بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فیصلہ آپ کریں!!

فیصلہ آپ کریں!!

 

ملکِ عزیز اس وقت جن داخلی وخارجی خطرات کے گرداب میں گھرا ہوا ہے، وہ کسی صاحبِ بصیرت پر مخفی نہیں۔ لگتا یوں ہے کہ پاکستان کو اقتصادی مشکلات کا شکار دکھا کر اور باور کراکر صاحبانِ اقتدار واختیار سے اپنے من مانے فیصلے اور مطالبات کرائے اور منوائے جارہے ہیں۔ ہمارے اربابِ حکومت بھی ان بیرونی قوتوں اور اپنے اُن مغربی آقاؤں کی ہاں میں ہاں ملانے کو اپنے لیے سعادتِ دارین سمجھ کر ان کے ہر جائز وناجائز مطالبہ کے سامنے سرِتسلیم خم کیے جارہے ہیں۔ اور اپنی پاکستانی قوم سے اس انداز سے خطاب اور بات کرتے ہیں ، جیسے پوری پاکستانی قوم ان کی غلام اور یہ ان کے آقا ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ جس ملعونہ آسیہ کو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ پوری عدالتی کارروائی اور مراحل کو روبعمل لاکر اُسے سزائے موت سناتی ہے، اسے اس حکومت کے آتے ہی براء ت اور رہائی کا پروانہ مل جاتا ہے اور جب پاکستانی قوم کشمیر تا کراچی سراپا احتجاج بنتی ہے، ایک طرف تو انہیں یوں مخاطب کیا جاتا ہے کہ یہ مٹھی بھر لوگ ہیں اور احتجاج کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ وزیرِاطلاعات کہتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا کچھ کیا جائے گا کہ انہیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ اور دوسری طرف دارالحکومت کے عین نیچے، راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن اسکیم میں حضرت مولانا سمیع الحق ؒ(جن کی ساری زندگی اپنے ملک پاکستان کے استحکام اور حفاظت میں گزری)اپنے گھر میں دن دِہاڑے شہید ہوجاتے ہیںاور تاحال ان کے قاتلین کا سراغ بھی نہیں ملتا۔کیا کہا جائے کہ حکومتی مشینری کا کام صرف اپنی عوام کو ڈرانا اور دھمکانا رہ گیا ہے اور باقی ملک میں بھلے کشت وخون، چوری وڈکیتی اور اغواء کی وارداتیں ہوتی رہیں، حکومت اور اس کے کارپردازان کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔
آخر حکومتی افراد اس ملک اور قوم کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں؟! اگر حکومت ملعونہ آسیہ کی رہائی کو دباؤ کا نتیجہ نہیں سمجھتی تو اس کے پاس قوم کے ان سوالات کا کیا جواب ہے:
۱:-اس سال ۲۰۱۸ء کے ماہِ جنوری میں یورپی یونین کا وفد آکر پاکستانی حکام پر پاکستان کی تجارتی پالیسی میں شرکت کی بقا کو آسیہ ملعونہ کی رہائی کے ساتھ کیوں مشروط کرتا ہے؟
۲:-وزیرِاعظم صاحب وزیرِاعظم بنتے ہی یہ کیوں انٹرویو دیتے ہیں کہ جب آسیہ ملعونہ معافی مانگ رہی ہے تو اس کو معافی دے دینی چاہیے؟
۳:-فیصلے سے پہلے پورے ملک میں ہائی الرٹ کے احکامات کیوں دیئے گئے تھے؟
۴:-حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ جب وزیراعظم عمران خان صاحب سے ملے اور انہوں نے سوال کیا کہ میںنے سنا ہے کہ آسیہ ملعونہ کی رہائی کی باتیں ہورہی ہیں اور آپ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے، میں آپ کو کہتا ہوں کہ ان کے دباؤ میں نہ آئیں، تو وزیراعظم صاحب نے اس کا انکار کیوں نہیں کیا؟ 
۵:-آسیہ ملعونہ کی رہائی پر برطانیہ کی پارلیمنٹ، ان کا وزیراعظم، عیسائیوں کا پوپ اور پورا یورپ، امریکہ اور نعوذ باللہ! حضور اکرم a کے گستاخانہ خاکے بنانے والا ملعون کیوں خوشیاں منارہا ہے؟
۶:- صرف یہی نہیں، بلکہ شیطان کی آنت کی طرح امریکہ اور برطانیہ کے مطالبات میں اضافہ کیوں ہورہاہے؟اس فیصلے کے بعد امریکہ نے پاکستان سے ۴۰ گستاخوں کی رہائی کا مطالبہ کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آسیہ ملعونہ کی حفاظت یقینی بنانے، توہینِ رسالت کے قوانین بدلنے کی فرمائش، آسیہ ملعونہ کی رہائی کے فیصلے کی تحسین، پاکستان سے سزائے موت ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ روزنامہ اُمت کی درج ذیل خبر میں ملاحظہ فرمائیں:
’’واشنگٹن؍لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ توہینِ رسالت کے جرم میں قید ۴۰افراد کو رہا کیا جائے اور آسیہ بی بی کی حفاظت یقینی بنائی جائے، جبکہ برطانیہ نے بھی آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کو جرأت مندانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سزائے موت کا قانون ختم کرے۔ امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف)نے سپریم کورٹ کی جانب سے توہینِ رسالت کیس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کالعدم قرار دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار دیگر ملزمان کو رہا کیا جائے۔یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں، کیونکہ ان کے دفاع کے دوران پاکستانی حکومت کے دو عہدیداروں شہباز بھٹی اور سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا۔ امریکہ کے بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن کے چیئرمین ٹینزن ڈورجی نے الزام لگایا کہ آسیہ بی بی کا کیس واضح کرتا ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین کو کس حد تک اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جبکہ ان قوانین کا مقصد فرد کے بجائے پورے مذہب کی حفاظت کرنا ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا: اس کیس کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار کے مطابق ہونا چاہیے تھا ۔انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی تشویشناک بات تھی کہ آسیہ بی بی کا کیس اس حد تک پہنچا اور وہ پاکستان کی تاریخ میں توہینِ مذہب کے الزام میں سزائے موت پانے والی پہلی خاتون بن گئی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پیش آنے والی صورت حال پر یو ایس سی آئی آر ایف نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ آسیہ بی بی کی رہائی پر ان کی حفاظت یقینی بنائیں۔ بیان میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا کہ قادیانی عبدالشکور سمیت توہینِ مذہب کے الزام میں قید۴۰اَفراد کو رہا کیا جائے اور توہینِ رسالت کے قانون کو تبدیل کیا جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری جانب آسیہ بی بی کی بریت کی بازگشت برطانوی پارلیمنٹ تک بھی پہنچ گئی۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق وقفۂ سوالات کے درمیان برطانوی وزیر اعظم تھریسامے سے اس فیصلے کو تسلیم اور تعریف کرنے سے متعلق سوال پوچھا گیا۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسامے سے پوچھا کہ کیا وزیر اعظم تھریسامے پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے مسیحی خاتون اور۵بچوں کی والدہ آسیہ بی بی،جس نے پانی پینے کے معاملے پر پیدا ہونے والے تنازع کے نتیجے میں توہینِ مذہب کے الزام میں سزائے موت کا سامنا کرتے ہوئے ۸ سال جیل میں گزارے، اس کی سزا کالعدم قرار دینے کو خوش آمدید کہیں گی اور کیا وزیر اعظم، پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جرأت اور بہادری اور انصاف کی فراہمی قائم کرنے اور آسیہ بی بی کی رہائی سے تمام عقائد کے لیے مذہبی آزادی کے بھیجے گئے پیغام کی تعریف کریں گی؟ اس پر برطانوی وزیرِ اعظم نے جواب دیا کہ پاکستان سے آنے والی آسیہ بی بی کی رہائی کی خبر کا اُن کے اہل خانہ اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں اُن کی رہائی کی مہم چلانے والوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ: سزائے موت پر ہمارا ٹھوس موقف سب جانتے ہیں اور ہم عالمی سطح پر اس کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘          (روزنامہ اُمت کراچی، ۲؍ نومبر۲۰۱۸ء)
اس لیے پاکستان کی تمام دینی، مذہبی ، سیاسی جماعتیں اور پوری پاکستانی قوم اس پر سراپا احتجاج ہے کہ ہمارے ملک کو یرغمال بناکر اُن کے اوپر بیرونی ایجنڈا مسلط کیا جارہا ہے اور موجودہ حکومت ان کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آلۂ کار کے طور پر لائی گئی ہے، جیسا کہ ۸ نومبر ۲۰۱۸ء بروز جمعرات شاہراہِ قائدین پر متحدہ مجلس عمل کے زیرِاہتمام تحفظِ ناموسِ رسالت ملین مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا: 
’’کراچی (رپورٹ: اسامہ عادل) متحدہ مجلس عمل کے تحت تحفظِ ناموسِ رسالت ملین مارچ کے قائدین نے ملعونہ آسیہ کی رہائی کے فیصلے کومسترد کرتے ہوئے ناموسِ رسالت(a) تحریک جاری رکھنے اعلان کیا ہے ۔ قائدین نے کہا کہ: فیصلہ قانون اورآئین کے بجائے عالمی دباؤ پر کیا گیا۔ موجودہ حکمرانوں کو مسلط کرنے کا مقصد ملک کی نظریاتی خود مختاری اور آزادی کو سلب کرنا ہے۔ ہم نظریاتی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ گرفتاریوں سے خوف زدہ نہیں ، بلکہ سر پر کفن باندھ کر آچکے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے خلاف آج ملک بھر میں ضلعی ہیڈ کواٹرز پر بعد نمازِ جمعہ پر امن احتجاج کیا جائے گا۔۱۵نومبر کو لاہور میں ملین مارچ اور ۲۵نومبر کو سکھر میں ختمِ نبوت کانفرنس ہوگی او ر آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہارمتحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، علامہ ساجد میر، عبد الغفور حیدری، شاہ اویس نورانی، معراج الہدیٰ صدیقی، مولانا راشد محمود سومرو، علامہ شبیر میثمی، محمد حسین محنتی، علامہ ناظر عباس تقوی، حافظ نعیم الرحمن، قاری محمد عثمان، یوسف قصوری، مولانا عبد القیوم ہالیجوی، مولانا اعجازمصطفی نے جمعرات کو شاہراہِ قائدین پر متحدہ مجلس عمل کراچی کے تحت تحفظِ ناموسِ رسالت(a) ملین مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ملین مارچ کے شرکاء نے بے مثال مظاہرہ کر کے سچے اُمتی ہونے کا ثبوت دیا اور حکمرانوں پر واضح کر دیا کہ توہینِ رسالت کے قانون کو تبدیل نہیں کرنے دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف گزشتہ جمعہ کو فرزندانِ اسلام کی عوامی عدالت نے فیصلہ دیا اور عدالتی فیصلے کومستردکر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا جو ناموسِ رسالت کے خلاف ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو امریکہ کے حوالے کیا گیا اور ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نظریاتی شناخت ختم کردی گئی ہے۔ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنایا جارہا ہے۔ ہم اس وقت بھی اپنے وطن کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ کیا وجہ ہے امریکہ اس فیصلے کو سراہ رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ بیلجیم کا صدر اس فیصلے کی تحسین کر تاہے؟ ایک پوپ عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کر رہا ہے ۔ یہ اسلامی ملک کی کیسی سپریم کورٹ ہے جس کے فیصلے پر اُمتِ مسلمہ مضطرب ، اہلِ مغرب اور یہودی جشن منا رہے ہیں۔اگر کسی کو مغرب کی یاری اتنی عزیز ہے تو وہ منصب چھوڑ کر ٹرمپ کے گھر چلا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ایک لابی سرگرم ہے ۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ لوگ کس طرح کی ریاستِ مدینہ قائم کرنا چاہتے ہیں؟! کہتے ہیں کہ ریاستِ مدینہ میں بھی یہودیوں سے معاہدہ کیا گیا تھا۔ ان کو نہیں معلوم کہ جب رسول اللہa نے ریاستِ مدینہ قائم کی تویہودیوں کو جزیرۃ العرب سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے حکمرانوں کو متنبہ کیاکہ ہم زندہ رہیں اور پاکستان پر اسرائیل کا جھنڈا لہرائے، یہ کبھی نہیں ہوگا۔ حکمران یہودی ایجنڈا لے کر آئے ہیں۔ ملک بھر میں قادیانی نیٹ ورک سرگرم ہو چکا ہے ۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کسی کا باپ بھی ناموسِ رسالت قانون کو ختم نہیں کر سکتا۔ ہم سروں پر کفن باندھ کر نکلے ہیں اور حکمرانوں کا پیچھانہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم گیڈر بھبکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ۱۵نومبر کو لاہور میں ملین مارچ ہوگا۔ آج (جمعہ) تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز پر مظاہرے کیے جائیں گے۔ ۲۵نومبر کو سکھر میں ختمِ نبوت کانفرنس ہوگی۔انہوں نے کہا کہ مولانا سمیع الحق کو شہید کیا گیا، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ 
علامہ ساجد میر نے کہا کہ عمران خان کو مسلط کرنے والے ٹھیکیداروں کو بتانے کے لیے ملین مارچ کیاگیا ہے کہ ناموسِ رسالت پر ہر مسلمان جان قربان کرنااپنی سعادت سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ توہینِ رسالت کے ۸ہزار کیس ہوئے ہیں، لیکن کسی ایک میں بھی سزا نہیں دی گئی۔وزیراعظم کہتے ہیں کہ مذہبی کارڈ استعمال نہیں کرنے دیں گے ۔ ہم ا ن کو بتا نا چاہتے ہیں کہ ہم کوئی مذہبی کارڈ استعمال نہیں کر رہے، بلکہ ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
مولانا عبد الغفور حیدری نے کہا کہ حکمرانوں سے پہلا کام اسرائیل کو تسلیم کرانے اور دوسرا کام قادیانیوں کے لیے سہولت کاری کا لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انصاف کا قتل کیا ہے ۔ ہم اس فیصلے کو نہیں مانتے۔ 
شاہ اویس نورانی نے کہا کہ آج کے ملین مارچ سے پیغام گیا ہے کہ جو قوتیں ناموسِ رسالت قانون میں ترامیم چاہتی ہیں، وہ یاد رکھیں کہ ہماری مائیں ممتاز قادری پیدا کریں گی۔ یہ ملک غلامانِ مصطفی کا ہے ۔جب تک فیصلے کو واپس نہیں لیا جائے گا، مجلسِ عمل کا قافلہ جاری رہے گا۔ 
معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ پوری ملت اسلامیہ متحد ہے۔ اگر توہینِ رسالت ہوئی تو اسلام آباد میں بیٹھنے والے نہیں رہیں گے۔ 
علامہ شبیر میثمی نے کہا کہ آج کے مارچ نے واضح کر دیا ہے کہ ہم ناموسِ رسالت پر ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ 
محمد حسین محنتی نے کہا کہ عالمی سازش کے تحت آسیہ کورہائی دی گئی ۔ ممتاز قادری کو تو لمحوں میں پھانسی دے دی گئی اور توہینِ رسالت کی مرتکب ملعونہ کو رہا کر دیا گیا۔ 
ناظر عباس تقوی نے کہا کہ وزیر اعظم جو پاکستان کو ریاستِ مدینہ بنانے کا دعویٰ کرتے تھے، ان کی ریاستِ مدینہ میں توہینِ رسالت کی گئی۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے ۔ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں ،لیکن توہینِ رسالت برداشت نہیں کر سکتے ۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ آج ہم ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آج انسانوں کا سمندر اعلان کر رہا ہے کہ ناموسِ رسالت پر حملہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ جو آسیہ کا ساتھی ہوگا، ہماری اس سے جنگ ہے۔ ہماری سپریم کورٹ نے مغرب کے ایجنڈے کوپورا کیا ہے ۔اگر چیف جسٹس کہیں کہ توہینِ عدالت کامقدمہ چلائیں گے، اس کے لیے ہم تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آسیہ کو باہر بھیجنے کی سازش ہوئی ہے،لیکن یہ تحریک رُکنے والی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘ ‘                               (روزنامہ اُمت کراچی، ۱۳؍ نومبر۲۰۱۸ء)
اور اس بات کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی ایک خاتون رکن عاصمہ حدید نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ، اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ان کے ساتھ معاہدہ کرنے پر بہت زیادہ زور دیا اور اس کے علاوہ کئی خود ساختہ باتیں بناکر گویا باور کرایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم a کی خواہش کے مطابق ان کا قبلہ بیت اللہ اور یہودیوں کا مسجد اقصیٰ کو بنادیا۔ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے قوم یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ موجودہ حکومت بیرونی دباؤ میں ہے اور انہیں کے تمام احکامات کو بروئے کار لانے میں مصروفِ عمل ہے۔
بہرحال حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کن راستوں پر چل نکلی ہے اور پاکستانی قوم ان سے کیا چاہتی ہے۔ وہ پاکستان پر حکومت کررہے ہیں، انہیں پاکستانی قوم کے دین ومذہب اور مزاج ومفاد میں فیصلے کرنے چاہئیں، نہ کہ بیرونی قوتوں کے مفاد میں۔ اقتدار آنی جانی شئے ہے اور یہ بات بارہا ثابت ہوچکی ہے کہ جن لوگوں نے حضور اکرم a کے منصبِ ختمِ نبوت کا تحفظ کیا اور آپa کی عزت وعصمت اورناموس کی حفاظت کی، اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں دنیا میں بھی مقام ومرتبہ عطا فرمایا اور ان شاء اللہ! آخرت میں بھی انہیں فلاح وکامیابی ملے گی اور جن لوگوں نے حضور اکرم a کے منصبِ ختمِ نبوت اور آپa کی ناموس پر حملہ آوروں اور توہین کرنے والوں کا ساتھ دیا، وہ دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوئے اور آخرت میں بھی ان شاء اللہ! ذلت ورسوائی ان کا مقدر ہوگی، فیصلہ آپ نے کرنا ہے !!!۔

وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین