بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قرآن مجیدکیا ہے؟ (تیسری قسط)

 قرآن مجیدکیا ہے؟                (۳)

اسی لئے اللہ جل شانہٗ نے ان پانچ آیات کے پڑھانے کے بعد( چند ماہ کے وقفہ سے) نازل ہونے والی دوسری سورت المزمل میں’’ قَوْلًا ثَقِیْلًا ‘‘کے الفاظ میں اس انسانی تصور سے بالاتر قرآن کے لاہوتی ثقل اور شدت سے آپ ا کو باخبر کردیا تھا اور ’’لَوْ أَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْآنَ عَلی جَبَلٍ الخ‘‘ کی تمثیل سے قرآن کے ثقل اور شدت سے پوری طرح آگاہ بھی فرمادیا تھا، تاکہ آپ ا اس ہوش ربا ثقل اور شدت کے برداشت کرنے کے لئے پہلے سے تیار رہیں اور قرآن اترنے کے وقت آپ ا کی حالت کا مشاہدہ کرنے والے صحابہؓ خصوصاً ازواج مطہراتؓ بھی نہ گھبرائیں، لہٰذا قرآن کریم کی یہ آیتیں ان احادیث صحیحہ کی قطعاً تصدیق وتوثیق کرتی ہیں، جن میں قرآن اترنے کے وقت آپ ا کے جسم مبارک پر خلاف معمول اور خارق عادت قسم کی کیفیات طاری ہونے کا تفصیلی بیان وارد ہے۔ بہرصورت رسول اللہ ا کو قرآن ’’پڑھانے‘‘ سے متعلق مذکورہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ جبرئیل امین ؑاپنی اصلی ملکی صورت سے اتر کر( جس کے مشاہدہ کی تصریح آپ سورۂ نجم کی آیت میں پڑھ چکے ہیں) انسانی شکل وصورت میں آپ ا کے پاس آتے، آپ ا ان کو اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھتے، وہ آپ ا کو انسانوں کی طرح قرآن کریم کی آیات پڑھاتے، آپ ا پڑھتے، وہ تعلیم دیتے ،آپ ا تعلیم حاصل کرتے، وہ آپ ا کو اللہ کا کلام (قرآن کی آیات) سناتے، آپ ا سنتے تھے، بالکل دو انسانوں (معلم ومتعلم) کی طرح معاملہ ومکالمہ ہوتا تھا۔روح اعظم جبریل امین علیہ السلام صرف آپ ا کے پاس ہی انسانی شکل وصورت میں نہیں آئے ہیں، بلکہ قرآن کی تصریح کے مطابق حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بھی اسی طرح انسانوں کی شکل میں آئے ہیں اور ان سے انسانوں کی طرح باتیں کی ہیں۔ سورۂ مریم میں ارشاد ہے: ’’فَأَرْسَلْنَا إِلَیْْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَراً سَوِیّاً، قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیّاً، قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَہَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِیّاً، قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَلَمْ أَکُ بَغِیّاً، قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ ‘‘۔                                                  (مریم:۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱) ترجمہ:…’’تو ہم نے مریم کے پاس اپنے ایک فرشتہ کو بھیجا تو وہ مریم کے سامنے ایک توانا وتندرست آدمی بن کر آیا ،تو مریم نے کہا :میں تجھ سے رحمن کی پناہ لیتی ہوں، اگر تو متقی پرہیزگار ہے، تو اس نے کہا: اس کے سوا نہیں میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا (فرشتہ) ہوں کہ تجھ کو ایک پاک وصاف لڑکا دے جاؤں۔ مریم نے کہا: میرے لڑکا کہاں سے ہوگا؟ درانحالیکہ نہ کسی آدمی نے مجھے (بیوی کے طور پر) ہاتھ لگایا، نہ ہی میں کبھی بدکار عورت ہوئی، تو اس (فرشتہ) نے کہا: یونہی ہے، تیرے رب نے فرمایا ہے، یہ (بغیر باپ کے بیٹا پیدا کردینا) میرے لئے بہت آسان ہے‘‘۔ دیکھئے! اس واقعہ میں بھی وہی روح جس کا ذکر آپ سورۂ حشر کی آیات میں’’ رُوْحاً مِّنْ أَمْرِنَا‘‘ کے عنوان سے پڑھ چکے ہیں اور وہی’’ أرسلنا‘‘اور’’رسول‘‘کے الفاظ جو’’ أَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلاً‘‘ کے عنوان سے انہی آیات میں پڑھ چکے ہیں موجود ہیں (دونوں کو آمنے سامنے رکھ کر غور کیجئے)۔ اس آیت کریمہ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ روح امین( جبرئیل) علیہ السلام حضرت مریم ؑکے سامنے ایک توانا وتندرست نوجوان کی شکل وصورت میں آئے ہیں، چنانچہ وہ تنہائی میں ایک توانا وتندرست نوجوان کو موجود دیکھ کر اور بلاتردُّد اُن کو انسان سمجھ کر ڈری ہیں اور دست درازی کے خطرہ کی بناء پر ان کی پرہیزگاری کا واسطہ دے کر رحمن کی پناہ لینے پر مجبور ہوئی ہیں اور جب جبرئیل امین ؑنے ان کو قطعی طور پر اطمینان دلادیا ہے کہ میں انسان ہرگز نہیں ہوں، بلکہ اللہ جل جلالہٗ کا فرستادہ فرشتہ ہوں، تب مطمئن ہو کر ان سے بالکل انسانوں کی طرح باتیں کی ہیں (جن کی پوری تفصیل سورۂ مریم میں پڑھیں)۔ بالکل اسی طرح حضرت جبرئیل ؑانسانی شکل وصورت میں رسول اللہ ا کے پاس آتے تھے، آپ ا کو چونکہ جبرئیل امین ؑکو ان کی اصلی صورت پر بھی اور اس سے اتر کر انسانی شکل میں آتا ہوا بھی دکھلادیا گیا تھا اور آپ ا بچشم خود جبرئیل امین ؑکے اس تمثل اور’’ تَدَلِّی ‘‘کا مشاہدہ کرچکے تھے، اس لئے آپ ا کو ان کے پہچاننے میں کبھی تردد وتذبذب نہیں ہوا( تاہم جیساکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے جبرئیل امین ؑآپ ا کے پاس ایک ہی غیر معمولی) حسین وجمیل اور توانا وتندرست انسان کی شکل میں عموماً آیا کرتے تھے۔(آپ ا کی جسمانی حالت میں تغیر اور اضطرابی کیفیت صرف کلام الٰہی کے غیر معمولی ثقل اور وحی الٰہی کی شدت پر مبنی تھی، جیساکہ آپ قرآن کریم کی تصریحات کی روشنی میں پڑھ چکے ہیں۔ جبرئیل امین ؑکے قرآن لے کر آنے کی دوسری صورت  جبرئیل امین ؑکے آپ ا کے پاس قرآن لے کر آنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ: ایک مرتبہ سورۂ تکویر کی آیت کریمہ ’’وَلَقَدْ رَآہُ بِالْأُفُقِ الْمُبِیْنِ‘‘ کے تحت دوسری مرتبہ سورۂ والنجم کی آیت ’’فَاسْتَوٰی وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلٰی ‘‘کے تحت) ہی خرق عادت کے طور پر آپ ا کے پاس آئیں اور آپ ا کے قلب( گوشت کے ٹکڑے پر نہیں، بلکہ ذی شعور روح) قرآن کریم کی آیات کا القاء کریں۔ اس صورت میں آپ ا دل کی آنکھوں سے ہی ان کو دیکھتے اور دل کے کانوں سے ہی قرآن کی آیات سنتے اور اللہ جل مجدہ کے وعدہ کے مطابق فوراً آپ ا کو یاد اور آپ ا کی زبان پر جاری ہوجاتیں۔ اس دوسری صورت کا ذکر اللہ جلت عظمتہ نے اپنی ذات مقدس کی طرف نسبت کرکے تو سورۂ مزمل کی آیت ذیل میں ذکر فرمایا ہے: ۱…’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً إِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً‘‘۔          (المزمل:۴) ترجمہ:…’’اور (اے مزمل!کمبلی پوش! )تو آہستہ آہستہ قرآن پڑھا کر ،بے شک ہم (رفتہ رفتہ) تجھ پر (جبرئیل ؑکے ذریعہ) بڑا بھاری قول( کلام) ڈالیں گے‘‘۔ چونکہ یہ القاء جبرئیل امین ؑکے واسطہ سے ہے، براہ راست نہیں، مگر ہے اللہ جل جلالہ کی جانب سے، لہٰذا سورۃ النحل میں اس القاء کو بصورتِ فعل مجہول ذکر فرمایا ہے، ارشاد ہے: ۲…’’إِنَّکَ  لَتُلَقّٰی الْقُرْآنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ‘‘۔                        (النمل:۲۶) ترجمہ:…’’بے شک (اے نبی!) تم پر یہ قرآن القاء کیا جارہا ہے، بڑی حکمت والے، بڑے ہی علم والے (پروردگار) کے پاس سے‘‘۔  یعنی اللہ جلت حکمتہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کوہ شکن لاہوتی کلام کے تم براہِ راست متحمل نہیں ہو سکتے، اس لئے روح القدس جبرئیل امین ؑکو اس کا حامل بنایا اور ان کے واسطہ تمہارے قلب روح شاعرہ پر یہ القاء کیا جارہا ہے، تاکہ اس قرآن کے لاہوتی ثقل کے اول یہ شدید القویٰ روح (جبرئیل ؑ) متحمل ہوجائیں( کہ ملکوتی روح ہونے کی وجہ سے ان کے لئے فی الجملہ آسان ہے ) اس کے بعد تمہارے قلب روح شاعرہ کے لئے( جس کی خرق عادت کے طور پر باربار کے شق صدر، اور خود جبرئیل ؑکے ضم وضغط کے ذریعہ ہم نے عام بشری روحوں سے قوی تر بتا دیا ہے، اس قرآن کا تحمل آسان ہوجائے، ایک نبی مرسل بشر) محمد ا تک قرآن عظیم( اللہ کا ازلی ابدی کلام)پہنچانے کی یہ تکوینی تدبیر ہمارے وسیع علم وحکمت پر ہی مبنی ہے کہ ہم ہی تمام کائنات اور ملکوتی وناسوتی (مادی) مخلوق اور ان کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف اور باخبر ہیں اور جو چاہیں بآسانی کرسکتے ہیں۔ سورۃ الشعراء کی آیت کریمہ ذیل میں آپ ا کے قلب مطہر پر اس قرآن (کلام اللہ) کو اتارنے والے ملکی رسول جبرئیل امین ؑکی طرف نسبت کی تصریح فرماتے ہیں، ارشاد ہے: ۳…’’وَإنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ نَزَلَ بِہٖ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ‘‘۔                                                          (الشعرائ:۱۹۲،۱۹۳،۱۹۴) ترجمہ:…’’اور بے شک یہ (قرآن) پروردگار عالم کا اتارا ہوا (کلام) ہے، اس کو اتارا ہے روح امین (جبرئیل ؑ) نے تاکہ تم بھی خبر دار کردینے والے (نبیوں) میں سے ہوجاؤ‘‘۔  اور سورۂ بقرہ میں ان کے نام کی بھی تصریح فرمادی ہے: ۴…’’قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوّاً لِجِبْرِیْلَ فَإِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِإذْنِ اﷲِ‘‘۔(البقرۃ:۹۷) ترجمہ:…’’(اے نبی!) تم کہہ دو : جو جبرئیل کا دشمن ہو (ہواکرے) پس بے شک جبرئیل نے تو اللہ کے اذن سے تمہارے دل پر اس قرآن کو اتارا ہے‘‘۔ ان چاروں آیات میں ’’القائ، تلقی‘‘اور’’ علی قلبک‘‘کی تصریحات اس امر کو ظاہر کرتی ہیں کہ جبرئیل امین ؑنے اپنی ملکی صورت پر رہتے ہوئے بھی قرآن کریم کی آیات آپ ا کے قلب مطہر پر اتاری ہیں اور اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آپ ا کی روح شاعرہ اس عالم بشری سے منسلخ (الگ) ہوکر روح الامین کو دیکھتی اور پہچانتی بھی تھی اور ان سے قرآن کی آیات اخذ بھی کرتی تھی۔ یہی معنی ہیں دل کی آنکھوں سے دیکھنے اور دل کے کانوں سے سننے کے، جیساکہ آیت کریمہ نمبر :۲ کے لفظ ’’إِنَّکَ لَتُلَقّٰی الْقُرْآنَ‘‘بے شک تمہارے اوپر قرآن ڈالا جارہا ہے۔ یہ ظاہر ہے اور چونکہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے ڈالا جارہا ہے، اس لئے ’’مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیْمٍ ‘‘کی تصریح فرمادی اور چونکہ ڈالنے والے جبرئیل امین ؑہیں، اس لئے آیت کریمہ نمبر :۳ میں’’ الروح الأمین ‘‘کی تصریح فرمادی کہ بلاواسطہ نہیں، بلکہ ’’ الروح الأمین ‘‘کے واسطے سے ڈالا جارہا ہے اور چونکہ ہرآیت یا آیات جبرئیل امین ؑاپنے ارادہ اور اختیار وانتخاب سے نہیں لاتے تھے، اس لئے آیت کریمہ نمبر :۴ میں ’’باذن اللّٰہ‘‘ کی تصریح فرمادی کہ جبرئیل ؑاللہ کی اجازت اور حکم سے قرآن کی آیات لاتے اور اتارتے ہیں چنانچہ جمہور محدثین ومفسرین اللہ کے کسی بشر سے کلام کرنے کی تین صورتوں سے( جن کا ذکر آپ سورۃ الشوریٰ کی آیت میں پڑھ چکے ہیں) پہلی صورت ’’إِلَّا وَحْیاً‘‘کا مصداق جبرئیل امین ؑکے دوسری صورت میں( کہ وہ خود اپنی ملکی صورت پر ہیں اور آپ ا کی روح شاعرہ عالم بشری سے الگ ہوکر اخذ کرے) قرآن کی آیات پہنچانے کو ہی قرار دیتے ہیں۔ صحیح بخاری اور دوسری تمام کتب صحاح کی معروف ومشہور حدیث جس میں رسول اللہ ا ’’کیف یأتیک الوحی؟‘‘کے جواب میں خود فرماتے ہیں :’’کل ذلک یاتینی الملک‘‘ اور اس صورت کو آپ ا ’’وہو أشدہ علی‘‘( اور یہ وحی مجھ پر سب سے زیادہ شدت کا موجب ہوتی ہے) فرماتے ہیں( ظاہر ہے کہ بتقاضاء بشریت بیداری کی حالت میں روح شاعرہ کا عالم بشری سے منسلخ (الگ اور بے تعلق ہونا آپ ا کے بدن کے لئے انتہائی شدت اور نظام جسمانی کے اختلال کا موجب ہونا چاہئے اور وحی آنے کے وقت جو جسمانی اعتبار سے غیر معمولی ’’ربودگی‘‘ کی کیفیت اور مختلف شدت کے آثار آپ ا پر طاری ہوتے تھے، جن کی تفصیلات چشم دید گواہوں یعنی صحابہؓ وازواج مطہراتؓ نے احادیث میں بیان کی ہیں، اس کا سبب بھی یہی روح شاعرہ کا عالم مادی سے اتنی دیر کے لئے بے تعلق اور الگ ہونا ہے۔ یاد رکھئے !کہ قرآن عظیم کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ جسم انسانی میں دو روحیں کا ر فرما ہیں، ایک روح حیات جس پر جسمانی نظام حیات کا مدار ہے، یہ پیدا ہونے کے بعد سے مرتے دم تک ایک لمحہ کے لئے بھی الگ نہیں ہوسکتی، اسی پر زندگی کا انحصار ہے اور ایک روح شاعرہ جو معمولاًسونے کے وقت ہر سونے والے کے بدن سے جدا ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ’’اَﷲُ یَتَوَفّٰی الْأَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْأُخْریٰ إِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی‘‘۔                (الزمر:۴۲) ترجمہ:…’’اور اللہ ہی قبض کرتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور ان جانوں کو بھی کہ جن کی موت نہیں آئی ان کے سونے کے وقت ،پھر ان جانوں کو تو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعادمعین تک کے لئے رہا کردیتا ہے‘‘۔ خرق عادت یہی تھا کہ وحی آنے کے وقت نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بدن مبارک سے آپ ا کی روح شاعرہ بیداری میں بے تعلق ہوکر جبرئیل امین ؑسے وحی الٰہی اخذ کرنے میں منہمک ہوجاتی تھی۔ باقی رہا آپ ا کا ادراک وشعور تو وہ اس حالت میں اعلیٰ درجہ پر کام کرتا تھا، اسی لئے وحی الٰہی فوراً کے فوراً قلب مبارک پر یعنی عقل وشعورمیں پتھر کی لکیر کی طرح نقش اور ثبت ہوجاتی تھی۔ تفصیل کے لئے کسی دوسری فرصت کا انتظار کیجئے۔ یہ چند سطریں بھی اس لئے سپرد قلم کی گئی ہیں کہ ناواقف اور سادہ لوح قارئین کے ذہن میں یہ خلجان پیدا نہ ہو کہ جب آپ ا کی روح بدن سے بے تعلق رہتی تھی تو آپ ا زندہ کیسے رہتے تھے؟۔ قرآن کی وہ تمام نصوص اور صریح آیات جو ہم نے اب تک پیش کیں، خصوصاً اخیر کی ان چار آیات کے تجزیہ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ (۴) مستقل چیزیں قرآن کے اس تکوینی نظام ترسیل میں کار فرما ہیں: ۱…ایک حکیم وعلیم رب العالمین کی ماوراء کائنات مقدس ومنزہ ذات۔ ۲…دوسرے نبی امی خاتم انبیاء ا کی ذات معصوم مع جسدہ العنصری (جسم مادی کے ساتھ… پہلی صورت میں- جبکہ جبرئیل امین ؑانسانی شکل میں آئیں… آپ ا کا قلب منور( روح شاعرہ) دوسری صورت میں- جبکہ جبرئیل امین ؑاپنی اصل ملکی صورت پر قائم رہیں۔ ۳…تیسرے جبرئیل امین ؑقرآن کو رسول اللہ ا کے پاس لانے والے ملکی رسول، جن کا لقب ہی روح ہے۔ ۴…قرآن مجید اللہ کا ازلی ابدی کلام۔  ان چاروں حقیقتوں کا مستقل اور خارجی وجود ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ ان چاروں میں سے کسی ایک کے وجود خارجی کا انکار بھی ایسا ہے جیسے عین دوپہر کے وقت دھوپ میں کھڑا ہوا شخص سورج کے وجود کا اور اس کے ایک مستقل عامل خارجی ہونے کا انکار کرے اور کہے کہ یہ جو نظر آرہا ہے یہ تو محض ایک وہمی اور خیالی صورت ہے۔ علاوہ ازیں ارسال کا لفظ بھی ہر زبان میں چار حقیقتوں کے مستقل وجود خارجی کو چاہتا ہے، جن میں سے کسی ایک کے بھی نہ ہونے کی صورت میں ارسال کا مفہوم متحقق ہوہی نہیں سکتا: ۱…ایک مرسل( بھیجنے والا، ۲…مرسَل الیہ- جس کے پاس بھیجا ہے۔ ۳…ما یرسل (وہ پیغام یا چیز جو بھیجی جائے۔ ۴…رسول( وہ شخص جس کے ذریعہ یا جس کے ہاتھ بھیجا جائے۔  ان میں سے آخری حقیقت کا وجود یقینا ایک مستقل وجود خارجی اور عامل خارجی ہے، ان میں سے کسی ایک کے بھی مستقل وجود خارجی کا انکار درحقیقت اصل ارسال اور رسالت کا انکار ہے۔ درحقیقت قرآن کے مستقل وجود خارجی کا جبرئیل ؑکے وجود خارجی اور عامل خارجی ہونے کا انکار کرنے والے ہمارے مسلمان مستشرق قرآن کو (العیاذ باﷲ) خود رسول اللہ ا کا کلام کہنا چاہتے ہیں اور یہ مکلف بھی صرف اس لئے ہیں کہ اپنے ’’مخصوص مشن‘‘ کے تحت وہ مسلمان کہلا کر مسلمانوں کو بے دین او ر گمراہ کرنا چاہتے ہیں، ورنہ یہودی مستشرقین تو قرآن کو ’’آپ ا کا کلام‘‘ بھی نہیں مانتے، بلکہ علانیہ اس زمانے کے یہودیوں اور عیسائیوں سے آسمانی تعلیمات کا استفادہ کرکے عربی زبان میں ڈھالی ہوئی کتاب کہتے ہیں، اور رسول اللہ ا کا کارمانہ صرف عبرانی یا سریانی زبان سے عربی زبان اور عرب ذہنیت میں ڈھالنا قرار دیتے ہیں۔ (کتاب کے تیسرے باب’’ قرآن یہودی اور عیسائی مستشرقین کی نظر میں‘‘ کے تحت آپ مزید تفصیل پڑھیںگے) ۔ قرآن مجید دنیا میں نازل ہونے سے پہلے کہاں تھا؟ اور پھر دنیا میں کب اور کس طرح آیا؟ اور اب تک کس صورت میں محفوظ ہے؟ اور قیامت تک کس طرح محفوظ رہے گا؟ قرآن مجید(اللہ کا ازلی ، ابدی اور قدیم کلام) دراصل لوح محفوظ میں تھا اور ہے، جہاں نہ کسی انسان کی رسائی ہوسکتی ہے، نہ جن کی،نہ اذنِ خداوندی کے بغیر کسی فرشتہ کی۔ سورۃ البروج میں ارشاد ہے: ’’بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ‘‘۔            (البروج:۲۱،۲۲) ترجمہ:’’بلکہ وہ (اللہ کا کلام) عظیم قرآن ، لوح محفوظ میں ہے‘‘۔ سورۃ الزخرف میں ارشاد ہے: ’’وَإِنَّہٗ فِیْ أُمِّ الْکِتَابِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ‘‘۔                        (الزخرف :۴) ترجمہ:’’ اور بے شک وہ (قرآن) ام الکتاب (لوح محفوظ) میں ہمارے پاس ہے، بہت بلند تر ہے، نہایت محکم ہے‘‘۔ لوح محفوظ کیا ہے؟ لوح محفوظ کی اصل حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے، عالم ملکوت کی چیز ہے، انسان (مادی مخلوق) اس کی حقیقت کو کیا جانے؟ تاہم قرآن مجید میں ہی حق جل وعلی شانہ کے ’’لامحدود علم‘‘ اور ’’لامتناہی معلومات‘‘ سے متعلق جو آیات وارد ہوئی ہیں، ان کے پیش نظرایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوح محفوظ کا مصداق خدائے پاک وبرتر کے لامحدود اور تمام کائنات -گذشتہ ، موجودہ اور آئندہ- پر محیط ’’علم تفصیلی‘‘ اور ’’غیر متناہی تفصیلی‘‘ معلومات کا وہ حصہ ہے جو اس نے کارکنان قضاء وقدر کردیا ہے، اسی کا ’’قدر ضروری حصہ‘‘ قرآن مجید ہے، اسی لئے دوسری آیت کریمہ میں لوح محفوظ کو ’’أم الکتاب‘‘ -اصل کتاب- سے تعبیر فرمایا ہے اور’’ لدینا‘‘ سے اس کا مقام متعین فرمایا ہے اور’’ لعلی‘‘ سے اس کی برتری اور رفعت کی اور’’ حکیم ‘‘سے اس کے محکم اور ناقابل تغیر وتبدل ہونے کی تصریح فرمائی ہے۔ ہم علم اور معلوماتِ الٰہی سے متعلق بطور’’گلے از گلزارے‘‘ صرف دو آیات نقل کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ’’علم‘‘ اور ’’معلومات الٰہی‘‘ سے متعلق بڑی کثرت سے آیات موجود ہیں مراجعت کیجئے۔           (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین