بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

قانون کا بنیادی مقصد

قانون کا بنیادی مقصد


 انسان کے خود ساختہ قوانین خواہ وہ مشرق والوں کے ہوں یا مغرب والوںکے ،امر یکہ اور انگلینڈ کے ہوں یاروس اور چین کے، دقیانوسی دور کے ہوں یا آج کی ترقی یا فتہ تہذیبوں کے، خدا ئے خالق و مالک کے نازل کر دہ قوانین کے مقابلہ میں ان کی حیثیت وہی ہے جو خالق کے مقابلہ میں مخلوق کی ہو سکتی ہے۔ ملحد سے ملحد تہذیبیں بھی انسانی فطرت کو بہر حال تسلیم کرتی ہیں اور یہ کہ انسان اپنی فطرت کے تابع ہے۔ انسانی فطرت کے تمام تقاضوں، اس کی ضرورتوں، آسائشوں اور مضرتوں کا ٹھیک ٹھیک علم بھی انسان کو نہیں، بلکہ خود خالقِ فطرت ہی کو ہوسکتاہے، وہی اس کی صحیح نشوونما کر سکتا ہے اور اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ فطرت کی راہنمائی کے لیے قانون سازی کرے۔ یہ کام نہ خود فطرت انجام دے سکتی ہے، نہ انسان جو اپنے صحیح یا غلط فطری تقاضوں کے سامنے سپر انداز ہے۔

قانون کا بنیادی مقصد

 اہم ترین مقصد عدل وانصاف کو بر وئے کارلانا اور انسانیت کو ظلم وجور اور بہیمیت ودرندگی کے چنگل سے نجات دلا نا ہوتا ہے، لیکن اگر خود قانون کجروی اور در ند گی کی آماجگاہ بن جائے، قانون ساز اداروں پر ظلم پیشہ در ندوں کا تسلط ہوجائے اور وہ اپنی پست اور گھٹیا خواہشات کے مطابق اندھا دھند قانون سازی کرنے لگیں تو ظا ہر ہے کہ قانون حفاظتِ عدل کے بجائے ظلم وعدوان کا پشتیبان اور پاسبان بن کر رہ جائے گا۔ اس خطرہ سے بچنے کے لیے ضرورت ہو گی کہ عدل کا مفہوم متعین کیا جائے اور اسے ظلم وعدوان سے ممتاز کیا جائے۔
عدل کیا ہے؟ اور ظلم کسے کہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کے بغیر قانون کا سارا د فتر لغویت وہذیان کا پلندہ بن کر رہ جاتا ہے اور ہمیں یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے اعلیٰ ترین مفکر اور ما ہرینِ قانون‘ عدل کا ایسا مفہوم متعین کرنے سے عاجز ہیں جو تمام انسانیت کے لیے یکساں قابل قبول ہو اور جو شخص یہ نہیں جان سکتا کہ عدل کیا ہے؟ آخر کس قانون سے اسے قانون سازی کا حق حاصل ہے؟ ایک حق تعالیٰ ہی کی ذات ایسی ہے جس کا علم کائنات کے ذرہ ذرہ کو محیط ہے اور جس کی رحمت ساری انسانیت بلکہ ساری کا ئنات کے لیے عام ہے، انسانوں کے کسی خاص گر وہ سے اس کا مفاد وابستہ نہیں۔ وہی انسانیت کے لیے ’’عدل‘‘ کا ٹھیک ٹھیک مفہوم متعین کر سکتا ہے اور اسی کا نازل کر دہ قانون‘ قانونِ عدل کہلا نے کا مستحق ہے۔ قانون الٰہی کے سوادنیا کے خود تر اشیدہ قانون نہ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں، نہ انسانیت کو ظلم وستم کے آہنی پنجے سے نجات دلا سکتے ہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۔‘‘                                                            (الحدید:۲۵)
’’ ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلے کھلے احکام دے کر بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب کو اور انصاف کرنے ترازو کو نازل کیا، تاکہ لوگ اعتدال پر قائم رہیں۔‘‘
جرم اور سزا کے درمیان وہی رشتہ ہے جو مرض اور دوا کے درمیان ہے۔ ایک ما ہر طبیب مرض کی نوعیت، اس کے اسباب وعوارض اور اس کے آثار ونتائج کو سمجھتا ہے، مریض کی عادت ونفسیات کا بغور مطالعہ کرتا ہے، اس کے محلِ بودو باش اور تقاضائے سن وسال کو سوچ سمجھ کر اس کے لیے نسخہ تجو یز کرتا ہے، طریقۂ استعمال بتاتا ہے، غذا اور پرہیز کی بابت ہدایات دیتا ہے، لیکن ایک عطائی کو ان چیزوں سے سروکار ہے، نہ اہلیت، اس نے کہیں سے سن لیا کہ فلاں مرض کے لیے فلاں دوا مفید ہے، بس وہ دوا اُٹھائی اور لوگوں کو دینا شروع کردی، اس کے بعد مریض کی قسمت کہ وہ جئے یا مرے۔

انسانیت کے امراض اور ان کا علاج

 جرائم انسانیت کے سب سے بڑے امراض ہیں اور قانون کے ذریعہ ان امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔ قانون کا سب سے مشکل مر حلہ جرم اور سزا کے درمیان تو ازن کا قائم کرنا ہے اور ایسی ترازو دنیا کے کسی کا ر خانے میں تیار نہیں ہوتی جس سے جرم کے آثار ونتائج کا وزن کر کے اس کے ہم وزن سزا تجویز کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی قانون کی تمام تر دراز دستیوں کے باوجو دمہذب ممالک میں گھناؤ نے جرائم کی رفتا رتیزتر ہوتی جارہی ہے اور جب تک دنیا اس ’’انبیائی میزان‘‘ کے مطابق جرم وسز ا کا موازنہ نہیں کرتی، اس وقت تک انسانیت پر جنگل کا قانون نافذر ہے گا اور انسانیت ظلم وعدوان کے پنجے میں سسکتی بلکتی رہے گی۔ یہی میزانِ نبوت ہمیں بتاتی ہے کہ زنا اپنے اندر تعفن اور گند گی کی کتنی مقدار رکھتا ہے اور اس کا علاج کتنے پتھروں یا کوڑوں سے ہونا چاہیے اور کسی کے مال پر نا جائز ہاتھ ڈالنا کتنا بڑا معاشرتی روگ ہے اور اس کا علاج صرف ہاتھ کاٹنے سے ہوسکتا ہے۔ جو شخص فالج کا علاج کونین سے اورموتیا بند کی تد بیر اسپرد سے کرنا چاہتا ہے وہ جاہل مریض کا دوست نہیں دشمن ہے، اور جو شخص قتل کا علاج اتنے سال کی قید سے اور ڈکیتی کا علاج اتنے ماہ کی قید سے کرنا چاہتاہے وہ قانون ساز نہیں، انسانیت کا قاتل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مہذب ممالک کے جیل خانے جرائم کی تربیت گاہ بن کر رہ گئے ہیں۔ مجرم جب سزا کاٹ کر واپس آتے ہیں تو مرضِ جرم سے شفایاب ہو کر نہیں نکلتے، بلکہ عادی مجرم بن کر آتے ہیں، الا ماشاء اللہ!

اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا کامل ومکمل آخری قانون

خدا ئے برتر کا آخری قانون اپنی جامع اور کامل ترین صورت میں حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ a پر نازل ہوا، اس نے انسانیت کے لیے عدل وانصاف، مودت ورحمت، ہمدردی وخیر خواہی، اُخوت ومؤاسات اور سکون واطمینان کی وہ فضا پیدا کی جس کی مثال چشمِ فلک نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ یہ ایک ایسا خود کار نظام تھا جس کی بدولت اوّل تو جرائم کی تعداد گھٹتے گھٹتے صفر کے نقطہ تک پہنچ گئی تھی اور کبھی سہو یا بشریت کی بنا پر کوئی جرم کسی سے صادر ہو ہی جاتا تو مجرم خود ہی ’’طَھِّرْنِيْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ !‘‘ (یا رسول اللہ! مجھے سزادے کر پاک کر دیجئے) کا نعرہ لگاتے ہوئے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہوتا اور جب تک عدالتِ نبوت اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کردیتی‘ اس کے ضمیر کی خلش، ایمان کی حرارت اور محاسبۂ آخرت کی فکر اسے مسلسل بے چین کیے رکھتی، نہ کسی کو کسی سے شکایت، نہ کوئی طبقاتی مسئلہ، نہ کوئی اقتصادی اُلجھن، نہ کوئی سیاسی آویز ش، کیا آج کا تر قی یافتہ لیکن بے حد مظلوم انسان اس کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ یہ تھی اسلامی شریعت! جس نے دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیا۔ آنحضرتa کا ارشاد ہے:
’’قَدْ جِئْتُکُمْ بِالسَّمْحَۃِ الْبَیْضَائِ ، لَیْلُھَا وَنَھَارُھَا سَوَائٌ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، المقدمۃ، باب اتباع النبی  صلی اللہ علیہ وسلم، ص:۲، ط:قدیمی)
’’میں تمہارے پاس ایسی آسان اور روشن شریعت لا یا ہوں جس کے رات دن یکساں روشن ہیں۔‘‘
 پاکستان اس مقصد کے لیے معرضِ وجود میں آیا تھا کہ اسے دارالا من والا یمان ومہد السلامۃ والا سلام، ایمان واسلام کا گھر اور امن وسلامتی کا گہوارہ بنایا جائے گا، ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا واسطہ دے کر ہم نے خدا اور سول سے نیز دس کروڑ مسلمانوں سے عہد کیا تھا کہ اس مملکتِ خداداد کا آئین اسلام ہوگا۔ ہماری اجتماعی زندگی کاایک ایک شعبہ اسلام کے زیرِنگیں ہوگا، ہم اپنے سفرِ حیات کی ایک ایک لائن کو شریعتِ محمدیہ کے صراطِ مسقیم پر لائیں گے اور آج کی دکھ بھری دنیا کو بتائیں گے کہ تم جس متاعِ گم گشتہ کی تلاش میں مارے مارے پھر تے ہو وہ حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے نقشِ قدم کی پیروی سے آج بھی مل سکتی ہے۔
اگر ہمارے اربابِ اقتدار نفاق ورزی سے کام نہ لیتے اور اُمتِ مسلمہ کے ساتھ ساتھ خدا اوررسول کو بھی صرف وعدوں اور لیکچروں سے نہ بہلاتے تو یہ ملک واقعۃً اسلام اور سلامتی کا گہوارہ اور پوری دنیا کے لیے مثالی نمونہ ہوتا۔ پاکستان کی اعلیٰ قیادت ایک نئی دنیا کی معمار ہوتی اور آج عالم اسلام کا نقشہ یقینا کچھ اور ہوتا، مگر یہاں بائیس سال سے جو کچھ ہوا اور اس کی جو قیمت پوری قوم کو ادا کر نا پڑی اورہم اس کے نتیجہ میں جس خود غرضی، افراتفری، افتراق وانتشار اور ذلت ونکبت کا شکار ہوئے اس کاتذکرہ رنج والم اور ندامت وخجالت کا موجب ہے۔اسلامی جمہور یہ پاکستان کا مقصد اسی وقت پورا ہوسکتاہے اور اسلامی مملکت کا خواب اسی وقت شر مندۂ تعبیر ہوسکتا ہے، جبکہ یہاں اسلامی آئین نافذ ہو اور اسلامی شریعت اور خدائی قانون کو زندگی کے تمام شعبوں میں جاری کیا جائے، عدلیہ میں قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے مطابق فیصلے کیے جائیں، حدود اللہ کا جراء کیا جائے، اسلامی قانون کتاب وسنت اور فقہ اسلام میں مدون و مرتب موجود ہے، صدیوں اس پر عمل ہوتارہا ہے، وہ آج بھی نافذ کیا جاسکتا ہے۔

کسی ملک کے دارالا سلام بننے کا مدار کس چیز پر ہے؟

تمام علمائے اُمت کا اتفاق ہے کہ کسی خطۂ زمین کے دارالاسلام بننے کا مدار اس بات پر نہیں کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی کا تنا سب کیا ہے، بلکہ اس کا مدار قانونِ اسلام کے نفاذ پر ہے۔ جس ملک میں برسرِ اقتدار طبقہ کی جانب سے عوام کو اسلامی قانون کے فیوض وبر کات سے مستفید ہونے کا موقع نہ دیا جائے ،جہاں کفر اور جاہلیت کا آئین وقانون مسلط ہو اور جہاں کے بے بس عوام مسلسل احتجاج کے باوجود خدائی قانون کے بجائے طاغوتی قانون کے مطابق اپنے مقدمات فیصل کر انے پر مجبور ہوں، اسے ہزار بار مسلمانوں کا ملک کہہ لیجئے، لیکن اسے حقیقی معنی میں اسلامی مملکت اور دارالا سلام کہتے ہوئے حیاآتی ہے۔ اسلام کے گھر میں بھی اگر اسلام کو قدم ٹکانے کی اجازت نہ ہو تو وہ مسلمانوں کا گھر تو ہوسکتا ہے، لیکن کیا دنیا کا کوئی عقلمند اُسے اسلام کا گھر مان لے گا؟ پاکستان اگر واقعی ’’دارالاسلام‘‘ اسلام کا گھر ہے تو یہاں کے دس گیارہ کر وڑ فر زندانِ اسلام اور اس کے قائد ین سے اپیل بے جانہ ہو گی کہ خدا کے لیے اس گھر میں اسلام کو قدم رکھنے کی جگہ دیجئے اورا سے اپنے گھر کی اصلاح کرنے دیجئے۔

اسلام کیا ہے؟

بعض حضرات کی زبانِ فیض تر جمان سے اسلامی اقدار، اسلامی اصول، اسلامی نظریۂ حیات اور اسلامی مساوات جیسے مبہم الفاظ وقتاًفو قتاً سننے میں آتے ہیں، یہ تعبیر بڑی غلط فہمی اور تلبیس کا موجب ہوسکتی ہے۔ اسلام صرف چندمبہم اصولوں یا اعلیٰ اخلاقی قدروں کانام نہیں، بلکہ وہ عقائد، عبادات، معاملات، تعز یر ات اور اخلاق کے تفصیلی قوانین کا مجموعہ ہے ۔اسلام اگر زنا ،چوری، ڈکیتی، قتل، شراب نوشی جیسی گھناؤ نی حرکات کو جرائم قرار دیتا ہے تو ان کے انسدادکے لیے ایک مفصل تعز یراتی نظام بھی دیتا ہے، وہ جہاں معاشی تحفظ کا وعدہ دیتا ہے وہاں اقتصادو معاش کی جائز اور ناجائز صورتیں بھی بتاتا ہے، اگر وہ معاملات میں عدلِ اجتماعی پرزور دیتا ہے تو اس کے لیے ایک دیوانی قانون بھی رکھتا ہے، اگر وہ اصلاحِ معاشرہ کی ذمہ داری لیتا ہے تو اس کے لیے ایک کامل نظامِ ہدایت بھی دیتا ہے۔ 
الغرض زندگی کا کون ساگوشہ ہے جس کے لیے اسلام نے تفصیلی قوانین وضع نہ کیے ہوں، دار الاسلام وہی ہوسکتا ہے اور اسلامی مملکت وہی ہو سکتی ہے جہاں اسلام کی ہمہ گیر فر مانروائی ہو اور جہاں اسلام کے وہ تمام احکام وقوانین جاری ہوں جن کی تفصیلات کتاب وسنت اور فقہ اسلامی میں موجود ہیں اور جن پر آنحضرت a کے عہد سے لے کر زوالِ خلافت کے آخری دور تک عمل ہوتا رہا ہے، جو لوگ اسلام کا نام لیتے ہوئے شر ماتے ہیں اور صرف اسلامی اصول اور اسلامی مساوات جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں ان کے بارے میں یہ اندیشہ غلط نہیں کہ وہ اسلام کے نام پر جاہلیتِ جدیدہ لانا چاہتے ہیں۔
یکم جنوری سے شروع ہونے والا نیا سال ملک میں نئے انقلاب اور نئی تبدیلیوں کا پیغام لارہا ہے ۔ پردۂ غیب سے کیا کچھ طلوع ہوگا؟ اس کا ٹھیک علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، تاہم حالات کی نزاکت بتا تی ہے کہ اس موقع پر ادنیٰ غفلت اور معمولی لغز ش بے حدتباہ کن اور سنگین نتائج کی حامل ہوگی، اس لیے ضروری ہے کہ قوم کا ایک ایک فر دیہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے کہ مجھے کل اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کی جواب دہی کرنا ہوگی۔ اگر خدانخواستہ وقت کی نزاکت کا صحیح احساس نہ کیا گیا اور جس مقصد کی خا طر پاکستان بنا تھا اسے پسِ منظر میں ڈال دیا گیا تو اس کا خمیازہ پوری قوم کو دنیا وآخرت میں بھگتنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی ذمہ داری مارشل لاء حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ عظیم کار نامہ ہے کہ اس نے قوم کے تمام طبقات کے لیے اطمینان بخش پالیسی اختیارکی ہے، اسے اس سے آگے بڑھ کر ایسی پالیسی بھی اختیار کرنی چاہیے جس سے اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) خوش ہوجائیں اور ایسے اقدامات بھی کرنے چاہئیں جن سے اسلامی نظام کے قیام کے امکانات روشن ہوں اور حکومت کو رضائے خداوندی کا تمغہ ملے۔ دوسری ذمہ داری طبقۂ علماء پر عائدہوتی ہے کہ تمام نزاعات کو بالا ئے طاق رکھ کر کامل یکسوئی، جانفشانی اور للہیت کے ساتھ قوم کا ذہن اسلام کے سایۂ رحمت کے لیے تیار کریں۔ تیسری ذمہ داری قوم کے قائد ین اور سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ فروعی اور علاقائی نعروں کو چھوڑ کر صرف اسلام کے لیے کام کریں۔ سب سے آخری اور عظیم ذمہ داری مسلم عوام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف اسلام کے لیے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں۔ یہ گزارشات نہایت اختصار کے ساتھ پیش کی گئی ہیں، ضرورت ہوئی تو ان شاء اللہ! کسی صحبت میں اس پر مفصل معروضات پیش کی جائیں گی۔ 
اے اللہ! ہماری حالتِ زار پر رحم فرما اور ہمیں ایسے اعمال کی تو فیق عطا فرما جس سے توراضی ہو اور ہمیں ایسی حرکات سے بچائیو جو دنیا و آخرت میں تیرے غضب کا موجب ہیں۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ صفوۃ البریۃ محمد وآلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین