بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

قدرتی آفات اور ہماری ذمہ داریاں  سیرتِ طیبہ کی روشنی میں


قدرتی آفات اور ہماری ذمہ داریاں 

سیرتِ طیبہ کی روشنی میں    


اس دارِ فانی میں خوشی غمی، اورنشیب و فراز در پیش رہتے ہی ہیں، کبھی مسرتوں کی فضائیں، کبھی رنج وآلام، مصائب کی جولانیاں، کبھی قدرتی آفات کی صورت میں تنبیہات اور عقاب۔ موحدین کا سنہرا عقیدہ ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے، یہ مصائب ومشکلات، آفات و طوفان، ہوا کے جھکڑ اورسیلاب کی تباہ کاریاں، سب قدرتِ خداوندی سے ہیں، لیکن ان آفتوں کے نتیجہ میں ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جن میں سے کچھ ذمہ داریاں اربابِ اقتدار کی طرف متوجہ ہیں، کچھ خلقِ خدا کے دینی محافظین اہلِ علم کے سامنے کھڑی ہیں اور کچھ عوام الناس کے ذمہ ہیں۔ 

حکومتی ذمہ داریاں

آفات دو طرح کی ہیں: بعض ایسی ہیں جن کا حفاظتی تدابیر کے علاوہ کوئی سدِ باب نہیں، جیسے زلزلہ، آندھیاں ودیگر وبائی امراض، اوربعض ایسی ہیں جو ہماری کوتاہی سے وابستہ ہیں، جیسےنکاسیِ آب کے لیے سیوریج سسٹم بناسکتے ہیں، اضافی پانی کے لیے ڈیم بنا سکتے ہیں، لیکن نہیں بنائے، یعنی ’’آبیل مجھے مار‘‘ پر عمل پیرا ہوکر آفت میں گرنا، جس کی واضح مثال حالیہ سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں، یونیسف (یکم ستمبر ۲۰۲۲ء) ودیگر کی رپورٹ کے مطابق شدید بارشوں، سیلاب اور لینڈ سیلائیڈنگ سے ۳کروڑ ۳۰ لاکھ افراد متاثر ہوئے، جبکہ ۱۱سو سے زائد لوگ جان دے گئے، ۲۸۷۰۰۰ گھر مکمل جبکہ ۶۶۲۰۰۰ جزوی تباہ ہوئے، ڈیموں کی قلت تقریباً دس ارب ڈالرکے نقصان کا سبب بنی، گو کہ باطنی طور پر دونوں قسم کی آفات اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا اور تنبیہات سے متعلق ہیں۔ 
آفتوں کی صورت میں تدابیر واقدامات کرنا حکومتی ذمہ داری ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے مختلف مواقع کی نسبت سے مختلف تدبیریں اور اقدامات کیے ہیں، سورج یا چاند گرہن پر نما زکا انعقاد(۱)، صلاۃ الاستسقاء کے لیے لوگوں کو لے کر نکلنا(۲)، اور غزوات میں مختلف تدابیر، بطورِ خاص کفار کی چڑھائی پر خندقیں کھودیں، اور بنفس نفیس کھدائی میں شریک ہوئے، اور فرماتے:
’’خدا کی قسم! اگر اللہ کی توفیق نہ ہوتی، تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے، نہ صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے۔‘‘ (۳)
مضر قبیلے کے مصیبت زدگان، فاقہ کشوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوئے، اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے تعاون کی تاکید کی، جب سامان کے دوڈھیر لگ گئے، تب چہرۂ مبارک خوشی سے چمکنے لگا۔ (۴)
 مواقع کی مناسبت سے، ان تدابیر واقدامات سے درج ذیل ذمہ داریاں سمجھی جاسکتی ہیں:
۱:امر بالمعروف نہی عن المنکر کرنا: کیونکہ اس کے ترک کو واضح نزولِ عذاب وآفت کا سبب بتایا ہے۔ (۵) 
۲:حفاظتی اقدام۔ 
۳: ضروریاتِ زندگی کا انتظام۔ 
۴:فرائضِ منصبی کو بھرپور ادا کرنا:حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔ اس سے فرائضِ منصبی کو ادا کرنے کی تاکید، اور نہ کرنے پرنزولِ آفت کی وعید معلوم ہوئی۔ 

اہلِ علم کی ذمہ داریاں

اہلِ علم پر درج ذیل ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:

۱:اولین ذمہ داری عقائد کی حفاظت ہے

اُمت کو متوجہ کرنا کہ یہ آفات ہماری بد اعمالیوں کی بنا پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ِتنبیہ اور سزا کے ہیں۔ 

۲: توبہ واستغفار اور رجوع الی اللہ کی ترغیب دینا

کیونکہ مصائب وآفات کے موقع پر سیرت سے رجوع الی اللہ کا درس ملتا ہے، حضرت عبد اللہ بن زید- رضی اللہ عنہ - فرماتے ہیں کہ: نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  عید گاہ کی طرف نکلے، بارش طلب کی، قبلہ رخ ہوئے، اور اپنی چادر کو پلٹا، اور دو رکعت پڑھیں۔(۶) 
اسی طرح ایک دیہاتی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے دورانِ خطبہ قحط کی شکایت کی، تو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا فرمائی، پورا ہفتہ بارش ہوتی رہی، اگلے جمعہ کو اسی شخص یا دوسرے شخص نے عرض کیا کہ: اموال ہلاک ہوگئے، آمد ورفت بند ہوگئی، دعا کریں، اللہ اسے روک دیں، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا فرمائی، اور بارش تھم گئی۔ (۷)

۳:خدمت خلق اور انفاق فی سبیل اللہ اور ترغیبِ خیرخواہی
 

ماقبل میں ذکر کیا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مضر قبیلے کے مصیبت زدگان، فاقہ کشوں کو دیکھ کر سخت پریشان ہوئے، اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  سے تعاون کی تاکید کی، جب سامان کے دوڈھیر لگ گئے، تب چہرۂ مبارک خوشی سے چمکنے لگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدمتِ خلق، لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا، اور خیر خواہی کی ترغیب دینا‘ ورثاء انبیاء کی ذمہ داری ہے۔ 

عوام الناس کی ذمہ داریاں

معاشرے میں تیسرا طبقہ عوام الناس کا ہے، ایسے حالات میں درج ذیل ذمہ داریاں ان کی طرف متوجہ ہیں:

۱:صبر، توبہ واستغفار اور رجوع الی اللہ

جزاء سزاء سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا، کیونکہ یہ اعمال کی کمائی ہے۔ 
حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: جب غنیمت کے مال کو لوٹا جانے لگے، امانت کو مالِ غنیمت سمجھا جائے، اور زکاۃ کو تاوان سمجھا جائے، دین کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے تعلیم حاصل کی جائے، خاوند اپنی بیوی کا فرماں بردار ہوجائے، اور بیٹا اپنی ماں کا نافرمان ہوجائے، بیٹا دوست کو قریب کرے، باپ کو دور رکھے، مساجد میں آواز بلند ہونے لگے، قبیلہ کا سردار اُن کا فاسق شخص ہو، قوم کا لیڈر اس کا رذیل ترین شخص ہو، کسی شخص کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جانےلگے، ناچنے والیاں اور گانےبجانے کے آلات عام ہوجائیں، شرابیں پی جانی لگیں، اور امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں، تو پھر خدا کے عذاب کا انتظار کرو، جو سرخ آندھی، زلزلوں، زمین میں دھنسائے جانے، شکلوں کےمسخ ہونے، پتھر برسنے، اور ایسی دیگر نشانیوں کی صورت میں اس طرح لگاتار ظاہر ہوگا، جیسےکسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور موتی لگاتار گرنےلگیں۔ (۸)
اس سے واضح ہے کہ آفت ہمارے اعمال کا سبب ہے، اور اعمالِ بد سے توبہ و استغفار کرنا آفتوں سے بچنے کا سبب ہے۔ سورۂ انفال کی آیت:۳۳ سے صراحتاً استغفار کو آفت سے بچنے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ (۹)

۲: سیرت کو اپنانا

سورۂ نساء آیت:۸۰ (۱۰) اور سورۂ طہٰ آیت:۴۸ (۱۱) میں ترکِ سیرت کو نزولِ عذاب کا سبب قرار دیا ہے۔ بدیہی بات ہے کہ کسی بھی شعبہ میں اس شعبہ سے منسلک کامیاب انسان کے سبب ِکامرانی اور اندازِ زندگی کو جان کر کامیابی کے مراحل طےکرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو کائنات میں سب سے زیادہ سب سے بڑھ کر کامیاب ترین ذات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ہے، جو تمام اوصاف ومحامد کو بدرجہ اتم سمیٹے ہوئے ہیں، دنیا وآخرت کی راہنمائی جن سے متعلق ہے، ان کی طرز ِزندگی کو جان کر اس پر عمل کرنا بدرجہ اتم ضروری ہے، اسی ذاتِ مبارک کو ہمارے لیے آئیڈیل اور نمونہ بنایا گیا ہے،(۱۲) کامیاب ہونے کےلیے بدی سے بچ کر آفات سے محفوظ رہنے کے لیے انہی کا دامن تھامنا ضروری ہے۔ 

۳:خدمتِ خلق، ایثار وخیرخواہی، اور اِنفاق

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نےہمیشہ لوگوں سے خیر خواہی کا معاملہ کیا، ہمیشہ ضرورت مندوں کی نصرت کی، مضر قبیلہ کی مثال سامنے ہے جس کا تذکرہ گزرچکا، اس سے جہاں حکومتی اور اہلِ علم کی ذمہ داری ماخوذ ہے، وہیں عوام کی ذمہ داری بھی ثابت ہے کہ جیسے خیرخواہی سے لبریز صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  نےدل کھول کر خرچ کیا، ویسے ہی عوام الناس بھی استطاعت کے مطابق خدمت کریں۔ اسلام کامل ومکمل دین ہے جو کسی شعبہ میں تنہا نہیں چھوڑتا، اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہوکر ہر فرد کو اپنی استطاعت اور ذمہ داری کے مطابق خود کو پیش کرکے خدائے وحدہٗ لاشریک کی خوشنودی حاصل کرنی چاہیے۔ 

حواشی

۱: صحيح البخاري ۱/۳۵۳، کتاب الکسوف، باب الصلاۃ في کسوف الشمس، رقم الحديث: ۹۹۳، باب الصلاۃ في کسوف القمر، ۱/۳۶۱، رقم الحديث:۱۰۱۳، 
۲: أيضاً، باب تحويل الرداء في الإستسقاء، رقم الحديث: ۹۶۶، 
۳: أيضاً ۴/۱۵۰۶_۱۵۰۷، باب غزوۃ الخندق، رقم الحديث: ۳۸۷۸، 
۴: مسلم باب الحث علی الصدقۃ ولو بشق تمرۃ، ۷/۱۰۴_۱۰۵، رقم الحديث: ۲۳۴۸، دارالمعرفۃ، 
۵: سنن الترمذي، ۴/۲۱۵، باب ماجاء في الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر، رقم الحديث: ۲۱۶۹، دار الحديث القاہرۃ ،
۶: بخاري، باب تحويل الرداء في الإستسقاء ۔
۷: بخاري، باب الإستسقاء في المسجد الجامع ۔
۸: ترمذي: ۴/۲۳۵_۲۳۶، کتاب الفتن، باب ماجاء في علامۃ حلول المسخ والخسف، رقم الحديث: ۲۲۱۰_۲۲۱۱۔
۹: الأنفال: وَمَا کَانَ اللہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ۔
۱۰: النساء: مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَيْہِمْ حَفِيْظًا۔
۱۱: طہ: إِنَّا قَدْ أُوْحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی ۔
۱۲: الأحزاب: آيت:۲۱: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین