بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

قادیانی اقلیت کے متعلق  اسلام آباد ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ  وختم نبوت کانفرنس (بادشاہی مسجد لاہور)


قادیانی اقلیت کے متعلق 
اسلام آباد ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ 
وختم نبوت کانفرنس (بادشاہی مسجد لاہور)

 

الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

ہمارا ملک پاکستان نظریۂ اسلام پر بنا تو ضرور ہے، لیکن سات دہائیاں گزرنے کے باوجود کسی ایک حکومت نے بھی خلوصِ دل سے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوئی کوشش اور پیش رفت نہیں کی، بلکہ بانیانِ پاکستان کی منظور کردہ قراردادِ مقاصد‘ ۱۹۷۳ء کے متفقہ آئین ودستور میں شامل اسلامی دفعات، عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے متعلق قوانین اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لیے آئینی شقیں اُن کے لیے روزِ اول سے سوہانِ روح اور آنکھ کا تنکا بنی ہوئی ہیں۔
موجودہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے بھی اپنے اندرونی وبیرونی آقاؤں کو خوش کرنے، مغربی قوتوں کے اعتماد کے حصول اور ان سے کیے گئے وعدہ کے ایفاء کے لیے ایک بار پھر عقیدہ ختم نبوت کے متعلق دفعات میں مخفی اور چوری چھپے طریقے سے نقب لگائی، لیکن عوامی دباؤ کی بناپر ان کو سجدۂ سہو کرنا پڑا اور ان کے مذموم عزائم ناکام ہوئے۔
گزشتہ سے پیوستہ شمارہ کے اداریہ میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ جب ختم نبوت کے متعلق حلف نامہ اور دوسری شقوں کو حذف کیا گیا تھا تو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہنما حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ عدالتِ عالیہ نے پہلی سماعت کے بعد حکمِ امتناع جاری کیا۔ کیس سننے کے بعد عدالتِ عالیہ کے معزز جج جناب شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اب تفصیلی فیصلہ سنایا ہے۔ افادۂ عام اور تاریخ میں محفوظ کرنے کی غرض سے اس فیصلہ کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:

آرڈر شیٹ
اسلام آباد عدالتِ عالیہ، اسلام آباد

مولانا اللہ وسایا (رٹ پٹیشن نمبر3862|2017) بنام:فیڈریشن آف پاکستان بذریعہ سیکرٹری، منسٹری آف لااینڈ جسٹس، وغیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یونس قریشی، وغیرہ (رٹ پٹیشن نمبر 3847|2017)بنام:فیڈرل گورنمنٹ بذریعہ وزیراعظم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، وغیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریک لبیک یارسول اللہ (رٹ پٹیشن نمبر 3896|2017) بنام :فیڈرل گورنمنٹ بذریعہ وزیراعظم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، وغیرہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سول سوسائٹی بذریعہ صدر (رٹ پٹیشن نمبر 4093|2017)بنام:فیڈرل گورنمنٹ بذریعہ وزیراعظم اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، وغیرہ
نمبرشمار حکم وکارروائی
تاریخ حکم           20      09-03-2018 

حکم بمع دستخط جج اور دستخط فریقین ووکلاء (جہاں ضروری ہوں)
 

حافظ عرفات احمد چوہدری، مس کاشفہ نیاز اعوان اور زاہد تنویر فاضل وکلاء بمع سائل(رٹ پٹیشن نمبر 3862|2017) جناب محمد طارق اسد، ایڈووکیٹ(رٹ پٹیشن نمبر3847|2017)حافظ فرمان اللہ، ایڈووکیٹ، سید محمد اقبال ہاشمی، ایڈووکیٹ، مس بسمہ نورین، انڈروینر۔

مسئول علیہم

ارشد محمود کیانی، ڈپٹی اٹارنی جنرل، مس نویدہ نور، ایڈووکیٹ، آئی بی، جناب نعمان منور، اصغر، نمائندگان منسٹری آف لاء اینڈ جسٹس، سید جنید جعفر،لاء آفیسر، جناب عثمان یوسف مبین، چیئرمین، جناب ثاقب جمال، ڈائریکٹر لیگل اور ذوالفقار علی، ڈی جی پروجیکٹ، نادرا
جناب کامران رفعت، ڈپٹی ڈائریکٹر، فیڈرل پبلک سروس کمیشن، جناب ایم شاہد، ڈپٹی ڈائریکٹر، جناب زرناب خٹک، ایس او، اسٹیبلشمنٹ ڈوئرن، جناب قیصر مسعود، ایڈیشنل ڈائریکٹر لائ، ایف آئی اے، جناب وقار چوہدری، ڈی پی او، لٹیگشن، قومی اسمبلی

عدالتی معاونین (مذہبی عالم)

پروفیسر ڈاکٹر حسن مدنی، پروفیسر ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمن، پروفیسر ڈاکٹر محسن نقوی، مفتی محمد حسین خلیل خیل۔

عدالتی معاونین (آئینی ماہر) 

جناب محمد اکرم شیخ، سینئر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ، ڈاکٹر محمد اسلم خاکی، سینئر ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ، ڈاکٹر بابر اعوان، سینئرایڈووکیٹ، سپریم کورٹ۔

تواریخ سماعت

22.02.2019 , 23.02.2018 , 26.02.2018 27.02.2018 , 28.022018 , 01.03.2018 , 02.03.2018 , 05.03.2018 , 06.03.2018 & 07.03.2018

شوکت عزیز صدیقی:-

اُن تمام وجوہات کی بناپر جو کہ بعد میں درج کی جائیں گی، یہ تمام آئینی درخواستیں مندرجہ ذیل اعلانیہ واحکامات کے ساتھ منظور کی جاتی ہیں:
1:- دینِ اسلام اور آئینِ پاکستان مذہبی آزادی سمیت اقلیتوں (غیرمسلموں) کے تمام بنیادی حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ریاست پر لازم ہے کہ ان کی جان، مال، جائیداد اور عزت وآبرو کی حفاظت کرے اور بطور شہری ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ آئین کی شق نمبر5 کے مطابق ہر شہری کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ریاست کا وفادار اور آئین وقانون کا پابند ہو۔ یہ فریضہ ان افراد پر بھی لازم ہے جو پاکستان کے شہری نہیں، لیکن یہاں موجود ہیں۔
2:- ریاستِ پاکستان کے ہر شہری کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی شناخت درست اور صحیح کوائف کے ساتھ کرائے۔ کسی مسلم کو اس امر کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی شناخت کو غیر مسلم میں چھپائے، بعینہٖ کسی غیر مسلم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود کو مسلم ظاہر کرکے اپنی پہچان اور شناخت کو چھپائے۔ ایسا کرنے والا ہر شہری ریاست سے دھوکہ دہی کا مرتکب ہوتا ہے، جو کہ آئین کو پامال کرنے اور ریاست سے استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔
3:- آئینِ پاکستان کی شق نمبر260 ذیلی شق 3 جز اے اور بی میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف بالصراحت موجود ہے، جسے اجماعِ قوم کی حیثیت حاصل ہے۔ بدقسمتی سے اس واضح معیار کے مطابق ضروری قانون سازی نہیں کی جاسکی۔ نتیجۃً غیر مسلم اقلیت اپنی اصل شناخت چھپاکر اور ریاست کو دھوکہ دیتے ہوئے خود کو مسلم اکثریت کا حصہ ظاہر کرتی ہے، جس سے نہ صرف مسائل جنم لیتے ہیں، بلکہ انتہائی اہم آئینی تقاضوں سے انحراف کی راہ بھی ہموار ہوجاتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا یہ بیانیہ کہ سول سروس کے کسی بھی افسر کی اس حوالے سے شناخت موجود نہیں، ایک المیہ ہے، جو کہ آئینِ پاکستان کی روح اور تقاضوں کے منافی ہے۔
4:- پاکستان میں بسنے والی بیشتر اقلیتیں اپنے ناموں اور شناخت کے حوالے سے جداگانہ پہچان رکھتی ہیں، لیکن ہمارے آئین کی رو سے قرار دی گئی ایک اقلیت اپنے ناموں اور عمومی پہچان کے حوالے سے بظاہر مختلف تشخص نہیں رکھتی۔ بدیں وجہ ایک سنگین آئینی مسئلہ جنم لیتا ہے، وہ بآسانی اپنے ناموں کی وجہ سے اپنے عقیدہ کو مخفی رکھ کر مسلم اکثریت میں شامل ہوجاتے ہیں اور اعلیٰ اور حساس مناصب تک رسائی حاصل کرکے ریاست سے فوائد سمیٹتے رہتے ہیں۔ اسلامیات کا مضمون پڑھانے کے لیے اساتذہ کے لیے مسلمان ہونا لازمی شرط قراردیا جائے۔
5:- اس صورتِ حال کا تدارک اس لیے ضروری ہے کہ بعض آئینی عہدوں پر کسی غیر مسلم کی تقرری یا انتخاب ہمارے دستور کے خلاف ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ کی رکنیت سمیت اکثر محکموں کے لیے اقلیتوں کا خصوصی کوٹہ بھی مقرر ہے، اس لیے جب کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والا شخص اپنا اصل مذہب اور عقیدہ چھپاکر خود کو فریب کاری کے ذریعہ مسلم اکثریت کا جزو ظاہر کرتا ہے تو دراصل وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے الفاظ اور روح کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس خلاف ورزی کو روکنے کے لیے ریاست کو ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
6:- ختم نبوت کا معاملہ ہمارے دین کی اساس ہے۔ تاریخ میں اس اساس پر حملوں کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں۔ اس اساس کی حفاظت ونگہبانی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ پارلیمنٹ انتہائی معتبر ادارہ ہونے اور ملکِ پاکستان کی عوام کی ترجمان ہونے کی حیثیت سے اس اَساس کی پاسبان ہے۔ 
اس ضمن میں پارلیمان سے بھرپور بیداری اور حساسیت کی توقع رکھنا مسلم اکثریت کا حق ہے۔ ختم نبوت کے بنیادی عقیدے کے تحفظ کے ساتھ پارلیمنٹ کو ایسے اقدامات پر بھی غور کرنا چاہیے جن کے ذریعے اس عقیدے پر ضرب لگانے والوں کی سازشوں کا مکمل سدباب ہوسکے۔ نبی مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین ہیں اور ان کے بعد کوئی شخص جو نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، خائن اور دائرہ اسلام سے خارج ہے کو آئین کے علامیہ کے طور پر بھی پڑھا جانا چاہیے، پارلیمان اس معاملہ پر غور کرنے کی مجاز ہے۔ 
7:- یہ امر خوش آئند ہے کہ قانونی سقم سامنے آتے اور غلطی کا احساس ہوتے ہی پارلیمنٹ نے اجتماعی دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے پر بھرپور حساسیت کا مظاہرہ کیا اور متذکرہ قانون کو بادی النظر میں آئینی تقاضوں کے ہم آہنگ کیا۔ ایسے معاملات اسی حساسیت اور یکجہتی کا تقاضا کرتے ہیں۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے ایک منجھے ہوئے قانون دان اور تجربہ کار پارلیمنٹیرین کی حیثیت سے اپنی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی کی جانب سے انتہائی اعلیٰ رپورٹ مرتب کی، جس میں معاملے کے تمام پہلوؤں کا انتہائی جامعیت، دیانت داری اور دانش مندی کے ساتھ اِحاطہ کرتے ہوئے منفی تأثرات کو زائل کیا۔ اب یہ پارلیمان پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملہ پر مزید غور کرے یا اجتناب۔
8:- ریاست کے لیے لازم ہے کہ سوادِ اعظم کے حقوق، احساسات اور مذہبی عقائد کا خیال رکھے اور ریاست کے آئین کے ذریعہ قراردیے گئے ریاست کے مذہب ’’اسلام ‘‘کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا اہتمام کرے۔
بلاشبہ ان اقدامات کا مقصد معاشرے کو انتشار سے بچانا اور آئینی تقاضوں کے مطابق جداگانہ مذہبی شناخت رکھنے والی تمام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنا بھی ہے، جو پاکستان کا شہری ہونے کے ناطے اُنہیں حاصل ہیں۔لہٰذا عدالت یہ حکم جاری کرتی ہے کہ:
i۔     شناختی کارڈ، پیدائش سرٹیفیکٹ، پاسپورٹ کے حصول اور انتخابی فہرستوں میں اندراج کے لیے درخواست گزار سے آئین کی شق 260 ذیلی شق 3 اور جز اے بی میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف پر مبنی بیانِ حلفی لازمی قرار دیا جائے۔
ii۔     تمام سرکاری ونیم سرکاری محکموں بشمول عدلیہ، مسلح افواج، اعلیٰ سول سروسز میں ملازمت کے حصول یا شمولیت کو بھی متذکرہ بالا بیانِ حلفی سے مشروط قراردیاجائے۔
iii۔     نادرا اَپنے قواعد میں کسی بھی شہری کی طرف سے اپنے درج شدہ کوائف، بالخصوص مذہب کے حوالے سے درستگی کے لیے مدت کا تعین کرے۔
iv۔     مقننہ آئین کے تقاضوں، عدالتِ عظمیٰ کے فیصلہ 1993SCMR1748 اور عدالتِ عالیہ لاہور کے فیصلہ PLD1992 L صلی اللہ علیہ وسلم h 1 میں طے شدہ قانونی بنیادوں کو روبعمل لاکر ضروری قانون سازی کرے اور ایسی تمام اصطلاحات جو دینِ اسلام اور مسلمانوں کے لیے مخصوص ہیں، انہیں کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی پہچان چھپانے کی غرض یا دیگر مقاصد کے لیے استعمال سے روکنے کے لیے بھی موجود قانون میں ضروری ترمیم اور اضافہ کرے۔
v۔     حکومتِ پاکستان اس بات کا خصوصی اہتمام کرے کہ ریاست کے تمام شہریوں کے درست کوائف موجود ہوں اور کسی بھی شہری کے لیے اپنی اصل پہچان اور شناخت چھپانا ممکن نہ ہوسکے۔ نادرا میں قادیانیوں/ مرزائیوں کی درج شدہ تعداد اور مردم شماری کے ذریعے اکٹھے کیے گئے اعداد وشمار میں نمایاں فرق کی تحقیقات کے لیے فوری اقدام اٹھائے جائیں۔
vi۔     ریاست اس بات کی پابند ہے کہ وہ مسلم اُمہ کے حقوق، جذبات اور مذہبی عقائد کی حفاظت کرے اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی توفیق سے تمام فاضل وکلائ، قانونی ماہرین اور مذہبی اسکالرز نے اس مقدمہ کے دوران بھرپور معاونت کی اور یہ عدالت ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتی ہے ۔ اسی طرح تمام سرکاری افسران-جو مختلف اداروں سے تعلق رکھتے ہیں- کا تعاون قابلِ تعریف تھا۔ مزید برآں جناب ارشد محمود کیانی، ڈپٹی اٹارنی جنرل صاحب نے مثالی کردار ادا کیا اور اپنی ہمہ وقت کاوش وانتھک محنت سے عدالت کی طرف سے لگائی جانے والی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن ادا کیا، جس سے عدالت کو صحیح نتائج پر پہنچنے میں مدد ملی۔ 
یہ حکم اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں جاری کیا جارہا ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسا کہ قارئین نے پڑھا کہ عدالتِ عالیہ نے قرار دیا ہے کہ آئین کی شق نمبر:۵ کے مطابق ہر شہری کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ریاست کا وفادار اور آئین وقانون کا پابند ہو، جب کہ بارہا یہ ثابت ہوچکا ہے کہ قادیانی نہ صرف یہ کہ بیرونِ ملک‘ پاکستان کے اہم راز افشاء کرتے ہیں، بلکہ پاکستان کو بدنام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آج تک انہوں نے ۷؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو بھی قبول نہیں کیا، کیا کہا جائے کہ یہ ریاست کے ساتھ وفاداری ہے یا غداری؟ اور یہ آئین وقانون کی پابندی ہے یا قانون وآئین شکنی اور بغاوت؟
اسی طرح عدالت نے واضح کیا ہے کہ مسلم ہو یا غیر مسلم، وہ اپنی شناخت کو چھپانے والا، ریاست سے دھوکا دہی کا مرتکب ہوتا ہے، جو کہ آئین کو پامال کرنے اور ریاست سے استحصال کے زُمرے میں آتا ہے۔ اب ان قادیانیوں کے متعلق کیا کہاجائے گا جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک اپنی شناخت کو چھپاکر ریاست کو دھوکا، آئین کو پامال اور ریاست کا استحصال کرتے رہے۔ قادیانیوں سے مسلمانوں کا یہی تو اختلاف ہے کہ وہ اپنی شناخت اپنائیں، جس طرح کہ دوسری اقلیتیں اپنی شناخت: یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی وغیرہ اپناتی اور ظاہر کرتی ہیں۔ قادیانی ایسا کیوں نہیں کرتے؟
عدالت نے یہ بھی لازم کیا ہے کہ سرکاری اسکولوں، کالج اور یونیورسٹیوں میں اسلامیات کا مضمون پڑھانے کے لیے اساتذہ کے لیے مسلمان ہونا لازمی شرط قرار دی جائے۔
اب حکومت اور اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ عدالتِ عالیہ کے حکم پر فی الفور عمل کریں اور جن قادیانیوں نے اپنی شناخت چھپاکر پاکستانی اداروں سے مفادات اُٹھائے ہیں، ان کو قرار واقعی سزادی جائے اور ان کی جائیداد ضبط کرکے سرکاری خزانہ میں جمع کرائی جائے۔
اسی طرح جو لوگ اپنی شناخت چھپاکر اداروں میں گھسے ہوئے ہیں، ان کو معینہ تاریخ تک اپنی شناخت واضح کرنے کا پابند کیا جائے، بصورتِ دیگر اُن کو سرکاری عہدوں سے برطرف کیا جائے، بلکہ ان کو ریاست کو دھوکا دینے، آئین کو پامال کرنے اور ریاست کے استحصال کی دفعات لگاکر سزا بھی دی جائے۔ 
اور یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ نظریۂ پاکستان کے مصوروخالق محترم جناب علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ: ’’قادیانی ملک اور ملت کے غدار ہیں۔‘‘ تو اس پر ابھی تک اعتماد کیوں نہیں کیا گیا؟ ان پر گہری نظر کیوں نہیں رکھی گئی؟ اور ان کی خفیہ ریشہ دوانیوں پر قدغن کیوں نہیں لگائی گئی؟
حالانکہ سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ قادیانی پاکستان میں وہی پوزیشن اور اسٹیٹس لینا چاہتے ہیں جو یہودی امریکہ میں لے چکے ہیں۔خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں گواہ ہیں کہ پاکستان میں ہر بحران کے پس منظر میں قادیانی لابیاں کارفرما ہوتی ہیں۔
 اب محترم جسٹس جناب شوکت عزیز صاحب نے جو یہ تاریخی فیصلہ دیا ہے اور اس سے پہلے انٹرنیٹ کے بلاگرز نے جو نازیبا اور بیہودہ حرکات کی تھیں، ان کا نوٹس اور ان کے خلاف فیصلہ بھی اسی محترم ومعزز جج صاحب نے دیا تھا، اب ان کے خلاف بھی سازشیں شروع ہوچکی ہیں، جیسا کہ روزنامہ جنگ کراچی بروز منگل ۲۴؍ جمادی الثانیہ۱۴۳۹ھ، ۱۳؍ مارچ ۲۰۱۸ء میں یہ خبر چھپی ہے۔
بہرحال تمام مسلمانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بیدار رہیں، قادیانیوں، ان کی لابیوں اور قادیانی نوازوں سے ہوشیار رہیں، اس لیے کہ ان کی سرشت اور خصلت میں ہے کہ وہ خفیہ اور پس پردہ ڈنگ مارتے اور ڈستے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ معزز جج کے خلاف کوئی سازش کرکے کامیاب ہوجائیں، اور مسلمان ہاتھ مسلتے رہ جائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیرِاہتمام ۱۰؍ مارچ ۲۰۱۸ء بروز ہفتہ تاریخ سا ز ختم نبوت کانفرنس بادشاہی مسجد لاہور میں منعقد ہوئی ۔کانفرنس کی تین نشستیں ہوئیں۔ مختلف نشستوں کی صدارت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، نائب امراء مولانا عزیزاحمد، مولانا پیرحافظ ناصر الدین خاکوانی نے کی، جبکہ مہمانِ خصوصی جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدرفیع عثمانی تھے۔ کانفرنس میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمدحنیف جالندھری، مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے علامہ پروفیسر ساجدمیر، جمعیۃ علماء پاکستان کے مولانا شاہ اویس نورانی، مولانا ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر، وفاقی وزیر مذ ہبی امور سردار محمد یوسف، جمعیۃ علماء اسلام کے مرکزی قائم مقام سیکرٹری جنرل مولانا محمدامجد خان، جامعہ اشرفیہ کے مہتم مولانا فضل الرحیم، مرکزی جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کے سربراہ علامہ پروفیسر ساجد میر، مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، پاکستان شریعت کونسل کے مولانا زاہد الراشدی، مکہ مکرمہ سے آئے ہوئے مہمان مولانا ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ، جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما فرید احمدپراچہ، سجادہ نشین خانقاہ کوٹ مٹھن خواجہ معین الدین کوریجہ، آزادکشمیر کے ممبر اسمبلی راجہ محمد صدیق، شاہینِ ختم نبوت مولانا اللہ وسایا، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مولانا مفتی شہاب الدین پوپلزئی، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی، مولانا ڈاکٹر میاں محمداجمل قادری سمیت کثیر تعداد میں علماء اور لاکھوں کی تعداد میں عوام الناس نے شرکت کی۔
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ اور وفاق المداس العربیہ پاکستان کے صدر حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر کی جانب سے خطبۂ استقبالیہ آپ کے صاحبزادہ اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے استاذ حضرت مولانا ڈاکٹر سعید خان نے پڑھا، جس میں دوسری باتوں کے علاوہ یہ کہا گیا کہ:
’’حضرات گرامی قدر! عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت آج بھی عقیدۂ ختم نبوت کی پاسبانی کے لیے پرامن اور عدمِ تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور کبھی نہ بھولیے کہ ہمیں منبر ومحراب سے لے کر نیشنل اسمبلی تک، مقامی عدالتوں سے سپریم کورٹ تک تمام کامیابیاں پرامن جدوجہد سے ملی ہیں۔ آئندہ بھی جب تک جدوجہد پرامن رہے گی‘ کامرانی آپ کے قدم چومے گی۔ جس دن دشمن کی چالوں سے تشدد کی راہ پر چل پڑے، اکابر کے طریقۂ کار کو ترک کردیا، تحریک ختم نبوت کی جدوجہد میں وہ گھڑی افسوس ناک ہوگی۔ اس اجتماع کے ذریعے یہ پیغام لے کر جائیں کہ عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے جوشخص تشدد کو اپنائے، وہ اس تحریک کی روح سے ناواقف ہے یا دشمن کی چال کا شکار ہوگیا ہے۔ آپ پرامن ذرائع سے قانون کے دائرے میں رہ کر قادیانیت کے احتساب کا شکنجہ کستے جائیںگے تو دیکھیں گے کہ قادیانیت کا بت اس دھڑام سے گرے گا کہ غبار چھٹنے کے بعد قادیانیت نام کی کوئی بھی چیز آپ کو دیکھنے سے بھی نہ ملے گی۔ ان شاء اﷲ! ثم ان شاء اﷲ! وہ وقت قریب ہے اور یہ اجتماع اﷲ رب العزت کے فضل وکرم سے ایک نئی جدوجہد کی بنیاد فراہم کرے گا۔ وماذٰلک علی اللّٰہ بعزیز!
حضرات محترم! قادیانیت دینِ اسلام سے بغاوت کا دوسرا نام ہے۔ قادیانیت رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغیوں کا وہ ملعون گروہ ہے کہ ان کا وجود ہی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت پر مبنی ہے۔ قادیانیوں سے بچنا، ان سے اُمت کے ہرفرد کو بچانا‘ ہمارا فرضِ منصبی ہے۔ اس کے لیے اس اجتماع کے ذریعہ چندکاموں کی طرف آپ دوستوں کو متوجہ کرتا ہوں:
۱:- یہ کہ ہرعالم دین مہینہ میں ایک جمعہ عقیدۂ ختم نبوت کے بیان کے لیے وقف کرے، مثلاً: ایک شہر کی سو مساجد میں جمعہ پر ردقادیانیت پر بیان ہو۔ فی مسجد ایک ہزار آدمی تصور کریں تو یوں ایک شہر میں صرف جمعہ کے بیان سے ایک لاکھ آدمی تک ہم ختم نبوت کا پیغام پہنچاپائیں گے۔ گویا ہر ماہ کو جمعہ پر ختم نبوت کے بیان کی اگر پورے ملک میں سکیم چل نکلے تو ہر ماہ ایک بار پورے ملک میں آپ نے کروڑوں افراد تک ختم نبوت کا پیغام پہنچادیا۔ علمائے کرام کی معمولی توجہ سے پورا ملک ختمِ نبوت کی جلسہ گاہ بن جائے گا۔ اُمید ہے کہ آپ اس پر نہ صرف توجہ کریں گے، بلکہ جو حضرات موجود نہیں، ان تک نہ صرف آواز پہنچائیں گے، بلکہ ان کو آمادہ بھی کریں گے۔
۲:- آپ تمام حضرات پرامن جدوجہد اور سعی مقبول سے قادیانیت سے اجتناب کریں۔ لوگوں کی ذہن سازی کریں۔ میں ایک ملعون شخص سے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن سے ہاتھ نہیں ملاتا، اس کی دکان سے سودا نہیں لیتا۔ دنیا کا کونسا قانون ہے جو مجھے مجبور کرے کہ تم ایسا نہ کرو۔ یہ میرا حقِ خودارادیت ہے کہ اگر میں اپنے ماں باپ کے دشمن سے تعلق نہیں رکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے بھی تعلق نہ رکھوں۔ قادیانی خود کو مسلمان کہلاکر، مسلمانوں کو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوائوںکو، پوری اُمتِ مسلمہ کو کافر قرار دیتے ہیں۔ مرزا قادیانی کو نبی اورمحمدرسول اﷲ، مرزا قادیانی کے دیکھنے والوں کو صحابی، مرزا قادیانی کی بیوی کو ام المومنین، مرزا قادیانی کے خاندان کو اہل بیت کہتے ہیں۔ جنت البقیع کے مقابلہ میں بہشتی مقبرہ کا ڈھونگ رچایا ہے۔ وہ اپنے کفر پر اسلام کی اصطلاحات کا چولہ پہنارہے ہیں۔ وہ ہمارے تشخص کو برباد کررہے ہیں۔ آئینِ پاکستان کہتا ہے کہ قادیانی کافر ہیں۔ وہ خود کو مسلمان کہہ کر آئینِ پاکستان سے اعلانیہ بغاوت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مسلمانوں کو کافر کہہ کر پوری مسلم اُمہ کے وجود کو ملیامیٹ کرنے کے درپے ہیں۔ ان سے بچنا اور تمام مسلمانوں کو بچانا ہمارے لیے فرض کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے ہم کام نہیں کرتے، اپنے فرضِ منصبی کو نہیں نبھاتے تو خدشہ ہے کہ کہیں ہمارے دل زنگ آلود تو نہیں ہوگئے۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن، قادیانیوں سے تعلقات رکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں ان ملعون قادیانیوں کے ساتھ تو شریک نہیں؟
۳:-عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی تحریک پر پچاس سے زیادہ اہم شہروں میں ختم نبوت چوک قائم ہوگئے ہیں،چوکوں کا نام ختم نبوت چوک رکھنا یہ مستقل تبلیغ ہے۔اس کے لیے اس انتخابی مرحلے پر کینیڈیٹ حضرات سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنے حلقہ کے اہم شہروں میں ختم نبوت کے چوک قائم کرائیں۔ یہ موقع ہے، اس سے بھرپور فائدہ اُٹھایا جائے۔ 
۴:-سالانہ ختمِ نبوت کورس چناب نگر جو ۴ شعبان سے ۲۵ شعبان تک منعقد ہوگا، اس میں بھرپور شرکت کی جائے۔
برادرانِ گرامی! نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تبلیغ، جہاد، سب فرائض کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال سے ہے۔ ختم نبوت کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کی پاسبانی ودربانی افضل الفرائض میں شامل ہے۔ باقی فرائض پر تو عمل ہے، لیکن حضور m کی عزت وناموس کے تحفظ کی فکر نہیں تو نہ صرف حبطِ اعمال کا اندیشہ ہے، بلکہ قیامت کے دن شفاعت سے محرومی کا باعث بھی ہے۔ کیا خوب کہا:

نماز اچھی روزہ اچھا حج اچھا زکوٰۃ اچھی

مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحا کی حرمت پر

خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

آپ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کے تحفظ کے لیے سراپا نمونہ بن جائیں اور کچھ نہیں تو کم از کم درجہ یہ ہے کہ قادیانیوں سے اجتناب کریں۔ اگر یہ بھی نہیں کرتے تو فکر کریں کہ ہم میں ایمان بھی ہے یا نہیں۔ قانون اور ملک کے باغی قادیانی گروہ کو راہ راست پر لانے کے لیے ان سے اجتناب کا حربہ استعمال کریں، تاکہ ان کو احساس ہو کہ وہ مرزا قادیانی ملعون کو مان کر مسلم اُمت کا حصہ شمار نہیں ہوسکتے۔ جب ان میں یہ احساس پیدا ہوگا، وہ مرزا قادیانی ملعون کی غلامی کا طوق اپنی گردن سے اُتارنے پر مجبور ہوں گے۔ امید ہے کہ اس پرامن جدوجہد کو بھرپور کامیاب کیا جائے گا۔‘‘
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ جمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ: جب عقیدۂ ختم نبوت پر حملہ کیا گیا اور ہندوستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرا م نے ایک جامع حکمت عملی کے ذریعے تمام سازشوں کا مقابلہ کیا، اس وقت تمام طاغوتی قوتیں اس کی پشت پر تھیں،لیکن پاکستانی قوم نے جس وحدت کا مظاہرہ کیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستانی قوم جیت گئی اور عالمی قوتیں شکست کھاگئیں۔آپ کے اتحادو اتفاق نے آ پ کی قربانی کی لاج رکھی ۔۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں لاہور کی سڑکیں دس ہزار ختم نبوت کے پروانوں کی لاشوں سے رنگین ہوئیں ۔ہم اس اجتماع کے ذریعے استعماری قوتوں کو پیغام دیناچاہتے ہیں کہ تم کبھی بھی پاکستان کی سرزمین سے قادیانیوں کی غیرمسلم حیثیت ختم نہیں کر سکتے۔ختم نبوت ہمارا مشترکہ عقیدہ ہے۔ ہم نے ہمیشہ یہ رونا رویا کہ حکمران اسلام نافذ نہیں کر رہے،پارلیمنٹ اسلامی قانون سازی نہیں کررہی، اسلامی دفعات تبدیل ہوگئیں،آئین معطل ہوگیا،ختم نبوت کا قانون معطل ہوگیا، اس کے ذمہ دار حکمران اور ممبرانِ پارلیمنٹ ہیں اور کبھی بھی اس عقیدۂ ختم نبوت کے محافظین کو اسمبلی میں پہنچانے کے لیے ہم نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ہم چھوٹی سی تعداد میں اپنی حکمت عملی اپنا کر اس ایوان میں عقیدۂ ختم نبوت اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ : پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا اور قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی ہوگی اور قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنے گا۔ آئین سازی پارلیمنٹ کا کام ہے اور پارلیمنٹ میں آپ نے وہ دنیا بھیجی ہے جن کو سورۂ اخلاص نہیں آتی، آپ ان سے توقع رکھیں گے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کریںگے۔ آج باقاعدہ لابیاں، این جی اوز دیمک کی طرح اداروں میں گھسی ہوئی ہیں اور وہ قوانینِ ختم نبوت کی تبدیلی کے لیے خفیہ کام کرتی ہیں۔ 
مولانا مفتی محمدرفیع عثمانی نے کہا کہ: وہ قادیانی جنہوں نے ملازمتیں حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا، پھر ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد قادیانی ہوگئے تو ان پر مرتدہونے کی سزا شرعی طورپر لازم آتی ہے، لہٰذا حکومتِ وقت یہ سزا اُن پر جاری کرے۔
وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلیٰ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری نے کہا کہ: راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی رپورٹ منظرعام پر لانے کے بعد اس میں نشان زد مجرموں کو سزادی جائے۔ بے گناہ علماء کے نام فورتھ شیڈول سے ختم کیے جائیں۔ مدارس کو تنگ کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ نصابِ تعلیم میں ختم نبوت کا مضمون تفصیل کے ساتھ شامل کیا جائے۔
مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے سربراہ علامہ ساجد میراور مولانا سید ضیاء اللہ شاہ بخاری نے کہا کہ: ختم نبوت دینِ اسلام کا اَساسی و بنیادی عقیدہ ہے۔ پورے دینِ اسلام کی عمارت عقیدۂ ختم نبوت پر قائم ہے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس عقیدہ کی حفاظت کے لیے بارہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینؒ کی عظیم الشان قربانی دے کر تحریکِ ختم نبوت کی بنیا درکھی۔ سنتِ صدیقی پر عمل کرتے ہوئے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔
جمعیۃ علماء پاکستان کے مولانا شاہ اویس نورانی نے کہا کہ: مولانا شاہ احمدنورانی اور مولانا مفتی محمود کے بیٹوں نے ختم نبوت کے عظیم مشن کے ساتھ نہ کبھی غداری کی ہے اور نہ کوئی سودا بازی کی ہے۔ ۲۰۱۸ء کے الیکشن میں اسلام اور شعائراسلام کا تمسخر اڑانے والوں اور تحفظ ناموس رسالت وختم نبوت کے قوانین سے غداری کرنے والوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔
جے یو پی کے مولانا ڈاکٹر ابو الخیر محمدزبیر نے کہا کہ: حکمران تحفظِ ناموسِ رسالت اور ختم نبوت قوانین کو غیر مؤثر کرنے کے لیے نت نئے حربے اور بہانے تراش رہے ہیں۔ ختم نبوت کے قانون میں بے جا ترامیم کی کوششیں کی جارہی ہیں اور یہ شوشہ بھی چھوڑا جارہا ہے کہ جس نے توہینِ رسالت کاکوئی جھوٹا مقدمہ درج کرایا، اس کو بھی توہینِ رسالت کی سزادی جائے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ: کیا دیگر مقدمات میں بھی یہی قانون نافذ ہے کہ کوئی قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کرائے تو اسے بھی قتل کی سزادی جائے؟ جو ملک سے غداری کا جھوٹا مقدمہ درج کرائے تو اسے بھی غداری کی سزا دی جائے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھرختم نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالت (l) کے قوانین کے ساتھ ایسا کیوں؟ اس قسم کی قانون سازی کرکے اس کو غیر مؤثر کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں ۔
انجمن خدام الدین کے سربراہ مولانا ڈاکٹر میاں محمداجمل قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: مصورِ پاکستان علامہ اقبال ؒ نے کہا تھا کہ: ’’قادیانی ملک وملت کے غدار ہیں۔‘‘ غدارانِ ملت کا تعاقب علامہ اقبالؒ کی روح کے لیے تسکین کا باعث ہوگا۔
جماعتِ اسلامی کے مرکزی رہنما فریداحمدپراچہ نے کہا کہ: عقیدۂ ختم نبوت کی حفاظت عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا طرۂ امتیاز ہے ۔ ۱۹۵۳ئ، ۱۹۷۴ئ، ۱۹۸۴ء کی تحریکہائے ختم نبوت مجلس کی میزبانی میں چلائی گئیںاور کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔
شاہینِ ختم نبوت مولانا اللہ وسایا نے کہا کہ: عقیدۂ ختم نبوت تمام مسلمانوں کی مشترکہ متاعِ عزیز ہے، اُسے سیاسیات کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ: ہمارے بزرگوں نے اُسے سیاسیات اور فرقہ واریت سے بچائے رکھا، تاکہ تمام مسالک اور سیاسی جماعتیں اس پلیٹ فارم پر جمع ہو کر آقاء نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا تحفظ کر سکیں۔
اس ختم نبوت کانفرنس میں درج ذیل قراردادیں بھی پاس کرائی گئیں:
’’۱:-ختم نبوت کانفرنس کا یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ:اسلامی نظریاتی کونسل کی منظور کردہ سفارشات کے مطابق ارتداد کی شرعی سزا نافذ کی جائے۔
۲:-امتناع قادیانیت قانون اور تحفظ ناموس رسالت کے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
۳:-یہ اجلاس ملک میں بڑھتے ہوئے توہین رسالت کے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے عذاب خداوندی کو دعوت دینے کے مترادف قراردیتا ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ توہین رسالت ایکٹ پر اس کی روح کے مطابق سختی کے ساتھ عملدرآمد کیا جائے، تاکہ کسی بدباطن کو توہینِ رسالت کی جرأت نہ ہوسکے۔
۴:-یہ اجلاس ملک بھر کے خطباء سے اپیل کرتا ہے کہ ہر ماہ کا ایک جمعہ عقیدۂ ختم نبوت کے بیان کے لیے وقف کریں، تاکہ نئی نسل کو قادیانی عقائد کی سنگینی کا احساس ہو۔
۵:-یہ اجلاس آزاد کشمیر اسمبلی، آزاد کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس ۶؍فروری ۲۰۱۸ء میں پاکستان کے منظور کردہ تمام قوانینِ ختم نبوت کو آزاد کشمیر کے قانون کا حصہ بنانے میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مبارک باد پیش کرتا ہے۔
۶:-یہ اجلاس لاہور اور مضافات کے دینی مدارس کے علمائے کرام، رابطہ کمیٹی ختم نبوت کانفرنس، نیز سیکورٹی کے فرائض سرانجام دینے والے سینکڑوں نوجوانوں، کانفرنس کی کامیابی کی کوشش کرنے والے اداروں بالخصوص حکومتِ پنجاب، محکمۂ اوقاف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دعا گوہے کہ اﷲ پاک اُنہیں اپنے شایانِ شان جزائے خیرعطا فرمائیں۔
۷:-یہ اجلاس ملک شام میں ہونے والے خوفناک قتل عام کی پرزورمذمت کرتا ہے اور عالم اسلام کے رہنماؤں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اصلاحِ احوال کے لیے اپنے فرائضِ منصبی کو بروئے کار لائیں۔
۸:-اس اجلاس کے توسط سے اسلامیانِ وطن کو اس بات پر متوجہ کیا جاتا ہے کہ قادیانی مصنوعات اور اُن کے اداروں خصوصاً شیزان کمپنی کی تمام مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ حق تعالیٰ شانہٗ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کی حفاظت کے لیے ہم سب کی ان کوششوں اور کاوشوں کو قبول فرمائے۔ قادیانیوں کو جھوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی سے دامن چھڑاکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ پاکستان اور اس کے تمام اداروں کو سازشیوں کی سازشوں سے محفوظ فرمائے اور پاکستانی عوام کو امن وامان اور خوشحالی سے مالامال فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم 

 وصلٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین