بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

قبولیتِ اسلام .....اِک دعوتِ فکر

قبولیتِ اسلام .....اِک دعوتِ فکر

 

اسلام دینِ فطرت ہے، ایک سلیم الفطرت انسان کے لیے اسلام قبول کرنا اس کی فطرت کا طبعی تقاضا ہونا چاہیے۔ حدیث شریف سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اُس کے والدین اور ماحول اُسے فطرت سے دور کر دیتے ہیں، اسی اُصول کے تحت تمام اقوامِ عالم کو مذہبِ اسلام کے قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ زیرِ نظر تحریر میں اسی نقطۂ نظر کے تحت اقوامِ عالم کو غورو فکر کی دعوت دی گئی ہے۔دنیا کے اندر مختلف مذاہب رائج ہیں اور اُن کے ماننے والے پیر و کار بھی موجود ہیں اور ہر ایک کا یہی نظریہ ہے کہ ہمارا مذہب حق اور سچا ہے۔ ان مذاہب میں بعض دینِ سماوی کے مدعی ہیں، جیسے: یہود و نصاریٰ اور بعض خود ساختہ مذاہب بھی رائج ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ ہمارا مذہب‘ اسلام سچا اور حق ہے اور نجاتِ اخروی کے لیے اسلام قبول کرنا ضروری ہے۔اب حق مذہب کون سا ہے؟ آئیے! سوچتے ہیں:
اللہ پاک حاکمِ حقیقی اور قادرِ مطلق ذات ہے، جو ہر زمانے میں کوئی بھی فیصلہ صادر کرنے یا پھر اُسے منسوخ کرنے کا کلی اختیار رکھتے ہیں۔ ایسے ہی ہر زمانہ میں جس نبی کی بھی بعثت ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دین آیا یا جو احکام آئے اُن کا ماننا فرض ہے۔ اللہ پاک کسی نبی کی بعثت فرمائیں یا کوئی کتاب نازل فرما کر اُس پر چلنے کا حکم دے دیں، تو یہ بھی خالق ومالک کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔ اپنے مالک وخالق کی منشا کو پیشِ نظر رکھنا اور اُس کے نازل کردہ فیصلوں اور احکامات کو ماننا ضروری ہے۔
ایک بندے کی بندگی کاحق یہی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک کے فیصلوں کو دل و جان سے تسلیم کرے۔ ایک انسان کے مملوک ہونے اور مخلوق ہونے کے تحت یہی اس کی سعادت مندی ہے کہ وہ مذہب کو اختیار کرنے میں بھی ذاتی پسند نا پسند یا آباء و اجداد کی تقلید یا کنبہ برادری کا لحاظ کیے بغیر اپنے خالق و مالک کی منشا کو سمجھنے اور اس عمل پیر اہو نے کی کوشش کرے۔
مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر نبی اور رسول برحق ہیں، اُن میں سے کسی ایک کا انکار بھی تما م نبیوں کے انکار کے مترادف ہے۔انکار کرنے والا بارگاہِ خداوندی میں ناکام ٹھہرے گا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ یقین کرنا بھی ضروری ہے کہ جیسے تمام انبیاء o واجب الاحترام ہیں، اُن کا ماننا فرض ہے، اُن پر نازل شدہ کتابیں برحق ہیں، ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کا احترام کرنا اور اُنہیں تسلیم کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کو مبعوث فرماکر سابقہ تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں کو منسوخ کردیا، تو مذکورہ اصول کے تحت جیسے تمام انبیاء علیہم السلام اور تمام آسمانی کتب کا احترام فرض ہے تواب محمدعربی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو ماننا اور اُ ن کی لائی ہوئی شریعت کو ماننا اور اُس کو قابلِ عمل سمجھنابھی فرض ہے۔قرآن پاک کے اعلان کے تحت اب قیامت تک شریعتِ محمدی ہی نافذ العمل ہے ، اس کو تسلیم کیے بغیر کوئی بھی آخرت میں کامیاب نہیں ہوسکتا اور نہ ہی آخرت کے عذابوں سے بچ سکتا ہے، حتیٰ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ: موسیٰ  علیہ السلام  بھی زندہ ہو کر آجائیں تو اُنہیں بھی میری اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ۔

اَٹل اور ناقابلِ تردید ثبوت

متذکرہ بالا سطور میں عرض کی گئی حقیقت کے بعد تما م اقوامِ عالم اور دیگر مذاہب والوں کو دعوتِ غور وفکر دے رہے ہیں کہ انہیںاب مذہبِ اسلام قبول کرلینا چاہیے ۔تاہم کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ مذہبِ اسلام کی سارے عالم کو دعوت کس ثبوت اور دلیل کے تحت دی جارہی ہے؟ تو ثبوت کے طور پر ہم اللہ تعالیٰ کا ا ٓخری کلام قرآن مجید پیش کرتے ہیں،جو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، اس میں صاف مذکور ہے:
’’وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ  یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ‘‘ (آلِ عمران: ۸۵) 
ترجمہ: ’’اور جو کوئی شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو چاہے گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گااور وہ آخرت میں تباہ کار لوگوں میں سے ہوگا۔‘‘
اب یہ صاف اعلان قرآن مجید میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، اللہ پاک کا آخری کلام ہے، لہٰذا اس واضح حقیقت کو ماننا، تسلیم کرنا اور مذہبِ اسلام کو اختیار کرنا نجاتِ اخروی کا حقیقی اور اصل راستہ ہے اور یہ اعلان قرآن مجید میں ہے جو کلامِ الٰہی ہے اور اس کے کلامِ الٰہی ہونے میں شک کرنے والوں کو اس جیسا کلام پیش کرنے کا چیلنج بھی خود قرآن پاک میں واضح طور پر موجود ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
’’قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی أَنْ یَّأْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَأْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ  وَلَوْکَانَ  بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا۔‘‘                                 (بنی اسرائیل:۸۸)
ترجمہ: ’’اے محمد! آپ فرما دیجیے کہ اگر تمام انسان اور تمام جنات سب اس کام کے لیے جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لا سکیں گے، اگرچہ آپس میں سب ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔‘‘
لہٰذا اس جیسا کلام پیش کرنے سے عاجز ہونا قرآن مجید کے کلام الٰہی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے، لہٰذا قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا آخری کلام اور بندوں کے نام آخری کتاب ہے، لہٰذا اس میں ذکر کردہ ہر بات کو سچ ماننا بھی فرضِ عین ہے، تو اب ہم اس قرآنی حکم کی روشنی میں کھلے عام دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب دینِ اسلام کے سواتمام ادیان کو منسوخ فرمادیا ہے تو اب عقلی ونقلی طور پر یہ بات ثابت ہو گئی کہ مذہبِ اسلام کو قبو ل کر لیا جائے، ورنہ دونوں جہانوں میں ناکامی ہوگی۔
سابقہ کتبِ سماوی تو رات وانجیل کااحترام کرنے والوں اور ان کی تعلیمات کو ماننے والوں سے گزارش ہے کہ ان آسمانی کتب کو نازل کرنے والی اللہ جل شانہ کی ذات ہے، تو اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کا بھی احترام کریں کہ وہ ربِ حقیقی پوری انسانیت کو اپنے آخری نبی حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان لانے اور مذہبِ اسلام کو قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں، تو اب مذہبِ اسلام کو قبول کرنے میں کیا مانع رہا؟ 
جس خالق ومالک نے تورات اور انجیل کو نازل کیا، ان کتابوں کا تو دل میں احترام ہو، اسی مالک وخالق جس نے قرآن مجید نازل فرمایا، اس آخری کتاب پر ایمان لانے اور اس کی تعلیمات کو سچا سمجھنے کا حکم دے رہے ہیں تو اب اس رب کا احترام کیوں نہیں؟ اس کا فیصلہ کیوں قبول نہیں؟
اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے، وہ چاہے تو انجیل نازل کر کے اس کی اطاعت کرنے کا حکم دے، چاہے تو رات نازل کرکے اس کو ماننے کاحکم دے اور جب چاہے اپنی سابقہ شریعتوں کو منسوخ کر کے دینِ محمدی کی پیروی کاحکم نازل فرمادے، وہ مالک ہے، اس کی مرضی ہے، اسی کا فیصلہ نافذ ہونا ہے، ایک بندہ تو اپنے مالک و خالق کی اطاعت کا اصل میں پابند ہے۔ اس میں کسی بھی انسان کی اپنی ذاتی سوچ، پسند ناپسند یا خود تراشیدہ افکار یا آباء و اجداد کے نظریات کی پیروی کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔
ایک صاحب نے ایک غلام خریدا تو ا س نے غلام سے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ غلام نے جواب دیا: آپ جس نام سے پکاریں۔ مالک نے پوچھا: آپ کو کھانا کون سا پسند ہے؟ کہا: جو آپ کھلادیں۔ پھر پوچھا کپڑا کون سا پسند ہے؟ غلام نے کہا: جو آپ پہنادیں۔ مالک نے حیرا ن ہو کر کہا کہ: میں آپ سے آپ کی مرضی پوچھ رہا ہوں۔ غلام نے کتنا خوبصورت جواب دیا کہ: جب میں غلام ہوں تو پھر میری مرضی کہاں؟ جو آپ کی مرضی، وہی میری پسند ہے۔ اس مالک نے کہا کہ: اے غلام! تم نے تو مجھے بندگی کا سلیقہ سکھادیا۔ ہم بھی تو کسی ذات کے غلام ہیں، افسوس! ہم نے تو ایک دن بھی اپنے مالک حقیقی کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کیا۔ درحقیقت اس حکایت کو مدِ نظر رکھ کر سوچا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج تک ہم نے اپنے مالک اور خالقِ حقیقی کو ویسا حق نہیں دیا جو ایک غلام کو دینا چاہیے، کتنی حسرت کی بات ہے کہ دنیا کے ۲۴۶ ممالک میں پھیلی ہوئی سات ارب کی آبادی میں صرف ۲؍ارب کے لگ بھگ دینِ محمدی کے ماننے والے ہیں۔باقی پانچ ارب کی آبادی سابقہ آسمانی کتب (جنہیں اللہ پاک نے منسوخ بھی کردیا) خود ساختہ ادیان، ذاتی آراء وافکار اور من پسند نظر یات میں گھری ہوئی ہے، اگر کوئی منسوخ ادیان کا قائل ہو اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا بھی ہو تو بھی یہ سراسر منشا خداوندی کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ اللہ پاک نے اپنی آخری کتاب میں صاف اپنا فیصلہ سنا دیا کہ اللہ کاآخری نازل کردہ دین تو مذہبِ اسلام ہے اور ہم پیروی سابقہ ادیان یا خود ساختہ مذاہب کی کررہے ہو ں تو کتنی بڑی محرومی کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرما ن کو تمام اقوامِ عالم ذہن میں رکھے۔
دنیا کے اندر ہر ملک کا حکمران جب تک برسرِاقتدار رہتا ہے تو اس کے فیصلوں کا ہی احترام کیا جاتا ہے اور اسی کے فیصلے اور قوانین نافذ العمل ہوتے ہیں، لیکن مدت پوری ہونے کے بعد جب ان کا دورِ اقتدار ختم ہوجاتا ہے تو سابقہ حکمرانوں کے احترام کے باوجود نئے قوانین اور احکام وقت کے موجود ہ حکمرانوں کے ہی نافذ العمل ہوتے ہیں، لیکن مقامِ حیرت ہے کہ اتنی اَٹل اور مسلَّمہ عالمی حقیقت سے دنیا کی ۵؍ ارب سے زائد کی آبادی منہ موڑے ہوئے ہے اور اپنی ضد پر قائم ہے اور خدائی فیصلے کو ٹھکرا رکھا ہے اور سابقہ منسوخ ادیا ن پر جمے ہوئے ہیں۔
بھلا سوچئے! ایسی صورت میں ہم اُخروی نجات کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟!
یہ حقیقت ہمیشہ پیشِ نظررہے کہ اگر اللہ پاک کی اُلوہیت اور آخری نبی محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی رسالت کو تسلیم کیے بغیر دنیا سے چل بسے تو ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم کا ایندھن بنیں گے۔دنیا کے قید خانوں سے خلاصی تو ہے اور نافرمانی کی سزا بھگتنے کے بعد چھٹکاراتو ہے، لیکن مذہبِ اسلام کا انکار اتنا بڑا جرم ہے کہ ہمیشہ کی ناکامی انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔انسان یہ بھی سوچے کہ دنیا کی چند روزہ تکالیف برداشت نہیں کر سکتے تو اپنے نظریات اور افکار پر ضدکر کے ڈٹے رہنے سے جہنم کے ہمیشہ کے عذابوں کو کیسے برادشت کریں گے؟! جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے ستر گنازیادہ سخت ہے اور مزید عذاب جو احادیث شریف میں منقول ہیں، وہ علیحدہ ہیں، لہٰذا اس تحریر کے ذریعے پوری دنیا کے انسانوں کو ہمدردانہ غور و فکر کی دعوت ہے۔ یہاں معاملہ اپنی جماعت کا، قوم کا،فرقے کا ،ذاتی پسند ناپسند کا، یا اپنے عقا ئد و نظریات کے دفاع کا نہیں، بلکہ اپنے آپ کو ہمیشہ کی ناکامی اور جہنم کے عذابوں سے بچانے کا معاملہ ہے۔ جہنم کے عذابوں سے بچنے کا حل کیا ہے؟ تو اس مضمون کے مذکورہ بالا مندرجات کو غور سے پڑھنے سے معلوم ہو جائے گا۔ تنہائی میں بیٹھ کر ذرا سوچیں کہ کیا مذہبِ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کو قبول کرنے سے میری نجات ہو جائے گی؟!
سطورِ بالا پوری انسانیت کی خیر خواہی کے لیے رقم کی ہیں کہ خدارا انصاف سے اور ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ کیا خود ساختہ مذاہب یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے منسوخ ادیان کی پیروی کرنے سے میری نجات ہوسکتی ہے؟ یہ بات ہر اس شخص کے سوچنے کی ہے جو نجاتِ اُخروی کا طالب اور خواہشمند ہے، فاعتبروا یا أولي الأبصار۔
اللہ تعالیٰ کے آخری کلام قرآن مجید کی طرف رجوع کر کے حق و باطل کو پرکھ سکتے ہیں، کیونکہ قرآن مجید تلاشِ حق کا الہامی اور مستند معیار ہے او ر اس کے فیصلے اور اُصول اَٹل اور ناقابلِ تردید ہیں اور اُس آسمانی کتاب میں صاف اور کھلے طور پر بتا دیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی بعثت کے بعد نجات دہندہ مذہب صرف اور صرف اسلام ہے اور قیامت تک آنے والے آخری انسان تک کے لیے یہی پیغام ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ضد، ہٹ دھرمی اور بے جا عناد سے محفوظ رکھے اور راہِ حق کی ہدایت کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین