بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

قادیانیت اور ایک بار پھر تحریف قرآن کا گھناؤنا جرم!

قادیانیت اور ایک بار پھر تحریف قرآن کا گھناؤنا جرم!

 

الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

انگریز نے برصغیر پر تسلُّط جمایا، مسلم عوام کے درمیان افتراق، انتشار اور تقسیم پیدا کرنے کے لیے خود کاشتہ پودا قادیانیوں کی صورت میں پیوست وپیوند کیا۔ علماء کرام اور مسلم عوام کی قربانیوں کی بدولت اگرچہ انگریز تو یہاں سے بھاگ گیا ، لیکن اپنے خود کاشتہ پودے اور اپنی ناپاک ذریت قادیانیوں کو یہاں چھوڑ گیا، جنہوں نے انگریزوں کے جانے کے بعد یہاں کی حکومت کے خواب دیکھنا شروع کردیئے، تقسیمِ ہند کے بعد قادیان سے بھاگ کر پاکستان چناب نگر کو اپنا مرکز اور ہیڈ کوارٹر بنالیا۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک میں دس ہزار مسلمانوں کی قربانیوں نے ان کے کفر کو مزید آشکارا کیا۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک جو اُن کی کارستانیوں کی بدولت وجود میں آئی، قادیانیت کا یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں پہنچا، مرزا ناصر کی درخواست پر قومی اسمبلی میں ان کو بلاکر ان کا موقف سناگیا، اور اس پر ۱۳ دن جرح ہوتی رہی، بالآخر قومی اسمبلی نے اُن کو متفقہ طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت ہونے کا بل تو پاس ہوگیا، لیکن کچھ سیاسی حالات کے دگرگوں ہونے اور کچھ مذہبی جماعتوں کے باہم اختلاف نے قانون سازی کے مرحلہ کو دور کردیا۔ ۱۹۸۴ءمیں امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس کی بناپر قادیانیوں کے دونوں گروہوں (لاہوری، قادیانی) کو اسلامی شعائر کے استعمال سے روکا گیا، خلاف ورزی کی صورت میں مالی جرمانہ کے علاوہ تین سال قید کا قانون بنایا گیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس آرڈی نینس کے آنے کے بعد قادیانی اسلام کے شعائر کے استعمال سے رک جاتے، لیکن جان بوجھ کر انہوں نے اس کی خلاف ورزی کو اپنا وطیرہ بنالیا۔ کرتے یہ تھے کہ کلمہ طیبہ کا بیج بناکر سینے پر لگالیتے، اپنی عبادت گاہوں پر کلمہ طیبہ لکھوالیتے، اس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جاتی، کیس بنتے، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ، حتیٰ کہ وفاقی شرعی عدالت تک قادیانی اپیلیں لے کر گئے، لیکن تمام کورٹوں نے انہیں آئین کی خلاف ورزی کرنے کی بناپر مجرم قرار دیا اور آج یہ تمام فیصلے کتابی صورت میں ’’فتنۂ قادیانیت کے خلاف عدالتی فیصلے‘‘ کے نام پر یکجا کردئیے گئے ہیں، جو وکلاء، ججز حضرات اور عام مسلمان بھائیوں کے مطالعہ کے لیے دستیاب اور خاصے کی چیز ہیں۔

اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ محترم جناب راؤ عبدالرحیم ایڈوکیٹ کے بقول: ’’ایک عرصہ سے قادیانی قرآن کریم میں تحریف کرکے اسے چھاپ کر مختلف ممالک جن میں جنوبی افریقا، ڈنمارک، انگلینڈ، جاپان وغیرہ شامل ہیں، اردو اور ان کی زبانوں میں پاکستان سے بھیج رہے تھے۔ وہاں کے بھولے بھالے مسلمان اسے درست سمجھ کر پڑھ رہے تھے، مثال کے طور پر قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی آیت ’’وَبِالْآخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ‘‘ جس کا درست ترجمہ ’’ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ کی بجائے غلط ترجمہ ’’ اور وہ آئندہ آنے والی موعود باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ کیا گیا ہے۔ تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ چناب نگر میں چھپ رہا ہے۔ اس کے خلاف وزیراعظم، ہیومن رائٹس وغیرہ کو درخواستیں دی گئیں۔ سپریم کورٹ اور وزیراعظم سے آرڈر آگئے، اوقاف کے محکمے میں یہ معاملہ گیا، وہاں ان کے خلاف تمام ثبوت، نسخے، لسٹیں اور ویب سائٹس جمع کرائے گئے، انہوں نے ایک کمیٹی بنائی کہ وہ جاکر ان طباعتوں کا جائزہ لیں۔ چناب نگر کی انتظامیہ نے اس کمیٹی کو وہاں آنے کی اجازت نہیں دی، گویا صوبائی حکومت کے ادارہ کو اجازت نہیں دی گئی۔ عدالت میں دی گئی ایک درخواست پر جج صاحب نے مسلمانوں اور قادیانیوں کو سنا تو قادیانیوں نے ان طباعت خانوں کو اپنا تسلیم کرنے ہی سے انکار کردیا، جس پر ہم نے نسخے پیش کردیئے۔ فیصلہ ہونے کے بعد یہی نسخے قادیانیوں کی مذہبی درس گاہوں میں تقسیم ہوتے نظر آئے۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ تمام نسخے جہاں ہیں، ختم کردئیے جائیں، ان کی اشاعت روک دی جائے اور ویب سائٹوں پر پابندی عائد کی جائے۔ اس فیصلے کے باوجود وہاں نسخے تقسیم کیے گئے، جس پر ہم نے ایف آئی آر کٹوانی چاہی، مگر نہیں کاٹی گئی۔ اس کے بعد ایک جے آئی ٹی بنی، اس کے ہیڈ ڈی پی او چنیوٹ تھے، اور ہر ادارے کا ممبر اس کا حصہ ہوتا ہے، اس کے باوجود ان کی رپورٹ میں مسلمانوں کو جھوٹا اور قادیانیوں کو سچا کہا گیا۔ قدرت کا نظام کہ اگلے روز ایف آئی اے نے ایک قادیانی کو گرفتار کیا تو اس کے موبائل کا فرانزک کرانے کے بعد سامنے آیا کہ کون کون کہاں کہاں قرآن کریم کے تحریف شدہ نسخے چھاپ رہا ہے؟! اور کہاں کہاں اسے نشر کیا جارہا ہے؟! کن کن ویب سائٹوں پر یہ اپلوڈ ہورہے ہیں؟! جیسے ہی یہ تحقیقات مکمل ہونے لگیں تو شاہد جاوید ’’ڈی آئی جی‘‘ تھے اس وقت، انہوں نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرکے اسے رکوادیا۔ ہمیں چنیوٹ سے شکایتیں آئیں کہ یہاں ٹیمیں چل رہی ہیں کہ پرانا ترجمۂ قرآن ہمیں دے کر نیا لے لیں، لوگوں کے گھروں میں جاکر مفت دیا جارہاتھا، چیک کیا گیا تو وہ یہی غلط ترجمے والا قرآن تھا۔ہم نے دوبارہ درخواست دائر کی تو لاہور ہائی کورٹ نے قرآن بورڈ کو تنبیہ کی اور اداروں کو یہ سب کچھ روکنے کے احکامات جاری کردیئے، لیکن آج تک عمل نہیں ہوا۔‘‘ 
حد یہ ہے کہ عدالت کے حکم پر تحریفِ قرآن کی طباعت اور تشہیر کے جرم میں مدرسۃ الحفظ چناب نگر کے پرنسپل مبارک ثانی نامی ملزم کو گرفتار کیا گیا تو قادیانیوں نے پہلے تھانہ پولیس کا گھیراؤ کیا، مسلمانوں کے احتجاج پر گھیراؤ ختم ہوا تو اب اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سے بااثر قادیانی ملزم کی رہائی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں اور تحریف شدہ قرآن کریم کی برآمدگی میں رکاوٹ اور انہیں غائب کروانے کے لیے متحرک ہوگئے ہیں۔
مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ ملزم کو بیرونِ ملک فرار نہ ہونے دیا جائے اور جتنے لوگ اس کے شریک کار ہیں، ان سب کو گرفتار کیا جائے۔ جو ملزمان بھی امن وامان کی صورت حال خراب کرنے والے ہیں، ان سب کو گرفتار کرکے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کو آئینِ پاکستان کا پابند بنایا جائے اور حکومتِ پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ قادیانیوں کی ناپاک سازشوں پر کڑی نظر رکھے۔ 

۱۹۷۴ء میں جب قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیا گیا تو علمائے کرام نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اس فیصلے سے پہلے اسلامی رو سے قادیانیوں کی حیثیت حربی کافر کی تھی، لیکن اس فیصلے کے بعد ان کی حیثیت ذمی کافر کی ہے کہ جس طرح ذمی کافر کو اسلامی ریاست میں ریاست کا تابع بن کر رہنے کا حق ہے، اسی طرح ان قادیانیوں کو بھی حق ہے۔ ان کی جان، مال، عزت وآبرو کی حفاظت سرکار اور رعایا دونوں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن وہ دن اور آج کا دن قادیانیوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو آئین کا پابند نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے پاکستان کے آئین کو ماننے سے سرے سے انکار کردیا۔
پاکستان میں اور اقلیتیں مثلاً ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی وغیرہ رہتے ہیں۔ وہ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں، پاکستان کی عدالتوں کو مانتے ہیں، پاکستانی فوج جو سرحدات کی حفاظت کرتی ہے، اس کو مانتے ہیں، اور اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ قادیانی ایک ایسا غیرمسلم گروہ ہے جو پاکستان میں رہنے کے باوجود نہ آئینِ پاکستان کو مانتا ہے ، نہ قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلے کو مانتا ہے، نہ پاکستان کی عدالتوں کو مانتا ہے، نہ پاکستان کی فوج کو مانتا ہے، اور نہ ہی پاکستانی ہونے پر کوئی فخر محسوس کرتا ہے، بلکہ وہ اُلٹا اپنے آپ کو مسلمان اور تمام مسلمانوں کو کافر کہتا ہے اور اس کا نظریہ ہے کہ پاکستان اکھنڈ بھارت بنے گا- نعوذ باللہ- اس لیے وہ اپنے مردے پاکستان میں امانتاً دفن کرتے ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ ۱۹۷۳ء کا متفقہ آئین ختم ہوجائے، اسی لیے بیوروکریسی میں گھسے قادیانی یا قادیانی نواز لوگ آئے دن آئینِ پاکستان کو بے وقعت کرنے اور اس کو ختم کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔
اصولی طور پر تو مسلمانوں کو احتجاج کرنا چاہیے کہ جب دنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ ہر ملک کے آئین کو ماننے والا اس ملک میں رہ کر اس ملک سے مراعات لے سکتا ہے، اور اس ملک کے آئین کو نہ ماننے والا مراعات تو دور کی بات ہے، اس ملک میں رہنے کا حق بھی کھودیتا ہے اور اس ملک میں وہ رہ نہیں سکتا، توپھر آخر قادیانیوں کے ساتھ یہ خصوصی رعایت کیوں ہے کہ وہ یہاں کی مسلم آبادی کے نوجوانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر نہ صرف یہ کہ یہاں مراعات لے رہے ہیں، بلکہ کلیدی عہدوں پر بھی ان کو براجمان کیا جاتا ہے اور دنیا بھر میں شور مچایا ہوا ہے کہ پاکستان میں ان کے حقوق مارے جارہے ہیں اور یہ کہ ان کو آئینِ پاکستان میں کافر اور غیرمسلم اقلیت کیوں کہا گیا ہے؟ اسی لیے علماء کرام ایک عرصہ سے اپنے مسلمان بھائیوں سے اپیل کرتے آرہے ہیں کہ خدارا! قادیانیوں کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے، ان سے کسی قسم کا لین دین نہ کیا جائے، کیونکہ قادیانی لوگ اپنی مصنوعات سے ملنے والا منافع تحریفِ قرآن، دینِ اسلام کی تخریب اور مسلمانوں کو مرتد بنانے میں صرف کرتے ہیں، جس کے وبال اور گناہ میں قادیانیوں سے لین دین کرنے والے مسلمان بھی انجانے میں شریک ہوجاتے ہیں۔
بہرحال مسلم عوام بھی ہمہ وقت بیدار رہیں، دین وایمان اور ملک وملت کی سرحدات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دین دشمنوں اور ملک دشمنوں کو خود بھی پہچانیں اور دوسروں کو بھی ان کے بارہ میں آگاہی دیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کی اور ہماری آنے والی نسل کے دین وایمان کی حفاظت فرمائے، تمام فتنوں اور فتنہ پروروں سے اُمتِ مسلمہ کی حفاظت فرمائے، ہم سب کو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عزت وناموس اور عقیدہ ختمِ نبوت کی حفاظت کرنے اور آخرت میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت نصیب فرمائے، آمین۔ 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین