بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

قانون کا بنیادی مقصد!

قانون کا بنیادی مقصد!

    اہم ترین مقصد عدل وانصاف کو بروئے کارلانا اور انسانیت کو ظلم وجور اور بہیمیت ودرندگی کے چنگل سے نجات دلانا ہوتا ہے، لیکن اگر خود قانون کجروی اور درندگی کی آماجگاہ بن جائے، قانون ساز اداروں پر ظلم پیشہ درندوں کا تسلط ہوجائے اور وہ اپنی پست اور گھٹیا خواہشات کے مطابق اندھا دھند قانون سازی کرنے لگیں تو ظاہر ہے کہ قانون‘ حفاظتِ عدل کے بجائے ظلم وعدوان کا پشتیبان اور پاسبان بن کر رہ جائے گا۔ اس خطرہ سے بچنے کے لیے ضرورت ہوگی کہ ’’عدل‘‘ کا مفہوم متعین کیا جائے اور اُسے’’ ظلم وعدوان‘‘ سے ممتاز کیا جائے۔ ’’عدل‘‘ کیا ہے؟ اور ’’ظلم‘‘ کسے کہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کے بغیر قانون کا سارا دفتر لغویت وہذیان کا پلندہ بن کر رہ جاتا ہے اور ہمیں یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے اعلیٰ ترین مفکر اور ماہرینِ قانون ’’عدل‘‘ کا ایسا مفہوم متعین کرنے سے عاجز ہیں، جو تمام انسانیت کے لیے یکساں قابل قبول ہو۔      اور جو شخص یہ نہیں جان سکتا کہ ’’عدل‘‘ کیا ہے؟ آخر کس قانون سے اُسے قانون سازی کا حق حاصل ہے؟ ایک حق تعالیٰ ہی کی ذات ایسی ہے جس کا علم کائنات کے ذرہ ذرہ کو محیط ہے اور جس کی رحمت ساری انسانیت بلکہ کائنات کے لیے عام ہے، انسانوں کے کسی خاص گروہ سے اس کا مفاد وابستہ نہیں، وہی انسانیت کے لیے ’’عدل‘‘ کا ٹھیک ٹھیک مفہوم متعین کرسکتا ہے اور اسی کا نازل کردہ قانون ’’قانونِ عدل‘‘ کہلانے کا مستحق ہے۔ قانونِ الٰہی کے سوا دنیا کے خود تراشیدہ قانون نہ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرسکتے ہیں، نہ انسانیت کو ظلم وستم کے آہنی پنجے سے نجات دلاسکتے ہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ‘‘۔                                                      (الحدید:۲۵) ترجمہ:…’’ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلے کھلے احکام دے کر بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب کو اور انصاف کے ترازو کو نازل کیا، تاکہ لوگ اعتدال پر قائم رہیں‘‘۔     جرم اور سزا کے درمیان وہی رشتہ ہے جو مرض اور دوا کے درمیان ہے۔ ایک ماہر طبیب مرض کی نوعیت، اس کے اسباب وعوارض اور اس کے آثار ونتائج کو سمجھتا ہے، مریض کی عادات ونفسیات کا بغور مطالعہ کرتاہے، اس کے محلِ بود وباش اور تقاضا ئے سن وسال کو سوچ سمجھ کر اس کے لیے نسخہ تجویز کرتا ہے، طریقۂ استعمال بتاتا ہے، غذا وپرہیز کی بابت ہدایات دیتا ہے۔ لیکن ایک عطائی کو ان چیزوں سے سروکار ہے نہ اہلیت، اس نے کہیں سے سن لیا کہ فلاں مرض کے لیے فلاں دوا مفید ہے، بس! وہ دوا اٹھائی اور لوگوں کو دینا شروع کردی، اس کے بعد مریض کی قسمت کہ وہ جیے یا مرے۔ انسانیت کے سب سے بڑے امراض وجرائم اور اُن کا علاج     جرائم انسانیت کے سب سے بڑے امراض ہیں اور قانون کے ذریعہ ان امراض کا علاج کیا جاتا ہے۔ قانون کا سب سے مشکل مرحلہ جرم اور سزا کے درمیان توازن کا قائم کرنا ہے اور ایسی ترازو دنیا کے کسی کارخانے میں تیار نہیں ہوتی، جس سے جرم کے آثار ونتائج کا وزن کرکے اس کے ہم وزن سزا تجویز کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی قانون کی تمام تردرازدستیوں کے باوجود ’’مہذب ممالک‘‘میں گھناؤ نے جرائم کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جارہی ہے اور جب تک دنیا اس ’’انبیائی میزان‘‘ کے مطابق جرم وسزا کا موازنہ نہیں کرتی، اُس وقت تک انسانیت پر جنگل کا قانون نافذ رہے گا اور انسانیت ظلم وعدوان کے پنجے میں سسکتی بلکتی رہے گی۔     یہی میزانِ نبوت ہمیں بتاتی ہے کہ ’’زنا‘‘ اپنے اندر تعفن اور گندگی کی کتنی مقدار رکھتا ہے اور اس کا علاج کتنے پتھروں یا کوڑوں سے ہونا چاہیے اور کسی کے مال پر ناجائز ہاتھ ڈالنا کتنا بڑا معاشرتی روگ ہے اور اس کا علاج صرف ’’ہاتھ کاٹنے‘‘ سے ہوسکتا ہے۔ جو شخص فالج کا علاج کونین سے اور موتیا بند کی تدبیر ’’اسپرو‘‘ سے کرنا چاہتا ہے، وہ جاہل‘ مریض کا دوست نہیں دشمن ہے اور جو شخص قتل کا علاج اتنے سال کی قید سے اور ڈکیتی کا علاج اتنے ماہ کی قید سے کرنا چاہتا ہے، وہ قانون ساز نہیں، انسانیت کا قاتل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مہذب ممالک کے جیل خانے جرائم کی تربیت گاہ بن کر رہ گئے ہیں۔ مجرم جب سزا کاٹ کر واپس آتے ہیں تو مرضِ جرم سے شفایاب ہوکر نہیں نکلتے، بلکہ عادی مجرم بن کر آتے ہیں۔ الا ما شاء اﷲ! اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا کامل ومکمل آخری قانون     خدائے برتر کا آخری قانون اپنی جامع اور کامل ترین صورت میں حضرت خاتم النبیین محمد رسول اﷲa پر نازل ہوا، اس نے انسانیت کے لیے عدل وانصاف، مودت ورحمت، ہمدردی وخیر خواہی، اُخوت ومواسات اور سکون واطمینان کی وہ فضاپیدا کی، جس کی مثال چشم فلک نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ یہ ایک ایسا خود کار نظام تھا جس کی بدولت اول تو جرائم کی تعداد گھٹتے گھٹتے صفر کے نقطہ تک پہنچ گئی تھی اور کبھی سہو یا بشریت کی بنا پر کوئی جرم کسی سے صادر ہو ہی جاتا تو مجرم خود ہی’’ طَہِّرْنِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!‘‘ (یا رسول اللہ! مجھے سزا دے کر پاک کردیجئے!) کا نعرہ لگاتے ہوئے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہوتا، اور جب تک عدالتِ نبوت اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کردیتی، اس کے ضمیرکی خلش، ایمان کی حرارت اور محاسبۂ آخرت کی فکر اُسے مسلسل بے چین کیے رکھتی۔ نہ کسی کو کسی سے شکایت، نہ کوئی طبقاتی مسئلہ، نہ کوئی اقتصادی الجھن، نہ کوئی سیاسی آویزش۔ کیا آج کاترقی یافتہ، لیکن بے حد مظلوم انسان اس کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ یہ تھی اسلامی شریعت! جس نے دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیا۔ آنحضرت a کا ارشاد ہے: ’’قَدْ جِئْتُکُمْ بِالسَّمْحَۃِ الْبَیْضَائِ لَیْلُہَا وَنَہَارُہَا سَوَائٌ۔‘‘ (ابن ماجہ،ص:۲،ط:قدیمی) ترجمہ:…’’میں تمہارے پاس ایسی آسان اور روشن شریعت لایا ہوں، جس کے رات دن یکساں روشن ہیں۔‘‘     پاکستان اس مقصد کے لیے معرض وجود میں آیا تھا کہ اُسے ’’دار الأمن والإیمان ومہد السلامۃ والإسلام‘‘ ایمان واسلام کا گھر اور امن وسلامتی کا گہوارہ بنایا جائے گا۔’’ لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کا واسطہ دے کر ہم نے خدا ورسول سے، نیز دس کروڑ مسلمانوں سے عہد کیا تھا کہ اس ’’مملکتِ خداداد‘‘ کا آئین اسلام ہوگا، ہماری اجتماعی زندگی کا ایک ایک شعبہ اسلام کے زیرنگیں ہوگا، ہم اپنے سفرِ حیات کی ایک ایک لائن کو شریعتِ محمدیہ کے صراط مستقیم پر لائیں گے اور آج کی دُکھ بھری دنیا کو بتائیںگے کہ تم جس متاعِ گم گشتہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہو، وہ حضرت محمدa کے نقش قدم کی پیروی سے آج بھی مل سکتی ہے۔     اگر ہمارے اربابِ اقتدار نفاق ورزی سے کام نہ لیتے اور امتِ مسلمہ کے ساتھ ساتھ خدا ورسولؐ کو بھی صرف وعدوں اورلیکچروں سے نہ بہلاتے تو یہ ملک واقعۃً اسلام اور سلامتی کا گہوارہ اور پوری دنیا کے لیے مثالی نمونہ ہوتا، پاکستان کی اعلیٰ قیادت ایک نئی دنیا کی معمار ہوتی اور آج عالمِ اسلام کا نقشہ یقینا کچھ اور ہوتا۔ مگر یہاں بائیس سال سے جو کچھ ہوا اور اس کی جو قیمت پوری قوم کو ادا کرنا پڑی اور ہم اس کے نتیجہ میں جو خود غرضی، افراتفری، افتراق وانتشار اور ذلت ونکبت کا شکار ہوئے، اس کا تذکرہ رنج والم اور ندامت وخجالت کا موجب ہے۔     اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے اور اسلامی مملکت کا خواب اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے، جبکہ یہاں اسلامی آئین نافذ ہو اور اسلامی شریعت اور خدائی قانون کو زندگی کے تمام شعبوں میں جاری کیا جائے، عدلیہ میں قرآن وسنت اور فقہِ اسلامی کے مطابق فیصلے کیے جائیں، حدود اللہ کا اجراء کیا جائے۔ اسلامی قانون، کتاب وسنت اور فقہ اسلامی میں مدون ومرتب موجود ہے، صدیوں اس پر عمل ہوتا رہا ہے، وہ آج بھی نافذ کیا جاسکتا ہے۔ کسی ملک کے دار الاسلام بننے کا مدار کس چیز پر ہے؟     تمام علمائے امت کا اتفاق ہے کہ کسی خطۂ زمین کے دار الاسلام بننے کا مدار اس بات پر نہیں کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کیا ہے، بلکہ ا س کا مدار قانونِ اسلام کے نفاذ پر ہے۔ جس ملک میں بر سرِ اقتدار طبقہ کی جانب سے عوام کو اسلامی قانون کے فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کا موقع نہ دیا جائے، جہاں کفر اور جاہلیت کا آئین وقانون مسلط ہو اور جہاں کے بے بس عوام مسلسل احتجاج کے باوجود خدائی قانون کے بجائے طاغوتی قانون کے مطابق اپنے مقدمات فیصل کرانے پر مجبور ہوں، اُسے ہزار بار مسلمانوں کا ملک کہہ لیجئے، لیکن اُسے حقیقی معنی میں اسلامی مملکت اور دارالاسلام کہتے ہوئے حیا آتی ہے۔ ’’اسلام کے گھر‘‘ میں بھی اگر اسلام کو قدم ٹکانے کی اجازت نہ ہو تو وہ مسلمانوں کا گھر تو ہوسکتا ہے، لیکن کیا دنیا کا کوئی عقلمند اُسے ’’اسلام کا گھر‘‘ مان لے گا؟ پاکستان اگر واقعی ’’دار الاسلام‘‘ اسلام کا گھر ہے تو یہاں کے دس گیارہ کروڑ فرزندانِ اسلام اور اس کے قائدین سے اپیل بے جانہ ہو گی کہ خدا کے لیے اس گھر میں اسلام کو قدم رکھنے کی جگہ دیجیے او راُسے اپنے گھر کی اصلاح کرنے دیجیے۔ اسلام کیا ہے؟     بعض حضرات کی زبانِ فیض ترجمان سے ’’اسلامی اقدار‘‘،’’ اسلامی اصول‘‘، ’’اسلامی نظریۂ حیات‘‘ اور ’’اسلامی مساوات‘‘ جیسے مبہم الفاظ وقتاً فوقتاً سننے میں آتے ہیں۔ یہ تعبیر بڑی غلط فہمی اور تلبیس کا موجب ہوسکتی ہے۔ اسلام صرف چند مبہم اصولوں یا اعلیٰ اخلاقی قدروںکا نام نہیں، بلکہ وہ عقائد، عبادات، معاملات، تعزیرات اور اخلاق کے تفصیلی قوانین کا مجموعہ ہے۔ اسلام اگر زنا، چوری، ڈکیتی، قتل، شراب نوشی جیسی گھناؤنی حرکات کو جرائم قرار دیتا ہے تو ان کے انسداد کے لیے ایک مفصل تعزیراتی نظام بھی دیتا ہے۔ وہ جہاں معاشی تحفظ کا وعدہ دیتا ہے، وہاں اقتصاد ومعاش کی جائز اور ناجائز صورتیں بھی بتاتا ہے۔ اگر وہ معاملات میں عدلِ اجتماعی پر زور دیتا ہے تو اس کے لیے ایک دیوانی قانون بھی رکھتا ہے۔ اگر وہ اصلاحِ معاشرہ کی ذمہ داری لیتا ہے تو اس کے لیے ایک کامل نظامِ ہدایت بھی دیتا ہے۔ الغرض زندگی کا کون سا گوشہ ہے، جس کے لیے اسلام نے تفصیلی قوانین وضع نہ کیے ہوں۔’’ دار الاسلام ‘‘وہی ہوسکتا ہے اور اسلامی مملکت وہی ہوسکتی ہے جہاں اسلام کی ہمہ گیر فرماںروائی ہو اور جہاں اسلام کے وہ تمام احکام وقوانین جاری ہوں جن کی تفصیلات کتاب وسنت اور فقہِ اسلامی میں موجود ہیں اور جن پر آنحضرت a کے عہد سے لے کر زوالِ خلافت کے آخری دور تک عمل ہوتا رہا ہے۔ جو لوگ ’’اسلام‘‘ کا نام لیتے ہوئے شرماتے ہیں اور صرف اسلامی اصول اور اسلامی مساوات جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، ان کے بارے میں یہ اندیشہ غلط نہیں کہ وہ اسلام کے نام پر’’ جاہلیت جدیدہ‘‘ لانا چاہتے ہیں۔     یکم جنوری سے شروع ہونے والا نیا سال ملک میں نئے انقلاب اور نئی تبدیلیوں کا پیغام لارہا ہے۔ پردۂ غیب سے کیا کچھ طلوع ہوگا؟ اس کا ٹھیک علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، تاہم حالات کی نزاکت بتاتی ہے کہ اس موقع پر ادنیٰ غفلت اور معمولی لغزش بے حد تباہ کن اور سنگین نتائج کی حامل ہوگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ قوم کا ایک ایک فرد یہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے کہ مجھے کل اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کی جواب دہی کرنا ہوگی۔ اگر خدانخواستہ وقت کی نزاکت کا صحیح احساس نہ کیاگیا اور جس مقصد کی خاطر پاکستان بنا تھا، اُسے پس منظرمیں ڈال دیا گیا تو اس کا خمیازہ پوری قوم کو دنیا وآخرت میں بھگتنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی ذمہ داری مارشل لاء حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ اس نے قوم کے تمام طبقات کے لیے اطمینان بخش پالیسی اختیار کی ہے، اسے اس سے آگے بڑھ کر ایسی پالیسی بھی اختیار کرنی چاہیے، جس سے اللہ اور رسولؐ خوش ہوجائیں اور ایسے اقدامات بھی کرنے چاہئیں جس سے اسلامی نظام کے قیام کے امکانات روشن ہوں اور حکومت کو رضائے خداوندی کا تمغہ ملے۔ دوسری ذمہ داری طبقۂ علماء پر عائد ہوتی ہے کہ تمام نزاعات کو بالائے طاق رکھ کر کامل یکسوئی، جانفشانی اور للہیت کے ساتھ قوم کا ذہن اسلام کے سایۂ رحمت کے لیے تیار کریں۔ تیسری ذمہ داری قوم کے قائدین اور سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ فروعی اور علاقائی نعروں کو چھوڑ کر صرف اسلام کے لیے کام کریں۔ سب سے آخری اور عظیم ذمہ داری مسلم عوام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف اسلام کے لیے اپنا ’’حق رائے دہی‘‘ استعمال کریں۔ یہ گزارشات نہایت اختصار کے ساتھ پیش کی گئی ہیں۔ اے اللہ! ہماری حالتِ زار پر رحم فرما اور ہمیں ایسے اعمال کی توفیق عطا فرماجس سے تو راضی ہو اور ہمیں ایسی حرکات سے بچائیو، جو دنیا وآخرت میں تیرے غضب کا موجب ہیں۔ وصلی اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہٖ صفوۃ البریۃ محمد وآلہٖ وصحبہٖ أجمعین ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین