بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فقہِ حنفی اور اُس کا منہجِ اِستنباط


فقہِ حنفی اور اُس کا منہجِ اِستنباط


بحث کا تعارف
فقہِ حنفی سے مراد وہ مسائل ہیں جو امام اعظم ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے منہجِ استنباط کے مطابق اَخذ کیے جاتے ہیں۔ اور ’’منہجِ استنباط‘‘ سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے اس مسلک سے وابستہ اہلِ علم نِت نئے مسائل کا شرعی حل دریافت کرتے ہیں۔ اس معنیٰ کے لیے دوسرا مشہور لفظ ’’اُصولِ اجتہاد‘‘ ہے، جس کی تفصیلات ’’علمِ اصولِ فقہ‘‘ کی کتب میں بیان کی جاتی ہیں۔
بحث آگے بڑھانے سے قبل مناسب ہے کہ اس عنوان کی تعریف ذکر کر دی جائے۔ 
’’مَنْہَج‘‘ کہتے ہیں ’’واضح راستے‘‘ کو، اور ’’مَنْہَج‘‘کی جمع ’’مَنَاہِج‘‘ ہے۔ ’’استنباط‘‘ کامعنی ہے: ’’الاستخراج بفہمٍ و اجتہادٍ‘‘ یعنی سمجھ بوجھ اور کوشش کر کے کسی چیز کو نکالنا۔ فقہ میں اس کا معنی ہے: ’’استخراج المجتہد المعانيَ و الأحکامَ الشرعیۃَ من النصوص و مصادر الأدلۃ الأخرٰی‘‘ یعنی مجتہد کا الفاظ سے معانی، اور نصوص اور دیگر دلائل سے احکامِ شرعیہ حاصل کرنا۔ 
پھر ’’منہجِ استنباط‘‘ کی لقبی تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں بنے گی:
’’ھو علم یعرف فیہ الدلائل التي یستنبط منہا الأحکام الشرعیۃ العملیۃ۔‘‘
یعنی ایسا علم جس کے ذریعے اُن دلائل کی معرفت حاصل ہو، جن کی بنیاد پر اَحکامِ شرعیہ عملیہ کو سمجھ بوجھ اور محنت و کوشش سے معلوم کیا جاتا ہے۔ 
(۱)حنفی مذہب اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا جامع تعارف
حنفی مذہب کے امام، امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت  رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جن کی ولادت کوفہ میں سن ۸۰ ہجری میں، اور وفات بغداد میں سن ۱۵۰ ہجری میں ہوئی اور اس وقت جہاں آپ کی قبر ہے، اس علاقے کو ’’اعظمیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ کے زمانے میں اہلِ سنت کے اہلِ علم دو گروہوں میں تقسیم تھے :
اہلِ حدیث: ..... اس سے مراد وہ لوگ تھے جن کی توجہ اور کاوشوں کا اصل محور احادیثِ نبویہ تھیں، اور اجتہادی مسائل کی طرف توجہ بس ضرورت کے کم سے کم درجے تک محدود تھی۔ 
اہلِ رائے:..... اس سے مراد وہ لوگ تھے جن کی توجہ اور کاوشوں کا اصل محور فقہی مسائل اور اجتہادی مباحث تھیں، اور اسی لیے یہ حضرات عموماً انہی احادیثِ نبویہ تک اپنی توجہ مبذول رکھتے تھے، جن کا تعلق مسائل و احکام سے ہوتا تھا۔ 
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام فخر الاسلام علی بن محمد البزدوی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفیٰ: ۴۸۲ھ) کا بہترین تبصرہ نقل کردیاجائے، آپ تفقہ فی الدین کی فضیلت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’و أصحابنا -رحمہم اللہ- ھم السابقون في ھٰذا الباب و لہم الرتبۃ العلیا و الدرجۃ القصویٰ في علم الشریعۃ و ھم الربانیون في علم الکتاب و السنۃ و ملازمۃ القدوۃ و ھم أصحاب الحدیث و المعاني۔ أما المعاني فقد سلم لہم العلماء حتی سموھم: أصحابَ الرأيِ، و الرأيُ: اسم للفقہ الذي ذکرنا۔ ‘‘
’’تفقہ فی الدین کے باب میں ہمارے اصحاب(حنفیہ) سب سے آگے ہیں، اور علمِ شریعت کے بارے میں اُنہی کو بلندمرتبہ اور انتہائی فضیلت حاصل ہے، کتاب وسنت کے علم اور قابلِ اقتداء لوگوں کی پیروی میں یہی علمائے ربانی ہیں اور حق یہ ہے کہ ہمارے اصحاب‘ حدیث کے بھی ماہر ہیں اور اُن کے معانی کے بھی، چنانچہ فقہِ حدیث کی مہارت کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہوگا کہ علماء نے انہی کو ’’اہل الرائے‘‘ کا لقب دیا ہے اور یہ بات ہم ذکر کرچکے ہیں کہ ’’رائے‘‘ فقہ کا ہی نام ہے۔ ‘‘
اس کے بعد چند دلائل اس بات کے بیان کیے ہیں کہ علمائے حنفیہ احادیثِ نبویہ کو بھی سب سے زیادہ مقدم رکھنے والے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’وھم أولیٰ بالحدیث أیضًا، ألا یری أنہم جوزوا نسخ الکتاب بالسنۃ لقوۃ منزلۃ السنۃ عندہم، و عملوا بالمراسیل تمسکًا بالسنۃ والحدیث، و رأوا العمل بہٖ مع الإرسال أولٰی من القیاس بالرأي، وقدموا روایۃ المجہول علی القیاس، و قدموا قول الصحابيؓ علی القیاس۔ ‘‘
’’ہمارے اصحاب‘ حدیث کو بھی سب سے زیادہ لینے والے ہیں، کیا دِکھتا نہیں کہ ہمارے ہاں سنت کا اتنا مضبوط درجہ ہے کہ اس کی بنیاد پر قرآنی حکم کانسخ بھی جائز رکھا گیا ہے۔ پھر ہمارے علماء مرسل احادیث کو بھی قبول کرتے ہیں، تاکہ سنت وحدیث سے تعلق مضبوط رہے، اور قیاس کے مقابلے میں حدیثِ مرسل کو زیادہ قابلِ عمل سمجھتے ہیں، اسی طرح غیرمعروف صحابیؓ کی حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں، حتیٰ کہ صحابیؓ کے قول کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں ۔‘‘
پھر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’قال محمد -رحمہ اللہ تعالٰی- في کتاب’’أدب القاضي‘‘: لا یستقیم الحدیث إلا بالرأي و لا یستقیم الرأي إلا بالحدیث، حتی أن من لا یحسن الحدیث أو أعلم الحدیث و لایحسن الرأي : قال: لایصلح للقضاء و الفتویٰ۔‘‘
’’امام محمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب ’’أدب القاضي‘‘ میں لکھا ہے: حدیث ‘ فقہ کے بغیر درست نہیں ہوسکتی اور فقہ‘ حدیث کے بغیر درست نہیں ہوسکتی، چنانچہ جو شخص حدیث بہتر نہ جانتا ہو یا فقہی اصول کا ماہر نہ ہو تو وہ قاضی بننے یا فتویٰ دینے کا صحیح اہل نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ 
                                      (اصول البزدوی، ص:۹۳-۹۴، بتحقیق الدکتورسائد بکداش)
امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے کسی نئے طریقے کو رائج نہیں کیا تھا، بلکہ آپ کا علمی سلسلہ سندِ متصل کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے جڑا ہوا ہے ، البتہ آپؒ نے اپنے اساتذہ سے چلے آنے والے سلسلے کو زمانی وسعتوں کے پیشِ نظر اس قدر وسیع اور مضبوط بنایا کہ یہ سلسلہ آپ کی طرف ہی منسوب ہوا۔ بات آگے بڑھانے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے متصل علمی سلسلے کا ایک اجمالی نقشہ پیش کردیا جائے: 
امام ابو حنیفہؒ کے استاذ             امام حماد بن ابوسلیمانؒ(متوفیٰ: ۱۲۰ھ)
امام حماد بن ابو سلیمانؒ کے استاذ         امام ابراہیم نخعیؒ (متوفیٰ:۹۵ھ)
امام ابراہیم نخعیؒ کے استاذ             امام علقمہ بن قیس نخعیؒ (متوفیٰ:۶۲ھ)
امام علقمہ بن قیس نخعیؒ کے استاذ         عبد اللہ بن مسعود صحابی  رضی اللہ عنہ  (متوفیٰ: ۳۲ھ)
اور عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  ، نبی کریم سرورِ کونین  صلی اللہ علیہ وسلم  کے معروف صاحبِ علم اور صاحبِ فقہ صحابہؓ میں شمار ہوتے ہیں۔ 
اس سلسلے کے تمام افراد علم و فقہ کے مایہ ناز اور قابلِ فخر افراد ہیں، بلکہ امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی الشافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کی تعبیر کے مطابق یہ حضرات علومِ نبویہ کے جامعین اور سرچشمے ہیں۔ 
امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے اصولِ اجتہاد کا بہترین خاکہ وہ ہے جو خود امام صاحبؒ سے منقول ہے اورجو دیگر متعدد کتابوں کے علاوہ خطیب بغدادی شافعیؒ نے بھی نقل کیا ہے، چنانچہ خود امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’آخذ بکتاب اللہ ، فما لم أجد فبسنۃ رسول اللہﷺ، فإن لم أجد في کتاب اللہ و لا سنۃ رسول اللہ ﷺ أخذت بقول أصحابہ ، آخذ بقول من شئت منہم، و أدع من شئت منہم، و لا أخرج من قولہم إلٰی قول غیرہم ۔ فأما إذا انتہی الأمر إلٰی إبراہیم و الشعبي و ابن سیرین و الحسن و عطاء و سعید بن المسیب و عدد رجالا، فقوم اجتہدوا ، فأجتہد کمااجتہدوا۔‘‘
(تاریخ بغداد، ج:۱۵، ص:۵۰۴، بہٰذا اللفظ ، رواہ بسندہ عن یحیٰی بن ضریس عن سفیان الثوري عن أبي حنیفۃؒ۔ قال محقق الکتاب: د-بشار: ہٰذا خبر إسنادہ صحیح و رجالہ ثقات معروفون)
’’میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر جو بات نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر اگر مجھے وہ بات نہ تو کتاب اللہ میں ملے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت میں تو میں صحابہ کرامؓ کے اقوال کی طرف رجوع کرتا ہوں، اور ان میں سے جس کے قول کو چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جس کے قول کو چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں، لیکن صحابہؓ کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا، اور پھر جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، شعبیؒ، ابن سیرینؒ، حسن بصریؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، سعید بن مسیبؒ وغیرہ تک پہنچتا ہے تو یہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے خود اجتہادات کیے، تو جس طرح انہوں نے اجتہادات کیے‘ میں بھی اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘ 
اس قول کی روشنی میں امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا جو منہجِ استنباط سامنے آتا ہے، وہ نمبروار یوں بنتا ہے:
۱:- قرآن کریم        ۲:-سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 
۳:-قولِ صحابیؓ        ۴:- اجتہاد
پھر یہ جو چوتھی چیز اجتہاد ہے، اس میں درج ذیل بڑے مناہج شامل ہیں:
۱:-اجماع        ۲:-قیاس
۳:-اِستحسان        ۴:-عُرف
اس طرح گویا امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے منہجِ استنباط میں کل سات چیزیں ہیں اور آپ انہی کی روشنی میں اِستنباط فرماتے ہیں۔ 
قرآن کریم اور سنتِ نبویہ کا حجت اور اصولِ اجتہاد میں سے ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ 
البتہ عام طور سے قولِ صحابیؓ کو اصولِ اجتہاد اور مناہجِ استنباط میں ذکر نہیں کیا جاتا تو مناسب ہے کہ اس بارے میں حنفیہ کا موقف ایک جامع حوالہ کے طور پر نقل کردیا جائے۔ 
امام ابو الثناء محمود بن زید اللامشی الحنفی الماتریدی رحمۃ اللہ علیہ (توفي في أوائل سنۃ۶۰۰ ھ) اپنی کتاب ’’کتاب في أصول الفقہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’تقلید التابعي علی الصحابيؓ المجتہد ھل ھو واجب؟ أکثر أصحابنا قالوا: إنہ واجب، …وجہ قول العامۃ قولہ ﷺ: ’’اقتدوا باللذین من بعدي أبي بکر و عمرؓ‘‘، و الأمر للوجوب۔ و قال ﷺ: ’’إنما مثل أصحابي مثل النجوم في السماء، بأیہم اقتدیتم اھتدیتم‘‘، بین أن في الاقتداء بھم اھتداء و المعقول وھو أن اجتہاد الصحابيؓ أقرب إلی الصواب من اجتہاد التابعي لما لہم من الدرجۃ الزائدۃ علی ما قال النبي ﷺ: خیرالناس قرني الذین أنا فیہم، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم و قال ﷺ: أنا أمان لأصحابي و أصحابي أمان لأمتي و لأن لہم زیادۃ احتیاط في ضبط الأحادیث و حفظہا و زیادۃ جد في التأمل فیہا و البحث عن معانیہاو لہم زیادۃ جہد و حرض في طلب الحق۔‘‘                                            (اصول الفقہ للامشی، ص:۱۵۴-۱۵۵)
’’تابعی پر مجتہدصحابیؓ کی تقلید لازم ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ہمارے اکثر اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ لازم ہے۔ ہمارے اِن اکثر اصحاب کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے درج ذیل دو فرامین ہیں: ’’میرے بعد ابوبکرؓ اور عمرؓ کی اقتداء کرو۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان حکم کی شکل ہے اور حکم (امر) وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان: ’’میرے صحابہؓ کی مثال آسمان میں موجود ستاروں جیسی ہے، ان میں سے جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پاجاؤ گے۔ ‘‘ اس فرمان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے واضح کردیا کہ صحابہ کرامؓ کی اقتداء میں ہدایت ہے۔ نیزاس مسلک کے راجح ہونے کی عقلی دلیل یہ ہے کہ: صحابیؓ کا اجتہادزیادہ درست ہوگا تابعی کے اجتہاد کے مقابلے میں۔ اور اس ترجیح کے اسباب درج ذیل ہیں: صحابہ کرامؓ کو تابعین پر فوقیت حاصل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: ’’بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو اُن کے بعد ہوں گے اور پھر اُن کا جو اُن کے بعد ہوں گے۔‘‘ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کایہ بھی ارشاد ہے: ’’میں اپنے صحابہؓ کے لیے امان ہوں اور میرے صحابہؓ میری امت کے لیے امان ہیں۔‘‘ 
نیزیہ بھی اسباب ہیں کہ احادیث کو ضبط کرنے، انہیں یاد رکھنے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنے، ان کے معانی کی جستجو کرنے اور حق کی طلب میں کوشاں ہونے میں صحابہ کرامؓ کو تابعین پر فوقیت حاصل ہے۔ ‘‘
(اور یہ سب باتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کا اجتہاد تابعین کے اجتہاد سے زیادہ درست ہوگا، اور جب زیادہ درست ہوگا تو تابعین پر لازم ہوگا کہ وہ اقوالِ صحابہؓ کو حجت بنائیں۔ [مدثر] )
حضرات صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ کو فقہ حنفی میں جو اہمیت ہے وہ فقہ حنفی کے ماہرین سے مخفی نہیں، چنانچہ فقہ حنفی کے ایسے درجنوں مسائل ہیں جن کی بنیاد کسی نص پر نہیں، بلکہ اقوال و اجتہاداتِ صحابہؓ پر ہے، اور اس میں حنفیہ اکیلے نہیں ہیں، بلکہ دیگر مذاہب میں بھی یہ روایت موجود ہے، مگر فقہ حنفی میں اس کو جو اہم مقام حاصل ہے، اس کی نسبت دیگر مذاہب میں وہ اہمیت نظر نہیں آتی۔ ’’مصنف ابن أبي شیبۃ‘‘، اور ’’کتاب الآثار‘‘ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ 
استحسان
استحسان در حقیقت قیاس کا ہی ایک شعبہ ہے، اسی لیے اکثر علمائے اصول نے اسے الگ سے منہجِ استدلال اور اصل کے طور پر نہیں لیا،بلکہ اس کی مباحث کو قیاس کی مباحث کے ضمن میں ہی ذکر کیا ہے، چنانچہ امام فخر الاسلام بزدوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ان دونوں کو ایک ہی باب میں جمع کردیا ہے اور عنوان قائم کیا ہے: ’’باب القیاس و الاستحسان‘‘ اور پھر اس میں استحسان کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’إنما الاستحسان عندنا: أحد القیاسین، لکنہ سمي استحسانا، إشارۃ إلی أنہ الوجہ الأولٰی في العمل بہ، و أن العمل بالآخر جائز۔‘‘     (اصول البزدوی:۶۱۱)
’’ہمارے نزدیک استحسان قیاس کی دو شکلوں میں سے ایک شکل کا نام ہے، اور اس کا نام استحسان اس لیے رکھا، تاکہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوجائے کہ اُس قیاس پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے، اگرچہ دوسرے قیاس پر عمل کرنا فی نفسہ جائز ہوتا ہے۔‘‘
الغرض یہاں استحسان کی مباحث ذکر کرنا مقصود نہیں، بلکہ فقط اتنا دکھانا تھا کہ استحسان بھی مذہبِ حنفی کے مناہجِ استدلال میں شامل ہے۔ 
امام ابوحنیفہؒ پر قلتِ حدیث کا اعتراض اور اس کا جواب
امام صاحبؒ کے مناہجِ استنباط دیکھنے سے واضح ہوا کہ امام صاحبؒ پر یا حنفیہ پرقلتِ حدیث یا مخالفتِ حدیث کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے، وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ درج ذیل چند نکات سے صحیح صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
۱:- امام صاحبؒ اپنے منہجِ استنباط میںقرآن کریم کے بعد دوسرا درجہ سنتِ نبویہ کو دیتے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ ان پر مخالفتِ حدیث کا الزام بھی حقیقت سے تعلق نہیں رکھتا اور یہ کہنا کہ ’’وہ قلیل الحدیث تھے‘‘ یہ بھی درست نہیں، کیوں کہ اجتہاد کی اساسیات میں جب دوسرا درجہ ہی سنتِ نبویہ کا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص حد درجہ قلیل الحدیث ہو اور پھر وہ بالاتفاق امام المجتہدین بھی ہو۔ !!
۲:- امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے منقول احادیث اور مسانید کے مختلف مجموعے بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان پر قلتِ حدیث کا جو الزام عائد کیاجاتا ہے، وہ درست نہیں ہے، چنانچہ امام خوارزمی رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’جامع المسانید‘‘ کے نام سے تقریباً پندرہ مسانید جمع کی ہیں، جو سب کی سب امام صاحبؒ کی احادیث پر مشتمل ہیں۔ 
۳:- امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’حدیثِ مرسل‘‘ کو بھی حجت تسلیم کیا ہے، جب کہ بعد کے بہت سے اہلِ علم نے ’’حدیثِ مرسل‘‘ کو حجت تسلیم نہیں کیا۔ (المدخل لشلبی:ص۱۷۵)
۴:- حدیثِ ضعیف کو قیاس پر ترجیح دینا، چنانچہ فقہ حنفی میں ایسے متعدد مسائل موجود ہیں، جن میں قیاس کو ترک کرکے حدیثِ ضعیف پر عمل کیا گیا ہے، مثلاً نمازی کے قہقہے سے نماز ٹوٹ جانے کا مسئلہ ایسا ہے کہ قیاس کے برخلاف اس مسئلے کی بنیاد حدیثِ ضعیف پر رکھی گئی ہے۔ 
امام صاحبؒ کی روایات کم کیوں ہیں؟
اس کے دو سبب ہیں:
۱:-امام صاحبؒ کا روایتِ حدیث پر کم توجہ دینا،بلکہ درایتِ حدیث پر توجہ مرکوز رکھنا، جس کا منشا اس حدیث سے مستنبط ہوتا ہے:
’’مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّھْہُ فِیْ الدِّیْنِ۔‘‘                    (متفق علیہ عن سیدنا معاویہؓ)
’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا اِرادہ کرتے ہیں تو اُسے دین کی سمجھ بوجھ عطاء کرتے ہیں۔ ‘‘
۲:- روایتِ حدیث کے لیے سخت شرائط کو ملحوظ رکھنا اور اس کا منشا اس حدیث سے مستنبط ہوتا ہے:
’’من کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ ‘‘     (متفق علیہ عن سیدنا ابی ہریرہؓ)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ پکا کر لے۔ ‘‘
چنانچہ علامہ ابن خلدونؒ فرماتے ہیں:
’’والإمام أبو حنیفۃؒ إنما قلّت روایتہ للحدیث، لما شدّد في شروط الروایۃ والتحمل۔‘‘                                        (مقدمہ ابن خلدون، ج:۲، ص:۱۲۹)
’’امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی روایاتِ حدیث کم اس لیے ہیں کہ ان کے ہاں احادیث‘ روایت کرنے اور انہیں حاصل کرنے کی شرائط بہت سخت تھیں۔‘‘
فقہِ حنفی کی قبولیت و ترویج کا سبب: اجتہاد و استنباط پر کامل توجہ
اگرچہ اہلِ علم نے اس کے مختلف اسباب بیان کیے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا بنیادی سبب ایک ہے اور وہ ہے: ’’اجتہاد و استنباط پر کامل توجہ‘‘
اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ انسانی زندگی سے متعلق شرعی احکامات کو درج ذیل اہم شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
q   عبادات        w   معاملات        e   اخلاقیات
اب عبادات کو دیکھیں تو ان میں جدید مسائل پیدا ہونے کا کچھ خاص مطلب نہیں، اسی طرح اخلاقیات کا معاملہ ہے، یعنی اخلاقیات بگڑنے کی تو مختلف شکلیں اور اسباب ہوسکتے ہیں، مگر خود عمدہ اخلاقیات جن سے اپنے ظاہرو باطن کو آراستہ کرنا مطلوب ہے تو ان میں بھی نت نئے اخلاق کا پیدا ہونا کوئی خاص واقعہ نہیں ہے، جب کہ اس کے برعکس معاملاتِ زندگی ایسے ہیں جن میں شب و روز نئی نئی صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ 
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی زندگی میں اعمال کا جو وسیع ترین دائرہ ہے، وہ ’’معاملات‘‘ ہیں۔ عبادات کا دائرہ بھی محدود ہے اور اخلاقیات کا دائرہ بھی محدود ہے، جب کہ معاملات کا دائرہ کار ان سب سے وسیع ہے اور اس باب میں شریعت کا طرز یہ ہے کہ جو معاملہ جس قدر وسیع اور لامحدود ہے شریعت نے اس کے بارے میں زیادہ تر اصول وکلیات بارے رہنمائی کی ہے اور جزئیات سے کم ہی تعرض کیا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ حالاتِ زمانہ اور افرادِ زمانہ میں جس قدر تغیر آتا ہے، اسی قدر احکام میں بھی تغیر آتا ہے، جب کہ عبادات و اخلاقیات میں یہ صورت حال نہیں ہے، اس لیے قدرتی بات ہے کہ جو مذہب زیادہ سے زیادہ نصوص تک خود کو محدود رکھے گا، وہ عبادات و اخلاقیات میں تو بہتر رہنمائی کرسکے گا، مگر معاملاتِ زندگی میں اس کا عمل دخل کم سے کم تر ہو جائے گا، اور جو مذہب نصوصِ قرآن وسنت اور اقوالِ صحابہؓ کی روشنی میں اجتہاد و استنباط پر توجہ مرکوز رکھے گا تو یقیناً وہ معاملاتِ زندگی کے نت نئے احکامات بارے زیادہ رہنمائی فراہم کرسکے گا، چنانچہ فقہائے حنفیہ نے اجتہاد و استنباط پر توجہ مرکوز ر کھ کر معاملاتِ زندگی بارے شرعی حل سب سے زیادہ پیش کیا ہے اور یہی چیز سبب بنی اس بات کا کہ فقہِ حنفی نے مسلم معاشرے میں عبادات و اخلاقیات سے لے کر سیاست و معیشت تک اپنی جڑیں سب سے زیادہ مضبوط کیں اور اسی لیے ہر اسلامی دورِ حکومت میں عبادات کے احکامات کے علاوہ سیاسی، معاشی اور عدلیہ کے احکامات میں سب سے زیادہ رہنمائی فقہِ حنفی سے لی گئی ہے اور دیگر مذاہب کے معتبر اہلِ علم نے اس حقیقت کو ہر زمانے میں تسلیم کیا ہے۔ 
دیگر دو باتیں بھی اس سلسلے میں اہم ہیں:
۱:- امام صاحبؒ کا صاحبِ تجارت ہونا: چونکہ امام صاحبؒ خود تجارت سے وابستہ تھے اور بڑے تجار میں شمار ہوتے تھے، اس لیے شب و روز تجارتی معاملات سے آپ کو جس قدر واقفیت رہتی ہوگی وہ بالکل عیاں ہے۔ اس طرح آپ کی فقہ کا دائرہ کار محض درسی مجالس تک محدود نہیں تھا، بلکہ معاشرے کے اہم ترین حصے کے براہِ راست مشاہدے پر مبنی تھا، اور اس چیز نے آپ کے فقہی اجتہادات کا ذخیرہ کافی وسیع کردیا تھا اور اسی کے ساتھ معاشرے کی ضروریات میں بھی دوسروں کی بنسبت زیادہ خود کفیل ہورہا تھا، ایسے میں اگر یہ مسلک زیادہ مقبول ہوا، تواس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ 
۲:- دوسرا سبب یہ ہوا کہ جب امام ابویوسفؒ قاضی القضاۃ بنے تو ظاہر ہے کہ نت نئے مسائل میں انہوں نے جتنے بھی فیصلے کیے، وہ اپنے استاذ امام ابوحنیفہ ؒ کے ہی اصول اور قواعد کی روشنی میں کیے، اگرچہ امام ابویوسفؒ خود بھی مجتہد تھے، مگر بہر حال انہوں نے اپنے اوپر ہمیشہ اپنے استاذ امام ابو حنیفہؒ کی علمی و فقہی تربیت کا رنگ ہی غالب رکھا، اس طرح مسلم معاشرہ فقہِ حنفی کے فیضان سے فیض یاب ہونے لگا اور یہی چیز خود فقہِ حنفی کے لیے بھی بے پناہ وسعت کا سبب ہوئی کہ بہت سے مسائل جو پہلے فقہ حنفی میں موجود نہ تھے، مگر جب وہ وقوع پذیر ہوئے اور فقہ حنفی کے ماہرین نے ان کے شرعی حل مستنبط کیے تو اس سے خود فقہِ حنفی کا تحریری ذخیرہ وسیع تر ہوتا گیا اور اس طرح دیگر فقہی مذاہب کی بہ نسبت فقہِ حنفی معاشرے میں زیادہ اثر انداز ہوتی رہی، جس کا اثر اب بھی علمی حلقوں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین