینوں بنیادی لوازمات کے ساتھ نماز میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کے طریقے کے لئے قرآن وسنت کے احکام کی پابندی بھی لازم وواجب ہے۔لہذا ضروری ہے تمام نمازی نماز کے متعلق قرآن وسنت کی چند اہم ترین شرائط پوری کریں‘ جو مختصراً یہ ہیں:
۱- نماز سے متعلق اولین حکم الٰہی یہ ہے کہ نمازی پورے شعور کے ساتھ اپنا رخ اللہ تعالیٰ کے لئے اس کعبة اللہ کی جانب کرلے جو دنیا میں انسانوں کے لئے بنایا گیا۔ سب سے پہلا گھر (بیت اللہ) ہے جیسے ہی نمازی یہ شعوری عمل کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ خود اس نمازی کی طرف متوجہ ہوجاتاہے یعنی اس کی عزت افزائی فرماتاہے۔ اس عظیم عزت وسعادت کا درج ذیل دو ارشادات الٰہی اور ایک فرمان نبوی ا سے کسی قدر اندازہ ہوجاتا ہے‘ جیساکہ ارشاد ہے:
۱:-”ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکا وہدی للعالمین‘(آل عمران:۹۶)
ترجمہ:۔ ”یقینا اولین گھر (بیت اللہ) جو لوگوں کے عبادت کے لئے بنایا گیا‘ وہ مکہ مکرمہ میں ہے اور ساری دنیا کے لئے مرکز ہدایت ہے“ ۔
۲:-”وحیث ما کنتم فولوا وجوہکم شطرہ“۔ (البقرہ:۱۵۰)
ترجمہ:۔”مسلمانو! تم جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ (نماز کے لئے) مسجد الحرام کی جانب کرلیا کرو“۔
”اللہ نے فرمایا ہے کہ جب بندہ چل کر میرے پاس آتا ہے (نماز کے لئے) تو میں دوڑ کر اس کے پاس پہنچ جاتا ہوں“ ۔ (مشکوٰة:۱۹۶)
اللہ تعالیٰ اور رسول ا کے ان ارشادات کے مطابق اگر نمازی پورے شعور کے ساتھ اللہ کے روبرو ہوجاتاہے تو جواباً اللہ تعالیٰ خود ایسے نمازی کا استقبال کرتا ہے۔ ایسی حاضری وحضوری سے اس بندہ غلام کو اپنے مولا ومالک سے آغازِ نماز میں ہی اتنی بڑی توقیر وتکریم مل جاتی ہے‘ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے احسان واکرام پر ہر ذی ہوش نمازی اپنے معبود کے حضور شکر وسپاس کا پیکر بن جائے گا اور نماز شروع کرے گا۔
۲- اب اس شکر وسپاس کے احساس سے معمور نمازیوں کو اپنے خالق ومالک کا اگلا حکم پیش نظر رکھنا چاہئے جویہ ہے:
”وقوموا للہ قانتین“۔ (البقرہ:۲۳۸)
یعنی”اللہ کے حضور (نماز میں) عاجزی‘ انکساری اور جذبہٴ تابعداری کے ساتھ کھڑے ہواکرو“۔ اس حکم ربانی پر عمل کے لئے ضروری ہے کہ رب العالمین کی بے حساب نعتموں‘ رحمتوں اور برکتوں کو لمحہ بھر کے لئے یاد کرلیا جائے‘ تاکہ دل ودماغ بالکل یکسو ہوجائیں‘ اس طرح آسانی سے بندہ مومن اپنے رب کے دربار میں مکمل مؤدب کھڑا ہوجائے گا ‘ جیساکہ ایک حقیر وفقیر غلام آقا کے سامنے ہو۔ ۳- جوں ہی نمازی اللہ کے حضور مؤدب اور مکمل یکسو ہوجائے تو ضروری ہے کہ وہ قرآن وسنت کے درج ذیل احکام کو بھی ذہن میں تازہ کرلے‘ قرآن کریم میں ہے:
”وتوکل علی العزیز الرحیم الذی یراک حین تقوم وتقلبک فی الساجدین“۔ (الشعراء:۲۱۷‘۲۱۹)
ترجمہ۔․”تم اللہ عزیز ورحیم پر توکل کرو جو دیکھتا ہے تم کو جب کھڑے ہوتے ہو (نماز میں) اور دیکھتا ہے تمہاری نقل وحرکت سجود کرنے والوں کے درمیان بھی“۔
حدریث میں ہے:
”ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک“۔(مشکوٰة:۱۱)
ترجمہ:۔”تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو‘ اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو خیال رکھو کہ وہ تو ضرور تم کو دیکھ رہا ہے“۔ ان دونوں احکام کا مطلب یہ ہے کہ ہر نمازی اچھی طرح جان لے کہ اللہ تعالیٰ حاضر وناظر ہے اور نمازی اپنی پوری نماز میں کم از کم یہ احساس رکھے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
۴- اوپر بیان کردہ تمام احکامات پر عمل کرنے سے نمازی کو نہ صرف لذت شکر گزاری‘ عاجزی اور یکسوئی حاصل ہوگی ‘ بلکہ وہ اسی عالم کیف وسرور میں اپنے معبود حقیقی کو دیکھ بھی لے گا‘ بس اسی قیمتی لمحے میں نمازی کو فوراً ”اللہ اکبر“ (اللہ ہی بڑا ہے) کا اعلام ِ اکبر کرکے خود کو ہاتھ باندھے اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا چاہئے۔ اس طرح آغاز نماز سے اختتام نماز تک کے سارے الفاظ اور افعال یعنی سب سے پہلے خود سپر دگی کا اظہار ہاتھ اٹھائے کرنا‘ پھر ہاتھ باندھے کھڑے ہونا‘ زبان سے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کلمات ادا کرنا‘ اس کے حضور جھک کر رکوع کرنا‘ اس کے قدموں میں سجدہ ریز ہوکر انتہائی پستی اختیار کرنا اور اس کے حضور دوزانو ہوکر مؤدب بیٹھ جانا‘ یہ سب کچھ مختلف اداؤں میں بندگی کا قول وقرار بھی ہے اور اللہ کی غلامی کا عملی اظہار بھی ۔ لہذا یہ سب ہی کچھ شعوری طور پر اور پوری دلجمعی کے ساتھ کرنا ضروری ہے ۔ مزید برآں یہ کہ مذکورہ ہرفعل عبد یت انجام دیتے وقت نماز میں زبان سے جو کچھ ادا کیا جاتا ہے‘ اس کے معنی ومفہوم کوبھی ذہن میں رکھنا چاہئے‘ ویسے تو عام زندگی میں بھی یہ ہی تہذیبی اور اخلاقی تقاضہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مخاطب کو سوچ سمجھ کر اور ہوش وحواس کے ساتھ خطاب کیا جائے۔ نماز میں اللہ سے دعائیں بھی مانگیں جاتی ہیں‘ اگر مانگنے والے کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کچھ مانگ رہا ہے تو ایسی غفلت اللہ رب العزت کی توہین کے مترادف ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ا نے یہ شرط عائد کردی ہے کہ نماز نہ صرف بقائم ہوش وحواس ادا کی جائے‘ بلکہ نماز میں مقررہ الفاظ وکلمات بھی اور ان کے معنی ومفہوم بھی سمجھتے ہوئے ادا کئے جائیں‘ واضح طور پر فرمادیا گیا ہے کہ:
”یا ایہا الذین آمنوا لاتقربوا الصلوٰة وانتم سکاریٰ حتی تعلموا ما تقولون“۔ (النساء:۴۳)
ترجمہ:۔”اے اہل ایمان! تم نشے (مدہوشی) میں نماز کے قریب نہ جاؤ حتی کہ تم (ہوش میں) پوری طرح سمجھو کہ کیا کچھ (مجھ سے) کہہ رہے ہو“ ۔
ترجمہ:․․․”بندے کا نماز میں اتنا ہی حصہ (ادائیگی فرض) ہے جتنا کہ وہ اس کو سمجھ کر ادا کرے“ (امام غزالی) پس قرآن وحدیث سے یہ ثابت ہے کہ الفاظ وکلمات کو سمجھتے ہوئے ادا کرنا چاہئے‘ اس حکم کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ نماز میں تلاوت قرآن بھی کی جاتی ہے اور عربی میں تلاوت کے ایک معنی ”اتباع وپیروی“کے ہیں اور اتباع وپیروی بغیر سمجھے ممکن ہی نہیں‘ اس لحاظ سے بھی معنی ومفہوم کے ساتھ تلاوت قرآن ضروری ہے۔ مثلاً نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت کی جاتی ہے جس کے پہلے حصے میں اللہ کی حمد وثناء ہے‘ اس کے درمیانی حصے میں اللہ سے یہ عہد وپیمان ہے کہ: ”ہم صرف تیری عبادت (بندگی) کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں“۔
اور اس کے آخری حصے میں دعاء ہے ‘ راہ مستقیم پر چلنے کے لئے اور بچنے کے لئے ان سے جن پر اللہ کا عضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔ اللہ سے ایسا قول وقرار‘ ایسا عہد وپیمان اور ایسی معنی خیز دعا تو دل کی گہرائیوں سے اور معنی ومفہوم سمجھتے ہوئے کرنا ضروری ہے‘ یہ ہی صورت وکیفیت دیگر آیات قرآن کی تلاوت کے وقت بھی لازم ہے۔ یہ ہی حال اس دوران بھی واجب ہے جب رکوع میں سرتسلیم خم کرتے ہوئے کہا جائے ”سبحان ربی العظیم“ (پاک ہے میرا رب عظیم) اور پھر سجدے میں پیشانی کے بل گرے اور اللہ کے قدموں میں پست ترین بن کر کہا جائے کہ ”سبحان ربی الاعلیٰ“ (پاک ہے میرارب اعلیٰ) بالکل اسی طرح شعوری طور پر کلمات تشہد ‘ درود اور دعائے قنوت وغیرہ ادا کرنا اور پورے ہوش وگوش کے ساتھ نعرہٴ کبریائی ”اللہ اکبر“ بار بار لگانا بھی اللہ کے نزدیک مقصود نماز ہے۔ مختصراً یہ کہ نماز بطور رسم کی بجائے بافہم وشعور ادا کرنا ضروری ہے۔
۵- درج بالا صحیح طریقہ نماز سے تمام عوامل یعنی جسم وجان‘ فکر ونظر‘ قلب وروح اور زبان وذہن سب کے سب اللہ تعالیٰ کی جانب مرتکز ہوجائیں گے‘ بالفاظ دیگر بیان کردہ غلامانہ ہیئت نماز‘ عاجزانہ کیفیت نماز اور با معنی کلمات نماز کا ہونا‘ وہ نسخہٴ کیمیا ہے جس سے نماز کے ظاہر اور باطن اجلے ہوکر بندے کی بندگی کو مطلوبہ معیار تک پہنچا دیتے ہیں۔ آگے اس بندگی اور زندگی کو اوج کمال پر پہنچا دینے کے لئے رسول اکرم ا نے اپنی امت کو ایک نادر نسحہ عنایت فرمایاہے جو یہ ہے:
”تم لوگ نماز اس طرح ادا کرو جیسے کہ اسی وقت مر رہے ہو اور اپنی الوداعی نماز ادا کررہے ہو“ ۔ (مسند احمد‘مشکوٰة)
یہ ہدایت نبوی ا نماز کے ان آداب واحکام کی تکمیل کردیتی ہے جو اس سے قبل بیان ہوچکے ہیں‘ اس ہدایت کی پابندی سے ہرنمازی اللہ کے روبرو ہوتے ہی قدرتی طور پر خوف وخشیت اور خشوع وخضوع سے مزین ہوجائے گا کہ جیسے یہ اس کی آخری نماز ہو‘ پھر وہ ایسی نماز کے مکمل ہونے پر بھی اگلی نماز تک موت کو یاد کرتے ہوئے شریعت اسلامیہ کے دیگر احکام زندگی کی پاسداری کرتا رہے گا اور ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کا اطاعت شعار‘ وفادار اور تابعدار بندہ بنارہے گا‘ یہ ہی تو معراج مومن ہے اور اس اعزاز کو برقرار رکھنے کے لئے آخری سانس تک جہدمسلسل کرنی ہوگی۔ ۶- جب مومن خشیت الٰہی سے مسلح ہوکر اللہ کا ہمہ وقت سپاہی بن جاتا ہے تو دنیا وآخرت میں اس کی کامیابی وکامرانی کا اعلان اللہ تعالیٰ اس طرح کرتا ہے:
”قدافلح المؤمنون الذین ہم فی صلاتہم خاشعون“۔ (المؤمنون:۱‘۲)
ترجمہ:۔”یقینا فوز وفلاح پاگئے وہ اہل ایمان جو اپنی نمازوں میں خشوع وخضوع اور خوف وخشیت اختیار کرتے ہیں“۔ اس آیت قرآن کے ذریعہ اہل ایمان کی کامیابی وکامرانی کو اس شرط کے ساتھ مشروط کردیا گیا ہے کہ نمازوں میں خشیت الٰہی اور خشوع وخضوع اختیار کیا جائے‘ اس شرط کو پورا کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ تمام اہل ایمان پورے عقل وشعور‘ احساس پستی وتابعداری اور معنی ومفہوم کے ساتھ نمازوں میں اللہ سے ہم کلامی کریں۔
۷- قرآن وسنت میں نماز کے بنیادی آداب واحکام کا آخری نکتہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے اور اس کو بھی اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہئے جو نمازی بیان کردہ بنیادی لوازمات اور شرائط کے ساتھ نماز ادا نہیں کرتے ہیں‘ ان کو اللہ تعالیٰ صاف صاف متنبہ کرنے کے لئے فرما تے ہیں کہ:
”فویل اللمصلین الذین ہم عن صلاتہم ساہون“۔ (الماعون:۴‘۵)
ترجمہ:’۔’پس تباہی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غفلت (عدم توجہی) برتتے ہیں“۔
یہ قرآنی فرمان انتہائی عبرت انگیز اور عبرت آموز ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ مقررہ آداب واحکام سے غفلت والی نمازیں بیکار ہی نہیں‘ بلکہ نمازیوں کے لئے باعث تباہی بھی ہیں‘ مثلاً :نمازوں میں غفلت اس بات سے کہ اللہ کے حضور حاضر بھی ہیں اور اس سے مخاطب بھی ہیں‘ لیکن اس کا شعور نہیں رکھتے۔ غفلت اس بات سے کہ اپنے رب سے بہت کچھ مانگ رہے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ کیا مانگ رہے ہیں۔ غفلت اس بات سے کہ اللہ کے روبرو عہد وپیمان تو باندھ رہے ہیں لیکن اس کے معنی ومفہوم سے بے خبر ہیں۔ پھر غفلت اس بات سے بھی کہ اپنے آقا کے سامنے مجسم سرنگوں اور سربسجود تو ہیں مگر خود سپردگی کی اصل روح سے محروم ہیں۔ مختصراً یہ کہ ایسی بے جان اور بے روح نمازیں جو غفلت اور لاپرواہی سے ادا کی جاتی ہیں‘ وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی اور توہین کے مترادف ہوجاتی ہے اور بالآخر تباہی کا باعث بن جاتی ہے‘ اس سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ بیان کردہ احکام کی روشنی میں اپنی نمازوں کا جائزہ لیا جائے پھر جتنی کمی یا کسر پائی جائے اسے پورا کرنے کی کوشش فوراً شروع کی جائے‘ تاکہ رفتہ رفتہ حقِ نماز پورا ادا کیا جائے‘ صرف اس طرح ہی سارے مومنین اس دینی اور دنیوی کامیابی کے حقدار ہوسکیں گے جس کی ضمانت خود اللہ تعالیٰ نے محولہ بالا سورہٴ مومنون کی آیات۔ ۱‘۲ میں دی ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین