بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

بینات

 
 

قادیانیت سے متعلق علماء کا مشترکہ پارلیمانی کردار --- اور ایک غلط بیانی کی حقیقت

قادیانیت سے متعلق علماء کا مشترکہ پارلیمانی کردار

 

اور ایک غلط بیانی کی حقیقت


بریلوی مکتب فکر کے بڑے رہنما مفتی منیب الرحمٰن صاحب جو عرصہ دراز تک روئیتِ ہلال کمیٹی کے سربراہ رہے اور اتحادِ تنظیماتِ مدارسِ دینیہ کے سرکردہ رہنما کی حیثیت سے ان کا کردا ر نہایت مناسب دیکھا گیا۔ کئی سالوں سے اخبارات کے ذریعہ انتہائی معتدل تحریریں اُن کے اتحادِ امت کے جذبہ کی گواہی دیتی رہیں، مگر ہلال کمیٹی کا عہدہ چھن جانے اور یہ منصب مولانا عبدالخبیر آزاد صاحب کو ملنے کے بعد اُن کے رویہ میں نہ صرف تبدیلی دیکھی جانے لگی، بلکہ کئی مواقع پر جارحانہ انداز اُن کے سابقہ کردار کو چڑاتا دکھائی دیا۔ عید الفطر کے چاند کے حوالے سے ان کا کردار انتہائی گھنائونا تھا اور انہوں نے تو اُمت کو دولخت کرنے کی ٹھانی، مگر جرأت کے فقدان نے انہیں ایک مبہم اعلان تک محدود کر دیا کہ: ’’کل عید بھی نہیں، روزہ بھی نہ رکھیں اور نمازِ عید بھی پرسوں ادا کریں۔‘‘ یہ اُمت میں تفریق کی اپنی سی ایک ناکام کوشش تھی۔
حالیہ ستمبر کی ہر سو ختمِ نبوت کی بہار اور کامیاب کانفرنسوں کے بعد انہیں اور کوئی موقع نہ مل سکا، تو عجیب منطق اختیار کی، ایک بڑے اجتماع میں اپنے سامعین کے جذبات کو دیوبندی علماء کے خلاف بھڑکاتے ہوئے اور عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے کر دار کو مجروح کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے کہ اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے والے صرف ایک علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ تھے، کسی اور کا نام نہیں، باقی سب تائید کنندے تھے، محرک صرف ایک تھے اور یہ موقع صدیوں بعد کسی کو ملتا ہے، جو اہلِ سنت کے نمائندے تھے۔ عالمی مجلس کے لوگوں نے جو کتاب لکھی، اس میں مفتی محمود کا نام لکھ دیا، جسے آپ چیلنج کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ریکارڈ ہے، تاریخ ہے، چیلنج کریں۔ 
دوسری ہرزہ سرائی یہ فرمائی کہ : پنڈی کے دو خطیب جو جمعیت علماء اسلام کے ٹکٹ پر ایم این اے تھے اور پیپلز پارٹی کو پیارے ہو چکے تھے، یعنی مولانا غلام غوث ہزاروی صاحب ؒ اور مولانا عبدالحکیم صاحبؒ ان دونوں نے اس قرارداد پر دستخط تک نہ کیے، جب کہ ستر کے قریب دنیا داروں نے دستخط کر دیئے۔ 
ان معز ز مفتی صاحب کے اس فتنہ پرور بیان کو سن کر یہ ضروری جانا کہ اصل حقائق لکھ دیئے جائیں، تاکہ ریکارڈ بھی درست رہے اور عوام کو حقیقی معلومات تک رسائی بھی ہو اور ان صاحب کا اپنے بڑے کی پیروی کرتے ہوئے دجل بھی واشگاف ہو جائے۔ 
جہاں تک قرارداد کا تعلق ہے، وہ نورانی صاحبؒ نے ضرور پیش کی اور مولانا اللہ وسایا صاحب نے اپنی کتاب تحریکِ ختمِ نبوت جلد نمبر:۳، صفحہ :۳۱۹ کی سطر نمبر:۷ پر واضح طور پر یوں تحریر کیا ہوا ہے کہ:
’’قومی اسمبلی میں قادیانیوں کے مسئلہ سے متعلق حزبِ اختلاف کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی ؒ نے جو قرارداد پیش کی الخ..........۔‘‘
لہٰذا اس جگہ مفتی منیب صاحب کی دونوں باتوں کی نفی ہو گئی کہ کتاب میں مفتی محمود صاحبؒ کا نام ہے اور دوسرا یہ نورانی صاحبؒ قرارداد پیش کرنے والے ایک ہیں، کسی دوسرے کا نام نہیں۔ 
یہاں نورانی صاحبؒ کا نام جلی حروف میں ہے اور قرار داد متفقہ طور پر اپوزیشن کی ہے، جسے پیش کرنے کی سعادت نورانی صاحبؒ کے حصہ میں آئی۔ بلا شبہ یہ اُن کا اعزاز ضرور ہے، مگر یہ اعزاز اُنہیں سونپا گیا ہے۔ اس قرار داد پر جو دستخط ہیں وہ ۲۲ممبران کے ہیں اور پہلا نام مفتی محمودصاحبؒ کا اور دوسرا نورانی صاحبؒ اور تیسرا عبدالمصطفیٰ الازہری صاحب کا ہے۔ اس امر کو جو ایک انتہائی نیک مقصد تھا، نہ تو اِسے اناء کامسئلہ بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ذریعۂ تفاخر۔ یہ اس پوری کارروائی کا نیک عمل تھا، جس کی تفصیل عنقریب سامنے آتی ہے۔ 
آگے جانے سے پہلے قرار داد کی حقیقت جاننے کے لیے اسمبلی کی کارروائی جو من و عن پانچ جلدوں میں چھپ چکی ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کسی حرف کی کمی یا زیادتی نہیں کی گئی، بلکہ جو ریکارڈ اسمبلی میں مرتب ہوا، وہ ہی کتابی صورت میں ہے۔ اس کی جلد نمبر:۴کے صفحہ نمبر :۱۸۳۷ پر ۲۹؍اگست ۱۹۷۴ء کی کارروائی نقل ہے۔ کتاب کے اس صفحہ کی سطر نمبر:۳سے یہ عبارت ہے:
’’ایک ریزولوشن پیر زادہ صاحب نے موو کیا۔ ایک ریزولوشن بائیس ممبر صاحبان نے پیش کیا، ایک ریزولوشن تین ممبر صاحبان نے پیش کیا ہے، ایک ملک جعفر صاحب نے پیش کیا ہے، وہ چار ریزولوشن اکٹھے Conseder (شمار) ہوں گے۔ یہ نہیں کہ پہلے ایک ریزولوشن پر بحث ہو جائے، پھر دوسرے پر، پھر تیسرے پر، چاروں ریزولوشنز جو ہیں وہ اکٹھے Conseder(شمار) ہوں گے۔ ایک ریزولوشن سردار شوکت حیات نے بھی پیش کیا تھا۔ 
جناب نعمت اللہ خان شنواری: سر ایک ہمارا بھی تھا۔ ‘‘

سات قرار دادیں

یہ اسمبلی کی کارروائی کے ریکارڈ کی نقل ہے۔ کل سات قراردادیںہیں، ایک حکومت کی جو پیرزادہ نے پیش کی، ایک اپوزیشن کے بائیس ممبران کی جو نورانی صاحب نے پیش کی۔ ان میں جو تین ممبران والی قرار داد ہے، وہ مولانا غلام غوث ہزاروی صاحبؒ اور مولانا عبدالحکیم صاحبؒ کی طرف سے ہے اور اس کا ذکر اسی جلد نمبر:۴کے صفحہ نمبر:۱۸۳۲ کی سطر نمبر:۸ سے یوں ہے: 
’’مولانا غلام غوث ہزاروی : جناب چیئر مین صاحب! پہلے ایک قرار داد پیرزادہ صاحب نے پیش کی، پھر اپوزیشن ممبران نے پیش کی ایک قرار داد اور وہاں تو تجویز یا عبارت تھی۔ کوئی ایک تجویز ہم نے پیش کی تھی، وہ تجویز نہیں بلکہ بل تھا۔ ہم نے تین ممبران کی طرف سے ایک تجویز پیش کی، وہ باقاعدگی کے ساتھ وہاں داخل ہوئی۔ ‘‘
یہ تو ہوئی شہادت اس بات کی کہ مولانا نورانی صاحبؒ نے اپوزیشن کے ۲۲ممبران کی طرف سے ایک متفقہ قرار داد اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے تین ممبران کی طرف سے قرار داد اسمبلی میں جمع کرائی، جو کہ اسمبلی کے ریکارڈ میں درج شدہ اور محفوظ ہے۔ اب آتے ہیں اصل حقیقت کی طرف:
واقعہ یوں ہے کہ :
ریل میں سفر کرنے والے طلبہ کے ڈبے پر ربوہ ریلوے سٹیشن پر ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو قادیانی غنڈوں نے حملہ کرکے انہیں شدیدزخمی بلکہ آدھ مویا کردیا۔ یہ خبر ریل گاڑی کے ربوہ سے فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پہنچنے سے قبل ہی عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے مرکزی رہنما اور فیصل آباد کے خطیب حضرت مولانا تاج محمود صاحبؒ تک پہنچ گئی اور انہوں نے اطلاع ملتے ہی ہر طرف رابطے کرکے قادیانی سازش اور ظلم و بربریت سے تمام متعلقین کو نہ صرف باخبر کیا، بلکہ سٹیشن پر ہر قسم کی طبی سہولتوں کے علاوہ دیگر انتظامی و ضروری ضروریات کا مکمل انتظام کرکے خود ایک بہت بڑے جلوس کی قیادت میں زخمی طلبہ کے استقبال کے لیے آموجود ہوئے۔ ڈاکٹروں کی ٹیم نے بھی امداددی، مناسب خوراک اور دوائیوں کا انتظام ہوا۔ ڈی سی، ایس پی کی آمد ہوئی اور ضابطے کی کارروائی بھی ہوئی اور بحفاظت سفر کو آگے جاری رکھنے کے انتظامات مکمل کیے۔ یہ سب کچھ عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے قائد مولانا تاج محمود صاحبؒ اور اُن کی ٹیم نے ممکن بنایا۔ 
عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے امیرِ مرکزیہ حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ جو اس وقت سوات کے دور دراز علاقے کالام میں تبلیغی پروگرام میں مصروف تھے۔ خصوصی نمائندہ کے ذریعے ان تک رسائی کرکے حالات سے مطلع کیا، وہ اپنا پروگرام معطل کرکے راولپنڈی آموجود ہوئے۔ باہمی مشاورت اور ضروری رابطوں کے بعد ۳؍جون کو راولپنڈی میں علامہ بنوریؒ نے تمام مکاتبِ فکر کے علماء وزعماء پر مشتمل مجلسِ عمل کے قیام کے بعد پہلا اجلاس طلب کیا۔ دوسرا اجلاس ۹؍جون کو لاہور میں ہوا اور اس اجلاس میں تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء نے متفقہ طور پر حضرت بنوریؒ کو کنوینئر مقرر کیا۔ پھر ۱۶؍جون کو باقاعدہ اجلاس میں مجلسِ عمل کے ضروری فیصلے کیے گئے اور آئندہ کی کارروائی کے لیے حضرت بنوریؒ کو مجلسِ عمل کا امیر اور مولانا محمد احمد رضوی کو سیکرٹری نامزد کر دیا گیا۔ 
۲۹؍جون ۱۹۷۴ء کو مجلسِ عمل کا اجلاس حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ کی سربراہی میں راولپنڈی میں منعقد ہوا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعظم صاحب کے وعدہ کے مطابق ۳۰؍ جون کو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے اسمبلی میں بل پیش کیا جائے اور بل کی منظوری تک اجلاس جاری رکھا جائے۔ (صفحہ نمبر:۳۰۰، تحریکِ ختمِ نبوت، جلد سوم) 
یہ فیصلہ بھی کر دیا گیا کہ حکومت کی طرف سے ۳۰؍جون کو قومی اسمبلی میں تحریک پیش کیے جانے کی صورت میں حزبِ اختلاف فوری طور پر اس میں ترمیم پیش کرے گی، جس سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ (صفحہ :۳۰۱، ایضاً)
۳۰؍جون کے اجلاس میں قادیانی مسئلہ سے متعلق حکمران پارٹی کی ایک تحریک اور حزبِ اختلاف کی ایک قرار داد ایوان کی خاص کمیٹی کے سپرد کردی۔ (صفحہ: ۳۱۸، ایضاً)
قومی اسمبلی میں آج صبح قادیانیوں کے مسئلہ سے متعلق حزبِ اختلاف کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی نے جو قرار داد پیش کی، اس پر ۲۳؍ممبران کے دستخط تھے۔ (صفحہ :۳۱۹، ایضاً)
یاد رہے کہ یہ قرار داد مجلسِ عمل کی سفارش پر متحدہ اپوزیشن کی طرف سے جمع کرائی گئی اور جسے پیش کرنے کے لیے مولانا نورانی ؒ کا انتخاب ہوا۔
اسی دن دو گھنٹے کے وقفے کے بعد ساڑھے بارہ بجے اجلاس شروع ہوا اور وزیرِ قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کی تحریک اور اپوزیشن کی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے ایوان کی رائے کے مطابق تمام ممبران پر مشتمل ایک خاص کمیٹی کے سپرد کر دی۔ (صفحہ:۳۲۰، ایضاً)
مرکزی مجلسِ عمل کے ۲؍جولائی ۱۹۷۴ء کے اجلاس میں قومی اسمبلی میں قادیانیوں سے متعلق اپوزیشن کی پیش کردہ قرارداد پر اظہارِ اطمینان کیا۔ (صفحہ نمبر: ۳۲۲، ایضاً)
سپیکر کی صدارت میں ایوان کی اس خاص کمیٹی کے اجلاس میں کمیٹی کی کارروائی کے بارے میں ضابطہ کار طے ہوا اور فیصلہ کیا گیا کہ ۵؍جولائی تک قراردادیں، تجاویز اور مشورے وصول ہوں گے اور اگلا اجلاس بدھ کو ہوگا اور کمیٹی کی کارروائی کے ضمنی رولز تیار کیے جائیں گے۔ (صفحہ نمبر :۳۲۸، ایضاً)
قومی اسمبلی کے ۵؍جولائی کے اجلاس میں ایک بارہ رکنی رہبر کمیٹی بشمول مولانا غلام غوث ہزاروی، مفتی محمود اور مولانا نورانی تشکیل دی گئی۔ (صفحہ :۳۴۵، ایضاً)
۱۳؍ جولائی کو رہبر کمیٹی نے انجمن احمدیہ ربوہ اور انجمن اشاعت اسلام لاہور کے تحریری بیان اور مسودات پر غور کیا۔ (صفحہ: ۳۶۷، ایضاً) 
تمام ممبران پر مشتمل اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں ۵؍اگست سے ۱۰؍اگست تک ۶؍ دن اور ۲۰؍اگست سے ۲۴؍اگست تک ۵؍دن کل گیارہ دن مرزا ناصر احمد چیف آف قادیانی گروپ اور ۲۷اور ۲۸؍اگست ۲؍دن صدر الدین وغیرہ لاہوری گروپ پر جرح ہوئی، یہ کل تیرہ دن قادیانی و لاہوری گروہ پر جرح ہوئی۔ 
اس کے بعد طے شدہ طریقہ کار کے مطابق فیصلہ ہوا کہ اپنی اپنی قراردادوں پر پہلے ان کے محرکین اپنا وضاحتی بیان دیں گے۔ صفحہ نمبر : ۱۸۳۵ جلد نمبر:۴، اسمبلی میں قادیانی مسئلہ پر بحث کی مصدقہ رپورٹ، یہاں انگریزی میں ہے:
اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کل جماعتی مرکزی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت کی طرف سے ملتِ اسلامیہ کا قادیانی فتنہ کے خلاف موقف پیش کرنے کی بھر پور تیاری کی گئی۔ پارک ہوٹل کو مرکزی قیام گاہ بناکر عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کی مرکزی لائبریری ملتان سے قادیانیت کی کتب اور اخبارات کا ایک ذخیرہ منتقل کیا گیا۔ مذہبی بحث کو لکھنے کا عمل مولانا محمد تقی عثمانی صاحب کے ذمہ اور سیاسی بحث لکھنے کا عمل مولانا سمیع الحق صاحب کے ذمہ لگایا گیا۔ دونوں حضرات راولپنڈی آموجود ہوئے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب کے معاون حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ اور مولانا عبدالرحیم اشعر صاحبؒ تھے، جبکہ مولانا سمیع الحق صاحبؒ کے معاون، مولانا تاج محمود صاحبؒ اور مولانا شریف جالندھریؒ تھے۔ دن بھر کی اسمبلی کی کارروائی میں شرکت کے بعد حضرت مولانا مفتی محمود صاحبؒ، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صاحبؒ اور چوہدری ظہور الہٰی صاحبؒ اورجناب پروفیسر غفور احمد صاحبؒ وغیرہ حضرات پارک ہوٹل میں مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے یہاں آتے اور ملتِ اسلامیہ کا موقف یعنی محضر نامہ جتنا لکھا جا چکا ہوتا، اس کی سماعت کرتے۔ حضرت پیر طریقت شاہ نفیس الحسینی صاحبؒ اپنے شاگرد خوش نویسوں کی ٹیم کے ہمراہ جو مکمل ہوجاتا اس کی کتابت کا فریضہ سرانجام دیتے۔ جب ۲۸؍ اگست کو قادیانیوں پر جرح کا عمل مکمل ہوا، یہ لکھا ہوا محضر نامہ یا ملتِ اسلامیہ کا موقف جو درحقیقت پیش کی گئی قراداد کی حقیقی وضاحت و تفصیل تھی، مفتی محمود صاحبؒ نے ۲۹اور ۳۰؍اگست کو دو دن میں خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں پڑھ کر سنادیا۔ یہ مکمل بیان جو ملتِ اسلامیہ کا موقف اور چار ضمیمہ جات پر مشتمل تھا، ضمیمہ نمبر:۱ فیصلہ مقدمہ بہاولپور، ضمیمہ نمبر :۲ فیصلہ مقدمہ راولپنڈی، ضمیمہ نمبر:۳، فیصلہ مقدمہ جیمس آباد، ضمیمہ نمبر:۴ فیصلہ مقدمہ جی ڈی گھوسلہ گورداسپور۔ یہ سارا عمل دو دن میں مکمل ہوا۔ (دراصل یہ جملہ کہ محضر نامہ مفتی محمود صاحبؒ نے پیش کیا، مفتی منیب صاحب کی غلط فہمی کا اصل سبب بنا)۔ مولانا غلام غوث ہزاروی صاحبؒ نے اپنا محضر نامہ تیار کیا جو مولانا عبدالحکیم صاحبؒ نے ۳۰؍اگست کے اجلاس کے آخری حصہ میں اور ۳۱؍اگست کو پڑھا، پھر دوسرے محرکینِ قرار داد نے اپنا اپنا موقف پڑھا اور عام بحث کا عمل خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں ۳، ۴، ۵ستمبر تک جاری رہا۔ ۶؍ستمبر کو اٹارنی جنرل جناب یحییٰ بختیارؒ کے بیان پر بحث پر اختتام پذیر ہوئی۔ پھر ۷؍ستمبر کو وہ تاریخی فیصلہ ہوا جو امتِ مسلمہ کے اتحاد و اتفاق اور مشترکہ محنت و کاوش کا حقیقی ثمرہ ہے، جس کے تحت قادیانی آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دے دیئے گے۔ 
یہ کتھا سنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سوسالہ فتنہ کی سرکوبی کے لیے جو جدوجہد اُمت کے علماء وزعماء کرتے رہے، اس کو انجام تک پہنچانے کے لیے یہ آخری معرکہ، باہمی اتحاد و اتفاق کے ساتھ متحدہ مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت کے پلیٹ فارم پر اسمبلی کے باہر اور اسمبلی کے اندر انتہائی اخلاص کے ساتھ عمل پذیر ہو کر نتیجہ خیز ہوا۔ یقیناً یہ ان تمام حضرات کے اخلاص و للہیت کی برکت ہے جو بغیر کسی کریڈٹ کی طلب اور نام ونمود کے حصول کے ہمہ تن مصروفِ کار رہے، اور جو جس کے حصہ میں آیا، اس نے پوری تندہی، دیانت داری اور ہمت و جرأت کے ساتھ اُسے خوب نبھایا۔ اللہ تعالیٰ سب کے عمل کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور آئندہ بھی ملتِ اسلامیہ کو دین حق کی سربلندی کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور فتنہ پردازوں اور تفرقہ بازوں سے اس امت کو محفوظ فرمائے، آمین یار ب العالمین بحرمۃ سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وصحبہٖ أجمعین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین