بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فنِ جرح وتعدیل کی ابتدا اور ارتقا ( ایک طائرانہ نظر )

 

فنِ جرح وتعدیل کی ابتدا اور ارتقا  ایک طائرانہ نظر

    اُمتِ مسلمہ کا طرۂ امتیاز ہے کہ اس نے اپنے علوم کی نسل در نسل اشاعت وتبلیغ میں انتہائی حزم واحتیاط سے کام لیا ہے، ہر دور اور ہر طبقہ میں ایسے رجالِ کار پیدا ہوتے رہے ہیں، جنہوں نے ہر شعبۂ علم میں کھرے اور کھوٹے کو، دخیل اور اصیل کو ممتاز کرکے اس کے مابین فرق کو امت پر آشکارا کیا ہے۔ اس بات کا نہ صرف علم حدیث میں، بلکہ تمام علوم وفنون میں خاص اہتمام کیاجاتا تھا۔     گویا یہ مسلمانوں کے علمی مزاج کا حصہ بن گیا تھا کہ جو علمی بات کسی کے سامنے کی جاتی وہ پوری سند کے ساتھ کہی جاتی، حتیٰ کہ چھوٹے کلمہ کے نقل میں بھی اس کی رعایت کی جاتی تھی، تفسیر کی پرانی کتابیں اس بات کی شاہد ہیں، تفسیر طبری کو ہی دیکھ لیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ اس میں ہر بات اور تفسیر سے متعلق ہرجملہ پوری سند کے ساتھ بیان ہوا ہے، إلا یہ کہ وہ بات ابن جریر طبریؒ کی اپنی رائے ہو، اسی طرح سیرت کی پرانی کتابوں میں بھی اس کا التزام کیا جاتا تھا، حتیٰ کہ ادب، شعر، لغت ان سب کی سندیں بھی موجود ہیں، ابوالفرج اصبہانی کی کتاب ’’الأغانی‘‘ اور المفضل الضبی کا اشعار کی سند ذکر کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے۔     اسناد کا اہتمام دوسرے علوم کی بنسبت علمِ حدیث میں زیادہ کیا جاتا ہے، کیونکہ اس کا تعلق براہِ راست شریعت کے ساتھ ہے، بلکہ کلام اللہ کے بعد احکام کے واسطے یہ بنیادی مأخذ کی حیثیت رکھتا ہے، اسی وجہ سے علماء فن نے ہرہر حدیث کی سند پر مستقل کلام کیا ہے اور اس میں موجود ہر فرد کی مکمل جانچ پڑتال کی ہے، اس کی عدالت، حافظہ، اس کی چال چلن، مشاغل، وہ کس تخیل اور کس مشرب کا تھا، اس کے شیوخ اور اساتذہ کون تھے، غرض ان سب باتوں کا جائزہ لیا جاتا، تاکہ جرح وتعدیل کے اصولوں کے مطابق روایتِ حدیث میں اس کے مقام کا اندازہ لگایاجا سکے اور نبوی شہ پاروں کو کذب وافترا کی آمیزش سے پاک رکھاجاسکے۔     جرح وتعدیل کا تصور اور اس کا ثبوت بقول استاذ محترم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی دامت برکاتہم کے ’’عہدِ رسالت ہی سے مل جاتا ہے۔‘‘ بخاریؒ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابوذر غفاریq نے کسی کو برا بھلا کہا تو آپ aنے ان پر جرح کرتے ہوئے فرمایا: ’’إنک امرؤ فیک جاہلیۃ‘‘ کہ۔۔۔’’ تمہارے اندر تو جاہلیت کی بو پائی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری، ج:۱،ص:۲۱،حدیث نمبر: ۳۰، دارابن کثیر)      اسی طرح حضرت معاذq پر جرح کرتے ہوئے آپ a ارشاد فرماتے ہیں: ’’أفتان أنت یا معاذ؟!‘‘ کہ لوگوں کو آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتے ہو اے معاذ!۔‘‘ (مسند احمد، ج:۱۱،ص:۳۷۹،رقم:۱۴۱۲۴) بلکہ بعض معہود الفاظِ جرح وتعدیل کا استعمال بھی آپ a سے ثابت ہے، جیسے کہ ایک موقع پر آپa سے کاہنوں کے بارے میں دریافت کیاگیا تو آپa نے فرمایا: ’’لیسوا بشیئ‘‘ (بخاری، ج:۵، ص:۲۲۹۴، رقم:۵۸۵۹، دار ابن کثیر) اسی طرح واقعۂ افک میںآپ m نے اپنے گھر والوں کی تعدیل کرتے ہوئے ارشادفرمایا: ’’فواللّٰہ ما علمت من أہلی إلا خیراً‘‘ کہ۔۔۔’’ بخدا! مجھے تو اپنے گھروالوں کے بارے میں بھلائی کے سوا کسی بات کی توقع نہیں ہے۔‘‘(المصطلح الحدیثی من خلال کتاب الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم، تالیف:دکتور عبد الرحمن، ص:۱۴۱) اور اسی قبیل سے آپ m کا ابن مسعودq کے بارے میں یہ مقولہ بھی ہے کہ ’’ماحدثکم ابن مسعودؓ فاقبلوہ‘‘ اور دوسری روایت میں ’’فصدقوہ‘‘ کہ’’ ابن مسعودؓ جس بات کی خبر دیں اس کو قبول کرلو‘‘ یا دوسری روایت کے مطابق ’’اس کی تصدیق کرو۔ (مسند ابی یعلی،ج: ۱۶، ص:۵۷۶، رقم:۲۳۱۶۹، کنز العمال رقم:۳۳۱۱۷) اسی طرح حضرت ابوذرq کے بارے میں ان کی سچائی اور صدق گوئی سے متعلق ’’ما أخللت الخضراء ولا أقلت الغبراء من ذی لہجۃ أصدق من أبی ذرؓ‘‘۔ (مسند احمد، ج:۱۶،ص:۷۴،رقم:۲۱۶۲۱) فرمایا،اس قول میںبھی ان کی تعدیل کی اور مذکور الصدر مثالیں عہدِ رسالت میں جرح کے تصور کی واضح اور روشن مثالیں ہیں جن میں جرح وتعدیل کا صدور ہمیں لسانِ نبوی سے ہوتا نظر آتا ہے۔     اسی بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اگر صحابہ کرامؓ کی زندگیوں اور ان کے احوال کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں بھی جرح وتعدیل کے مظاہر نظر آسکتے ہیں، کیونکہ ان سے بھی جرح وتعدیل ثابت ہے، جیسے کہ امام حاکمv نے اپنی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ ص:۵۲ میں صراحت فرمائی ہے کہ ’’أبوبکرؓ وعمرؓ وعلیؓ وزید بن ثابتؓ جرحوا وعدلوا‘‘ بطور نمونہ چند مثالیں جن کی طرف حضرت الاستاذ مولانا ڈاکٹر محمد عبدالحلیم چشتی مدظلہٗ نے رہنمائی فرمائی یہاں ذکر کردیتا ہوں:     1-بخاری کی روایت میں حضرت خدیجہt نے آپ m کو تسلی دیتے ہوئے ’’إنک لتصل الرحم‘‘ کہ۔۔۔’’ آپ تو صلہ رحمی کرنے والے ہیں‘‘ جیسے توصیفی وتعدیلی جملے ارشاد فرماکر آپa کی معاشرتی خوبیوں کو نمایاں کیا۔ (بخاری، ج:۱، ص:۵، رقم:۳، دار ابن کثیر)     2-فتنۂ ارتداد کے موقع پر جب حضرت عمرq نے حضرت صدیق اکبرq سے کچھ نرمی کی سفارش کی تو حضرت صدیق اکبرq نے حضرت عمرq پر جرح کرتے ہوئے ایک سخت جملہ ارشاد فرمایا: ’’جبار فی الجاہلیۃ خوار فی الإسلام‘‘ کہ۔۔۔’’ جاہلیت میں تو بڑے سخت گیر تھے اور اسلام میں یہ حال ہے۔‘‘ (تاریخ الاسلام للذہبی، ج:۱، ص:۳۲۱)     3-صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباسr نے نوف بکالی کی تکذیب کرتے ہوئے اس پر جرح کی کہ ’’کذب عدوُّ اللّٰہ‘‘ ۔۔۔’’اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا۔‘‘ (المنہج الاسلامی فی الجرح والتعدیل، ص:۲۶، تالیف: أ۔د فاروق حمادۃ)     اسی طرح راویوں کی تفتیش اور ان کی جرح وتعدیل کا یہ سلسلہ عہدِ صحابہؓ کے بعد بھی طبقہ در طبقہ جاری رہا اور علماء اُمت حق گوئی وبے باکی کے ساتھ بلاخوف وخطر برملا حق کا اظہار کرتے رہے، جس میں انہوں نے کسی بھی قسم کی قرابت داری اور معاشرتی دباؤ کا لحاظ نہیں کیا، حتیٰ کہ جب علی بن المدینیv سے ان کے والد کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوں نے سرجھکالیا اور فرمایا: ’’یہ معاملہ دین کا ہے، وہ ضعیف ہیں۔‘‘ اسی طرح امام ابو داؤدv سے ان کے بیٹے کے بارے میں دریافت کیاگیا تو فرمایاکہ: ’’وہ کذاب ہے‘‘ (الاعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ للسخاویؒ، ص:۶۶) لہٰذا یہ ان علماء امت کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری اداکرنے میں کسی بھی قسم کی قربانی سے کوتاہی نہیں کی اور ہرہر راوی کو جرح وتعدیل کے اصولوںپر پرکھ کر اُمت پر روایتِ حدیث میں ان کی حیثیت کو آشکارا کیا، اب یہاں پر سنتِ نبوی کے ان خدام کا اور امت کے ان روشن ستاروں کا بترتیبِ زمانہ اختصاراً ذکر کیاجاتا ہے: تابعین میں:      1-سعید بن مسیبؒ (۹۴ھ)         2-شعبیؒ (۱۰۳ھ)      3-زہریؒ (۱۲۴ھ)         4-امام ابوحنیفۃؒ (۱۵۰ھ)  دوسری صدی میں:     1-امام اوزاعیؒ (۱۵۷ھ)        2-شعبۃؒ (۱۶۰ھ)     3-سفیان ثوریؒ (۱۶۱ھ)        4-امام مالکؒ (۱۷۹ھ)     5- یحییٰ بن سعید قطانؒ (۱۹۸ھ)    6- عبد الرحمن بن مہدیؒ (۱۹۸ھ) تیسری صدی میں:      1-امام شافعیؒ (۲۰۴ھ)         2-یحییٰ بن معینؒ (۲۳۳ھ)     3-علی بن مدینیؒ (۲۳۴ھ )        4-احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ)      5- امام بخاریؒ (۲۵۶ھ)         6- امام مسلمؒ (۲۶۱ھ)      7- ابو زرعہ رازیؒ (۲۶۴ھ)     8- ابوحاتم رازیؒ (۲۷۷ھ)  چوتھی صدی میں:     1-امام نسائیؒ (۳۰۳ھ)        2-ابن ابی حاتم رازیؒ (۳۲۷ھ)     3- ابن حبان بستیؒ (۳۵۴ھ)    4- دار قطنیؒ (۳۸۵ھ) پانچویں صدی میں:     1- ابو عبد اللہ حاکمؒ (۴۰۵ھ)        2- خطیب بغدادیؒ (۴۶۳ھ)     3- ابن عبد البرؒ (۴۶۳ھ) چھٹی صدی میں:     1-عبد الحق اشبیلیؒ (۵۸۱ھ)         2-ابوبکر حازمیؒ (۵۸۴ھ)      3- ابن الجوزیؒ (۵۹۷ھ) ساتویں صدی میں:     1-ابن نقطہؒ (۶۲۹ھ)        2- ابن الصلاحؒ (۶۴۳ھ) آٹھویں صدی میں:      1-ابن دقیق العیدؒ (۷۰۲ھ)     2-ابوالحجاج مزیؒ (۷۴۲ھ)      3- ابو عبد اللہ ذہبیؒ (۷۴۸ھ ) نویں صدی میں:     1-زین الدین عراقیؒ (۸۰۶ھ)    2-ابن حجرؒ (۸۵۲ھ)     3- بدر الدین عینیؒ (۸۵۵ھ) (المتکلمون فی الرجال للسخاوی، جرح وتعدیل، ڈاکٹر اقبال احمد محمد اسحاق، ص:۲۵۴)     یہ ان درخشندہ ستاروں میں سے چند کے اسماء کی نشاندہی تھی جن کی محنتوں اور کاوشوں کی بدولت آج یہ دین ہم تک بحفاظت پہنچا ہے اور یہ ان کا ایسا عظیم علمی کارنامہ ہے جس کی اقوامِ عالم میں نظیر نہیں ملتی۔ پھر امت کے نفوسِ قدسیہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ رواۃِ حدیث پر ائمہ جرح وتعدیل کا جو کلام تھا اس کو مختلف شکلوں میں جمع بھی کردیا، اس طرح جرح وتعدیل سے متعلق عالمِ کتب میں مختلف النوع مصنفات وجود میں آگئیں، بعض تو صرف ضعیف راویوں پر مشتمل تھیں، بعض نے ثقہ راویوں سے متعلق کلام کو جمع کیا، بعض نے دونوں کو اکٹھا کرکے تصنیفات کیں، بعض نے ضعف کی خاص صورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کتابیں لکھیں، بعض نے کسی خاص کتاب کو پیشِ نظر رکھا اور اس کے رجال سے متعلق کلام کو زینتِ قرطاس بنایا اور بعض کتب سوال وجواب کے طرز پر وجود میں آئیں،ان کا ان شاء اللہ! چند سطور کے بعد مختصر تذکرہ مستقلاً کیا جائے گا۔     امام جرح وتعدیل علامہ ذہبیv (۷۴۸ھ) کے تجزیہ کے مطابق جرح وتعدیل سے متعلق سب سے پہلے جس شخصیت کے کلام کو جمع کیا گیا وہ یحییٰ بن سعید القطانv (۱۹۸ھ) ہیں، چنانچہ وہ اپنی مشہور کتاب ’’میزان الاعتدال‘‘ج:۱،ص:۴۵ میں رقم طراز ہیں: ’’أول من جمع کلامہٗ فی الجرح والتعدیل الإمام یحیٰی بن سعید القطان‘‘ اور امام موصوف حنفی مسلک کے پیر وکار تھے جس کی شہادت علامہ ذہبیv کی زبانی یوں ہے کہ: ’’وکان فی الفروع علی مذہب أبی حنیفۃؒ‘‘ (سیر اعلام النبلاء للذہبیؒ ،ج:۹،ص:۱۷۶) ترجمہ: ’’موصوف فروعی مسائل میں امام ابوحنیفہv کے مذہب پر تھے۔‘‘ بلکہ یحییٰ بن سعید قطانv سے بھی پہلے لیث بن سعدؒ (۱۷۵ھ) کی رجال سے متعلق ایک کتاب ’’التاریخ‘‘ کا ذکر ملتا ہے جس کو ابن ندیم ؒنے اپنی کتاب ’’الفہرست‘‘ (ص:۱۹۹)میں ذکر کیا ہے اور یہ موصوف بھی مذہباً حنفی تھے اور ان کا بھی امام اعظمؒ کے تلامذہ میں شمار ہوتا ہے۔ (عقود الجمان، الجواہر المضیئۃ فی طبقات الحنفیۃ، ج:۱، ص:۵۲) لہٰذا اب یہ کہنا بلاشبہ درست ہوگاکہ فقہائے احناف کو فقہ کے ساتھ ساتھ فنِ جرح وتعدیل میں بھی تفوق وتقدم حاصل ہے۔     فن جرح وتعدیل میں ابتداء ً جو تصنیفات کی گئیں وہ ضعیف راویوں کے حالات پر مشتمل تھیں یا ان میں ضعیف اور ثقہ راویوں کو اکٹھا کرکے ذکر کیا جاتا، صرف ثقہ اورمعتمد راویوں پر مشتمل تصانیف ابتدائی زمانہ میں کم تھیں، چنانچہ پانچویں صدی کے اواخر تک صرف ضعفاء سے متعلق کتب کی تعداد تقریباً (۲۹) تھی اور جمع کے طریق پر لکھی جانے والی کتب اس عرصہ میں (۴۱) تک پہنچ گئی تھیں، جبکہ صرف ثقات پر مشتمل مصنفات اس دور میں انتہائی کم جن کی تعداد( ۷) کے قریب بتائی جاتی ہے۔ (بحوث فی السنۃ المشرفۃ للدکتور اکرم العمری، ص:۱۱۵)     اب یہاں فن جرح وتعدیل سے متعلق مختلف النوع تصنیفات میں سے چند کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے: 1-ضعفاء پر مشتمل کتب: ۱-الضعفاء لیحیی بن معینؒ (۲۳۳ھ)        ۲-الضعفاء لعلی بن المدینیؒ (۲۳۴ھ) ۳-الضعفاء لعمرو بن علی الفلاسؒ (۲۴۹ھ)    ۴-الضعفاء لمحمد بن عبد اللہ البرقیؒ (۲۴۹ھ) ۵-الضعفاء الکبیر والضعفاء الصغیر للبخاریؒ (۲۵۶ھ)    ۶-الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدیؒ (۳۶۵ھ) ۷-میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذہبیؒ (۷۴۸ھ) 2-ثقات پر مشتمل کتب: ۱- الثقات والمتثبتون لعلی بن المدینیؒ۔(۲۳۴ھ)    ۲- کتاب الثقات لأبی الحسن احمد العجلیؒ (۲۶۱ھ) ۳-الثقات لأبی العرب احمد بن محمد التمیمیؒ (۳۳۳ھ)    ۴- کتاب الثقات اور ۵- مشاہیر علماء الأمصار، یہ دونوں ابن حبانؒ (۳۵۴ھ) بستی کی تالیف ہیں۔ ۶- الثقات لأبی حفص عمر السکریؒ (۳۶۷ھ) ۷- تاریخ اسماء الثقات ممن نقل عنہم العلم لابن شاہین الواعظؒ (۳۸۵ھ) ۸- المدخل إلی الصحیحین لأبی عبد اللہ الحاکمؒ (۴۰۵ھ)     اس کے بعد اس نوع کی تالیفات میں انقطاع آگیا، پھر آٹھویں صدی ہجری میں متاخرین میں سے محمد بن ایبکؒ(۷۴۴ھ) نے ثقات پر مشتمل ایک کتاب لکھی لیکن وہ تکمیل کو نہ پہنچ سکی، حافظ سخاویؒ کے بیان کے مطابق اگر وہ کتاب پایۂ تکمیل کو پہنچ جاتی تو ۲۰ سے زائد جلدوں پر مشتمل ہوتی۔ (الاعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ للسخاویؒ، ص:۱۰۹) حافظ ذہبیؒ نے بھی اس نوع سے متعلق ایک کتاب تالیف کی جس کا نام ’’رسالۃ فی الرواۃ الثقات‘‘ ہے، اسی طرح ابن حجرؒ کی بھی اس حوالے سے ایک تالیف ہے جو مکمل نہ ہو سکی اور ان کے شاگرد قاسم ابن قطلوبغاؒ نے بھی اس نوع میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ (بحوث فی السنۃ المشرفۃ، ص: ۱۱۷) 3-جمع کے طرز پر لکھی گئی کتب: ۱-التاریخ، تالیف: لیث بن سعدؒ (۱۷۵ھ)    ۲-التاریخ،تالیف:عبداللہ بن مبارکؒ (۱۸۱ھ) ۳-التاریخ، تالیف: ضمرۃ بن ربیعۃؒ (۲۰۲ھ)    ۴- التاریخ، تالیف: ابونعیم الفضل بن دکینؒ (۲۱۸ھ) ۵- الطبقات الکبری، تالیف:محمد بن سعدؒ (۲۳۰ھ)    ۶-معرفۃ الرجال، تالیف:یحیی بن معینؒ(۲۳۳ھ) ۷- التاریخ، تالیف:یحیی بن معینؒ (۲۳۳ھ)    ۸-التاریخ، تالیف: علی بن مدینیؒ (۲۳۴ھ) ۹- العلل ومعرفۃ الرجال، تالیف: احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ)    ۱۰- التاریخ الکبیر، تالیف: بخاریؒ (۲۵۶ھ) ۱۱- رواۃ الاعتبار، تالیف: مسلمؒ (۲۶۱ھ) ۱۲- ثقات المحدثین وضعفائہم، تالیف: ابو العرب محمد ابن احمد القیروانیؒ (۳۳۳ھ) 4- خاص رجال یا خاص کتب کے رواۃ سے متعلق چند تالیفات پر ایک طائرانہ نظر: ۱- التعریف برجال الموطأ، تالیف:ابوزکریا یحییٰ القرطبیؒ (۲۵۹ھ) ۲-رجال عروۃ، تالیف: مسلمؒ ۳- تسمیۃ رجال عبد اللہ بن وہب، تالیف: محمد بن وضاحؒ (۲۸۷ھ) ۴-اسماء من روی عنہم البخاریؒ، تالیف:عبد اللہ بن عدی الجرجانیؒ (۳۶۵ھ) ٭موصوف پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے بخاری کے رجال سے متعلق قلم اٹھایا۔ ۵- ذکراسماء التابعین ومن بعدہم ممن صحت روایتہ من ا لثقات عند البخاری، تالیف: دارقطنیؒ (۳۸۵ھ) ۶-المعجم المشتمل علی ذکر اسماء شیوخ الأئمۃ النبل، تالیف: ابن عساکرؒ (۵۷۱ھ)، یہ کتاب ائمہ ستہ کے شیوخ سے متعلق پہلی کتاب ہے۔ (مقدمہ علی تہذیب الکمال، د۔بشار عواد معروف، ص:۳۷) ۷-الکمال تالیف: عبد الغنی المقدسی (۶۰۰ھ) موصوف کی تالیف بھی کتب ستہ کے رجال سے متعلق ہے۔ ۸-تہذیب الکمال فی اسماء الرجال تالیف: ابو الحجاج المزی (۷۴۲ھ)، اس میں اصحاب کتب ستہ کی دیگر مؤلفات کے رجال کا اضافہ کیاگیا ہے، چنانچہ امام بخاریؒ کی ۵ کتابیں، امام مسلمؒ کا مقدمہ، امام ابوداودؒ کی ۷ کتابیں، امام ترمذیؒ کی شمائل، امام نسائیؒ کی ۴ کتابیں اور امام ابن ماجہؒ کی ایک کتاب ان میں شامل ہیں۔     اللہ پاک نے حافظ مزیؒ کی کتاب کو کافی مقبولیت عطا فرمائی اور علماء امت نے اس کی کئی طرح خدمت کی ، چنانچہ ا س کی قسم اخیر جو کنیٰ سے متعلق ہے رافع السلامی (۷۱۸ھ) نے اس کا اختصار کیا جس کا نام  ۱:۔۔۔۔۔۔۔ الکنی المختصر من تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ہے۔ ۲:۔۔۔۔۔۔۔ان کے بعد حافظ ذہبیؒ (۷۴۸ھ) نے اس کی مختلف طریقوں سے خدمت کی اور اس سے (۴) کتابیں تیار کیں:     1- تذہیب تہذیب الکمال فی اسماء الرجال۔     2-الکاشف فی معرفۃ من لہ روایۃ فی الکتب الستۃ۔ یہ کتاب حروف تہجی کی ترتیب پر مرتب ہے۔     3-المجرد من تہذیب الکمال، یہ طبقات پر مرتب ہے۔     4-المقتضب من تہذیب الکمال، یہ حروف تہجی پر مرتب ہے۔ ۳:۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح ابو العباس اندرشی (۷۵۰ھ) نے بھی تہذیب الکمال کا اختصار کیا۔ ۴:۔۔۔۔۔۔۔ علاء الدین مغلطائی حنفی (۷۶۲ھ) نے بھی اس کی خدمت کی اور اپنی کتاب کا نام ’’اکمال تہذیب الکمال فی اسماء الرجال‘‘ رکھا۔ ۵:۔۔۔۔۔۔۔شمس الدین حسینی نے بھی اس پر کام کیا اور اس میں سے کتب ستہ کے علاوہ رواۃ کو حذف کرکے اس میں موطأ مالک، مسند احمد، مسند شافعی اور مسند ابی حنیفۃ للحارثی کے رجال کا اضافہ کیا، موصوف کی تالیف کا نام ’’التذکرۃ فی رجال العشرۃ‘‘ ہے۔     یہاں یہ بات واضح رہے کہ دکتور بشار عواد نے تہذیب الکمال کے مقدمے میں مسند ابی حنیفۃ للحارثی کا ذکر کیا ہے، جیساکہ اوپر گزرا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ مسند ابی حنیفۃ لملاخسرو ہے، جیساکہ علامہ عبد الرشید نعمانی v نے وضاحت فرمائی ہے۔ (ملاحظہ ہو: تعجیل المنفعۃ، ص:۲۳۵) ۶:۔۔۔۔۔۔۔ عماد الدین ابن کثیرؒ (۷۷۴ھ) کی بھی اس حوالہ سے ایک کتاب ہے جس کا نام ’’التکمیل فی الجرح والتعدیل ومعرفۃ الثقات والضعفاء والمجاھیل‘‘ ہے،اس میں موصوف نے ’’تہذیب الکمال‘‘ اور اپنے شیخ کی ’’میزان الاعتدال‘‘کو کچھ اضافوں کے ساتھ جمع کیا ہے۔ ۷:۔۔۔۔۔۔۔ابن بردس بعلبکی حنبلیؒ (۷۸۶ھ) نے بھی ’’بغیۃ الأریب فی اختصار التہذیب‘‘ کے نام سے ایک کتاب تالیف کی ہے۔ ۸:۔۔۔۔۔۔۔ ابن الملقن شافعیؒ (۸۰۴ھ) کی تالیف ’’اکمال تہذیب الکمال‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ ۹:۔۔۔۔۔۔۔ابن قاضی شہبہؒ (۸۵۱ھ نے بھی ’’تہذیب الکمال‘‘ کا اختصار کیا ہے جس کا حاجی خلیفہ نے اپنی کتاب کشف الظنون میں ذکر کیا ہے۔ ۱۰:۔۔۔۔۔۔۔ ابن حجرؒ (۸۵۲ھ) کی بھی تصنیف ہے ’’تہذیب التہذیب‘‘ کے نام سے، پھر موصوف نے اپنی اس کتاب کا خود اختصار کیا جو ’’تقریب التہذیب ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ۱۱:۔۔۔۔۔۔۔تقی الدین ابن فہد (۸۷۱ھ) کی بھی اس سلسلے میں ایک تالیف ہے جس کا نام ’’نہایۃ التقریب وتکمیل التہذیب بالتذہیب‘‘ ہے۔ (مقدمۃ تہذیب الکمال، د۔بشار عواد) 5- ضعف کی بعض خاص اقسام سے متعلق لکھی گئی چند کتب کا ذکر: ۱-کتاب المدلسین تالیف: علی بن المدینیؒ (الفہرست لابن الندیم، ص:۲۳۱) ۲-تعریف اہل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس، تالیف: ابن حجرؒ۔ ۳- الاغتباط بمن رمی بالاختلاط، تالیف: سبط ابن العجمی (۸۴۱ھ) (نظریۃ نقد الرجال ومکانتہا فی ضوء البحث العلمی، تالیف: د۔عماد الدین محمد الرشید، ص: ۳۷۳)     سبط ابن العجمیؒ کی کتاب اپنے موضوع سے متعلق کافی فائدہ کی حامل ہے جس کا اعتراف علامہ کوثریؒ نے بھی ’’شروط الأئمۃ الخمسۃ للحازمی‘‘ پر اپنے حواشی میں کیا ہے۔ (ملاحظہ ہوـ: ص:۱۴۶) 6- شاگرد واستاذ کے درمیان سوال وجواب کے طرز پر لکھی گئی کچھ کتب کا ذکر: ۱- سؤالات ابن المدینی لیحییٰ فی الجرح والتعدیل۔    ۲- سؤالات محمد بن عثمان بن أبی شیبۃ لعلی بن المدینیؒ۔ ۳- سؤالات عثمان الدارمی لیحییٰ بن معینؒ۔        ۴-السؤالات عن احمد بن حنبل لمسلم بن الحجاجؒ۔                                                          (المنہج الاسلامی فی الجرح والتعدیل، ص: ۶۵، د۔فاروق حمادہ)     یہ چند سطور تھیں فن جرح وتعدیل سے متعلق جس سے اس فن کی ابتدا، اس کی تاریخی حیثیت اور پھر اس کا ارتقا اور علماء امت کی اس حوالے سے خدمات کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے اور بلاشبہ یہ ان انفاسِ قدسیہ کا ہم پر احسان ہی ہے کہ جن کی بدولت آج یہ امت برملا اپنے نبی a کے ارشادات وفرمودات نقل کرنے والوں کی پیدائش سے لے کروفات تک تمام حالات وواقعات کو بیان کرسکتی ہے اور ان کی روایتِ حدیث میں حیثیت کا اندازہ لگاسکتی ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے: گروہ ایک جویا تھا علم نبیؐ کا  لگایا پتہ جس نے ہر مفتری کا  نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذب خفی کا  کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا  کیے جرح وتعدیل کے وضع قانون نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں اسی دھن میں آسان کیا ہر سفر کو اسی شوق میں طے کیا بحر وبر کو  سنا خازنِ علم دیں جس بشر کو لیا اس سے جاکر خبر اور اثر کو پھر آپ اس کو پرکھا کسوٹی پہ رکھ کر دیا اور کو خود مزہ اس کا چکھ کر فجزاہم اللّٰہ عن الأمۃ خیر الجزاء وآخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین