بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

قرآن مجیدکیا ہے؟ (دوسری قسط)

 قرآن مجیدکیا ہے؟              (۲)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل امینؑ کو دیکھا بھی ہے اس توہُّم کو دور فرمانے کی غرض سے کہ ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وہم وخیال کے غلبہ اور تسلُّط کی وجہ سے کسی وہمی اور خیالی یا خود اپنی روحانی آواز کو فرشتہ کی آواز سمجھ لیا ہو، اللہ جل مجدہٗ توثیق فرماتے ہیں کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ا س رسول کریمؑ کو بچشمِ خود اسی دنیا میں دیکھا ہے، ارشاد ہے: وَلَقَدْ رَآہُ بِالْأُفُقِ الْمُبِیْنِ‘‘۔(التکویر:۲۳)’’ اور بے شک اس نبی ؐنے اس رسول کریم (جبرئیل ؑ) کو کھلے اُفق پر دیکھا ہے‘‘۔ اُفق از روئے لغت آسمان (حدِ نظر) کے کنارے کو کہتے ہیں۔ اُفق کے ساتھ مبین (صاف اور واضح) کی صفت کا اضافہ کرکے یہ بتلادیا کہ مطلع ابر آلود یا غبار آلود نہ تھا، بالکل صاف اور کھلا ہوا تھا، گویا جس طرح سورج کے زمین کے کرہ سے تقریباً ایک ہزار گنابڑا اور کروڑوں میل دور ہونے کے باوجود طلوع ہوتے وقت زمین پر رہنے والے بلا کسی شک وشبہ کے یقینی طور پر سورج کو دیکھتے ہیں، حتیٰ کہ قسم تک کھا سکتے ہیں، اسی طرح اللہ جل وعلیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کو اصلی ملکی صورت پر( جو انسانی تصور سے بالا تر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلا بھی دیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیداری میں بچشمِ خود دیکھا بھی تھا، نگاہ کے دھوکہ یا بھٹکنے کا اس مشاہدہ میں کوئی امکان ہی نہیں، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان ہوجائے کہ جس کی میں آواز سنتا ہوں یا میرے پاس انسانی شکل میں آتا ہے اور اللہ کا کلام پہنچاتا ہے، وہ یہی اللہ کا مقرب ترین فرشتہ ہے، کوئی بھوت پریت یا جن وغیرہ نہیں، چنانچہ ارشاد ہے: ’’وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَیْطَانٍ رَّجِیْمٍ‘‘ (التکویر:۲۵) ’’اور یہ کسی مردود شیطان کا قول وبات) بھی نہیں ہے‘‘۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتلادیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شاعر قسم کے انسان بھی نہیں ہیں جو اپنے ضمیر کی آواز کو ہمیشہ ’’غیبی آواز‘‘ کہا کرتے ہیں، نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کاہن نجومی قسم کے آدمی ہیں جو ’’تسخیر شیاطین‘‘ کے ذریعہ ’’غیب کی خبریں‘‘ دیا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چالیس سالہ مکی زندگی اس کی شاہد ہے، مکہ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ نہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی عمر میں کبھی کوئی شعر کہا اور نہ ہی کہانت کی (کوئی پیشین گوئی کی) اسی لئے ارشاد ہے: ’’وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیْلاً مَا تُؤْمِنُوْنَ ‘‘۔                         (الحاقہ:۴۱) ’’ اور نہ ہی کسی شاعر کا قول (کلام) ہے، تم بہت ہی کم ایمان لاتے ہو‘‘۔ ’’وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ قَلِیْلاً مَا تَذَکَّرُوْنَ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ ‘‘۔  (الحاقہ:۴۲،۴۳) ’’ اور نہ ہی کسی کاہن (نجومی) کا قول (پیشنگوئی) ہے، تم کچھ بھی دھیان نہیں دیتے (ارے عقل کے دشمنو!) یہ تو پروردگار عالم کی نازل کردہ کتاب ہے‘‘۔ اس پہلو سے یقین دہانی اور ہرقسم کے شکوک وشبہات کے ازالہ اور بیخ کنی کے باوجود بھی جو ضدی اور ہٹ دھرم دشمن قرآن کو اللہ کا کلام آج تک بھی نہیں مانتے، بلکہ ’’زندگی کی حقیقی گہرائیوں سے بلند ہونے والی آواز‘‘ (ضمیر کی آواز) یا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’روحانی تجربہ‘‘ یا ’’داخلی ارتقائ‘‘ کہنے سے باز نہیں آتے، ان سے بتقاضائِ ’’ربوبیت‘‘ انتہائی ناصحانہ اور متأسفانہ انداز میں خطاب فرماتے ہیں، ارشاد ہے: ’’فَأَیْْنَ تَذْہَبُوْنَ إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْنَ لِمَنْ شَائَ مِنْکُمْ أَنْ یَّسْتَقِیْمَ ‘‘۔ (التکویر:۲۶،۲۷،۲۸) ترجمہ:…’’پس (اے اپنی جان کے دشمنو!) تم کہاں جارہے ہو؟ (جہنم میں؟) یہ (قرآن )تو تمام عالم والوں کے لئے ایک نصیحت (کی کتاب) ہے اس شخص کے لئے جو سیدھی راہ پر چلنا چاہے‘‘۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل ؑ کو ان کی اصلی ملکی صورت پر ایک مرتبہ اور بھی دیکھا ہے، نہ صرف یہ، بلکہ آسمان کی بلندیوں سے اپنے پاس آتا اور بات کرتا بھی دیکھا ہے۔اور سورۂ والنجم میں اسی اُفق مبین کو اس کی بلندی ظاہر کرنے کی غرض سے اُفق اعلیٰ سے تعبیر فرمایا ہے اور ساتھ ہی اس ملکی رسول کے اُفق اعلیٰ آسمان کے بلند ترین کنارے پر سیدھا کھڑا ہوکر دیکھنے اور پھر اس خارقِ عادت بلندی سے غیر معمولی طور پر اُتر کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل پاس آجانے اور اللہ جل جلالہٗ کی وحی (کلام) پہنچانے کا بھی ذکر فرمایا ہے، ارشاد ہے: ’’فَاسْتَویٰ وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلٰی ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ أَوْ أَدْنٰی فَأَوْحٰی إِلٰی عَبْدِہٖ مَا أَوْحٰی مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأیٰ ‘‘۔      (النجم:۶،۷،۸،۹،۱۰،۱۱) ترجمہ:…’’پس وہ (وجیہ فرشتہ) سیدھا کھڑا ہوگیا اور وہ (اس وقت) بلند ترین افق (آسمان کے کنارے) پر تھا، پھر وہ آپ سے قریب ہوا تو وہ (اوپر سے نیچے) اترآیا اور وہ دو کمانوں کے بقدر یا اس سے بھی زیادہ قریب ہوگیا، پھر اس نے اللہ کے بندے کو وہ وحی پہنچائی جو بھی اللہ نے بھیجی ،جو کچھ آپ نے دیکھا دل نے اس کو نہیں جھٹلایا‘‘۔ ’’  تدلی‘‘ کے معنی ہیں اوپر سے لٹک کر نیچے آنا، جیسے کنویں سے پانی نکالنے کے وقت ڈول اوپر سے نیچے پانی کی سطح پر آتا ہے۔ عربی میں ’’دلو‘‘ پانی نکالنے کے ڈول کو کہتے ہیں، اسی سے ’’تدلی‘‘ ماخوذ ومشتق ہے، لہٰذا آیت کریمہ کے معنی یہ ہوئے کہ جبرئیل امین ؑاپنی اصلی ملکی صورت پر اول ’’اُفق اعلیٰ‘‘ پر سیدھے کھڑے ہوئے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہونے کی غرض سے آہستہ آہستہ اتر آئے، یعنی انسانی شکل میں آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے غایت درجہ قریب ہوکر ’’وحی الٰہی‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی ،بالفاظِ دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل ؑکے ملکوتی شکل سے انسانی شکل میں آنے کا بھی بچشمِ خود مشاہدہ کیا ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کا انسانی شکل میں انسان کے پاس آنا اور بتلانے سے پہلے اس شخص کا اُن کو انسان سمجھنا اور پھر دو انسانوں کی طرح آپس میں باتیں کرنا، اس مقام کے علاوہ بھی قرآن سے ثابت ہے ،عنقریب آپ پڑھیں گے۔چونکہ یہ واقعہ تمام ترملکوتی حقائق پر مبنی ہونے کی وجہ سے انسانی عقل وقیاس بلکہ تصور سے بھی بالاتر ہے ،عام سننے والا بے ساختہ اس کو ایک افسانوی داستان اور فرضی کہانی کہے گا، اس لئے اللہ جل مجدہٗ انسانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ یہ واقعہ سرتاسر حقیقت ہے، اس میں وہم وخیال یا کذب وگمان کا مطلق دخل نہیں ، نہ نگاہ کا دھوکہ ہے، بلکہ نبی علیہ السلام کی آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی تھیں، آپ کا دل ودماغ اور عقل وحواس کی تصدیق کررہے تھے، ارشاد ہے: ’’مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأٰی‘‘ ، ’’جو کچھ آپ ؐنے دیکھا دل (ودماغ) نے اس کو نہیں جھٹلایا‘‘،یعنی جیسے ریل میں سفر کرتے وقت اِدھر اُدھر کے درخت آپ کو دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر آپ کا دل ودماغ آنکھوں کی تکذیب کرتا ہے یا سورج آپ کو زمین کے اردگرد گھومتا ہوا نظر آتا ہے، مگر سائنسی تجربات اس کی تکذیب وتردید کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مشاہدہ ایسا ہرگز نہ تھا، بلکہ آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی تھیں، نورِ ایمان سے منور عقل وخرد اس کی تصدیق کررہی تھی، یہ خالق کائنات کی شہادت ہے ’’وکفی باﷲ شہیدا‘‘مگر قادر مطلق خالق کائنات جلت قدرتہ کی معرفت سے ناآشنا اور اس کی( انسانی عقل وخرد کی رسائی سے وراء الورائ) صفات وکمالات پر ایمان سے محروم ’’دلوں کے اندھے‘‘ عقلیت پرست اس وقت بھی کچھ کم نہ تھے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خرقِ عادت واقعہ( جبرئیل امین ؑکو ان کی صورت پر کھڑا ہوا اور اُفق اعلیٰ سے اُتر کر اپنے پاس انسانی شکل میں آتا ہوا دیکھنے اور وحی الٰہی پہنچانے ) پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھگڑا کرنا شروع کردیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تو اسی طرح محال ہے جیسے کوئی کہے سورج میرے پاس آگیا اور مجھ سے باتیں کرنے لگا، یقیناً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر کو دھوکا لگا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خیالی اور وہمی صورت کو دیکھا ہے، اللہ جلت قدرتہ ایسے کٹھ حجتیوں کو خطاب کرکے ارشاد فرماتے ہیں: ’’أَفَتُمَارُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی‘‘ ،’’کیا تم اس (اپنے نبی سے) اس چیز پر جھگڑا کرتے ہو جو وہ (بچشمِ خود) دیکھتا ہے؟‘‘۔ اس کے بعد بطور تائید مزید فرماتے ہیں: تم اس مَلَکی رسول (جبرئیل ؑ) کو اُفق اعلیٰ سے اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زمین پر آجانے اور وحی الٰہی پہنچانے پر ہی جھگڑا کررہے ہو، حالانکہ اس سے بڑھ کر قدرتِ خداوندی کا کرشمہ تو یہ ہے کہ یہ تمہارے نبی اس ملکی رسول کو نہ صرف زمین پر، بلکہ معراج کے موقعہ پر سدرۃ المنتہیٰ کے پاس جہاں جنت المأویٰ ہے اُترتے وقت بھی ایک مرتبہ دیکھ چکے ہیں، ارشاد ہے: ’’وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَی عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰی عِنْدَہَا جَنَّۃُ الْمَأْویٰ ‘‘۔ (النجم:۱۳،۱۴،۱۵) ترجمہ:…’’اور بخدا اس تمہارے نبی نے تو اس (ملکی رسول) کو ایک مرتبہ اور اُترتے وقت سدرۃُ المنتہیٰ کے پاس جس کے قریب جنت الماویٰ ہے، دیکھا ہے‘‘۔ بہرحال قرآن عظیم کی مذکورہ بالا آیات سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور جبرئیل امین ؑنے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچایا۔باقی رہا یہ امر کہ جبرئیل امین ؑقرآن کریم کی آیات لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کس شکل وصورت میں آتے تھے؟ آیا کسی انسان کی شکل وصورت میں آتے تھے؟ یا اپنی اصلی ملکی شکل وصورت میں آتے تھے؟ اس کی تحقیق قرآن کریم کے ان الفاظ سے بخوبی ہوجاتی ہے جن سے جبرئیل امین ؑکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لانے اور پہنچانے کو تعبیر فرمایاہے۔ جبرئیل امینؑ قرآن کی آیات انسانی شکل وصورت میں لے کرآتے تھے اس کا ثبوت قرآن عظیم میں جن الفاظ سے قرآن کی آیات لانے اور پہنچانے کا ذکر فرمایا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ جبرئیل امین علیہ السلام دونوں صورتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن لے کر آئے ہیں اور پہنچایا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے وحی الٰہی اور اللہ کا کلام لانے کو متعدد آیات میں تعلیم کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ چنانچہ اللہ جل جلالہٗ اول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہر لفظ کے وحی الٰہی ہونے کی تصدیق فرماتے ہیں ، ارشاد ہے: ’’وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی إِنْ ھُوَ إِلَّاوَحْیٌ یُّوْحٰی‘‘ ۔                               (النجم:۳،۴) ترجمہ:…’’اور وہ تمہارے (نبی) اپنی طرف سے کچھ نہیں بولتے، وہ تو (جو کچھ بولتے ہیں وہ) خالص وحی ہوتی ہے جو بھیجی جاتی ہے‘‘۔ اس کے بعد ارشاد ہے: ’’عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی ذُوْ مِرَّۃٍ‘‘۔                                                             (النجم:۵) ’’تعلیم کرتا ہے اس (تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کو ایک زبردست (روحانی) قوتوں والا خوش منظر (فرشتہ جبرئیل)‘‘۔ گویا ہر وحیٔ خداوندی جو وہ ملکی رسول آپ کے پاس لے کر آتا ہے اس کی آپ کو ’’تعلیم‘‘ دیتا ہے۔ یاد رکھئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن اور علوم الٰہیہ کی اصل تعلیم دینے والے تو اللہ جلت عظمتہ ہیں، ارشاد ہے: ’’الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ‘‘۔ ’’بہت بڑے مہربان (پروردگار) نے قرآن کی تعلیم دی ہے ‘‘۔ اور سورۂ نساء میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے ارشاد ہے: ’’وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ‘‘ ۔ ’’اور( اے نبی!) تم کو وہ تعلیم دی جس کو تم (اس سے پہلے ) نہیں جانتے تھے‘‘۔ مگر چونکہ یہ تعلیم جبرئیل امین علیہ السلام کے ذریعہ سے ہے اور سورۂ نجم میں اسی ’’واسطہ‘‘ (جبرئیل امین ؑ) کا تعارف کرانا مقصود ہے، اس لئے اس تعلیم کو جبرئیل امین ؑکی طرف منسوب فرمایا ہے، یعنی اللہ جل جلالہٗ نے اپنے اس کلام قرآن اور علوم الٰہیہ کی تعلیم براہ راست نہیں دی، بلکہ جبرئیل امین ؑ کے واسطہ سے دی ہے۔ اسی طرح اللہ جل مجدہٗ نے اپنے کلام (قرآن) کے پہنچانے کو قرأت (پڑھانے) سے تعبیر فرمایا ہے اور اشتباہ کو دور کرنے کی غرض سے اس ’’پڑھانے‘‘ کو بھی اپنی طرف منسوب فرمایا، حالانکہ یہ ’’پڑھانا‘‘ بھی جبرئیل امین ؑکے واسطہ سے ہے اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول جانے کے خوف سے یا جبرئیل امین ؑکے چلے جانے کے بعد نہ پڑھ سکنے کے اندیشہ سے حضرت جبرئیل ؑکے ساتھ ساتھ پڑھنے اور دُہرانے کی کوشش کرتے تھے، اس لئے اس ساتھ ساتھ پڑھنے سے منع فرماتے ہیں اور اطمینان دلاتے ہیں کہ نہ تم اس قرآن کو بھولو گے اور نہ جبرئیل ؑکے واپس آنے کے بعد قرآن کو پڑھنے میں کوئی دشواری پیش آئے گی۔ سورۂ اعلیٰ میں ارشاد ہے: ’’سَنُقْرِؤُکَ فَلَا تَنْسٰی إِلَّا مَا شَائَ اللّٰہُ إِنَّہُ یَعْلَمُ الْجَہْرَ وَمَا یَخْفٰی ٰ‘‘۔(الاعلیٰ:۶،۷) ترجمہ:…’’ہم (جبرئیل ؑکے واسطہ سے )تم کو پڑھادیا کریں گے تو تم بھولو گے (ہرگز) نہیں، بجز اس کے جو خود اللہ بھلا نا چاہے، بے شک وہی جانتا ہے علانیہ اور پوشیدہ (حکمتوں اور مصلحتوں) کو‘‘۔ سورۂ قیامہ میں ارشاد ہے: ’’لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ إِنَّ عَلَیْْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْآنَہٗ فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہٗ ثُمَّ إِنَّ عَلَیْْنَا بَیَانَہٗ ‘‘۔                                           (القیامۃ:۱۶،۱۷،۱۸،۱۹) ترجمہ:…’’تم قرآن کو جلدی (سے پڑھ لینے) کی غرض سے اپنی زبان کو نہ ہلایا کرو (ساتھ ساتھ نہ پڑھاکرو) بے شک ہمارے ذمہ ہے اس کو (تمہارے دل میں) جمع کردینا (یاد کرادینا) اور اس کوپڑھا دینا (زبان پر جاری کرادینا) پس ہم (یعنی ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے جبرئیل ؑ) پڑھیں تو تم کان لگا کر سنا کرو پھر (یہ یاد کرانا اور پڑھانا ہی نہیں، بلکہ) اس(کے معانی ومطالب) کا بیان کردینا (بھی) ہمارے ذمہ ہے‘‘۔ سورۂ طہٰ میں ارشاد ہے: ’’ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ یُّقْضٰی إِلَیْْکَ وَحْیُہٗ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْماً‘‘۔( طٰہٰ:۱۱۴) ترجمہ:…’’ اور تم اس (قرآن) کی وحی کے پورا ہونے سے پہلے (قرآن کے) پڑھنے کی جلدی مت کیا کرو ( نہ تم اس کا ایک حرف بھی بھولو گے،نہ پڑھنے اور زبان سے ادا کرنے میں دشواری محسوس کروگے) اور کہا کرو (دعا کیا کرو) اے رب ! تو میرے علم کو اور زیادہ فرمادے‘‘۔ ان تینوں آیتوں میں رسول اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کو عام انسانوں کی طرح پڑھنے کے آداب اور طریقوں کی ہدایت فرمانا اور پڑھائی میں مخل باتوں سے منع فرمانا قطعاً اس کی دلیل ہے کہ قرآن پڑھانے والا انسانوں کی طرح آپ کو قرآن پڑھاتا ہے۔ علاوہ ازیں عربی زبان کی ایک کتاب کی آیات پڑھانے کے وقت چہل سالہ عربی اللسان فصیح وبلیغ رسول کی غیر معمولی اضطرابی کیفیت اور اس کے زبان پر جاری ہونے اور دل میں محفوظ رہنے کے متعلق یہ بے اطمینانی جس کا اظہار ان آیات سے ہورہا ہے اور جس کو اللہ جل شانہٗ بار بار دور فرمارہے ہیں اور ’’پڑھادینے‘‘ اور ’’یاد کرادینے‘‘ کو اپنے ذمہ لے رہے ہیں، اس امر کی روشن دلیل ہے کہ قرآن نہ کسی انسان کا کلام ہے اور نہ قرآن کوئی عام عربی زبان کی کتاب ہے، بلکہ اللہ جل جلالہٗ کا کلام ہے جس کے ’’لاہوتی ثقل‘‘ کا عالم یہ ہے’’ پہاڑ‘‘ جیسی عظیم اور محکم مادی مخلوق پر بھی ( جو نہ بڑے سے بڑے زمین کے آتشیں زلزلوں سے ٹَس سے مَس ہو اور نہ بڑے سے بڑے بادوباراں کے طوفانوں اور جھکڑوں سے اپنی جگہ سے ہلے) یہ قرآن اتار دیا جاتا تو خوف وخشیت الٰہی سے دہنس جاتا اور ریزہ ریزہ ہوجاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک تو بہرحال ایک مضغۂ لحم (گوشت کا ٹکڑا) ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک بھی ’’خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً‘‘ کے مطابق ایک ضعیف وناتواں مخلوق ہے ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب وزبان تو کیسے اور کیونکر اس ثقل کے متحمل ہوسکتے تھے؟ یہ تو محض اللہ جلت حکمتہ نے عالم ملکوت کی ایک عظیم روحانی قوتوں والی ’’روح اعظم‘‘ جبرئیل امین ؑکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دینے اور پڑھانے کے واسطے تجویز کرکے ان کو انسانوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھانے کے لئے مامور فرمادیا، تاکہ قرآن کے اس ’’لاہوتی ثقل( جس کی شہادت سورۂ حشر کی مذکورہ بالا آیت کریمہ دے رہی ہے) اور شدت کی کچھ یہ روح اعظم متحمل ہوجائے اور کچھ… آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب ( ذی شعور روح) اور زبان متحمل ہوں۔ پھر بھی قرآن عظیم کی سب سے پہلی پانچ آیتوں کے پڑھانے کے وقت اگر جبرئیل امین ؑباربار کے ضم وضغط( سینے سے لگانے اور بھیچنے) کی ’’تکوینی تدبیر‘‘ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی قوت کو قوی سے قوی تر نہ کرتے( جس کی تفصیل مشہور ومتواتر حدیث میں مذکور ہے،مراجعت کیجئے صحیح بخاری باب بدء الوحی کی)تو یہ قرآن( اللہ کا کلام) نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر جاری ہوسکتا اور نہ امت ہی قرآن کی تلاوت کی سعادت حاصل کرسکتی۔بہرحال اللہ جل مجدہٗ کا سورۂ قیامہ کی آیت کریمہ ’’إِِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْآنَہٗ‘‘ کے ذریعہ یاد کرادینے اور زبان سے ادا کرادینے کو اپنے ذمہ لینا اس امر کی قطعی اور روشن دلیل ہے کہ قرآن کسی انسان کا عربی کلام یقینا نہیں ہے، جس کے زبان سے ادا کرنے اور یاد رکھنے کے بارے میں ایک چہل سالہ افصح العرب والعجم جس کی مادری زبان عربی ہے اس قدر مضطرب اور بے چین ہو، جس کا اظہار ان تینوں آیتوں سے ہورہا ہے، جبکہ عام اہل عرب کے حافظہ کا یہ عالم ہے کہ ایک مجلس میں صرف ایک مرتبہ کے سنے ہوئے دس پانچ نہیں سینکڑوں اشعار ان کو یاد ہو جاتے تھے اور فوراً کے فوراً وہ ان کو دہرادیتے تھے اور عمر بھر یاد رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا عرب کے ان خلقی اور فطری خصائل سے بدرجۂ اتم بہرہ یاب تھے۔                                                           (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین