بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

بینات

 
 

فلسطین اور اسرائیل جنگ کی تاریخ

فلسطین اور اسرائیل جنگ کی تاریخ

اپنوں اور بیگانوں کی کرم نوازیوں کی داستانِ ہوشربا


اس وقت پوری دنیا میں ایک ہی موضوع ‎زیرِ بحث ہے اور وہ ہے مسئلہ فلسطین۔ اور فلسطینی عوام ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا پریشان ہے کہ یہ قضیہ مزید کتنی جانیں لے گا اور یہ خطہ مزید کتنی دیر تک چند ایک لوگوں کی خواہشات کی نذر ہوتا رہے گا ؟!
میں کافی تحقیق کے بعد اس جاری جنگ کے حقائق، ماضی، حال، مستقبل اور فلسطین اسرائیل وار کی تاریخ، اس جنگ میں اپنوں اور بیگانوں کا کردار اور بے شمار چھپے ہوئے پہلوؤں کی عقدہ کشائی کرنے جارہا ہوں، تاکہ ایک مکمل منظرنامہ اس حوالے سے آپ کی نظر میں ہو اور آپ کے علم میں ہو کہ فلسطین کے قضیے کو لے کر پچھلی کئی دہائیوں سے کیا چلتا رہا؟! تاکہ موجودہ صورت حال سمجھنے اور اس کا نتیجہ نکالنے میں آسانی ہو۔
مسلم ممالک کی عوام یعنی امتِ مسلمہ پچھلی دو تین صدیوں سے عموماً اور ایک صدی سے خصوصاً اپنوں اور بیگانوں کی مشقِ ستم کا شکار ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق اگر مسلم حکمران اپنے اقتدار یا خواہشات کی خاطر اپنی ہی رعایا کو فتح کرنے اور ایک دوسرے کو تاراج کرنے کی بجائے ایک متحد فوج، مسلم ممالک میں ایک ہی کرنسی اور آپس میں ٹریڈنگ یونٹ بناتے، ایک دوسرے کے لیے ویزہ پالیسی آسان کرنے کی طرف توجہ مبذول کرتے تو شاید ہماری یونٹی ختم نہ ہوتی اور کسی بھی غیرمسلم طاقت کو کسی بھی مسلم ملک میں طاقت کا مظاہرہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی یا مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کی جرأت نہ ہوتی ۔
یعنی اسرائیل اور فلسطین کی حالیہ جنگ پر بات شروع کرنے اور دشمن کو کوسنے سے پہلے اگر اپنوں کی کرم نوازیوں، اُمتِ مسلمہ پر اپنوں کی مہربانیوں پر دلی افسوس نہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ بات ادھوری رہ جائے۔
سعودیہ کے شریفِ مکہ کی نادانیاں، ترکی کے کمال اتاترک کی ریشہ دوانیاں، مصر میں محمد مرسی کی حکومت کا خاتمہ اور اخوان کے ہزاروں کارکنان کا قتل، جمال عبدالناصر کے ظلم و ستم، پاکستان میں پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں اسلام پسندوں کا قتلِ عام اور پچھلی کئی دہائیوں سے جاری درپردہ اقتدار کی کشاکش میں خوار ہوتے پاکستانی عوام اور غیر مستحکم پاکستان کے پوری امتِ مسلمہ میں منفی اثرات‘ عراق، ایران اور کویت کی بے فائدہ و بے نتیجہ جنگ، شام میں حافظ الاسد اور بشار الاسد کا اقتدار کی لالچ میں شام کو میدانِ جنگ بنانا، ایران میں خمینی انقلاب کے نام پر قتلِ عام اور ایک مخصوص طبقے کا تسلُّط، فلسطین کے قضیے میں ترکی کی اسرائیل کے ساتھ ٹریڈنگ اور سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ نرم رویہ، کس کس کا رونا رویا جائے؟! بدقسمتی سے ہماری نااتفاقی نے جو بے یقینی کی صورت حال اُمتِ مسلمہ پر طاری کی اور اس کے نتیجے میں جو دشمنانِ اسلام کو فائدہ ہوا، وہ تاریخ کا ایک تاریک ترین باب ہے ۔

فلسطین اور اسلامی تاریخ

دوستو! اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ‎۱۷‎یا ‎۱۸‎ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کی ہے، اسلامی تاریخ کے مشہور واقعۂ معراج میں بھی بیت المقدس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ میں نوے سال نکال کر ‎۱۲۰۰‎ سال مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں ہی کے پاس رہی، مسلمانوں نے ‎۱۵؍‎ہجری (‎۶۳۶‎ ء) میں اس کو فتح کیا، پھر ایک مختصر وقفہ کے لیے یہ صلیبیوں کے قبضہ میں چلی گئی اور صلیبیوں نے (۱۰۹۹ء‎‎- ۴۹۲ ھ) میں اس پر قبضہ کیا اور ‎۹۰‎ سال کے لیے یہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی، لیکن پھر مسلمانوں کے عظیم سپاہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے اسے‎۱۱۸۷‎ء (‎۵۸۳‎ھ) میں واپس لے لیا، اس کے بعد ‎۱۹۴۸‎ء میں یہ مسلمانوں کے ہاتھ سے ایک مرتبہ پھر نکل گئی۔

سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ دراصل اسرائیل کی بنیاد کی طرف پہلا قدم تھا 

جس طرح سلطان عماد الدین زنگی ؒ (‎۱۱۷۰‎ء)، سلطان نورالدین زنگی ؒ(‎۱۱۷۴‎ء) اور سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ(‎۱۱۹۳‎ء) کو مصر کی فاطمی حکومت جو کہ صلیبیوں کی آلہ کار تھی نے پریشان کیے رکھا، بلکہ صلیبیوں کی سازشوں کا بہترین ذریعہ بنی رہی، اسی طرح برِصغیر میں ایران کی صفوی حکومت نے عالمِ اسلام کی اِکائی اور اتحاد کی علامت سلطنتِ عثمانیہ کو پریشان کرنا شروع کردیا، بلکہ عثمانی حکومت سے باقاعدہ جنگیں شروع کردیں اور دشمن نے اس موقع سے بھر پورفائدہ اُٹھایا اورنپولین نے ‎۱۷۹۸‎ء میں مصر پر حملہ کردیا، فرانس نے‎۱۸۳۰‎ء میں الجزائر پر قبضہ کرلیا، انگلینڈ نے ‎۱۸۳۸‎ء میں عدن پر قبضہ کرلیا، فرانس نے ‎۱۸۸۱‎ء میں تیونس پر قبضہ کرلیا، انگلینڈ نے ‎۱۸۸۲‎ء میں مصر پر قبضہ کرلیا، اٹلی نے ‎۱۹۱۱‎ء میں لیبیا پر قبضہ کرلیا، فرانس نے ‎۱۹۱۱‎ء میں مراکش پر قبضہ کرلیا، ‎۱۹۱۷‎ء میں انگلینڈ نے عراق پر قبضہ کرلیا، اور یہ جرأت شریفِ مکہ کی غداری اور برطانوی کاسہ لیسی کے نتیجے میں ہوئی۔ 
یوں سلطنتِ عثمانیہ کو سازش کے تحت کمزور کرکے اور پھر ختم کرکے پورے عالمِ اسلام کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا، اسی کے نتیجہ میں ‎۱۹۱۷‎ء میں ایک معاہدہ بالفور ہوا، جس کی صورت میں صہیونی مغربی اتحاد وجود میں آیا، پھر‎۱۹۱۸‎ء میں اس خطے کاتقریباً مکمل کنٹرول برطانیہ کے پاس چلا گیا اور ‎۱۹۲۲‎ء میں اقوام متحدہ نے بھی اس کنٹرول کو باقاعدہ تسلیم کرلیا اور اسی سال (ہربرٹ صموئیل) متشددیہودی کو فلسطین میں برطانیہ کی طرف سے پہلا مندوب تعینات کردیا گیا۔ ‎۱۹۴۸‎ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کا رزولوشن پاس ہوا، اس طرح ناجائز ریاست اسرائیل کی بنیاد پڑی اور عرب آبادی کے سینہ پر اسرائیل کا خنجر پیوست کردیا گیا۔
دوستو !برطانوی تسلط (‎۱۹۱۸‎ء تا‎۱۹۴۸‎ء) کے دوران یہودیوں کی آباد کاری کا سلسلہ بالجبر برطانیہ کے زیرِ سایہ شروع ہوا جو ‎۱۹۴۸‎ء تک چھ لاکھ چھیاسی ہزار تک پہنچ گیا اور اس سلسلہ میں برطانیہ نے جبراً غیر فلسطینی کاشتکاروں کی اراضی، اپنی غصب کردہ اراضی اور ثقافتِ اسلامیہ کی اراضی جو صدیوں سے اسلامی مقاصد کے لیے وقف تھی، یہودیوں کو دینا شروع کی، یوں برطانیہ کے زورِ بازو پر ‎۲۹۲‎ اسرائیلی کالونیاں بن چکی تھیں اور برطانیہ ہی کی شہ پر اسرائیل کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ستر ہزار عسکری جنگجوؤں کی فوج بھی تیار کی جاچکی تھی، یعنی اسرائیل کی بنیاد ‎۱۹۴۸‎ء میں مسلمانوں کی تقریباً چار سو بستیوں کو مسمار اور تقریباً ‎۲۵‎ ہزار فلسطینیوں کا قتل عام کرکے ان کی ناجائز آباد کاری سے ہوئی۔ یوں ‎۱۴‎؍ مئی ‎۱۹۴۸‎ء کی ایک اَلمناک شام کو یہودیوں نے باقاعدہ اسرائیل کا اعلان کردیا اور پھر ‎۱۹۶۷‎ء تک مکمل طور پر بیت المقدس پر اسرائیل قابض ہوچکا تھا۔ یوں حالیہ تنازع سے پہلے تک تقریباً ‎۵۶‎ ؍لاکھ فلسطینی اپنے گھروں سے محروم کرکے پناہ گزین اور مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے گئے۔

حیران کن واقعہ

‎۱۹۴۵‎ء سے ‎۱۹۴۸‎ء کے دوران ایک اور حیران کن واقعہ پیش آیا کہ سعودی عرب نے اپنی فلسطین کے ساتھ لگنے والی سرحد نہایت خاموشی سے مملکتِ اُردن کو دے دی، یوں سعودی عرب نے براہِ راست فلسطین کی ہمسائیگی کوبالقصد ترک کردیا، جس کے متعلق مختلف مثبت اور منفی رائے قائم کی جاتی رہی ہے۔اسی دوران ‎۱۹۶۷‎ء کو عرب اسرائیل جنگ ہوئی، جس میں عرب ممالک کے تقریباً دس ہزار فوجی شہید ہوئے اور پھر اسرائیل نے مصر، شام، لبنان اور اُردن کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرلیا، اس طرح ‎۲۰۸۷۰‎ مربع میل کے علاقے پر یہودیوں نے ناجائز قبضہ کرلیا، جن میں سے کچھ علاقے بعد میں واپس بھی ہوئے، لیکن بہت کم۔

یہودیوں کا نعرہ کہ فلسطین اُن کا وطن ہے؟

یہودیوں کا جو بنیادی نعرہ ہے کہ فلسطین اُن کا وطن ہے، وہ بھی بے بنیاد ہے، کیونکہ معاصر یہودیوں میں سے ۹۰؍ فیصد سے زائد یہودیوں کا تاریخی اعتبار سے فلسطین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور معاصر یہودیوں کا تعلق (الخزر اور اشکنار) قبائل سے ہے، جوکہ تاتاری یعنی قدیم ترک قبائل ہیں اور اگر ان کو اپنے وطن واپس لوٹنے کا کوئی حق حاصل ہے بھی تو وہ روس کے جنوبی علاقوں میں ہے، ناکہ فلسطین میں۔ 
اسی طرح سابقہ ادوار میں بھی یہودیوں نے کئی مرتبہ بالقصدارضِ مقدس فلسطین میں آنے اور بسنے سے انکار کردیا تھا، جیسےحضرت موسیٰ m کے ساتھ فلسطین کی جانب جانے سے ان کی اکثریت نے انکار کردیا اور بعد کے زمانہ میں جب ایرانی بادشاہ (قورش ثانی) نے انہیں دوبارہ فلسطین میں بسانے کی پیشکش کی تو اُن کی اکثریت نے بابل(عراق) سے واپس جانے سے انکار کردیا تھا، اور یہ جو موجودہ فلسطینی ہیں، یہ ان کنعانیوں کی نسل سے ہیں جن کی وجہ سے اس علاقے کا قدیمی نام ارضِ کنعان پڑا تھا ۔

اس جنگ کا ایک اور المیہ

اسرائیل کو فریق کے طور پر سب سے پہلے مصر نے ‎۱۹۷۸‎ء میں تسلیم کیا اور اس سے معاہدہ کیا، جسے (کیمپ ڈیوڈ معاہدہ) کہا جاتا ہے (میرے خیال میں اس معاہدے نے اسرائیل کے لیےایک ریاست کے طور پر مضبوطی کی بنیاد رکھ دی تھی )جس میں دو بنیادی شقیں ملاحظہ کریں :
۱: مصر اور اسرائیل کے درمیان ڈپلومیٹک نمائندگی کا تبادلہ۔
۲: دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی مقاطعہ اور جنگی صورت حال کا خاتمہ ۔
اس کے بعد ایک طرف تو اکتوبر ‎۱۹۹۱‎ء میں تحریکِ آزادیِ فلسطین اور عرب ممالک نے میڈرڈ شہر میں اسرائیل کے ساتھ بلاواسطہ امن مذاکرات کے سلسلے کا آغاز کیا جو دو برس تک بغیرکسی نتیجے کے چلتا رہا، لیکن درپردہ مذاکرات بھی اسرائیل نے شروع کردیئے جو(اوسلو) معاہدے کی بنیاد بنے، جس پر عرب نمائندوں اور اسرائیل نے ‎۱۳‎؍ ستمبر ‎۱۹۹۳‎ء کو دستخط کردیئے، جس میں بدقسمتی سے عرب کی ایک مخصوص قیادت نے(سارے عرب اس میں شامل نہیں تھے) اسرائیل کو ایک جائز ملک تسلیم کرلیا۔ فلسطینی اراضی کے ‎۷۷‎ فیصد حصے پر بھی اسرائیلی تسلُّط جائز تسلیم کرلیا اور یہ بھی طے پایا کہ تحریکِ انتقاضہ اب کالعدم ہوچکی ہے اور اسرائیل کے خلاف مسلح کارروائی اب غیر قانونی سمجھی جائے گی۔ یوں عرب قیادت فلسطینی عوام کے مطالبے سے دستبردار ہوگئی، لیکن اس معاہدے کو پورےعالمِ اسلام خصوصاً عرب ممالک میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور عالمِ اسلام کے علماء نے باقاعدہ فتوے جاری کیے کہ فلسطین کی سرزمین کا فیصلہ کرنا کسی کا بھی حق نہیں ہے، خصوصاً غیر فلسطینیوں کا۔ اگر موجودہ وقت میں امت کی حالت کمزور ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ طاقت کے آگے سر جھکا دیا جائے اور یہ کہ مزاحمتی تحریکیں اپنے حجم کے لحاظ سے جاری رہیں گی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کردیں۔
اوسلو معاہدے میں فلسطین کے بنیادی ایشوز کو ڈسکس ہی نہیں کیا گیا تھا، مثلاًالقدس شہر کا مستقبل کیا ہوگا؟ فلسطینی مہاجرین کا مستقبل کیا ہوگا ؟ مغربی پٹی اور غزہ کے علاقے میں غاصب صہیونی بستیوں کا کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی اس بھیانک معاہدے میں طے پایا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیلی حکومت کی نگرانی میں کام کرے گی، فلسطینی اتھارٹی فوج نہیں رکھ سکتی۔ اسرائیل‘ فلسطینی اتھارٹی کے کسی بھی فیصلے کو ویٹو کرسکتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کی اجازت کے بغیر اسلحے کی خریدو فروخت نہیں کرسکتی۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت کاروں کو گرفتار کرکے اسرائیلی حکومت کے سپرد کرنا بھی اوسلو معاہدے میں شامل تھا، اسی کے ساتھ اوسلو معاہدے میں یہ بھی ظلم کیا گیا کہ فلسطینی اتھارٹی کا سرحدات پر اختیار بالکل ختم کردیا گیا اور فلسطینی اپنی سرزمین میں آنے اور جانے کے لیے اسرائیل کی اجازت کے پابند ہوگئے، ایک اور خطرناک چیز اس معاہدے میں یہ ہوئی کہ اب آزادانہ طور پر کوئی بھی عرب ملک اسرائیل کی حیثیت کو تسلیم کرسکتا تھا ۔

یہودیوں کے ابتداء ً دو گروہ تھے

سارے یہودی فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے حق میں نہیں ہیں، بلکہ اس عنوان پر اُن کے بھی دو گروہ ہیں: ایک بالکل لبرل بن کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور دوسرے دنیا سے الگ تھلگ متشدد بن کر۔ اور یہی متشدد طبقہ فلسطین پر ناجائز قبضہ کرنے کے مکروہ چکروں میں ہے اور امریکہ کی سپورٹ ان کے لیے کیوں ہے؟ اس میں ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ یورپ ان متشدد یہودیوں سے جان چھڑانا چاہتا ہے، تاکہ یورپ کو ان کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھا جاسکے، اسی لیے وہ ان کی ہر ممکنہ سپورٹ کررہا ہے ۔
دوستو! یہ تھی اس اسرائیل اور فلسطین قضیے کی تاریخ۔ اُمید ہے کہ اب موجودہ حالات سمجھنا آپ سب کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوںگے، اور اس وقت جو سب سے اہم چیز ہے، وہ فلسطینی بہن بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کرنا، ان کی ہر ممکنہ مدد کرنا، غذاء اور ادویات کی فراہمی اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ، یہ وہ اہم اور ضروری چیزیں ہیں جو ہم مسلم ممالک کے مجبور عوام کرسکتے ہیں اور اس میں کوئی روک ٹوک نہیں۔ 
ویسے تو حق یہ ہے کہ اپنی اپنی حکومتوں سے پر زور مطالبہ کیا جائے کہ وہ اس جنگ کو رکوانے اور فلسطینی عوام کو ان کا جائز حق دلوانے کے لیے اپنے وسائل کو بھر پور طریقے سے بروئے کا ر لائیں۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین