بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

فلسفۂ قربانی اور ملحدین کے شکوک وشبہات

فلسفۂ قربانی اور ملحدین کے شکوک وشبہات

    اسلام کا فارسی میں ترجمہ ہے: گردن نہادن، اردو میں گردن جھکانا، خم کرنا، جب گردن جھکانے کا محرک اطاعت وفرمانبرداری کے جذبات ہوں تو اُسے اردو میں تسلیم خم بھی کہاجاتا ہے۔ اطاعت و فرمانبرداری کے جذبہ سے گردن جھکانے والے کو مسلم کہتے ہیں، اسی سے مسلم یا مسلمان اصطلاح سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان یا مسلم احکام الٰہی کے سامنے تسلیم خم کرنے یا گردن جھکانے والے کو کہتے ہیں۔ مسلمان کا جذبۂ ایمانی ہمیشہ اُسے تیار رکھتا ہے کہ جو بھی حکم الٰہی جب اور جیسے اس کی طرف متوجہ ہو، اُسے بجالایاجائے، وہ اُسے بلاچوں وچرا قبول کرلیتے ہیں، لیکن بعض کج رو، کج فہم اور کوتاہ نظر اپنے مقامِ حقارت سے اوپر اچھل اچھل کر اللہ تعالیٰ کے بعض احکام کو اپنی ناقص عقل کی گھسی پٹی کسوٹی پر پرکھ کر قبول یا رد کرنے کی ناروا جسارت کرنے لگتے ہیں اور ایسے لوگ جب ابلاغی ذرائع کا حصہ ہوں یا ذرائع ابلاغ تک ان کی رسائی میں کوئی مشکل نہ ہو تو وہ اسلامی احکام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور اپنی کج فہمی کے مسموم جراثیم مسلمانوں کے درمیان عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایسے ہی اسلامی احکام میں اہم پرحکمت حکم ‘ قربانی کا حکم بھی ہے جو امت مسلمہ‘سالانہ بجالاتی ہے اور بھرپور جذبۂ ایمانی سے ادائیگی کا اہتمام کرتی ہے، مگر ایک عرصہ سے بعض نادان اس سنت ابراہیمی سے متعلق اپنے فاسد خیالات کو عام کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس لیے ماہ ذوالحجہ کی مناسبت سے مناسب معلوم ہوا کہ قربانی سے متعلق ایسے ملحدین کے سطحی شکوک وشبہات کا علمی جائزہ لیا جائے، آئندہ سطور میں یہی کوشش کی جارہی ہے۔      ہر جدید تہذیب وتمدن کا دلدادہ اور مغربیت سے متأثر ذہنیت رکھنے والا اس ماہِ مبارک کے شروع ہوتے ہی سادہ لوح اور مذہب پسند مسلمانوں کا ذہن خراب کرنا شروع کر دیتا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے، لاکھوں لوگوں کی یہ رقمیں بلا وجہ ضائع ہوتی ہیں، اس کے بجائے اگر اتنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کیا جائے، تو معاشرے کے بہت بڑے غریب اور مفلس طبقے کا بھلا ہو جائے گا، یہ افراد بھی زندگی کی ضروری سہولتوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے، وغیرہ وغیرہ، اس طرح منکرینِ قربانی اپنی عقلِ نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعمِ خود قربانی کے نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کرتے نظر آتے ہیں اور اس کی وجہ سے عام مسلمان ان نام نہاد دانشوروں کے زہریلے پروپیگنڈے اور بہکاوے میں آ کر اسلام کے اس عظیم الشان حکم کو ترک کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ a کا ان دنوں (دس ذو الحجہ)میں دائمی عمل     اس صورتِ حال میں سب سے پہلے تو غور کرنے کی یہ بات ہے کہ عید الاضحی کے اس خاص موقع پر اگر قربانی کرنے کی بنسبت انسانیت کی فلاح وبہبود میں مال خرچ کرنااتنا ہی افضل، موزوں ومناسب یا ضروری ہوتا توجناب نبی اکرم a کے زمانہ میں اہلِ ثروت اور صاحب ِ نصاب مسلمانوں پر قربانی کے حکم کے بجائے غریب، سسکتی اور بد حال انسانیت پر مال خرچ کرنا ضروری قرار دیا جاتا، جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر دور میں غریب اور نادار طبقہ موجود رہا ہے، تو یقینا آپ a کے مبارک دور میں بھی یہ طبقہ موجود تھا، بلکہ ایسے افراد تو بکثرت موجود تھے، لیکن رحمۃ للعالمین a (جو اپنی امت کے لیے بہت ہی زیادہ شفیق اور مہربان تھے)نے اپنے زمانہ کے اہلِ ثروت اور صاحب ِ نصاب مسلمانوں کو اس (عید الاضحی کے ) موقع پر یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنا مال رفاہِ عامہ کے مفید کاموں، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کریں، بلکہ یہ حکم فرمایا کہ اس موقع پر اللہ کے حضور جانور کی قربانی پیش کریں۔ اور خود رسول اللہ a کا دائمی عمل ان دنوں میں قربانی کرنے کا ہی تھا، حضرت عبد اللہ بن عمر r فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ a نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا (اس قیام کے دوران ) آپ a قربانی کرتے رہے:‘‘ عن ابن عمرؓ، قال:’’ أقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین، یضحی‘‘۔ (سنن الترمذی، الأضاحی، باب الدلیل علی أن الأضحیۃ سنۃ، رقم الحدیث: ۱۵۰۷) اور صحابہ کرام s کا اس عظیم حکم کو ہمیشہ قائم ودائم رکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنا ہی افضل، اولیٰ اور ضروری ہے۔ ایامِ قربانی میں قربانی افضل ہے یا نقد صدقہ؟     امام احمد بن حنبل v فرماتے ہیں : ’’قربانی کے ایام میں بنسبت صدقہ کرنے کے قربانی کرنا افضل ہے۔‘‘امام ابو داؤد، امام ربیعہ اور ابو الزناد رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ (المغنی لابن قدامہ: ۱۱/۶۹)     نبی اکرم a، ان کے بعد خلفائے راشدین s کا یہی عمل تھا۔ اگر ان حضرات کے نزدیک اس سے بہتر کوئی عمل ہوتا تو وہ یقینا قربانی کی بجائے اسی کو اختیار کرتے، دوسری بات یہ کہ ایسا ہو بھی کیسے سکتا تھا، جب کہ نبی اکرم a کا صریح فرمان مبارک موجود ہے کہ: ’’اس دن میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک (قربانی کے جانور کا)خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔‘‘( عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’ما عمل آدمی من عمل یوم النحر أحب إلی اللّٰہ من إھراق الدم۔‘‘ (سنن الترمذی، فضل الأضحیۃ، رقم الحدیث: ۱۴۹۳)     اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عباس r سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ a نے ارشاد فرمایا: ’’ کسی کام میں مال خرچ کیا جائے تو وہ عید الاضحی کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں‘‘۔ عن ابن عباسؓ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ماأنفقت الورق فی شییٔ أفضل من نحیرۃ فی یوم العید‘‘۔(سنن الدارقطنی، کتاب الأشربۃ، باب الصید والذبائح والأطعمۃ، رقم الحدیث: ۴۳)     امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرح ذکر کرتے ہیں کہ صحیح احادیثِ مشہورہ کی بنا پر شوافع کے نزدیک ان دنوں میں قربانی کرنا ہی افضل ہے، نہ کہ صدقہ کرنا، اس لیے کہ اس دن قربانی کرنا شعارِ اسلام ہے، یہی مسلک سلف صالحین کا ہے۔ (المجموع شرح المہذب: ۸/۴۲۵)۔البتہ ! وہ افراد جن پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے، اُن کے لیے یا اُن کی طرف سے قربانی کرنے کی بجائے صدقہ کرنا افضل شمار ہو گا۔(البحر الرائق: ۸/۲۰۲) صاحب مرعاۃ المفاتیح شارح مشکاۃ المصابیح لکھتے ہیں کہ: ’’بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنت مؤکدہ، لیکن بہرصورت اس دن میں قربانی کرنا یعنی: خون بہانا متعین ہے، اس عمل کو چھوڑ کر جانور کی قیمت صدقہ کر دینا کافی نہیں ہو گا، اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائر اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کا ترک لازم آتا ہے، چنانچہ! اہل ثروت پر قربانی کرنا ہی لازم ہے۔ ‘‘(مرعاۃ المفاتیح: ۵/۷۳) کیا قربانی سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے؟      ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کا یہ نظام چلا آ رہا ہے کہ انسانوں یا جانوروں کو جس چیز کی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے، حق تعالیٰ شانہ اس کی پیدائش اور پیداوار بڑھا دیتے ہیں اور جس چیز کی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداوار بھی اتنی ہی کم ہو جاتی ہے، آپ پوری دنیا کا سروے کریں، اچھی طرح جائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم الشان حکم پر عمل کیا جاتا ہے، کیا ان ممالک میں قربانی والے جانور ناپید ہو چکے ہیں یا پہلے سے بھی زیادہ موجود ہیں؟!آپ کبھی اور کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے کہ دنیا سے حلال جانور ختم ہو گئے ہیں یا اتنے کم ہوگئے ہیں کہ لوگوں کو قربانی کرنے کے لیے جانور ہی میسر نہیں آئے، جبکہ اس کے برخلاف کتے اور بلیوں کو دیکھ لیں، ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے؟! حالاںکہ تعجب والی بات یہ ہے کہ کتے اور بلیاں ایک ایک حمل سے چار چار پانچ پانچ بچے جنتے ہیں، لیکن ان کی تعداد حلال جانوروں کے مقابلہ میں بہت کم نظر آتی ہے۔     حضرت مولانا مفتی محمدشفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ قرآن پاک کی آیت:’’وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْیٍٔ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’ اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیںکہ تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اپنے خزانۂ غیب سے تمہیں اس کا بدل دے دیتے ہیں، کبھی دنیا میں اور کبھی آخرت میںاور کبھی دونوں میں۔ کائنات ِ عالَم کی تمام چیزوں میں اس کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے، انسان اور جانور اس کو بے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کو سیراب کرتے ہیں، وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہو جاتا ہے، اسی طرح زمین سے کنواں کھود کر جو پانی نکالا جاتا ہے، اس کو جتنا نکال کر خرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہو جاتا ہے۔ انسان غذا کھا کر بظاہر ختم کر لیتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسری غذا مہیا کر دیتے ہیں۔ بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جو اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں، ان کی جگہ دوسرے اجزاء بدل بن جاتے ہیں۔ غرض انسان دنیا میں جو چیز خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں۔ کبھی سزا دینے کے لیے یا کسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہو جانا اس ضابطۂ الٰہیہ کے منافی نہیں۔ اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اشیا صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدا فرمائی ہیں، جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں، ان کا بدل منجانب اللہ پیدا ہوتا رہتا ہے۔ جس چیز کا خرچ زیادہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی پیداوار بھی بڑھا دیتے ہیں۔ جانوروں میں بکرے اور گائے کا سب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کر کے گوشت کھایا جاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیا جاتا ہے، وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں، اللہ تعالیٰ اتنی ہی زیادہ اس کی پیداوار بڑھا دیتے ہیں، جس کا ہر جگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہر وقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے،کتے بلی کی تعداد اتنی نہیں، حالانکہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہیے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چار پانچ بچے تک پیدا کرتے ہیں، گائے بکری زیادہ سے زیادہ دو بچے دیتی ہے، گائے بکری ہر وقت ذبح ہوتی ہے، کتے بلی کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا، مگر پھر بھی یہ مشاہدہ ناقابلِ انکار ہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعداد بنسبت کتے بلی کے زیادہ ہے۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے، اس وقت سے وہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے، ورنہ ہر بستی اور ہر گھر گایوں سے بھرا ہوتا جو ذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔عرب نے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لینا کم کر دیا، وہاں اونٹوں کی پیداوار بھی گھٹ گئی، اس سے اس ملحدانہ شبہ کا ازالہ ہو گیا، جو احکامِ قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کا اندیشہ پیش کر کے کیا جاتا ہے۔‘‘ (معارف القرآن، سورۃ السبأ:۳۹،ج: ۷،ص:۳۰۳) رفاہی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے     ہماری اس بحث کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے غریب ومساکین اور ناداروں پر خرچ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہمارا مقصود محض یہ ہے کہ دس ذوالحجہ سے لے کر بارہ ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی کرنا واجب ہے، اس کے لیے قربانی چھوڑ کر اس رقم کا صدقہ کرنا جائز نہیں ہے، ہاں! جس شخص پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے، اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحب ِ نصاب لوگوں کے ان دنوں میں قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ یا سال کے دیگر ایام میں مالی صدقہ کرنا یقینا بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے۔ رفاہِ عامہ کے مفید کاموں، ہسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکاۃ، صدقۃ الفطر، عشر، کفارات، نذور، میراث، دیگر وجوبی صدقات اور ہدایا وغیرہ کانظام وضع کیا ہوا ہے، ان احکامات کوپوری طرح عملی جامہ پہنا کر مطلوبہ نتائج ومقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں، نہ یہ کہ اسلام کے ایک عظیم الشان حکم کو مسخ کر کے تلبیس سے کام لیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ معاشرے میں ہونے والی خرافات پر تفصیلی نظر ڈالی جائے، طرح طرح کی مروج رسومات میں ضائع ہونے والے اربوں وکھربوں کی مالیت کے روپے کو کنٹرول کیا جائے، نہ کہ ایک فریضے میں صرف کرنے والوں لوگوں کو بھی بہکا کر اس سے روک دیا جائے۔       شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’منکرینِ قربانی نے اپنی عقلِ نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعمِ خود قربانی کے مضرات اور نقصانات اور ترکِ قربانی کے فوائد بیان کیے ہیں، مثلاً: یہ کہا ہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کُشی ہوتی ہے اور لوگوں کی رقمیں بلاوجہ ضائع ہوتی ہیں، اگر یہ رقوم رفاہِ عامہ کے کسی مفید کام میں صَرف کی جائیں تو کیا ہی اچھا ہو، وغیرہ وغیرہ، مگر یہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو (جو حکیم علی الاطلاق ہے اور اس کا کوئی حکم عقل کے خلاف اور خالی از حکمت نہیں ہوتا) محض ان طفل تسلیوں سے کیوں کر رد کیا جاسکتا ہے؟ کیا اس کو قربانی کا حکم دیتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور اس کے یہ نقصانات ہیں؟ رب تعالیٰ کے صریح احکام میں معاذ اللہ کیڑے نکالنا کون سا ایمان ہے؟! اور پھر جناب خاتم الانبیاء حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور صریح قولی فعل اور اُمتِ مسلمہ کے عمل کو جو تواتر سے ثابت ہوا ہے، خلاف ِ عقل یا مضر بتانا کون سا دین ہے؟!ـ ‘‘۔(مسئلہ قربانی مع رسالہ سیف یزدانی، ص: ۱۲)     حضرت مولانا مفتی محمد رضوان صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں: ’’ بعض لوگ روحانیت سے غافل ہو کر یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ قوم کا اتنا روپیہ جو تین دن میں جانوروں کے ذبح پر ہر سال خرچ ہو جاتا ہے اور اس کا خاطر خواہ مفاد نظر نہیں آتا، اگر یہی پیسہ رفاہی اور قومی مفادات پر لگایا جائے تو بہت فائدہ ہو۔     پہلی بات تو یہ ہے کہ قربانی کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم اور اہم عبادت ہے، جیسے: حج کرنا، زکاۃ دینا، اور دوسری عبادات۔ تو کیا ان عبادات کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ فضول خرچی اور مال کو بے جا خرچ کرنا ہے؟! اس طرح تو دین کا بہت بڑاحصہ اور بہت سے دینی احکام ہی کا اسلام سے تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ پس جب شریعت میں قربانی کا حکم ہے تو اسے عقلی اعتراضوں اور ذہنی ڈھکوسلوں کا شکار بنانا کسی طرح درست نہیں۔     دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں ہونے والی دوسری اور اصل فضول خرچیاں (جن کا شریعت نے حکم بھی نہیں دیا) ان لوگوں کو نظر نہیں آتیں، جبکہ اصل میں تو ان کے ختم کرنے اور مٹانے کی ضرورت ہے، ملک کی کتنی بڑی تعداد ایسی ہے جو سگریٹ نوشی، منشیات، کرکٹ، ہاکی اور دوسرے کھیل، جوئے بازی، گھوڑ دوڑ، ناچ گانا، فحش پروگرام، انٹرنیٹ، ٹی وی، کیبل، وی سی آر، سینما، فضول تصویر سازی اور مووی بازی اور دوسرے فحش میڈیائی پروگرام، فحش اخبار ورسائل اور دیگر ناول اور ڈائجسٹ، بسنت، عید کارڈ، شادی کارڈ، گانوں اور دیگر غلط پروگراموں کی آڈیو وویڈیو کیسٹیں اور سی ڈیز، ویڈیو گیمز، آتش بازی، شادی بیاہ، مرگ وموت اور غمی خوشی کی رسومات، مختلف فیشن، غیر شرعی بیوٹی پارلر وغیرہ کی زد میں ہے، جن کو چھوڑے اور توبہ کیے بغیر دنیا وآخرت کی فلاح اور کامیابی ملنا مشکل ہے اور یہی پیسہ اگر قومی اور رفاہی مفادات پر خرچ کیا جائے تو بہت جلد ترقی حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘ (ذوالحجہ اور قربانی کے مسائل واحکام، ص: ۱۶۷) ذبح کرنے پرایک عامیانہ اعتراض اور اس پر حضرت تھانویؒ کا حکیمانہ جواب     منکرین اور ملحدین کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی سامنے آتا ہے کہ زندہ جانوروں کے گلے پر چھری پھیر دینا بھی عقلِ سلیم کے خلاف ہے، یہ فعل مسلمانوں کی بے رحمی پر دلالت کرتا ہے، اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مولانامحمد اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں:     ’’ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ شریعتِ اسلامیہ سے زیادہ رحم کسی مذہب میں بھی نہیں ہے، اور ذبحِ حیوان رحم کے خلاف نہیں، بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہو کر مرنا بہتر ہے، کیوں کہ خود مرنے میں قتل وذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر انسان کو ذبح کر دیا جایا کرے، تا کہ آسانی سے مر جایا کرے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حالتِ یأس سے پہلے ذبح کرنا تو دیدہ دانستہ قتل کرنا ہے اور حالتِ یأس پتہ نہیں چل سکتی، کیونکہ بعض لوگ ایسی بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہو گئے تھے، پھر اچھے ہو گئے۔ اور شبہ حیوانات میں کیا جائے کہ ان کی تو یأس کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا۔ جواب یہ ہے کہ بہائم اور انسان میں فرق ہے، وہ یہ کہ انسان کا تو اِبقاء (باقی رکھنا) مقصود ہے، کیونکہ خلقِ عالم سے وہی مقصود ہے، اس لیے ملائکہ کے موجود ہوتے ہوئے اس کو پیدا کیا گیا، بلکہ تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد اس کو پیدا کیا گیا، کیونکہ نتیجہ اور مقصود تمام مقدمات کے بعد موجود ہوا کرتا ہے، اس لیے انسان کے قتل اور ذبح کی اجازت نہیں دی گئی، ورنہ بہت سے لوگ ایسی حالت میں ذبح کر دئیے جائیں گے، جس کے بعد ان کے تندرست ہونے کی امید تھی اور ذبح کرنے والوں کے نزدیک وہ یأس کی حالت میں تھا۔ اور جانور کا اِبقاء مقصود نہیں، اس لیے اس کے ذبح کی جازت اس بنا پر دے دی گئی کہ ذبح ہو جانے میں ان کو راحت ہے اور ذبح ہو جانے کے بعدان کا گوشت وغیرہ بقائے انسانی میں مفید ہے، جس کا اِبقاء مقصود ہے، اس کو اگر ذبح نہ کیا جائے اور یونہی مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو وہ مردہ ہو کر اس کے گوشت میں سمّیت کا اثر پھیل جائے گا اور اس کا استعمال انسان کی صحت کے لیے مضر ہو گا، تو اِبقاء انسان کا وسیلہ نہ بنے گا اور قصاص، جہاد میں چونکہ افناء ِ بعض افرادبغرضِ اِبقاء جمیع الناس متیقن ہے، اس لیے وہاں قتل انسانی کی اجازت دی گئی، مگر ساتھ ہی اس کی رعایت کی گئی کہ حتیٰ الامکان سہولت کی صورت سے مارا جائے، یعنی: قصاص میں جو کہ قتلِ اختیاری ہے، تلوار سے۔اور جہاد میں مثلہ وغیرہ کی ممانعت ہے۔‘‘ (اشرف الجواب، انیسواں اعتراض: ذبح کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب، ص: ۸۶- ۸۷، مکتبہ عمر فاروق، کراچی) قربانی کی حقیقت کیا ہے؟      اگر قربانی کی حقیقت پر نظر ہو تو بھی یہ وسوسہ پیدا نہیں ہو سکتا، قربانی تو یادگار ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اپنا بیٹا ذبح کرو، حالانکہ! دوسری طرف خود قرآن کا اعلان ہے کہ قتل کی سزا ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہے، نیز! بچوں کو تو جہاد کی حالت میں بھی قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے، الغرض عقل کبھی بچے اور بالخصوص اپنے معصوم بچے کے قتل کو تسلیم نہیں کر سکتی، لیکن قربان جائیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر کہ انہوں نے اللہ سے یہ نہیں پوچھا کہ اے اللہ! جو بچہ مجھے برسہا برس دعائیں مانگنے کے بعد ملا، آخر اس کا قصور کیا ہے؟! اور اگر قصور ہے بھی تو اس کو مارنے سے کیا حاصل ہو گا؟! نہیں، اس لیے کہ جہاں اور جس کام میں اللہ کا حکم آ جاتا ہے وہاں چوں چرا کی گنجائش نہیں رہتی، چاہے نفع نظر آئے یا نقصان۔     دوسری طرف قربانی کے جانور پر آنے والے اخراجات کا جائزہ لیجیے! آج کے اس مہنگائی کے دور میں بڑے جانور میں حصہ لینے کے لیے آٹھ یا نو ہزار روپے کافی ہیں اور اگر چھوٹا جانور لینا چاہیں تو بارہ سے پندرہ ہزار روپے میں کام چل جاتا ہے۔ اس جائزے کے بعد سوچیے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں حکم ہو کہ تمہیں اختیار ہے کہ تم اپنا بیٹا قربانی کے لیے ذبح کرو، یا اس کی بجائے (بارہ سے پندرہ ہزار روپے کا)جانور ذبح کرو، تو بتلائیے کہ کون کس کو ترجیح دے گا؟ یقینا بیٹے کے ذبح کے مقابلہ میں ہر عقل مند جانور ذبح کرنے کو ترجیح دے گا۔ اب ایک نظر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرف بھی ڈالیے کہ جب ان کو بیٹا ذبح کرنے کاحکم ملا (اور حکم بھی صراحۃً نہیں ملا، بلکہ خواب میں اشارۃً بتلایا گیا) تو انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی رُک کر یہ نہ پوچھا کہ یا باری عز وجل ! اس میں میرے لیے کیا نفع ہے اور کیا نقصان؟!اور ایک ہم ہیں کہ معمولی سا جانور ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور ہم پوچھتے پھرتے ہیں کہ اس میں میرا کیا نفع ہے؟!اس کے بجائے یہ ہو جائے، وہ ہو جائے، وغیرہ ،تویہ قربانی کی روح کے خلاف ہے، یہ سوال کرنے والا درحقیقت قربانی کی حقیقت سے ہی ناواقف ہے، قربانی کے ذریعے تو یہ جذبہ پیدا کرنا مقصود ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں، اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ ’’فَلَمَّا أَسْلَمَا‘‘ جب انہوں نے سر تسلیم خم کر دیا۔۔۔۔إلخ۔ تو اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ قربانی محض رسم یا دل لگی نہیں ہے، بلکہ اس کے ذریعے ایک ذہنیت دینا مقصود ہے، جسے فلسفۂ قربانی کا نام دیا جاتا ہے، وہ یہی ہے کہ جب اللہ رب العزت کی طرف سے کوئی حکم آ جائے توہم اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانے کی بجائے اللہ کے حکم کی پیروی کریں، اس کے حکم کے سامنے اپنا سر تسلیم خم کریں۔     سو ضرورت ہے کہ منکرینِ قربانی، ملحدین اور مستشرکین وکفار کے اس زہریلے پروپیگنڈے کے مقابلے میں اہلِ اسلام پُرزور طریقے سے اس حکم پر عمل پیرا ہوں، اسی میں اہلِ اسلام کی خیر وبقا کا راز اور دینِ اسلام کی حفاظت مضمر ہے۔ أللّٰہم وفقنا لما تحب وترضٰی۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین