بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فنِ تحریر ۔۔۔۔۔۔ احوال و گزارشات۔۔۔۔۔۔

فنِ تحریر ۔۔۔۔۔۔ احوال و گزارشات۔۔۔۔۔۔

    لکھنا ایک فن ہے، یہ وہ ملکہ ہے جو عطیۂ خداوندی ہے اور بعض لوگوں کو وہبی طور پر حاصل ہوتا ہے، اُنہیں لکھنے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض لوگ اس خزانۂ خداوندی کو استعمال کرکے ایک دبستانِ علم قائم کرجاتے ہیں، لیکن بہت سارے لوگ اس نعمتِ خداوندی سے واقف نہیں ہوتے کہ اُنہیں یہ ملکہ حاصل بھی ہے یا نہیں، وہ اس مشک کو اپنے نافے میں لیے پھرتے ہیں، انہیں اس گہر کا اندازہ نہیں ہوتا، اور یوں یہ قیمتی سرمایہ اس کے ساتھ سپرد خاک ہوجاتا ہے۔     کچھ نفوس اس وہبی صلاحیت سے بظاہر محروم نظر آتے ہیں، لیکن حقیقت میں ہوتے نہیں۔ مشیتِ ایزدی اُنہیں ان کی طلب کے بقدر دے کر مزید آگے سے آگے بڑھانا چاہتی ہے، اس لیے ابتداء میں انہیں بہت محنت کرنی پڑتی ہے اور بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔     ایسا لکھنے والا جب لکھنے بیٹھتا ہے تو یہ کام اُسے جوئے شیر لانے کے مترادف معلوم ہوتا ہے، اس کا قلم کبھی دائیں مڑتا ہے، کبھی بائیں۔ کبھی اس کی نگاہ سطروں کی طرف ہوتی ہے، کبھی حروف کی بناوٹ دیکھ کر خوش ہوتاہے ۔ کبھی اپنے خط کی خوبصورتی یا بدصورتی میں محو ہوجاتاہے ، کبھی اس کا دل اُسے خوش خطی کے فضائل یاد دلاتا ہے۔ کبھی اس کے دماغ میں مایوسی کے اَبر چھا جاتے ہیں، کبھی اپنے دوستوں کی تحریری صلاحیت میں آگے بڑھنے کی ہوا چل کر اس کے شکستہ دل کے تنکوں کو اُڑاتی ہے ۔ کبھی دوسروں کو میدانِ تحریر کے اُفق پر براجمان دیکھ کر خود کسی اندھیرے کنویں کی گہرائی میں اُتر کر چُھپنے کی کوشش کرتاہے۔     دل میں موجود یہ طوفان اس کے قلم کے’’ چپو ‘‘کو اس کے علمی سفینہ کا ساتھ دینے سے عاجز کرنے کی مسلسل کوشش کرتاہے ، وہ چاہتا ہے کہ خیالات کے ان طوفانوں کا مقابلہ کرے ، لیکن قلم کی بے ہنگم جنبش ، یا طوفان کے تھپیڑوں سے شکست خوردہ کسی ملاح کی طرح ایک طرف ڈھلک جانا، اس کے سفینے کو نہ آگے بڑھنے دیتا ہے ، نہ دریا کے اُس پار لگنے دیتا ہے۔     اس کا دل علمی سمندر ہوتا ہے، لیکن سفینہ کو اپنے بادبانوں یا بلّیوں کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے سمندر میں ڈبودیتاہے، اس کے پاس موجود سیاہی طویل عرصہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے کسی ریگستان کی طرح خشک ہوجاتی ہے۔ اس کے قلم کی نوک سیاہی کے ساتھ چند لمحوں کے اختلاط کے بعد جیب یا مطالعہ کی میز پر پڑے رہنے کی وجہ سے زنگ آلود ہوجاتی ہے۔ اس کے دل میں کبھی تلاطم پیدا ہوتا بھی ہے تو خلق خدا کو اس سے نفع نہیں پہنچ پاتا ، بلکہ کسی نہ پھٹنے والے آتش فشاں پہاڑ کی مانند سارے قیمتی معدنیات کو اپنے دل میں سمیٹے کسی بڑے دھماکے کے انتظار میں صدیاں بِتادیتا ہے۔     یا پھر کبھی ہمت کرکے کسی کو اپنا راہنما سمجھ کر اُسے ایک صفحہ کی تحریر لکھ کر دکھا تا ہے، کبھی مستشار شخص اس کی کیفیت کا اندازہ لگا کر اُسے اس راہ پر چلا دیتا ہے جس کے بعد اگر چہ یہ لکھاری اُسے مڑکر دیکھے بھی نہ ،لیکن لکھنے والے کی صحیح رہنمائی کرنے کی وجہ سے اس کے قلم سے تحریر شدہ بہت سارے مضامین اور مخلوقِ خدا کے فائدے کے لیے لکھی گئی تحریروں کی وجہ سے برابر اجر وثواب میں اس کا شریک رہتا ہے۔ لکھنے والا اپنے اس محسن کو بھول بھی جائے، لیکن جس ذات کے لیے اس شخص نے اُسے سکھایا ہوتا ہے‘ وہ اس کے نامۂ اعمال میں مسلسل اجر و ثواب لکھتا رہتا ہے ۔     کبھی یہ کسی ایسے شخص کے پاس پہنچتا ہے جو خود تحریر کی چوٹی کے سواروں میں سے ہوتا ہے ، اور اپنے علو مرتبہ اور تحریر کے بلند وبالا محلات میں رہنے کی وجہ سے اس کے ِتنکوں سے بنائے چھوٹے سے گھونسلے کو حقیر سمجھ کر ، یا صاحبِ تحریر کی شان کو اس قسم کی ہلکی تحریر سے بلند وبالا سمجھ کر اُسے دھتکارتا ہے ، اُسے ایسی کڑوی کسیلی سناتا ہے کہ لکھنے والا اس تحریر ہی نہیں ،بلکہ اپنی زندگی پر بھی افسردہ ہوجاتا ہے ۔ وہ لکھنے کے تصور کو اس کے پاس سے اُٹھنے سے پہلے اس طرح اپنے دماغ سے نکال دیتا ہے کہ دماغ میں موجود کسی خلیے میں تلاشِ بسیار کے باوجود اس کی کوئی ادنیٰ سی جھلک بھی نظر نہیں آتی۔       ہاں! اگر پروردگار نے اس کے جہدِ مسلسل، اس کے عزم مصمم، اس کی طلب ِ صادق کی بنا پر اُسے تحریر کا ملکہ عطا فرمایا، اس کا قلم سیل ِ رواں کی طرح چلے گا، یہ لمحات میں دیکھے منظر کو صدیوں کی مانند ایک لمبی داستان بنادے گا، یہ معارفِ خداوندی کو اپنی نوکِ قلم سے اس طرح بیان کرے گا کہ ایک عالَم اس کی تحریر سے فیضیاب ہوگا ، اس کے سینے میں موجزن یہ دریا ایک جہاں تک اس کی کیفیت کو منتقل کردے گا، اس کا قلم بندگانِ خدا کی رہنمائی کا ذریعہ، رہبری کا تاج وَر ہوگا۔     یہ تب ہوگا جب خدا پر توکل کرکے، اس سے طلب کرتے ہوئے، جہدِ مسلسل کرتا رہے اور مضامین کو اپنی استطاعت کے بقدر لکھتا رہے، لیکن اُسے تحریر سیکھنے کے لیے اپنی زندگی کے چند اُصول بنانے پڑیں گے، جس کے بغیر اس کا تحریر کے میدان میں قدم رکھنا موسمی بارش کے مانند ہوگا۔ کچھ لکھ لینے کے بعد پھر سے گھبرا کر چھوڑ دے گا، اس لیے لازم ہے کہ تحریر کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ذہن میں اس کے نشیب وفراز کے بارے میں سوچ لے اور کوئی ایسی صورت اختیار کرے جو ہر موڑ پر اس کی خواہش کو توڑدینے کے بجائے کسی نہ کسی منزل تک پہنچادے۔      پھر ہر شخص اپنے اندر کے احساسات سے خود واقف ہوتا ہے، خود اس چیز کا خیال رکھے کہ کونسی چیز مجھے اپنے مقصد سے دور کرے گی، اس کے لیے پہلے سے ذہن تیار کرلے کہ مجھے اس میں کیا کام کرنا ہے۔ البتہ چند چیزیں جو مشترک طور پر پائی جاتی ہیں، انہیں ذیل کی سطروں میں اُتار کر مصائب کی طرف ہلکا سا اشارہ کیا جاتا ہے۔ باقی ہر شخص اپنے مسائل کو خود سوچ کر کسی بے یارومددگارکی ’’سیلف سروس‘‘ کی طرح کوئی حل تلاش کر ہی لے گا ۔     ۱:… سب سے پہلے تو اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لے کہ مضامین کا لکھنا مشکل کام نہیں ، میں لکھنا شروع کروں گا تو اچھے مضامین لکھ سکوں گا۔ کیونکہ جو شخص اپنے بارے میں یہ ذہن قائم کرلے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا تو وہ کام اُسے مشکل ہی لگتا ہے، پھر اس راہ پر چلنے میں اگر معمولی ٹھوکر بھی لگتی ہے تو یہ راہ گزر اُسے اپنی ہلاکت کا ذریعہ سمجھتا ہے ، عربی کا مشہور مقولہ ہے : ’’ إذا استصعبتہٗ تجدہ صعبًا ، وإذا استھلتہ تجدہ سھلاً ‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر کسی چیز کو مشکل سمجھو گے تو مشکل پاؤگے اور اگر آسان سمجھوگے تو آسان پاؤگے ۔ اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق معاملہ کرتے ہیں ’’أنا عند ظن عبدی بی ‘‘ میں اسی اصول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔     ۲:…دوسری جو چیز انسان کے مضامین کی صلاحیت کو ختم کرتی ہے، وہ اپنے سے بڑوں یا اس فن کے شہسواروں کی تحریروں سے اپنی ابتدائی تحریروں کا مقابلہ کرنا ہے۔ کسی بھی ابتدائی لکھاری کے لیے یہ خیال زہر ِ قاتل ہے کہ میری پہلی تحریرابو الکلام آزادیا شورش کاشمیری کی مانند ہو۔ اس خیال کو دل سے نکالنا ہوگا، ورنہ تحریر کی گاڑی کا چلنا مشکل ہوجائے گا۔ کیونکہ ابوالکلام پہلی تحریر میں مولانا ابوالکلام نہیں تھے، بلکہ ایک ابتدائی لکھنے والے تھے۔ شورش ، شورش بپا کرنے والے بعد میں بنے، ابتداء میں نہیں ، اس لیے یہ تصور ختم کردے کہ میں ابتداء ًہی ایسے مضمون لکھوں گا کہ جس کی ہر ایک تعریف کرے ۔     ۳:… اگر کوئی ابتداء ہی ان کی طرح لکھنے کی کوشش کرے تو تکلف میں پڑے گا اور تکلف کی وجہ سے مضامین کالکھنا مشکل ہوجائے گا،لہٰذا مضامین کے لکھنے میں تکلف سے اپنے آپ کو ایسے بچائے جیسا بیمار کو پانی سے بچایا جاتا ہے۔     ۴:…اس کی آسان صورت یہ ہے کہ تحقیقی مضامین لکھے؛ کیونکہ تحقیقی مضامین میں تکلف بہت کم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے لکھنے میں سہولت ہوتی ہے۔     ۵:…دل میں جب بھی کوئی مضمون آئے، اُسے کاغذ پر اُتار دے۔ بسا اوقات اس بات کا علم نہیں ہوگا کہ کونسی چیز میں لکھ پاؤں گا، لیکن دل میں آئے ہوئے مضمون کو اگر کاغذ کے سپرد کیا تو بعد میں اس سے متعلق سوچنا اور کچھ لکھنا آسان ہوگا۔ اس لیے اس انتظار میں نہ رہے کہ جب مواد ملے گا، تب کوئی عنوان یا مضمون لکھوں گا ۔     ۶:… ایسے موضوع کا انتخاب کرے جو اس کے دل کو بھائے۔ یہ نہ سوچے کہ اس وقت اس موضوع کا چلن ہوگا بھی یا نہیں ، کیونکہ اس وقت مقصد تحریر کا سیکھنا ہے ، اس کی چلن وغیرہ سے کام نہیں ، پھر انسان اپنے من کی بات کہنے میں طاق اس لیے ہوتا ہے کہ وہ جب سوچتا ہے تو اس کے ساتھ دل کی چاہت شریکِ بزم ہوکر اُسے آگے لے کر چلتی ہے ، جس کی وجہ سے لکھنا آسان ہوجاتا ہے۔     ۷:… پھر جب اس سے متعلق تفصیل سے لکھنا ہو تو خطۃ البحث لکھے کہ لکھنا کیا چاہتا ہے، جانا کہاں ہے ، منزل کس چیز کو بنانا ہے۔ کیونکہ منزل متعین نہ ہونے کی وجہ سے انسان چلتے چلتے تھک جاتا ہے اور اپنے کام سے ہٹ جاتا ہے، اب دل اس کا شریک محفل ہو، تب اس کی آنکھوں کے سامنے بہت سارے راستے ہوتے ہیں ، لیکن ہر راہ اور ہر موڑ پر مڑنے والا کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ۔     ۸:…اس خطۃ البحث کو متعین کرنے کا طریقہ سیکھنے کے لیے اسلوبِ تحریر سے متعلق کتابیں دیکھے، کیونکہ اپنی چاہت اگر ایسی منفرد ہو جس پر کوئی چلا نہ ہو، تب تو انسان اپنی من کی ہی سنے، کیوں کہ اس راستے کی ساری مشکلات آپ اپنے ذمے لے کر دوسروں کے لیے اس راستے کو آسان کررہے ہیں۔ لیکن اگر وہ راہ جس پر آپ چلنا چاہتے ہیں، آپ سے پہلے کوئی اور چل چکا ہے تو ان سے مشورہ نہ کرنا ، ان کے تجربہ سے فائدہ حاصل نہ کرنا بہت بڑی حماقت ہے۔     ۹:…اُسلوب معلوم ہوجانے کے بعد جس صاحبِ قلم کی تحریریں آپ کے دل کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہوں ، جو آپ کے دل کو متاثر کریں، ان کے مضامین کو پڑھیں ، ان سے استفادہ کریں ، ان کے اسلوب سے اپنے آپ کو واقف کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ دل کو چھو جانے والے اسلوب کو اختیار کرنا آپ کے لیے بہت آسان ہوگا ۔ پھر جب بنیادی طور مضمون سیکھ لے، تب دیگر حضرات کے اسلوب کو اختیار کرے ۔     ۱۰:…مضمون لکھنے کے بعد اس سے متعلق اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ فوراً نہ کرے، بلکہ بعد میں اُسے دوبارہ دیکھے ، کیونکہ بعد میں دیکھنے کی صورت میں تنقیدی نظر ہوگی تو اس کے سامنے اپنی خامیاں آئیں گی اور اس طرح تحریر عمدہ سے عمدہ ہوتی رہے گی۔     ۱۱:…لیکن اپنی تصحیح پر اعتماد کلی نہ کرے کہ کوئی آدمی اپنی خطا پکڑنے میں اتنا طاق نہیں ہوتا، جتنا دوسرے کی غلطی پکڑنے میں (الا ماشاء اللہ!) اس لیے یہ ضروری ہے کہ مضامین دکھانے لیے کسی ایک شخص کو متعین کرے، اُس سے تصحیح لے جو خود تحریر کے نشیب وفراز سے واقف ہو، تاکہ تحریر کی خوبی وخامی سامنے آسکے ۔     ۱۲:… تصحیح کروانے والا چونکہ بالکل ابتدائی لکھنے والا ہے، اس لیے اپنی حالت کو دیکھتے ہوئے کسی ایسے شخص کواصلاح ، نوک پلک سنوارنے کے لیے تلاش کرے جو حوصلہ افزائی کرنے والا ہو ،بات بات پر جھاڑدینے یا ہر لمحہ فقط مایوس کرنے والا نہ ہو۔ ہمارے اس زمانے کا بہت بڑا المیہ حوصلہ افزائی کا نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے کم ہمت شخص کبھی باہمت نہیں بن پاتا، بلکہ ہر دم، ہرلمحہ ڈانٹ ڈپٹ کی وجہ سے کسی ہلکی ہمت والے کو کوئی کام کرنے کی خواہش پیدا بھی ہوتی ہے تو وہ کسی کے سامنے پیش کرنے کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے۔ یہ تحریر چونکہ ان لوگوں کے لیے لکھی گئی ہے جو دوسروں کے رحم وکرم پر خود کو چھوڑنے کے بجائے کچھ یقینی طور پر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، اس لیے ان سے یہ گزارش ہے کہ ابتدا سے ہی ایسے حضرات کو تلاش کریں جو منزل مقصود سے کوسوں دور ہونے کے باوجود اس کی طرف جانے کے خیال کو دل سے نکالنے کے بجائے کوئی ایسی راہ نکالے جس سے راہ گیر مایوسی کے بجائے پہاڑوں کو سر کرنے کے لیے بھی تیار ہو۔     ۱۳:…اب ایسے شخص کو تلاش کر لینے کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ جس کے پاس اصلاح لینے گئے وہ کوئی غلطی نکالے ہی نہیں، بلکہ خیر خواہ وہی ہے جو آپ کی غلطی کی اصلاح کرکے آپ کوصحیح کی طرف راہنمائی کردے ۔ اس لیے تصحیح کروانے والا یہ بات ذہن نشین کرلے کہ اگر کسی نے مکمل مضمون کو رد بھی کیا، تب بھی لکھتار ہے گا۔     ۱۴:…لکھنے میں استقامت سے کام لے ، وقت مقرر کرکے کچھ نہ کچھ ضرور لکھے۔ ہر تحریر کی ہر روز تصحیح ہو یہ ضروری نہیں ، لیکن کچھ نہ کچھ ضرور لکھتا رہے، تاکہ یہ لکھنا ایک عادت بن جائے اور لکھے بغیر اُسے اپنا آپ ادھورا دِکھنے لگے۔     ۱۵:…جب یہ سارے کام کرنا شروع کردے گا، تب جاکر ایک طویل عرصہ بعد اس قابل ہوگا کہ اب قلم وقرطاس کے رعب کے بجائے اپنے مافی الضمیر کو صفحات کے سپرد کرکے دوسروں تک پہنچائے، اور یہ کام خدا کی منشأ کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اسی سے دعا مانگتا رہے اور تحریر کے میدان میں کوششیں کرتا رہے، اللہ تعالیٰ ایک دن اُسے اس نعمت سے ضرور سرفراز فرمادیں گے۔ قلم لکھتا گیا میں نے دعا کی  ۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظ۔۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین