بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

بینات

 
 

فلسطین اسرائیل جنگ اورہماری ذمہ داریاں!


فلسطین اسرائیل جنگ اورہماری ذمہ داریاں!


الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

گزشتہ ماہ اکتوبر ۲۰۲۳ء کی ۷؍ تاریخ سے تاحال فلسطین کے باشندوں خصوصاً اہالیانِ غزہ پر اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے۔ نہتے بچوں، بوڑھوں، خواتین حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپوں میں موجود معصوم انسانوں اور ہسپتالوں میں موجود زخمیوں اور بیماروں پر بمباری کی جارہی ہے، جس سے نو ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوچکے ہیں اور چھبیس ہزار کے قریب زخمی ہیں۔ غزہ کے چاروں طرف محاصرہ کی بنا پر اہلِ غزہ پر خوراک، پانی، ایندھن اور ضروریاتِ زندگی کو تنگ کردیا گیا ہے، جس کی بنا پر نہ صرف عالمِ اسلام کی عوام بلکہ انصاف پسند مغربی اقوام بھی سراپا احتجاج ہیں، لیکن اقوامِ متحدہ سمیت مسلم حکمران مذمتی قراردادوں کے پاس کرانے کے سوا کہیں آگے نہیں بڑھ رہے۔ ان حالات میں عالمِ اسلام کی عوام اور حکمرانوں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے، اس پر جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری زید مجدہٗ سے سوال کیا گیا، جس کا جواب روزنامہ جنگ میں ’’آپ کے مسائل اور اُن کا حل‘‘ کے عنوان کے تحت شائع ہوا، اس جواب میں بہت ہی اہم، مقصودی اور بنیادی باتوں کا تذکرہ آگیا ہے۔ قارئینِ بینات کے افادہ کی غرض سے بصائر وعبر کے طور پر انہیں شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
 

سوال

حماس اسرائیل جنگ اوراس پرمسلمان ملکوں کے رویے کی وجہ سے دل بہت پریشان اور غمگین ہے، سمجھ میں نہیں آتاکہ کیا کیا جائے؟ آپ سے درخواست ہے کہ میری گزارش کو فوقیت دیں اور اپنے کالم میں پہلے میری درخواست کا جواب دیں؛ کیوں کہ یہ صرف مجھ اکیلے کا سوال نہیں ہے۔

جواب

فلسطین کے حالات کی وجہ سے ہر انصاف پسند اورصا ف دل اور زندہ ضمیر رکھنے والا شخص رنجیدہ ہے۔ ایک مومن تو اپنے دل میں درد، جگر میں سوز اور کلیجے میں جلن محسوس کرتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ اسلام نے جس درد ومحبت کے رشتے میں ہمیں پرودیا ہے، اس کی رو سے مشرق میں کھڑے شخص کے پاؤں میں اگر کانٹا بھی چبھے تو مغرب میں کھڑے شخص کو اپنے دل میں اس کی چبھن محسوس کرنی چاہیے۔ ایک کی مصیبت پر دوسرے کو تڑپ جاناچاہیے اور ایک کی چوٹ کی کسک دوسرے کو اپنے سینے میں محسوس ہونی چاہیے۔ اس کیفیت میں شدت اس وقت آجاتی ہے جب وہ خودآگے بڑھ کرمظلوم کی مدد اور ظالم کا ہاتھ روکنا چاہ رہے ہوں، مگر بے بس ہوں اور جن کی اصل ذمہ داری ہو، وہ اس کا احساس نہ رکھتے ہوں، ایسے موقع پر ان کی حالت وہ ہوجاتی ہے جو امام سبکی علیہ الرحمہ پر گزری تھی اور اس حالت میں ان کے قلم سے یہ درد میں ڈوبے ہوئے الفاظ نکلے تھے کہ: ’’ہائے! ہاتھوں کا کام فریاد کرنا نہیں، بلکہ گریبان پکڑنا ہے، مگر افسوس کہ یہ ہاتھ ان تک پہنچ نہیں سکتے ہیں۔‘‘ جن کے ہاتھ ان تک پہنچ سکتے ہیں، جنہیں عالمِ اسلام اور ستاون اسلامی ملکوں سے یاد کیا جاتا ہے، اُن کی زبانیں گنگ، ہاتھ شل، اعضاء مفلوج اورضمیر مردہ ہوچکے ہیں، چنانچہ عملی تعاون اور مدد تو کجا، کہیں سے ان مظلوموں کی حمایت میں کوئی طاقت ور اور توانا آواز بھی نہیں اُٹھ رہی ہے۔ اگر کہیں کسی گوشے سے کوئی نحیف و نزار صداسنائی بھی دیتی ہے تو رسمی جملوں تک محدود ہوتی ہے، حالانکہ ان کو آوازوں اورقراردادوں کی ضرورت نہیں، بلکہ ٹینکوں کے مقابلے میں ٹینکوں کی اور میزائلوں کے مقابلے میں میزائلوں کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کی حمایتی ریاستوں نے صرف اس کے حق میں آواز بلند نہیں کی ہے، بلکہ بحری بیڑے اور عسکری سازو سامان بھیجا ہے۔ 
 عالمِ اسلام اگر فلسطینیوں کے ساتھ یہ رویہ رکھ کر سمجھتا ہے کہ ان کی اُفتاد ہے، اُن پر پڑی ہے اور وہ جھیل لیں گے اور گزرجائے گی تو یہ اُن کی خام خیالی ہے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ: 
’’قَالَ رَبُّکَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: وَعِزَّتِيْ وَجَلَالِيْ لَأنْتَقِمَنَّ مِنَ الظَّالِم فِيْ عَاجِلِہٖ وَآجِلِہٖ، وَلَأنْتَقِمَنَّ مِمَّنْ رَأی مَظْلُوْمًا فَقَدَرَ أنْ يَّنْصُرَہٗ، فَلَمْ يَفْعَلْ۔‘‘(المعجم الأوسط للطبراني، ج:۱، ص:۱۵، باب الألف، من اسمہ أحمد، ط:دار الحرمين - القاہرۃ)
’’اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ مجھے میری عزت و جلال کی قسم! میں جلد یا بدیر ظالم سے بدلہ ضرور لوں گا اور اُس سے بھی بدلہ لوں گا جو باوجود قدرت کے مظلوم کی مدد نہیں کرتا۔ ‘‘ 
صحیح بخاری میں ہے کہ: 
’’الْمُسْلِمُ اَخُوْ الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُہٗ وَلاَ يُسْلِمُہُ۔‘‘ (صحیح البخاری، کِتَاب الْمَـظَالِم، بَابُ لاَ يَظْلِمُ الْمُـسْلِمُ الْمُـسْلِمَ وَلاَ يُسْلِمُہٗ، رقم الحدیث: ۲۴۴۲
یعنی ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، مسلمان نہ دوسرے بھائی پر زیادتی کرتا ہے اور نہ ہی اسے اوروں کے سپرد کرتا ہے۔‘‘ 
اور مسلم شریف میں ہے کہ: 
’’وَلَا يَخْذُلُہٗ‘‘ (صحيح مسلم، ص:۱۹۸۶، ج:۴، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحريم ظلم المسلم وخذلہ واحتقارہ ودمہ وعرضہ ومالہ، ط:دار إحياء التراث العربي)
یعنی ’’ اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑتا ہے۔‘‘ 
 مسلمانوں کو اگر عالمِ اسلام سے امید ہے تو عالمِ اسلام کی نظریں خصوصاً پاکستان کی طرف ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اگر اسرائیل کا کوئی حقیقی حریف اور اصل مدِمقابل ہے تو وہ پاکستا ن ہے۔ دونوں کی بنیا د مذہبی ہے اور دونوں کی عمریں تقریباً برابر ہیں او ر دونوں ایٹمی قوتیں ہیں ۔ 
پاکستان پر کسی اور سے زیادہ یہ ذمہ داری اس وجہ سے بھی عائد ہوتی ہے کہ ہمارے آئین کا آرٹیکل:۴۰  عالمِ اسلام سے مضبوط رشتہ استوار کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ بانیِ پاکستان کے الفاظ ہیں کہ:
’’پاکستان دنیا کی مظلوم اورکچلی ہوئی اقوام کو اخلاقی اور مادی امداد دینے سے کبھی بھی نہیں ہچکچائے گا۔‘‘ 
اور اقوامِ متحدہ کے منشور میں درج شدہ اُصولوں کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے کئی اسلامی ملکوں کی آزادی کےلیے اَنتھک کوششیں کی ہیں اور ایشیا، افریقا، اور لاطینی امریکا کی مظلوم قوموں کا ساتھ دیا ہے۔ 
 فلسطین کے ساتھ بانیانِ پاکستان کا رشتہ بطورِ خاص اسی طرح رہا ہے جیسے کشمیر کے ساتھ رہا ہے، انہوں نے کشمیر کی طرح فلسطین کے درد کو بھی اپنا درد سمجھا اور دونوں ہی تحریکوں میں بدل و جان حصہ لیا ہے، بلکہ ہمدردی کا یہ تعلق جانبین سے رہا ہے۔ فلسطین کے اکابر نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی تائید کی، خصوصاً قیامِ پاکستان کے زمانے میں مفتی اعظم فلسطین کے عہدے پر فائز مفتی امین حسینی  ؒنے ۱۹۵۱ء میں کشمیر کے حوالے سے کراچی میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی اور بذاتِ خود آزاد کشمیر جاکر کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کی۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ کی فلسطین کے بارے میں فکر مندی ان کے کلام اور خطبات سے واضح ہے اور بانیِ پاکستان کی موجودگی میں مسلم لیگ نے قرارداد پاس کی کہ عالمِ اسلام بیت المقدس کوغیر مسلموں سے آزاد کرنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی وضع کرے۔ 
قیامِ پاکستان کے بعد بانیِ پاکستان نے امریکی صدر کے نام ایک خط میں اسرائیل کے قیام کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا اور امریکی صدر سے اپیل کی کہ وہ فلسطین کی تقسیم کو روکیں۔ بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ کے آخری اجلاس منعقدہ ۱۴ اور ۱۵؍ دسمبر ۱۹۴۷ء میں فلسطین کی تقسیم کو مسترد کیا گیا۔ 
ان ابتدائی گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل ایک ریاست ہے اور ریاست کا ہاتھ افراد نہیں، بلکہ ریاست روک سکتی ہے؛ اس لیے پاکستان سمیت تمام مسلمان ملکوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ان حالات میں مسلمان ملکوں اور عوام کو چاہیے کہ وہ درج ذیل امورکا اہتمام کریں:
1- سب سے پہلے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع اورانابت کرکے اسی سے مدد مانگیں اور خوب دعائیں کریں؛ کیوں کہ وہی مسلمانوں کا حقیقی حامی وناصر اور معین ومددگار ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
’’وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ‘‘  (آلِ عمران، آیت نمبر:۱۲۶)
’’فتح تو کسی اور کی طرف سے نہیں، صرف اللہ کے پاس سے آتی ہے جو مکمل اقتدار کا بھی مالک ہے اورتمام تر حکمتوں کا بھی مالک ہے۔ ‘‘ 
اسی سورت کی ایک سو پچاسویں آیت میں ہے کہ:
’’بَلِ اللہُ مَوْلٰــــکُمْ وَھُوَخَیْرُ النّٰصِرِیْنَ‘‘   (آلِ عمران، آیت نمبر:۱۵۰)
’’ (یہ لوگ تمہارے خیرخواہ نہیں ہیں) بلکہ اللہ تمہاراحامی وناصر ہے اور وہ بہترین مددگار ہے۔ ‘‘
یہ بھی ارشاد ہے کہ:
’’اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ‘‘ (آل عمران، آیت :۱۶۰)
’’ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا۔ ‘‘ 
تاریخ شاہدہے کہ مسلمان جب آسمانی طاقت ساتھ لے کر چلے ہیں تو بڑی بڑی طاقتیں ان کے سامنے خاک کے گھروندے ثابت ہوئے ہیں۔ اسرائیل طاقت ور سہی مگر خدا سے زیادہ طاقتور نہیں اور اس کی طاقت یہی ہے کہ مٹھی بھر جماعت نے اس کی دھاک خاک میں ملادی ہے، وہ شدید رسوا اور ذلیل ہوا ہے، اس کی ہیبت زائل ہوچکی ہے، اس پر لرزہ طاری ہے اور وہ حواس باختہ ہوچکا ہے۔ چند دنوں کی جھڑپوں میں اس نے شدید جانی، مالی اورعسکری نقصان اُٹھایا ہے، اب وہ نہ سکونت کے اعتبار سے محفوظ رہاہے اورنہ ہی سرمایہ کاری کے لیے قابلِ اعتماد ٹھہرا ہے، اس کے ریڈاروں، کیمروں، سینسروں، مضبوط دیواروں، آہنی باڑوں اور جدید ٹیکنالوجی کے باوجود مجاہدین اسے ناکوں چنے چبوارہے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’وَلَا تَہِنُوْا فِیْ ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَـمَا تَاْلَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ وَکَانَ اللہُ عَلِــیْمًا حَکِــیْمًا‘‘    (سورۂ نساء، آیت: ۱۰۴)
 ’’اور تم ان کافردشمنوں کا پیچھا کرنےمیں کمزوری نہ دکھاؤ، اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو ان کو بھی اس طرح تکلیف پہنچی ہے جیسے تمہیں پہنچی ہے اور تم اللہ سے اس بات کے امیدوار ہو جس کے وہ امیدوار نہیں اور اللہ علم کا بھی مالک ہے اور حکمت کا بھی مالک۔ ‘‘ 
2-دوسری چیز خدا پر یقین اوراعتماد ہے۔ یقین وہ ہتھیار ہے جوحالات کے دھارے کوبدل دیتا ہے، طوفانوں کا رخ موڑ لیتا ہے۔مبصرین کے اندازوں کوغلط ثابت کردیتا ہے اور انقلاب برپا کردیتا ہے۔ تاریخ اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ بنی اسرائیل کو سر کی آنکھوں سے نظر آرہا تھا کہ آگے سمندر اور اس کی طغیانی ہے اور پیچھے فرعون اور اس کالا ؤ لشکر ہے؛ اس لیے پکار اُٹھے کہ ہم تو پکڑے گئے، مگر موسیٰ علیہ السلام نے پورے جزم اور یقین سے کہا :
’’کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ‘‘   (الشعراء: ۶۲)
’’ہرگز نہیں، میرا رب میرے ساتھ ہے جو مجھے ضرور راستہ دے گا۔‘‘ 
اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ سب کو معلوم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی یقین کی بدولت کسی جتھے اور جماعت اور کسی مادی قوت اور منصب کے بغیر تن تنہا اس وقت کی پوری دنیا کے باطل سے جاٹکرائے اور اسے پاش پاش کردیا۔ غزوۂ خندق میں ایسے موقع پر جب مسلمان فاقہ کشی کا شکار ہیں اورایسے حالات میں کہ جب زندہ بچ جانے کی اُمیدیں کم ہیں، آپ فرماتے ہیں کہ تم ایران اور شام کے محلات کو فتح کروگے۔ حضرت صدیق اکبر q کا ولولہ وعزم اور عشق و یقین تھا کہ لشکرِ اسامہ کو روانہ فرمایا، مرتدین سے قتال کیا اور دوبڑی سلطنتوں سے جہا دکیا، حالانکہ مہاجرین اور انصار کے سب بزرگوں کی رائے اس کے خلا ف تھی ۔ 
آج بھی عقل کا فتویٰ اور سیاست کا فیصلہ یہ ہے کہ جابر وقاہر اور سنگدل و وحشی اسرائیل کے خلاف کسی مہم جوئی سے با زرہا جائے، مگر جس خدا نے اس وقت مدد ونصرت کی اورمادی سوچ کو ناکام اور اندازوں کو غلط ثابت کیا، وہ خدا آج بھی اسی قدرت اورطاقت کے ساتھ موجود ہے، مگرایسے یقین کے لیے شرط ہے کہ وہ کسی ضد اور نفسانیت یا بیرونی امداد اورطاقت کے سہارے کی بنا پر نہ ہو، ورنہ انجام وہ ہوتا ہے جو اکثروں کے ساتھ ہوا ہے۔ 
3- یہ بھی ضروری ہے کہ جو اقدام ہو وہ مشورے اورمناسب تدبیر کے ساتھ ہو ۔ ان سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ یقین کی بنیاد حق اور صداقت ہو اورصاحبِ یقین مخلص اور عملِ صالح کی دولت سے مالامال ہو۔ 
4- اس کے بعد کا مرحلہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد واتفاق ہو۔ اسی مقصد کے لیے اسلام اجتماعیت کو ضروری قرار دیتا ہے، امیر کی اطاعت بھی اس لیے ضروری ہے کہ امارت قائم رہے، اور امارت کی ضرورت مرکزیت کے لیے ہے، اور مرکزیت کی ضرورت اجتماعیت کے لیے ہے۔ عالمِ اسلام جو جغرافیائی محلِ وقوع رکھتا ہے، اس کی بنا پر وہ بے پناہ عسکری، اقتصادی اور سیاسی اہمیت رکھتا ہے۔ ضرورت صرف ایک مقصد پر متفق ہونے کی ہے اور نقطۂ اتّحاد کوئی نسلی، لسانی، قومی اور جغرافیائی اشتراک نہ ہو، بلکہ صرف مذہبِ اسلام ہو۔ 
مسلمانوں کی تاریخ کافیصلہ ہے کہ جب کبھی ان کو آزادی ملی ہے یا ان کی کوئی بڑی تحریک کامیاب ہوئی ہے یاانہوں نے کوئی انقلاب برپا کیا ہے تو اس کے پسِ پشت مذہب کا عامل تھا، خود تحریکِ پاکستان کا جائزہ لیجیے، قومیتوں کے اختلاف کے باوجود اس کی کامیابی بھی تب ہی ممکن ہوئی جب ’’پاکستان کا مطلب کیا:  لا إلٰہ إلا اللہ‘‘ کے نعرے کو بنیاد بنایا گیا۔ 
5- ان اوصاف کے ساتھ ایک مزید وصف صبرواستقلال کا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مسلمان اپنے عزم کے پکے اور ارادوں میں پختہ ہوں اوروہ ایک جگہ جمے اور ڈٹے ہوئے ہوں اور حالات کی سنگینی کی وجہ سے نہ ان کے ارادے متزلزل ہوں اور نہ ہی پائے استقامت میں جنبش پیدا ہو۔ جو لوگ اس طرح صبر واستقلال کا مظاہرہ کرلیتے ہیں، پھر وہ محکوم، مغلوب، مجبور اورمقہور نہیں رہتے ہیں، بلکہ دنیا کی امامت و قیادت کا تاج ان کے سر سجادیا جاتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
’’وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ اَیِٕمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا  وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ‘‘(سورۂ سجدہ: ۲۴)
’’اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو، جب انہوں نے صبر کیا، ایسے پیشوا بنادیا جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے۔‘‘ 
اب تک مسلمانوں کی جن صفات کا بیان ہوا وہ سب شرعی صفات ہیں اور یہی مسلمانوں کی اصل طاقت ہیں، اس طاقت کا جب کبھی بھی مادی طاقت سے تصادم ہوا ہے، غلبہ ان ہی کو حاصل رہا ہے ۔ بدر اوراُحد اوربعد کے اسلامی معرکے ان ہی کی بنیاد پر لڑے گئے ہیں، مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ مادی وسائل جمع نہ کیے جائیں اور نہ ان سے کام لیاجائے۔ نماز پانچ وقت ہے اور روزہ ایک مہینہ ہے اور حج ایک مرتبہ ہے، مگردشمن کے مقابلے کے لیے تیاری کو قرآن کریم نے غیر محدود رکھا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان وسائل کی کثرت اور اس میں برتری حاصل ہونے تک جہاد کے فریضے کو موقوف نہ رکھیں؛ کیوں کہ وسائل کے لحاظ سے عمومی معیار یہ ہے کہ کافر وں کو مسلمانوں سےدس گنا زیادہ وسائل میسر ہوں گے اور اگر مسلمان بہتر پوزیشن میں ہوئے تو پھر بھی مسلمانوں کو دوگنی تعداد اوروسائل کاسامنا ہوگا۔ اگر وسائل اور دشمن جیسے وسائل یا ان کے برابر وسائل یا ان سے برتروسائل ضروری ہوتے تواسلامی غزوات کی کبھی نوبت ہی نہ آتی اور عہدِ حاضر اور قریب میں اسلامی تحریکات کبھی کامیاب نہ ہوتیں۔ بہرحال وسائل سے انکار نہیں، بلکہ ان کی ترغیب ہے اور ترغیب بعض صورتوں میں وجوب اورفرض کے درجے میں ہے، مگر دشمن جیسے وسائل کی دستیابی تک جہاد کو موقوف رکھنا دوا کھانے کے لیے صحت کا انتظار کرنا ہے۔ 
موجودہ حالات میں مسلمان ممالک جب تک کوئی عملی قدم نہیں اُٹھاتے ہیں، اس وقت تک ایک عام مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مؤمنانہ صفات سے اپنے آپ کو موصوف رکھے، تمام گناہوں خصوصاً ان گناہوں سے اجتناب کرے جن کی وجہ سے نہ صرف نصرتِ الٰہی رک جاتی ہے، بلکہ خدا کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ 
دعا کا ہتھیار ہر مسلمان کے پاس ہے اور اس کے لیے فاصلے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں، مؤمن کی آہِ سحرگاہی اور نالۂ نیم شبی میں خدا تعالیٰ نے بڑی تاثیر رکھی ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ q سے روایت ہے کہ نبی کریم a نے فرمایا:
’’ألَا أدُلُّکُمْ عَلٰی مَا يُنْجِيْکُمْ مِّنْ عَدُوِّکُمْ وَيَدُرَّ لَکُمْ أرْزَاقُکُمْ؟ تَدْعُوْنَ اللہَ فِيْ لَيْلِکُمْ وَنَہَارِکُمْ، فَإِنَّ الدُّعَاءَ سَلَاحُ الْمُـؤمِنِ۔‘‘ (مسند أبي يعلي، ص:۳۰۸، ج:۳، مسند جابر بن عبد اللہ رضي اللہ عنہ، ط:دار الحديث، القاہرۃ)
’’کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے دشمنوں (کے ظلم و ستم) سے تمہیں نجات دے اور تمہیں بھرپور روزی دلائے، وہ عمل یہ ہے کہ اپنے اللہ سے دن رات دعا کیا کرو؛ کیوں کہ دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر q سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا:
’’الدُّعَاءُ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ، وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ، فَعَلَيْکُمْ عِبَادَ اللہِ بِالدُّعَاءِ۔‘‘ (المستدرک علي الصحيحين للحاکم، ص:۶۶۶، ج:۱، کتاب الدعاء، والتکبير، والتہليل، والتسبيح والذکر، ط: دار الکتب العلميۃ)
’’دعا ان حوادثات اور مصائب سے بھی چھٹکارا دلاتی ہے جو حوادثات اور مصائب نازل ہوچکے ہیں اور ان سے بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، لہٰذا اللہ کے بندو! دعا کا اہتمام کیا کرو۔‘‘ 
پھر وہ دعا جو اپنے مسلمان بھائی کی غیر موجودگی میں کی جائے وہ تو جلد قبول ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص r سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا:
’’إِنَّ أسْرَعَ الدُّعَاءِ إِجَابَۃً دَعْوَۃُ غَائِبٍ لِغَائِبٍ۔‘‘ (سنن أبي داؤد، ص:۵۶۳، ج:۱، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء بظہر الغيب، ط:المطبعۃ الأنصاريۃ بدہلي- الہند)
’’بے شک جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو غائب کی غائب کے لیے ہو۔‘‘ یعنی کسی کی غیرموجودگی میں اس کے حق میں دعا کی جائے۔ 
امت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعاؤں اور نمازوں کا اہتمام جاری رکھیں، اس سے اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت ہوگی، حضرت سعد بن ابی وقاص q کی روایت ہے کہ نبی کریم a نے فرمایا:
’’ھَلْ تُنْصَرُوْنَ وَتُرْزَقُوْنَ إِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ۔‘‘ (صحیح البخاري، کتاب الجہاد والسیر، باب من استعان بالضعفاء والصالحین في الحرب، ج:۴، ص:۳۶، رقم الحدیث:۲۸۹۶)
یعنی: ’’اللہ تعالیٰ اس اُمت کے ضعفاء و کمزور لوگوں کے بسبب اور ان کی دعاؤں ، نمازوں اور اخلاص کی بدولت اس امت کی مدد فرماتے ہیں۔‘‘
6- دعا کے ساتھ ان کی مالی اوراخلاقی مدد کرنا ہے۔ اصل اعانت تو وہ ہے جس کانقشہ مسلمان سپہ سالار طارق بن زیاد نے پیش کیا تھا کہ جب ایک عیسائی حکمران راڈرک نے اپنے گورنر کی معصوم بچی سے زیادتی کی اور اس گورنر نے اپنے ہمسایہ اورہم منصب مسلمان گورنر موسیٰ بن نصیر کو مدد کے لیے خط لکھا اور جواب میں طارق بن زیاد نے اسپین کو فتح کرکے اسے امن کا گہوارہ بنادیا۔ اصل اعانت وہ ہے جس کا مظاہرہ حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمدبن قاسم کو یہاں بھیج کر کیا تھا۔ فلسطینی مسلمانوں کے ترجمان اسی کی دہائیاں دے رہے ہیں اور اللہ کا کلام مسلمانوں سے اسی کا طالب ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
’’وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا‘‘    (سورۂ نساء، آیت :۷۵)
’’اور اے مسلمانو! تمہارے پاس کیا جواز ہےکہ اللہ کے راستے میں اوران بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو یہ دعا کررہے ہیں کہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس بستی سے نکال لائیے جس کے باشندے ظلم توڑ رہے ہیں، اورہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی حامی پیدا کردیجیے، اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی مددگار کھڑا کردیجیے۔‘‘ 
مدد کا حق اسی طریقے سے ادا ہوسکتا ہے، لیکن اگر اس طرح ممکن نہیں ہے تو ان کی مالی مدد واعانت ضرور کرنی چاہیے، مسلمان اہلِ ثروت کے پاس یہ جہاد بالمال کا سنہرا موقع ہے۔ 
7- اس کے ساتھ ان حالات میں چند اور امور کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ اہلِ علم کو چاہیے کہ عام مسلمانوں کو فلسطین کی تاریخی، مذہبی اور سیاسی اہمیت سے آگاہ کریں۔ فلسطین کا قضیہ حقیقت میں کیا ہے؟ اور مسلمانوں کواس بارےمیں حساس ہونے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس بارے میں نوجوان نسل کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے۔ یہود کے جرائم اورنفسیات کیا ہیں؟ اور قرآنِ کریم کی سب سے بڑی سورت میں ان کو کیوں برائی کا منبع، اس کا مصدر اورموجد قراردیاگیا ہے ؟موجودہ دور میں اسرائیل، امریکا اور یورپ کا گٹھ جوڑکیوں ہے؟ جنگ اورجہاد میں کیا فرق ہے؟ اور حماس اپنی موجودہ روش میں کیوں حق پر ہے؟ ان حقائق سے نئی نسل کو روشناس کرانا چاہیے۔ جو لوگ میڈیا سے وابستہ ہیں یا کم از کم سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جھوٹی خبروں اور غیرمصدقہ اطلاعات کوآگے نہ بڑھائیں، بلکہ دشمن کے پروپیگنڈے کو بے نقاب کریں۔ زمانہ جنگ میں دشمن کاوطیرہ رہا ہے کہ افواہوں کا بازار گرم کردیتا ہے؛ ا س لیے چوکنا اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے، منافقین نے تہمت کے لیے زمانۂ جنگ ہی کا انتخاب کیا تھا اور بعد کی تاریخ میں بھی زمانۂ جنگ میں ہی مسلمانوں کی طرف بے سروپا باتیں منسوب کی گئی ہیں۔ آخر میں اپنے مسلمان رہنماؤں سے کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا بھر کے مسلمان عوام میں ایمان وخلوص اور جوش وجذبہ پایا جاتا ہے، یہ جذبات ہماری طاقت ہیں اور برسرِ اقتدار طبقہ چاہے تو ان جذبات کو درست موقع پر درست انداز سے کام میں لاسکتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ محیرالعقول کارنامے انجام دیے جاسکتے ہیں، جن سے دیگر قومیں محروم ہوچکی ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی وناصر ہو! فقط واللہ اعلم

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین