بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فقہ اور اُصولِ فقہ کی تدریس ! مسالکِ اربعہ میں ائمہ کے اختلاف کے بنیادی اجتہادی اُصول  (دوسری قسط)

فقہ اور اُصولِ فقہ کی تدریس !

 

مسالکِ اربعہ میں ائمہ کے اختلاف کے بنیادی اجتہادی اُصول
                                 (دوسری قسط)

 

فقہ حنفی کی مشہور کتابیں
۱:-المبسوط للسرخسي،ابوبکر محمد بن احمد السرخسیؒ (متوفی: ۴۸۳ھ)
۲:-بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،امام ابوبکر بن مسعود الکاسانی  ؒ (متوفی: ۵۸۷ھ)
۳:-الھدایۃ،برہان الدین علی بن ابی بکر مرغینانی  ؒ(متوفی: ۵۹۳ھ)
۴:-البحرالرائق، شیخ زین الدین ابن نجیم المصریؒ (متوفی: ۹۷۰ھ)
۵:-فتاویٰ ہندیہ، علمائے ہند۔ 
۶:-ردالمحتار،محمد امین ابن عابدین الشامیؒ (متوفی: ۱۲۵۲ھ)
فقہ مالکی
۱:-تبصرۃ الحکام فی أصل الأقضیۃ و مناہج الأحکام، ابراہیم بن علی بن محمد الیعمری المالکی ؒ (متوفی: ۷۹۹ھ)
۲:-الذخیرۃ،احمد بن إدریس المالکی القرافی  ؒ (متوفی: ۶۹۴ھ)
۳:-الکافي فی فقہ أہل المدینۃ المالکي،ابوعمر یوسف بن عبداللہ بن محمدبن عبدالبر النمری القرطبی ؒ(متوفی: ۴۶۳ھ)
۴:-مواہب الجلیل،ابوعبداللہ محمد بن محمد بن عبدالرحمن المغربی  ؒ(متوفی: ۹۵۴ھ)
۵:-المدونۃ الکبری،امام مالک بن انسؒ (متوفی: ۱۷۹ھ)
۶:-المقدمات الممہدات،محمد بن احمد بن رشد القرطبیؒ (متوفی: ۵۲۰ھ)
فقہ شافعی
۱:-کتاب الأم، محمد بن ادریس شافعیؒ (متوفی: ۳۰۴ھ)
۲:-الحاوي للفتاوی،شیخ عبدالرحمن ابو بکر سیوطیؒ (متوفی: ۹۱۱ھ)
۳:-شرح المہذب ،ابوزکریا محی الدین بن شرف النوویؒ(متوفی: ۶۷۶ھ)
۴:-نھایۃ المحتاج،شمس الدین محمد بن ابی العباس رملیؒ (متوفی: ۱۰۰۴ھ)
۵:-مغنی المحتاج،شیخ محمد مزنی  ؒ
۶:-شرح المنھاج،شیخ ابومحمد علی بن احمد بن سعیدؒ
فقہ حنبلی
۱:-روضۃ الناظر،ابومحمد عبداللہ بن احمد بن قدامہؒ
۲:-المغنی،احمد بن محمد بن قدامہ مقدسیؒ
۳:-کشاف القناع،علامہ منصور بن یونس بہوتی  ؒ
۴:-التمہید،حافظ ابوعمران بن عبدالبر اندلسیؒ
۵:-حلیۃ العلماء ،شیخ محمد بن احمد الشاشی القفالؒ
۶:-مجموع الفتاوی،شیخ الاسلام احمد بن تیمیہؒ
محتویات/توضیحات
فقہی مدرس متعلقہ کتاب ،درجہ اور طلباء کا لحاظ رکھتے ہوئے جب مختصر یا مفصل تمہیدی گفتگو سے فارغ ہوجائے تو اس کے بعدکتاب کے محتویات ،مشمولات اور متن کی توضیح کی طرف آئے ،کتاب کے متن کی توضیح کے لیے فقہی مدرس کو درج ذیل اُمور کا اہتمام کرناچاہیے:
۱:…باب کا تعارف
سب سے پہلے باب کاتعارف پیش کرے،اس تعارف میں تین چیزیں بنیادی طورپر یاد رکھنے کی اور بتانے کی ہوتی ہیں:
۱لف:-    ایک تو اس باب میں زیراستعمال آنے والی اصطلاحات کا تعارف، مثلاً: بیع، بائع، مشتری، مبیع، ثمن، عاقدین، باطل، فاسد، غبن مغتفر، غبن فاحش، ثمن/ثمن مثلی، قیمت وغیرہ کا تعارف کرایا جائے اور امتحانی سوالات میں بھی اصطلاحات کا سوال دینا مفید ہوگا۔
ب:-    دوسرے اس باب کے اہم اہم فقہی قواعد کی طرف رہنمائی فرمائی جائے، مثلاً: باب الصوم میں کئی مسائل ’’الإفطار مما دخل لا مماخرج‘‘، ’’والداخل یفطر إذا وصل إلٰی جوف المعدۃ أوالدماغ‘‘باب المرابحۃ میں کئی مسائل ’’مبنی المرابحۃ علی الأمانۃ والدیانۃ‘‘ کے اصول پر مبنی ہیں۔
’’کتاب السرقۃ‘‘ میں بیشتر مسائل کاتعلق سرقہ کی تعریف میں ذکر کردہ احترازی قیود کے ساتھ ہے،اس حوالے سے مدرس کو چاہیے کہ باب شروع ہونے پر پورے باب کا مطالعہ کرے اور کلیات، قواعد اور تعلیلات پر غور کرکے یہ قواعد خود تلاش کرکے طلبہ کو بتائے، اس سے خود کو بھی فائدہ ہوگا، اور طلبہ کو بھی فائدہ ہوگا۔
اگر ہمت ہو تو اس مقصد کے تحت متعلقہ مقام علامہ کاسانی v کی ’’بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع‘‘ سے مطالعہ کیا جائے۔ بدائع کی تعلیلات عموماً فقہی اصل/قاعدہ/کلیہ کے طورپر مذکور ہوتی ہیں، اس موضوع پر ایک شامی عالم محمود حمزہ دمشقی کی کتاب ’’الفوائد البہیۃ فی القواعد الفقہیۃ‘‘ بڑی مفید کتاب ہے ، مگر عام دسترس میں نہیں ہے، اس کتاب میں فقہی قواعد ، فقہی ابواب کی ترتیب پر یکجا فرمائے گئے ہیں، جن سے حسبِ موقع انتفاء وانتفاع بہت آسان ہے۔ ’’الأشباہ والنظائر لابن نجیم‘‘ اور ’’مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘‘اور ’’ شرح المجلۃ خالد اتاسی‘‘ میں عام اور معروف فقہی قواعد مذکور ہیں، قواعد سے متعلق متعدد رسائل مفتی عمیم الاحسان v نے ’’مجموعۃ القواعد الفقہیۃ‘‘ میں یکجافرمائے ہیں، وہ عام ملتی ہے۔ ایسے بنیادی قواعد تقریباً ۱۲۱کے لگ بھگ شمار ہوتے ہیں جن کااستحضار زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔
ج:-    باب سے متعلق تیسری چیز جس کااہتمام مفید ہے وہ خلاصۃ الباب کااستحضار اور بیان ہے،خلاصۃ الباب کا مطلب یہ ہے کہ اس باب کے محتویات کیا کیا ہیں؟ مختصراً بتادیئے جائیں اور اگلے باب کے شروع کے وقت ماقبل سے ربط کے طور پر سابقہ باب کے مسائل کا خلاصہ یوں بیان کردیاجائے کہ گزشتہ باب میں یہ یہ مسائل واحکام ہم نے پڑھے ہیں، اگر ذوق اور ہمت کا حسنِ امتزاج کسی کو مقدور ہو تو ’’النتف فی الفتاوٰی للسغدیؒ‘‘(لأبي الحسن علي بن الحسین بن محمد السغديؒ[متوفی:۴۶۱ھ]) سے ہر باب کے مسائل کی تلخیص کا عمدہ انداز اپنایا جاسکتا ہے۔
۲:…متن کی تفہیم
الف:-    متن کی فہم وتفہیم کے لیے استاذ وطالب دونوں آئندہ درس کی خوب تیاری کریں، یعنی کتاب کا متن سمجھنے اور سمجھانے کے لیے مدرس خود بھی خوب تیاری کرکے آئے اور طالب علم کو اس جذبے اور شوق کا حامل بنائے کہ وہ اپنے سبق کاسارا انحصار استاذ پر نہ چھوڑے، بلکہ خود بھی محنت کرے۔ اس کی کیا صورت ہوگی؟ حضرت مفتی نظام الدین شامزی شہید v طلبہ کے ترغیبی بیان میں حضرت تھانوی  v کا یہ ملفوظ بکثرت سنایاکرتے تھے کہ: طالب علم اگر تین اُمور کا التزام کرے تو وہ ضمانت کے ساتھ بڑا اور کارآمد عالم دین بن سکتاہے: ۱:-ایک آئندہ کل کا سبق خود دیکھ کر آئے، اپنے مطالعہ کے نتیجے میں جو کچھ سمجھ پایا اس کا استحضار رکھے۔۲:- اگلے دن استاذ کے سبق میں ہمہ تن گوش بن کے بیٹھے، اپنے استحضار اور استاذ کے اظہار کے درمیان موازنہ کرتا جائے اور اپنی کمی کو استاذ کی معلومات سے پورا کرتا جائے، پھر اسی سبق کو رات کے وقت اہتمام وانہماک کے ساتھ دہرانے کی ترتیب بنالے۔ ۳:-تکرار ومطالعہ کاالتزام کرے تو ایسا طالب علم ان شاء اللہ! بڑا عالم، مضبوط عالم اور راسخ العلم بن سکتا ہے۔
طالب علم تیاری کے دوران عبارت فہمی تک پہنچنے کے لیے جملوں کے باہمی ربط وتعلق کی پہچان کی کوشش کرے۔ جملوں کی پہچان اور پھر جملوں کے باہمی جوڑ وتعلق کی کیفیت کے حصول کے لیے صرف ونحو کے استحضارواستعمال کی عادت ڈالی جائے جو عموماً اکثر طلبہ کو خاطر خواہ حد تک ازبر ہوتے ہیں، مگر تطبیق واجراء کی ضرورت پھر بھی رہتی ہے۔ طلبہ کو بالخصوص ابتدائی طلبہ کو اس عمل کا ایساعادی بنایا جائے کہ وہ نحوی وصرفی تعلیل کے ذریعہ حلِ عبارت پر قادر ہوجائیں۔ اس معمولی توجہ سے طالب علم کا مطالعہ اُسے فائدہ دینے لگے گا، اس کا شوق بیداری کے ساتھ بڑھتا رہے گا اور وہ کتاب نہ سمجھنے کا بہانہ بناکر بے ہمتی کا مظاہرہ نہیں کرسکے گا۔
 اسی طرح مدرس خود بھی اچھی طرح تیاری فرماکر آئے۔ مدرس کی اچھی تیاری کی بابت اساتذہ کرام سے علامہ شمس الحق افغانی v کا یہ ارشادسنا ہے کہ مدرس تین طرح کا مطالعہ کرے: ۱:-ایک مطالعہ کتاب فہمی کا، ۲:-دوسرا مطالعہ تفہیم کے لیے یعنی خود سمجھی ہوئی بات مخاطب طلبہ کو کیسے سمجھانی ہے، ۳:-تیسرا مطالعہ آسان سے آسان الفاظ، اسلوبِ بیان اور اظہارِ مطالعہ کے لیے عام فہم تعبیرات کے چناؤ کے لیے، یعنی استاذ کا مطالعہ فہم، تفہیم اور تلخیص و تیسیر کے تین مراحل پر مشتمل ہونا چاہیے، بالخصوص ابتدائی درجات میں سال کے شروع میں اس ترتیب پر خاص توجہ رکھی جائے۔
ب:-    استاذ درس کی تقریر شروع کرنے سے قبل لاعلی التعیین کسی بھی طالب علم سے عبارت پڑھوائے، صحیح اور غلط کی نشان دہی کرے، اس تصحیح اور نشان دہی میں دیگر طلبہ کو بھی شریک کرے۔ اگر قاری نے عبارت درست پڑھی ہے تو وجۂ اعراب اور ترکیبی حالت کے بارے میں قاری یا سامعین میں سے کسی سے سوال کرلیا جائے، اسی طرح صیغے کی پہچان اور اس کا ترجمہ وغیرہ بھی عبارت سے جداگانہ پوچھ لیا جائے۔
ج:-    عبارت ہراعتبار سے حل ہوجائے تو اس کے بعد عبارت میں بیان کردہ مسئلہ، صورتِ مسئلہ اور حکم بیان کردیاجائے کہ اس عبارت کامقصد اس مسئلہ کا جواز یاعدمِ جواز بتانا ہے۔ یہ جائز ہے یا ناجائزہے۔ اگر مسئلہ میں اختلافات یا تفصیلات نہ ہوں توبلاوجہ قدوری کو ہدایہ بنانے کا مُضِر تکلف نہ کیاجائے۔
اگر مسئلہ اختلافی ہو اور اختلافات کی طرف کتاب میں تذکرہ اور اشارہ بھی ہو تو ایسی صورت میں ابتدائی درجات (قدوری اور کنز)وغیرہ میں اختلاف اوردلائل کو کتاب میں ذکرکردہ تفصیل تک محدود رکھا جائے۔
قدوری کے حل کے لیے ’’اللباب‘‘(اللباب فی شرح الکتاب ، ،عبدالغنی بن طالب بن حمادۃ بن ابراہیم الدمشقی المیدانی الحنفی [۱۲۲۲-۱۲۹۸ھ]) ،’’الجوہرۃ النیرۃ‘‘ (الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوري ،ابوبکر بن علی بن محمد الحداد الیمنی [متوفی:۸۰۰ھ]) جب کہ ’’کنزالدقائق‘‘ کے حل کے لیے ’’تبیین الحقائق‘‘ (تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق،عثمان بن علی بن محجن البارعی فخرالدین الزیلعی الحنفی [متوفی:۷۴۳ھ]) اور جزئیات کے استقصاء کے لیے ’’البحرالرائق‘‘ (البحر الرائق شرح کنزالدقائق ، زین الدین بن ابراہیم بن محمد الشہیر بابن نجیم المصری) مفید ہے۔ اختلافات میں راجح مرجوح کی پہچان کے لیے علامہ قاسم قطلوبغا [متوفی:۸۷۹ھ] کی ’’التصحیح والترجیح‘‘ کو شامل مطالعہ رکھاجائے،آگے چل کر ہدایہ کے اختلافات میں ترجیحات کی شناخت کے لیے بھی ’’ترجیح الراجح بالروایۃ فی مسائل الہدایۃ‘‘ کے نام سے اکوڑہ خٹک سے باقاعدہ کتاب چھپ چکی ہے۔
د:-    البتہ وسطانی اور فوقانی درجات میں فقہ کی تدریس کے دوران اختلافی اقوال کو ان کے لوازم کے ساتھ پڑھایا جائے، اگر کسی مسئلہ میں ائمہ احناف کا باہمی اختلاف ہے تو ہر ایک کا قول ، اس کی دلیل اور منشأِاختلاف بیان کیاجائے،اور پھر مفتیٰ بہ اور راجح قول اور اس کی وجہ ترجیح بتائی جائے، متعلقہ اختلاف ائمہ احناف اور دیگر ائمہ کے درمیان ہے تو پھر ا س اختلاف کو ذرا محنت کے ساتھ ’’الفقہ المقارن‘‘بنایاجائے،ہرایک کے عقلی ونقلی دلائل ان کے اپنے ماخذ سے نقل کیے جائیں، پھر ائمہ احناف کی رائے کو دلیل کے ساتھ بیان کیاجائے اور وجہ ترجیح بھی بتائی جائے،اور فقہ حنفی کے تطبیقی امتیاز کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی جائے،دلیل اور اس کی تفصیل کے بارے میں اوپر بیان کر آئے ہیں کہ دلیل کی نوعیت اور اس کا درجہ بھی واضح کیاجائے،اس سلسلے میں کسی حد تک ’’الفقہ الحنفي وأدلتہٗ‘‘ شیخ اسعد محمد سعیدالصاغرجی سے بھی استفادہ کیاجاسکتاہے۔
جب کہ تطبیقی امتیاز کا مطلب یہ ہے کہ نفس الامری مثالوں کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے عبدالحمید محمود طہماز کی ’’الفقہ الحنفي فی ثوبہ الجدید‘‘ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اکابر کے فتاویٰ سے یوں مدد لی جاسکتی ہے کہ جو بات یہاں زیرِ درس آئے اکابر کے فتاویٰ میں متعلقہ باب ومقام مطالعہ کرلیا جائے اور وہاں سے نفس الامری مثالیں بتائی جائیں، اور یہ سمجھا اور سمجھایا جائے کہ کتاب کے یہی مسائل عوام کیسے پوچھتے ہیں، اور ان کو کیسے جواب دیا جاتا ہے۔
نیز تطبیق کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہرباب سے متعلق نوپیش آمدہ مسائل اور احوال سے آگاہی رکھی جائے اور موقع بموقع طلبہ کی رہنمائی کی جائے۔ طہارت اور عبادت میں ایسی نئی صورتیں کونسی ہیں جن کی فقہ قدیم کے ساتھ تطبیق وتقریب کی ضرورت ہے، معاشرت و مناکحات میں غور کیا جائے، معاملات و مخاصمات میں یہی عمل کیا جائے، ایسے مسائل کی تفصیلی فہرست کے لیے قاضی مجاہد الاسلام قاسمیv کی مرتبہ ’’جدید فقہی مباحث‘‘ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
فقہ کی درسی کتب کی تدریس 
l  ہمارے ہاں سب سے پہلی کتاب ’’مختصرالقدوري‘‘ لابی الحسین احمد بن محمد القدوری البغدادی [۳۶۲-۴۲۸ھ]ہے، جس کے پڑھانے کے لیے انہی معلومات پر اکتفا کیا جائے جو خود قدوری میں درج ہیں، اختلافات وغیرہ کے بارے میں درج بالا اصول وآداب ملحوظ رہیں۔ اس کتاب کو حل کرنے کے لیے ’’اللباب فی شرح الکتاب‘‘اور ’’الجوہرۃ النیرۃ‘‘کو زیرِ مطالعہ رکھیں، مطالعہ میں اضافہ اور مسائل میں وسعت اور استحکام کے لیے بڑی کتابیں بھی دیکھیں، مگر یاد رہے کہ قدوری اور کنز متن ہیں، تدریس کے دوران انہیں متن ہی رہنے دیاجائے،شروح کی باتیں آگے شروح میں بتائی جائیں۔
l  دوسری کتاب ’’کنز الدقائق‘‘ للإمام أبی البرکات عبداللہ بن احمد النسفی [۶۲۰-۷۱۰ھ] ہے ، یہ بھی اہم اور دقیق متن ہے، اس کے حل کے لیے ’’تبیین الحقائق‘‘ اور جزئیات کے لیے ’’البحرالرائق‘‘سے استفادہ کیاجائے۔
l  ’’شرح الوقایۃ‘‘ لصدر الشریعۃ عبیدا للہ بن مسعود المحبوبی البخاری الحنفی [۷۴۷ھ] ‘‘ ہمارے نصاب کا حصہ ہے،اس کی بعض تعبیرات ،تعقیدات کی زَد میں رہتی ہیں، حلِ کتاب میں بسااوقات بہت دقت پیش آتی ہے، اس کے لیے یہ کہاجاسکتاہے کہ سب سے پہلے اس فقہی قاعدے کو گرفت میں لانے کی کوشش کریں جس قاعدے پر متعلقہ مسائل ومباحث کی تفریع ہے، دوسرے نمبرپر یہ دیکھا جائے کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور اس مسئلہ کو دوسری کتابوں میں کیسے تعبیر کیا گیاہے اور اس کی دلیل کیا بتائی گئی ہے؟! 
l  مسئلہ سمجھنے کے لیے وہی مسئلہ دوسری فقہی کتاب میں سمجھ کر طالب علم کو نفسِ مسئلہ سمجھا دیا جائے، کیونکہ ایسے مواقع پر استاذ اور شاگرد کی توانائیاں اگر کتاب کے اغلاق کی رفع بندی میں صرف ہوتی ہیں تو کتاب تو شاید حل ہوجائے گی، مگرکتاب پڑھنے کا جو اصل مقصد ہے: ’’مسئلہ کا فہم‘‘ وہ فوت ہوجائے گا، نقصان سے کم از کم بچا جائے۔ اس لیے حضرت بنوری  v کے بعض تلامذہ کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت بنوری v، صدر الشریعہ عبید اللہ v کی’’شرح وقایہ‘‘ کے بجائے ملا علی القاری v کی ’’شرح النقایۃ‘‘ کو شاملِ نصاب رکھنے کی تجویز دیا کرتے تھے۔ راقم الحروف کو جب شرح وقایہ پڑھانے کا اتفاق ہوا تو شرح وقایہ کے مضامین نجم الدین محمد الدرکانی کی شرح ’’اختصار الروایۃ علٰی مختصر الوقایۃ‘‘ سے بتانے میں زیادہ سہولت محسوس ہوئی۔ یہ کتاب ’’ شرح النقایۃ‘‘ (فتح باب العنایۃ) کا جامع اختصار بھی ہے، یعنی ’’مختصر الوقایۃ لصدرالشریعۃ‘‘ کے حل اور تفہیم کے لیے ان کے پوتے عبید اللہ کی شرح کے بجائے درکانی  ؒ کی شرح کوزیرِ غور لایا جائے تو شاید معروف ’’شرح الوقایۃ‘‘ کی کتاب فہمی میں صرف ہونے والا وقت مسائل کے استحضار و استقصاء کے لیے بچ جائے گا۔
ہدایہ کی تدریس
’’الہدایۃ‘‘ ،’’ بدایۃ المبتدی‘‘ کی شرح ہے جو کفایت المنتہی۸۰ مجلدات کی تلخیص ہے (’’الہدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدي‘‘، علی بن ابی بکر بن عبدالجلیل ابی الحسن برہان الدین المرغینانی [متوفی:۵۹۲ھ]) ’’بدایۃ المبتدي‘‘ دو معتبر ترین متون کا مجموعہ ہے: ایک امام شیبانیv کی ’’الجامع الصغیر‘‘ دوسری امام ابو الحسن القدوری کی ’’المختصر‘‘ ، اس سے ہدایہ کی جامعیت اور استنادی حیثیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پھر صاحبِ ہدایہ کے مقام و مرتبہ کے بارے میں اہلِ علم کے ہاں تفصیل ہے کہ انہیں مجتہد فی المذہب قرار دیاجائے یااصحاب الترجیح میں شمار کیا جائے۔ اکثر اہلِ علم کی رائے یہ ہے کہ آپ کی اجتہادی شان کا تقاضا تویہ ہے کہ مجتہد فی المذہب قرار پائیں، یعنی اصول میں اپنے امام کے مقلد اور فروع میں آزاد رہیں، اس سے یہ اندازہ لگایا جائے کہ صاحبِ ہدایہ کے اپنے اقوال اوراپنی تفریعات بھی فقہ حنفی میں قابلِ اعتبار اضافہ شمار ہوتی ہیں، بایںہمہ اگر متعدد اقوال کے ضمن میں وہ ’’أقول‘‘یا’’قال العبد الضعیف‘‘ فرمائیں تو اس کا مطلب ترجیحِ راجح ہوگا۔
l  اس تفصیل کا مدعایہ ہے کہ ہدایہ نقلِ مذہب میں جہاں معتمد ہے وہاں ترجیح میں بھی اُسے ایک مقام حاصل ہے،اس لیے ہدایہ کی تدریس کے دوران اس کی منزلت کا خیال رہناچاہیے،اور اس کے شایانِ شان محنت کرنی چاہیے،یہ کتاب اس لیے بھی سخت محنت کی مستحق ہے کہ درسِ نظامی میں فقہی ابواب کو احاطہ کرنے والی واحد مفصل ومدلل کتاب ہے۔
l  ہدایہ کی تدریس کے دوران صاحبِ کتاب کے صنیعِ خاص کالحاظ بھی رہنا ضروری ہے، بالخصوص نقلِ مذاہب اور بیانِ ادلہ میں۔ نقلِ مذاہب میں تصحیحِ التزامی کے طورپر مدلل ومفصل /راجح قول کو سب سے آخر میں ذکر فرماتے ہیں ، پھر اس کی قوتِ دلیل اور وجۂ ترجیح کی طرف مختصر یا مفصل انداز میں توجہ دلاتے ہیں۔
l  اس کی تفصیل ہدایہ اخیرین کے ابتدائیہ میں علامہ لکھنوی  v کے قلم سے درج ہے۔ یہاں پر یہ امر بھی قابلِ اعتناء ہے کہ صاحبِ کتاب نے متعلقہ مسئلہ سے متعلق جتنے اقوال اور جس ترتیب سے ذکر فرمائے ہیں اسی تعداد اور ترتیب تک محدود رہا جائے، اِدھر اُدھر جانے سے معلومات کا فائدہ تو ہوسکتا ہے، لیکن فہمِ کتاب کا مقصد بھی متاثر ہوسکتا ہے، اس لیے کتاب فہمی کی غرض سے کتاب کے محتویات تک محدود رہناافضل ہے۔ ہاں! اگر سارے طلبہ استعداد والے ہوں اور کتاب کو خود حل کرنے کی لیاقت رکھتے ہوں تو پھر پوری کتاب کو ’’الفقہ المقارن‘‘ بنادیں، بہت اچھی بات ہے، پھر نقلِ مذاہب کے لیے دوسرے مذاہب کی معتمد کتب کی طرف جائیں، ان کے اقوال اپنی کتب سے نقل کرنے پر اکتفا نہ کریں، اور نقل و رَد میں ابتدائی بہترین نمونے کے طورپر امام محمد  v کی کتاب ’’کتاب الحجۃ علٰی أہل المدینۃ‘‘اور امام قدوری v کی’’ التجرید للإمام القدوري‘‘ (الموسوعۃ الفقہیۃ المقارنۃ) کو بنیاد بنایا جائے۔
l  نقلی دلائل کے لیے ’’نصب الرأیۃ لأحادیث الہدایۃ للزیلعي[متوفی:۷۶۲ھ]‘‘ کو بنیاد بنایا جائے۔ نقلِ مذاہب اور ادلۂ مذاہب میں ’’نصب الرأیۃ‘‘ کی ایک اہم خصوصیت جوکسی اور کتاب میں نہیں ہے وہ یہ کہ زیلعی v مذاہب اور دلائل کے نقل میں تعصبِ مذہبی سے محفوظ ہیں، جتنا زور اپنے مسلک کی حمایت میں لگاتے ہیں اتناہی اہتمام خصم کی بات اور دلیل کو نقل کرنے میں صرف کرتے ہیں ، یہ امتیاز بلامبالغہ کسی مسلک کی کسی کتاب یا صاحبِ کتاب کو حاصل نہیں ہے۔
l  جہاں تک عقلی دلائل کا تعلق ہے ،عقلی دلائل میں فقہی اصول ،قواعد،ضوابط اور تعلیلات کو توجہ سے یاد کیا اور کرایا جائے، ان کی مددسے فہم وتفہیم میں سہولت رہے گی، ان قواعد کا حفظ اور اجراء یہ کتاب کی فہم وتفہیم کے لیے کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔
l  نیز عقلی دلائل میں صاحبِ ہدایہ کا ایک خاص انداز ہے منطقی استدلال کا، اس منطقی استدلال سے قبل ان اصطلاحات سے آگاہی درکار ہوگی، مثلاً: دلیلِ ’’لِمِّیْ‘‘ اور ’’إِنِّیْ‘‘ کسے کہتے ہیں؟! قیاسِ اقترانی اور استثنائی کا کیا مطلب ہے؟! لازم الشیء اورملزوم الشیء کی تعبیر کیا ہوگی؟ ان اصطلاحات سے واقفیت اور مناسبت کے بغیر ہدایہ ایک گنجلک کتاب محسوس ہوگی۔
l  ہدایہ کے حل کے لیے ’’العنایۃ‘‘ لاکمل بابرتی  ؒ (’’العنایۃ فی شرح الہدایۃ‘‘ محمد بن محمد بن محمود اکمل الدین ابوعبداللہ بن شیخ شمس الدین بن شیخ جمال الدین الرومی البابرتی  ؒ [متوفی: ۷۸۶ھ]) اور ’’الکفایۃ‘‘ از امام اسماعیل بیہقی  ؒ سے مددلی جائے، ’’النہایۃ‘‘ لحسام الدین اگردستیاب ہوتواس کی تفہیم سب سے شائستہ اور سہل ہے۔ اس کااندازہ ہدایہ کے حواشی میں’’ النہایۃ‘‘ کے حوالوں سے لگایا جاسکتا ہے۔
l  دیگر تفصیلات کے لیے محقق ابن ہمام v کی ’’فتح القدیر‘‘اور علامہ عینیv کی ’’البنایۃ‘‘ سے استفادہ کیا جائے۔’’البنایۃ‘‘ حلِ کتاب اور بیانِ دلائل دونوں کے لیے عمدہ ہے۔
l  ہدایہ ہو یافقہ کی کوئی بھی کتاب ہو، ہر باب کے اختتام پر تمرینات کی ترتیب بنائی جائے، یہ ترتیب زبانی بھی ہوسکتی ہے اور تحریری بھی، مثلاً: خواندگی میں جو مسائل آئے ہیں ان کی فرضی صورت بناکر طالب علم سے مسئلہ کا حکم پوچھا جائے، اس سے بہتر صورت یہ ہوگی کہ استاذ ہر باب کے اختتام پر اس سے ایسا جامع سوال نامہ تیار کرے جو پورے باب کے سارے مسائل یا اہم اہم مسائل سے متعلق ہو ، یہ سوال نامہ جہاں باب کے مسائل کو ضبط کرنے میں معاون ہوگا، طلبہ کو امتحانی سوالات کی تیاری کے لیے مساعد بھی ہوگا۔                                                            (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین