بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فضول خرچی اور اسراف کا مفہوم کیا ہے؟


فضول خرچی اور اسراف کا مفہوم کیا ہے؟

 

قرآن وحدیث میں جن چیزوں کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، ان میں سےایک اہم چیز ’’اسراف‘‘ ہے، متعدد نصوص میں اس کی ممانعت کی گئی ہے اور مختلف پیرایوں سے اس کی مذمت فرمائی گئی ہے:
’’يَا بَنِيْ آدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا إِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ‘‘ (الاعراف:۳۱)
ترجمہ: ’’اے آدم کی اولاد! تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ نکلو، بیشک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
نصوص سےہٹ کر ذرا سی عقلِ سلیم نصیب ہو تو بھی اس کی مذمت وممانعت میں شبہ کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی، بالخصوص اگر کوئی شخص عالمِ غربت کے حالات اور واقعات سے واقف ہو اور اس کےدل میں انسان بلکہ جانور کی طرح رحم وکرم نام کا کوئی جوہر موجود ہو تووہ اس حکم کی قدر وقیمت سےناواقف نہیں ہوگا۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود ’’اسراف‘‘ کا یہ حکم جتنا آسان ہے، اتنا ہی اس کےسمجھنےاور تطبیق کرنےمیں غلطی کی جاتی ہے اور بہت سی چیزوں کو اسراف نہ ہونے کے باوجود اس کے تحت داخل کیا جاتا ہے، جبکہ بہت سی چیزیں واقعی اسراف ہونےکےباوصف اس میں کوتاہی سےکام لیا جاتا ہے۔ 
ذیل میں اسی کےتدارک کےلیے چند باتیں جمع کی گئی ہیں :
’’اسراف‘‘کا مفہوم وتعارف
علامہ ابن فارس رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں کہ کلامِ عرب میں ’’س ر ف‘‘ کا مادہ عام طور پر دو معنوں کےلیے استعمال ہوتا ہے: ۱: حد سے تجاوز کرنا، ۲: کسی چیز سے غفلت برتنا۔ بظاہر یہ پہلا ہی اصل معنیٰ ہے اور اس مادے کے مشتقات میں عموماً یہی مفہوم موجود ہوتا ہے، جو چیز اہتمام وتوجہ کی مستحق ہو، اس سےغفلت برتنا بھی اس کے واقعی حدود سےتجاوز کےمترادف ہے، اس لیے اس کو اسراف سےتعبیر کرنا بعید نہیں ہے۔ بہرحال لغوی لحاظ سے اسراف اسی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ اصطلاحی تعریف کےمتعلق اہلِ علم کی عبارات متعدد ہیں۔ علامہ سید شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:
’’اسراف خرچ کرنےمیں حد سےتجاوز کرنے کا نام ہے۔ بعض نےکہا کہ حرام کھانا یا حلال چیز سے ضرورت واعتدال سے زیادہ کھانا اسراف ہے۔ بعض نے کہا کہ اسراف حق کی مقدار میں جہالت کو کہا جاتا ہے۔ بعض نے کہا کہ اسراف اس بات کانام ہے کہ مناسب جگہ پر مناسب مقدار سے زائد مال خرچ کیا جائے، جبکہ تبذیر یہ ہے کہ نامناسب (ناجائز) موقع پر خرچ کیا جائے۔‘‘ 
علامہ ا بن منظور افریقیؒ لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’سرف‘‘ اور ’’اسراف‘‘ میانہ روی سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں، عرب کہتے ہیں: ’’أسرف في مالہ‘‘ اس نے اعتدال کے بغیر مال خرچ کیا۔ اللہ کی نافرمانی میں خواہ کوئی کم مال خرچ کرے یا زیادہ، دراصل یہی ممنوع اور ناجائز اسراف ہے۔ خرچ وخوراک میں اسراف کرنا تبذیر کہلاتا ہے، باری تعالیٰ کےارشادِ گرامی: ’’اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں۔ ‘‘ اس بارے میں سفیان ثوری ؒ سے نقل ہے کہ: ’’وہ نہ بے جاخرچ کرتے ہیں اورنہ خرچ کرنے کے موقع پر تنگی سے کام لیتے ہیں۔‘‘ اسراف حرام کھانے کوبھی کہتے ہیں،بعض کے نزدیک حلا ل کھانے میں میانہ روی سے تجاوز کرنااسراف ہے۔سفیان ثوریؒ سے منقول ہے کہ:’’ اللہ کی نافرمانی میں خرچ شدہ مال اسراف ہے۔‘‘ ایاس بن معاویہؒ فرماتے ہیں کہ: ’’اسراف اللہ کے حق میں کوتاہی کوکہتے ہیں اوریہ میانہ روی کے مدِمقابل ہے۔‘‘
کتبِ معاجم وغیرہ میں اس سلسلےمیں اور الفاظ وتعبیرات بھی درج ہیں۔ یہ سب تعریفات اپنی جگہ درست ہیں، ان شاء اللہ، لیکن جس چیز کو فنی تعریف کہا جاتا ہے، جو اپنے تمام ماتحت کو اپنے اندر سموئے رکھے اور دیگر افراد سےممانعت کا کام کرے، اس پر یہ تعریفات پوری نہیں اُترتیں اور شاید یہ چیز تعریف کرنے والے ان حضرات کےپیشِ نظر بھی نہ تھی، چنانچہ ان جیسےبدیہی امور میں فنی حدود کی ضرورت عام طور پر محسوس نہیں ہوتی، لیکن بسا اوقات عملی تطبیق کےاندر جب افراط وتفریط کی روِش کی جانے لگے تو وہاں درست اور واقعی فنی تعریف کرنا ضروری بن جاتا ہے۔ اسراف کا مسئلہ بھی بظاہر اسی قبیل سےہے۔
غور کرنے کےبعد اس کی مناسب تعریف یہ ظاہر ہوتی ہےکہ:
’’مالِ متقوّم کا ہر وہ صرف واستعمال جس میں کوئی دینی یا دنیوی معتد بہ فائدہ ملحوظ نہ ہو، وہ اسراف کہلاتا ہے۔‘‘
 ذیل میں اس تعریف کی کچھ وضاحت کی جاتی ہے۔
الف: ’’مالِ متقوم‘‘ اپنے تمام افراد کو شامل ہے، اس میں کھانےپینےکا سامان، لباس، نقد رقم اور اجناس وغیرہ، تمام چیزوں کو یہ لفظ شامل ہے، کسی خاص چیز کےساتھ محدود ومقید نہیں ہے۔ اسی طرح ’’اِضاعت‘‘ یعنی ضائع کرنےکا مفہوم بھی عام ہے، چاہے سمندر میں ڈال کر ضائع کیا جائے یا یوں ہی کوئی واضح بےطریقے سے مال کو ختم کردیا جائے۔نیز یہ بھی واضح رہے کہ ’’مال‘‘ کا لفظ یہاں قصداً ذکر کیا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مال کےعلاوہ ایک دوسری چیز انسان کی صلاحیت واستعداد ہے، اس کو بےکار رکھنا گو بڑی حرماں نصیبی کی بات ہے، لیکن ناجائز اسراف کےمفہوم میں وہ داخل نہیں ہے۔ یوں ہی انسان کو اللہ تعالیٰ نے وقت کی نعمت سےبھی نوازا ہے، جس کا ضائع کرنا اگر چہ بد نصیبی کاباعث اور آخرت میں ندامت وپشیمانی کا موجب ہے، لیکن اس کو اسراف نہیں قرار دیا جاسکتا، لہٰذا اگر کوئی شخص عبث یعنی بےفائدہ کام میں وقت گزارے تو وہ اسراف کرنےوالوں میں داخل نہ ہوگا۔ یہ جو مشہور ہے کہ ’’کلّ عبث حرام‘‘ یہ مقولہ اپنے عموم کےلحاظ سے بالکل بھی درست نہیں ہے، بلکہ اس کی درست تعبیر وہی ہے جو بعض روایات سے بھی مفہوم ہوتی ہے کہ ’’کلّ عبث باطل۔‘‘
ب: ’’ہر وہ صرف واستعمال‘‘ یہ لفظ اس لیے استعمال کیاگیا ہے کہ بعض بزرگوں کی تعریف میں مال خرچ کرنےکا تذکرہ کیاگیاہے، بعض جگہ کھانے پینےکا ذکر ہے، بعض جگہ لباس کا ذکر کیاجاتا ہے، جبکہ اسراف کچھ انہی امور کےساتھ خاص نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص اپنےمال کو یوں ہی دریا برد کرے تو اس کو عرفِ عام میں خرچ کرنا کہا جاتا ہے، نہ ہی کھانےپینےکےساتھ اس کا کوئی تعلق ہے، لیکن بایں ہمہ وہ اسراف کےتحت بالکل داخل ہے، اس لیے تعریف میں عموم پیدا کرنا مناسب محسوس ہوا۔
ج: ’’دینی یا دنیوی‘‘ یہ ضروری نہیں ہےکہ ہرکام میں ضرور کوئی دینی فائدہ موجود یامقصود ہو اور نہ دینی فائدہ نہ ہونے سے کسی چیز کا اسراف یاناجائز ہونا لازم آتا ہے، بلکہ شریعت نے مباحات کا بھی ایک وسیع باب کھولا ہے، جہاں کوئی دینی نفع اصلاً مقصود نہیں ہوتا اور اس کا تعلق دنیوی راحت وغیرہ امور کےساتھ ہوتا ہے، لیکن باوجود اس کے وہ اسراف کےمفہوم میں داخل ہیں، نہ ہی اس کو ناجائز قرار دیاجاسکتا ہے۔
د: ’’فائدہ‘‘ بسا اوقات یہاں ضرورت وحاجت کا لفظ ذکر کیا گیا ہے، یہاں اس کی بجائے فائدےکا لفظ اس لیے استعمال کیاگیا ہےکہ شریعتِ مطہرہ نے مسلمانوں کےلیے صرف ضرورت یاحاجت ہی کا دروازہ نہیں کھولا، بلکہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو اس اصطلاحی مفہوم کے دائرے سے بالکل خارج بلکہ میلوں دور ہیں، لیکن پھر بھی اس کو جائز ومباح رکھاگیا ہےاور اس کو استعمال میں لانا کسی طرح اسراف نہیں کہلاتا۔ ضرورت وحاجت اصطلاحی طور پر ان اُمور کو کہا جاتا ہے جن کے فقدان کی وجہ سے انسان کی جان وعضو تلف ہو یا وہ شدید حرج وتکلیف میں مبتلا ہوجائے اور ایسی چیزیں بہت کم ہیں۔
 مثال کےطور پر لباس میں ہمارےہاں عام طو پر ٹوپی، پگڑی، گردن سے لے کر گھٹنوں سے نیچے تک قمیص، کندھوں سے ناف تک مختلف قسم کے بنیان، واسکٹ وغیرہ، ناف سے لے کر ٹخنوں تک شلوار، پیر کو ڈھانکنےکےلیے جراب،موزے اور مختلف قسم کےجوتے استعمال کیےجاتےہیں اور ان چیزوں کےناجائز ہونے کا کوئی قائل نہیں ہے، جبکہ دیگر خارجی عناصر کی وجہ سے اس میں حرمت کی شان نہ پیدا ہو۔ اب اگر ضرورت وحاجت سے زائد ہر چیز کو اسراف کے تحت شامل کرکےحرام ٹھہرایاجائے تو یہ سب یا ان میں سے اکثر چیزیں حرام ہوجائیں گی، جوکہ مسلمات واجماعیات کے خلاف ہے۔ اسی طرح کھانےپینے میں صرف’’قوت لا یموت‘‘ کی حد تک محدود چیزیں ہی استعمال کرنے کی گنجائش باقی رہ سکتی ہے، اس مقدار سے زیادہ ناجائز قرار پائےگا، جبکہ اس کے غلط ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔
غرض ’’فائدہ‘‘ کا لفظ حاجت اور ضرورت کے لفظ سے بہت عام ہے، یہ ان دونوں یعنی حاجت وضرورت کو بھی شامل ہے اور منفعت وزینت بھی اس کے تحت آتےہیں اور یہ سب چیزیں فی نفسہ اباحت ہی کے دائرہ میں داخل ہیں، اس لیے اس کو اسراف کی تعریف میں داخل نہیں کیا گیا۔
س: ’’معتدبہ‘‘ یعنی جس چیز کو واقعی فائدہ سمجھنا درست ہو۔ اس قید کے لگانے کی وجہ یہ ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کو کرنے والا کوئی فائدہ سمجھ کر کرتا ہے، لیکن حقیقت میں جس چیز کو پیش نظر رکھ کر اور فائدہ سمجھ کر اقدام کرتا ہے،اس کو فائدہ شمار کرنا غلط ہوتا ہے، وہ چیز اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ فوائد کی فہرست میں اس کو داخل کرلیا جائے، اس لیے وہ بھی اسراف کےحکم کے تحت ناجائز وممنوع ہی قرار پائے گی، لہٰذا گناہوں ومنہیات کے کام میں اپنا سیم وزر خرچ کرنا یا اپنی اوقات واستعداد صرف کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ جو لوگ اس پر آمادہ ہوتےہیں وہ کئی فوائد گنواکر یہ کام کرنےلگ جاتے ہیں، کیونکہ شریعت کی نظر میں یہ چیزیں فوائد تو کیا ہوتے! سارے کا سارا نقصان وخسارہ ہی ہے۔ البتہ اس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ جس چیز کو زید غیر معتد تصور کرے، ضرور وہ بکر کےحق میں بھی ایسا ہی ہو، بلکہ اس میں اختلافِ رائے کا ہونا متصور بلکہ واقع ومشاہد ہے، چنانچہ بہت سے لوگ اپنی فطرت وطبیعت، ماحول، علاقے یا مقام ومرتبے وغیرہ کی وجہ سے بہت سی ایسی چیزوں کو غیر معتد بہ فائدے کا حامل خیال کرتے ہیں، جن کو دیگر افراد خاطر خواہ فائدے کا موجب سمجھ کر کررہے ہوتےہیں۔ ایسی صورت میں ہر شخص کے ذہن وتصور کا اپنی جگہ اعتبار کرلینا چاہیے، جبکہ شریعت کے دائرہ کےاندر ہو۔
ش: ’’ملحوظ نہ ہو‘‘ اسراف کے تحقق میں اس قید کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ بہت سے کام ایسے ہوتےہیں کہ جن میں متعدد فائدے ہوتےہیں، لیکن کرنےوالے کے ذہن میں وہ فوائد نہیں آتے یا سمجھنے کی حد تک تو وہ سمجھ لیتا ہے، لیکن کام کرتےوقت وہ مقصود نہیں ہوتے، اب اس صورت میں اس کا یہ اقدام اسراف کے تحت داخل ہے، لیکن بایں ہمہ اس میں معتد بہ فوائد بھی پائے جاتے ہیں، ان جیسے اقدامات کو شامل کرنے کے لیے یہ قید بڑھائی گئی ہے۔
اس قید کےلگانےسے یہ بھی ایک ضروری فائدہ معلوم ہوا کہ اسراف ایک امرِ اضافی ہے،جو افراد و اشخاص، زمان ومکان، ماحول وعادت اور تصور واعتقاد جیسے مختلف عناصر وعوارض کی وجہ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے، لہٰذا یہ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز زید کےحق میں اسراف ہو‘ وہ ضروری ہے کہ عمر کے لیے بھی اسراف تصور ہوگا، بلکہ عین ممکن ہے کہ زید جس ماحول و زمانے میں ہو،اس کےلحاظ سے یہ چیز اسراف کےمفہوم میں داخل تھی اور اب اس میں تغیر آیا ہو،اسی طرح زید کی طبیعت وعادت یا اس کی معلومات ونظریات کی رو سے وہ چیز اسراف کے تحت داخل تھی، لیکن دوسرے کی حق میں اس چیز کی یہ حیثیت باقی نہ رہے کہ اس کو اسراف قرار دیا جائے۔
 یہاں تعریف میں لفظ’’موجود ‘‘کی جگہ ’’ملحوظ‘‘ اسی لیے ذکر کیاگیا ہے کہ فی نفسہ فائدہ کا متحقق ہونا یا نہ ہونا کافی نہیں ہے، بلکہ حکم لگانےکے لیے اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ کرنےوالےنے اس کا قصد ولحاظ کیا ہے یانہیں؟ لہٰذا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک چیز ایک وقت میں ایک شخص کےلیے موجبِ اسراف اور باعثِ ممانعت ہو، لیکن وہی چیز اسی وقت وماحول میں دوسرے کےلیے جائز ومرخص ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ پیٹ بھرنے کے بعد مزید کھانا کھانے کو کئی فقہاء کرام نے اسراف کی بنیاد پر ناجائز لکھا ہے، لیکن اس میں کوئی جائز مقصد سامنے ہو اور اس کے حاصل کرنےکےلیے کھاناکھائے تو اس کی گنجائش دی ہے، کیونکہ جائز مقصد کے ہوتےہوئے یہ اسراف کے مفہوم میں داخل ہی نہیں ہوتا۔ ’’کتاب الکسب‘‘ میں ہے:
ترجمہ:’’کھانے میں اسراف کی کئی ایک قسمیں ہیں جن میں سے ایک سیرہونے کے بعد کھانا بھی ہے، البتہ بعض متاخرین کے نزدیک کسی جائز مقصد کے لیے زیادہ کھانے کی بھی گنجائش ہے، مثلاً: مہمان کو شرمندگی سے بچانے کے لیے اس کے ساتھ کھانا، روزہ کے ارادے سے رات کو کچھ زیادہ کھانا، تاکہ دن کوروزہ رکھنے کے لیے قوت حاصل کرے (یہ صورتیں اسراف سے خارج ہیں) ۔‘‘
علامہ خلیل نحلاوی ؒ کی مفید کتاب ’’الدرر المباحۃ‘‘ میں اسراف کی بحث عام کتابوں کی بنسبت زیادہ جامع اور مناسب تحریر کی گئی ہے اور تعریف وتفصیل کا حاصل وہی ہے جو درج بالا تعریف اور اس کی توضیح وتشریح کے ضمن میں ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ لکھتےہیں:
ترجمہ: ’’مال کا ضائع کرنا اور کسی دینی یاکسی جائز بامقصد دنیوی فائدے کے بغیر خرچ کرنا اسراف کہلاتا ہے۔‘‘
اس تعریف کے بعد ’’اسراف‘‘ کی دو قسمیں اور ہر قسم کی متعدد مثالیں ذکر کرتےہوئے تحریر فرماتےہیں:
ترجمہ:’’اسراف کی ایک قسم تومشہورہے جیسے سمندر،کنویں،یاآگ وغیرہ میں مال پھینکنا، جس سے نہ کچھ فائدہ ملے نہ اسے دوبارہ حاصل کرسکے۔ یا پھل سبزی وغیرہ کی دیکھ بھال نہ کرکے ضائع کرنا،جانوروں کوچارہ وغیرہ نہ دینے سے ان کا مرنا۔ اسراف کی دوسری قسم کچھ غیر معروف ہےجس کی وضاحت ضروری ہے،وہ یہ کہ مال جمع کرنے کے بعد اس کی حفاظت اور خیال نہ رکھنا، یہاں تک کہ اسے دیمک، چوہا وغیرہ کھائے۔اس قسم کا اسراف عموماً کھانے کی چیزوں میں ہوتاہے، یامثلا روٹی کے ٹکڑے گرنے کے بعد نہ اُٹھانا، یا سیر ہونے کے بعد کھانا سب اسراف کی شکلیں ہیں۔‘‘

اسراف کے ممنوع ہونے کی علت

اسراف کےناجائز اور ممنوع ہونے کی بعض نصوص پہلےدرج کی گئی ہیں، جن کا تقاضا یہ ہے کہ اسراف ایک ناجائز اور ممنوع امر ہے، یہاں تک تو بات بالکل بےغبار ہے۔ رہا یہ سوال کہ اسراف اگر ممنوع ہے تو اس کی علت کیا ہے؟ اور ممانعت کی اصل واساس کیا ہے؟ تو اس کے متعلق اگر چہ مختلف امور ذکر کیےجاتے ہیں، لیکن اصولی نقطۂ نظر سے دو باتیں اس کی علت قرار دی جاسکتی ہیں، جن کی وضاحت درج ذیل ہے:

۱:-پہلی علت: شیطان کی دوستی

قرآن کریم میں ارشادِ خداوندی ہے:
’’وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ کَانُوْا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ‘‘ (الاسراء:۲۶،۲۷)
ترجمہ: ’’اور مال کو بےجا خرچ نہ کرو،بے شک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔‘‘
اسراف وتبذیر میں کیا فرق ہے؟ اس کےمتعلق اہلِ لغت کی آراء مختلف ہیں، لیکن اگر دونوں کو مترادف تسلیم کرلیا جائے جس طرح کہ بہت سے اہلِ علم کا موقف ہے یا اسراف کو عام کرکے تبذیر کو اس کے تحت ایک فرد ومصداق کی حیثیت سے شامل کردیاجائے یا کچھ بھی ہو، لیکن دونوں کو اشتراکِ علت پر حمل کرلیا جائے تو ان تمام صورتوں میں حرمتِ اسراف کی ایک علت یہ بھی ہے جو اس آیتِ مبارکہ میں ذکر کی گئی ہے کہ تبذیر کرنےوالے شیطان کے بھائی ہوتےہیں اور ظاہر ہے کہ جو شیطان کا بھائی ہے، وہ حکم میں شیطان ہی ہوگا اور وحی کےذریعے کسی کو شیطان کہنا حد درجہ کراہت وممانعت کا موجب ہے، جو کہ نہی وممانعت کے متعدد اسالیب میں سے ایک ہے۔نیز کوئی حکم دینے کےبعد ’’اِنّ‘‘ لانا علت کی طرف مشیر ہوتا ہے اور اصولیین نے اس سیاق وسباق کو بھی علت پہچاننےکا ایک ذریعہ قرار دیا ہے، اس لیے یہ بھی ممانعت وکراہت کی ایک بنیادی علت ہے۔
لیکن یہ علت ایسی ہےجس کی طرف عقلِ انسانی کی براہِ راست رہنمائی نہیں ہوسکتی، چنانچہ عقل اس بات کی شناخت کرنےسے قاصر ہے کہ شیطان کی کیا کیا خصلتیں اس بات کی موجب ہیں، جس کی وجہ سے انسان پر ان ہی کےاحکام جاری ہوتے ہیں؟ تاکہ اس بات کو پہچان کر وہ دیگر غیرمنصوص چیزوں کو بھی اسراف کے اس حکمِ ممانعت کے تحت داخل قرار دے سکے، اس لیے یہ علت غیر متعدی کہلائے گی اور ایسی علت سے اگرچہ اصل منصوص حکم میں قوت پیدا ہوسکتی ہے، لیکن دیگر افراد کی طرف اس کو متعدی نہیں کیا جاسکتا، حالانکہ تعلیل وقیاس کا اصل اور بڑا فائدہ یہی ہے۔ 

۲:-دوسری علت: اضاعتِ مال

’’اسراف‘‘ کی حرمت کی دوسری بنیادی وجہ جو معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہےکہ اس میں بےفائدہ مال ضائع ہوتا ہے، بعض صحیح احادیث میں اس کی حرمت مصرح بھی ہے، چنانچہ بخاری میں ہے:
’’ عن المغيرۃ بن شعبۃ، قال: قال النبي صلی اللہ عليہ وسلم: ’’ إِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَيْکُمْ عُقُوْقَ الْأمَّہَاتِ، وَوَاْدَ الْبَـنَاتِ، وَمَنْعَ وَہَات، وَکُرِہَ لَـکُمْ قِیْلَ وَقَالَ، وَکَثْرَۃُ السُّؤالِ، وَإِضَاعَۃُ الْـمَالِ۔ ‘‘ 
ترجمہ: ’’حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی نقل ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے والدین کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے، خود بخل کرکے دوسروں سے سوال کرنے، فضول باتوں اور سوالات اور مال ضائع کرنے سے منع فرمایاہے۔‘‘
بعض کفار کی مذمت وتردید فرماتےہوئے قرآن کریم میں ہے:
’’وَإِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ‘‘ (البقرۃ: ۲۰۵)
ترجمہ: ’’اور جب پیٹھ پھیر کرجاتا ہے تو ملک میں فساد ڈالتا اور کھیتی اور مویشی کو برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
مال یوں تو ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی طرف انسانی طبیعت کا میلان ہو، لیکن یہاں اس سےخصوصی طور پر مالِ متقوّم مراد ہے، جس سے فائدہ اُٹھانا شریعت کی نظر میں درست ہو۔ ایسے مال کو ضائع کرنے کی حرمت کی حکمت ظاہر ہےکہ سب چیزوں کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے، اسی نے یہ چیز دے رکھی ہے، لیکن استعمال کرنےکی بھی اسی ذات نے تحدید فرمائی ہے، جس میں اس کی پابندی اور تابعداری ضروری ہے، اسی حد بندی میں سے ایک اسراف اور بےفائدہ ضیاع سے بچنےکاحکم بھی ہے۔ نیز نص سے قطع نظر خود عقلِ سلیم کےلحاظ سےبھی اس کی برائی ظاہر ہوتی ہے، خاص کر جب دیگر افراد کو ضرورت بھی ہو یا اگر ان کو وہ چیز دے دی جائے تو وہ اس سےمباح فائدہ اُٹھاسکیں۔ ’’کتاب الکسب‘‘ میں ہے:
ترجمہ: ’’ہربندہ کھانا ضائع کرنے سے منع کیاگیاہے اور ضائع کرنے کی ایک شکل اسراف بھی ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضول باتوں،زیادہ سوالات،اورمال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ کھاناخراب کراناضائع کرنا ہی ہے۔ خلاصہ یہ کہ مسلمان کے لیے اپنی حلال کمائی ضائع کرنا، اس میں اسراف کرنا، تکبر، فخرو مباہات اورزیادہ ہونے کی حرص سب حرام ہے۔‘‘
یہاں ’’افسادِ طعام‘‘ کی ایک شکل اسراف بیان کی گئی اور پھر اس کی ممانعت پر ’’اضاعتِ مال‘‘ والی روایت سے استدلال فرمایا گیا، جس سے واضح ہوا کہ اسراف ’’اضاعتِ مال‘‘ کا نام ہے اور یہی اضاعت اس کی علتِ ممانعت ہے۔
’’درِ مختار‘‘ میں ایک مسئلے کےضمن میں قہستانی ؒ کےحوالہ سے نقل کیاگیا ہے:
’’بل في القہستاني معزيا للجواہر: الإسراف في الماء الجاري جائز، لأنہ غير مضيع، فتأمل. ‘‘
ترجمہ: ’’جاری پانی میں اسراف ناجائز نہیں،کیونکہ اس میں پانی ضائع نہیں ہوتا (حالانکہ اسراف کی علت بے فائدہ ضائع کرناہے)۔‘‘
یہاں ماتن نے اگر چہ‘‘تأمل‘‘ کہہ کر اس بات پر عدمِ جزم کی طرف اشارہ فرمایا ہے، لیکن چند صفحات کے بعد اسی طہارت کی بحث میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر تفصیلی کلام فرمایا ہےاور اس میں گو ماء جاری میں اسراف متحقق ہونے کی طرف تعرض فرمایا ہے، لیکن اس تعلیل کےخلاف کچھ نہیں تحریر فرمایا، جس سے اس علت کا درست ہونا معلوم ہوا اور یہی مقصود ہے۔
علامہ نحلاوی صاحبؒ لکھتے ہیں:
ترجمہ: ’’اسراف کی مذمت کی اصل وجہ یہ ہے کہ مال دراصل اللہ تعالیٰ کی نعمت اورآخرت کےلیے کھیتی کےمانندہے،جب مال اللہ کی نعمت ہے تواس میں اسراف دراصل اللہ تعالیٰ کی نعمت کی بے توقیری، ناقدری اور ناشکری ہےجو اللہ کی ناراضگی، غصہ اور عتاب کا ذریعہ ہے۔ ناقدری اور ناحق شناسی کی وجہ سے ملنے والے سے واپسی کا تقاضا کرتی ہے، جیساکہ قدردانی اور نعمت کی حفاظت کی وجہ سے نعمت برقرار اور زیادہ ہوتی ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اگر تم شکر گزاری کرو گے تو اور زیادہ دوں گا۔‘‘
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین