بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فضلاء ِکرام کے لیے مستقبل کالائحہ عمل!

فضلاء ِکرام کے لیے مستقبل کالائحہ عمل!

خطاب:حضرت مولانا ڈاکٹرعبد الرزاق اسکندر رحمۃ اللہ علیہ 

 

’’شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۴۳۸ھ/۲۰۱۷ء کو جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں رسمی طالبِ علمی سے فاتحہ فراغ حاصل کرنے والے طلبہ کو دورہ تدریبیہ کے اختتام پر مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق گراں قدر نصائح ارشاد فرمائیں، تخصصِ فقہِ اسلامی کے طالب علم مولوی محمد احمد عبداللہ سلمہٗ نے انہیں ریکارڈنگ سے نقل کرکے ترتیب دیا ہے۔ افادۂ عام کی خاطر یہ مفید خطاب نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔‘‘ (ادارہ)


الحمد للہ رب العالمين والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبياء والمرسلين وآلہٖ وأصحابہٖ أجمعين، أمّابعد:
عزیزطلبہ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

نعمتِ علم کی قدر کریں

سب سے پہلے میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی آٹھ سال کی محنت قبول فرمائی کہ عالم بن کراس ادارے سے نکلنے والے ہیں، اللہ نے یہاں تک پہنچادیا، یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جن بے چاروں نے درجہ اولیٰ پڑھا اور اللہ کو پیارے ہوگئے، درجہ ثانیہ تک پہنچے اور اللہ کو پیارے ہوگئے، درجہ ثالثہ، درجہ رابعہ تک پہنچے اور اللہ کو پیارے ہوگئے، اور بعضوں کے پیچھےشیطان ایسالگاکہ انہوں نے یہ راستہ ہی چھوڑدیا، کہیں دکان کھول دی، کہیں مزدوری شروع کردی، کوئی ملازمت شروع کردی، لیکن اللہ نے آپ کو استقامت دی اور آپ نے آٹھ سال پابندی سےپڑھااور آج آپ ایک فاضل کی حیثیت سے فارغ ہورہے ہیں، یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔آپ اپنے دائیں بائیں دیکھیں، پاکستان میں (بلکہ ) دنیا بھر میں آپ کوجہالت کا اندھیرا ہی اندھیرا نظر آئے گا، اس اندھیرے میں اللہ نے آپ کو آنکھیں دی ہیں، علم دیا ہے اور آپ کو اب یہ معلوم ہونے لگاہے کہ اللہ کی مرضی کیا ہے؟ اور غیر مرضی کیا ہے؟ اللہ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ اور کیا نہیں چاہتے؟ یہ سب تفصیلات آپ نے پڑھی ہیں، دنیا میں ایسے بہت سے لوگ آج بھی ہیں جن کو پتہ ہی نہیں کہ دایاں بایاں کیا ہوتا ہے؟ جن کو پتہ ہی نہیں کہ حلال حرام کیا ہوتا ہے؟ اللہ نے آپ کو یہ ساری تفصیلات دےدی ہیں، اس نعمت کی قدر کرو۔

نعمتِ علم کا شکر کیا ہے؟

صحابہ کرامؓ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھ کرجانے لگتے اورآپ اُن کو رخصت فرماتے تو (رخصت کے وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (یہ) الفاظ ہوتے : ’’ارجعوا إلٰی أہلیکم فعلّموہم۔‘‘ جاؤ! اپنے گھروالوں کے پاس جاؤ، اور ’’فعلّموہم‘‘ ان کوجاکر تعلیم دو۔ جن گھروالوں نے اتنا عرصہ آپ کو فارغ کرکے دین کے لیےبھیجا تھا، آخر ان کا بھی کوئی حق ہے یا نہیں؟ اب آپ اپنے گھر جائیں تو آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کےگھروالے جونماز پڑھتے ہیں اور اس میں جو سب پڑھا جاتا ہے، کیا واقعی وہ اس کا تلفظ صحیح پڑھ رہے ہیں یا نہیں؟ آپ نے یہاں جو تجوید پڑھی ہے ان کو بھی بٹھاکر کچھ سکھاؤ، گھروالوں کے لیے ایک وقت مقرر کرو، اس میں شرم کی بات نہیں ہے۔ صحابہ کرامؓ نے توبڑی عمر میں دین سیکھا ہے، آپ یہاں سےپڑھ کرجارہے ہیں توگھروالوں کو اورعزیز واقارب کوجمع کریں اورپھر ان کی تجویدصحیح کریں، ان کی نماز کا سبق ٹھیک کریں؛ تاکہ ان کی نمازیں صحیح ہوں۔ اور اس کے علاوہ ایک وقت مقررکرکے تھوڑی دیر اُن کو وعظ ونصیحت کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: بھئی! جاؤ!واپس جاؤ اور گھروالوں کو، عزیز واقارب کو، محلہ والوں کو تعلیم دو۔ اللہ نے یہ جواتنی بڑی نعمت دی ہے، اس کا شکریہ ہے کہ اس کو پھیلاؤ، اس کوپھیلانا ہے، یہ نہیں کہ اپنے تک اس کو بندکرنا ہے اور جاکر دکان کھول لو، ریڑھی لگادو، یہ توساری دنیا کررہی ہے، آپ کا اصل کام یہ ہے کہ بس دین کے خادم بن جاؤ، جو دین اللہ نے آپ کودیا ہے، اس کے خادم بن جاؤ، اس کے لیے اپنے آپ کو وقف کردو۔
ابھی مولانا (امداد اللہ صاحب مدظلہ) نے آپ کے سامنے حضرت مولانا سید محمدیوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مقولہ اشارۃً بیان کیا ہے، اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ ہمارے بزرگوں کے جذبات کیا تھے؟! ان کے اندرکس طرح کے جذبات تھے؟! یہ ہم نے اپنے کانوں سے سنا ہے، سنی سنائی بات نہیں ہے، (حضرت بنوریؒ) فرمانے لگے: خدانخواستہ اگر میرے اوپر دین کی خدمت کے تمام کام بندہوجائیں، یعنی ایسا گندا ماحول پیدا ہوجائے، ایسا ظلم کا ماحول پیدا ہوجائےکہ میں کچھ نہیں کرسکتا، سارے دروازے بند، تومیں کیا کروں گا؟ آپ اس سے اندازہ لگائیں، ہمارے بزرگ کیا سوچتے تھے؟! میں ایک گاؤں میں چلا جاؤں گا اور گاؤں میں جانے کے بعد اپنے پیسوں سے جھاڑو خریدوں گا اور اس گاؤں میں جو مسجد ویران پڑی ہوئی ہے، جہاں کوئی نمازی نہیں، اذان نہیں ہوتی، وہاں جاکر پہلا کام یہ کروں گا کہ اس کو صاف کروں گا، پھر صاف کرنے کے بعد اذان دوں گا، اذان دینے کے بعد میں گلی گلی پھروں گا اور لوگوں سے کہوں گا: آؤ نماز کے لیے! آؤ نماز کے لیے! جب وہ سارے آئیں گے تو میں ان کو نماز پڑھاؤں گا، نماز پڑھانے کے بعد ان سےکہوں گا:اپنے بچوں کو یہاں بھیجو، میں آپ کے بچوں کو قرآن پڑھاؤں گا، ناظرہ پڑھاؤں گا۔ اللہ نے جب علم دیا ہے تو اس کاشکر یہ ہے کہ اس کے خادم بن جاؤ، چاہے ابتدا میں ہمیں قاعدہ پڑھانا پڑے، لیکن بس پڑھانا شروع کردو، چاہے دوبچے، یا تین بچے، یا چار بچے مل جائیں، مسجد میں بیٹھ جاؤ، پڑھانا شروع کردو، پھر اللہ برکت دے گا، آہستہ آہستہ ترقی ہوتی رہے گی اور کتابوں کا مرحلہ بھی آئے گا۔

علم کا اثر آپ کے اخلاق واعمال اور معاملات پر ظاہر ہونا چاہیے

آج ہم نے جوپڑھا ہے اور اس میں کوتاہی بھی رہی ہے تو آج ہم یہ عزم کرلیں کہ ہم نےجوکچھ پڑھا ہے، ان شاء اللہ اس پرعمل کریں گے، یہ دین جوہم نے پڑھا ہے اس کا اثر ہمارے جسم، اخلاق، اعمال اور معاملات پر ظاہر ہونا چاہیے۔ یہاں اخباروں میں ایک دفعہ برطانیہ کا ایک واقعہ شائع ہوا کہ ایک عیسائی صحافیہ ایک مسلمان نوجوان سے اسلام کے بارے میں انٹرویولی رہی تھی، خبروں سےپتہ چلتا ہے کہ وہ کوئی عالم نہیں تھا، لیکن تبلیغی جماعت سے وابستہ تھا؛ اس لیے کہ علماء کے بعد تبلیغ کی برکت سےتبلیغ والوں کے پاس دین کی معلومات بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ اب وہ عورت اس نوجوان سے اسلام کے بارے انٹرویولے رہی ہے اور وہ جواب دے رہا ہے، دوگھنٹے تک اس نے انٹرویو لیا، دو گھنٹے کے بعد اس نوجوان سے کہتی ہے: مجھے کلمہ پڑھاؤ، اس کوتعجب ہوا کہ بھئی، یہ کیا بات ہے؟! کہنے لگی کہ دو گھنٹے سے میں آپ کا انٹرویولے رہی ہوں اور دوگھنٹے میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی آپ نےمجھے آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھا۔ قرآن کریم میں ہے: ’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ أبْصَارِہِمْ۔‘‘ (النور:۳۰) یعنی ’’ایمان والے مردوں سے کہہ دوکہ نگاہوں کو نیچے رکھو۔‘‘ اس نوجوان نے اس پر عمل کیا، اس کااثر یہ ہوا کہ وہ عورت مسلمان ہوگئی۔ اس ماحول میں کیوں مسلمان ہوئی؟ کہ اسلام میں اتنی پاک دامنی ہےکہ غیرعورت کو دیکھنا بھی نہیں ہے، برےکام توبرے ہوئے، (غلط) نگاہ بھی نہیں ڈالنی‘ تواس سے متاثر ہوکر اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئی۔ بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال، اخلاق ومعاملات ایسے بنائیں کہ دیکھنے والا سمجھے کہ یہ کوئی عام انسان نہیں ہے، (بلکہ) یہ واقعی کوئی عالم ہے، یہ واقعی کسی بڑے ادارے کا پڑھا ہوا ہے۔ ’’العلماء ورثۃ الأنبياء‘‘، اس امت کے علماء، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں، جب وارث ہوں تو ان میں وارث والی خوشبو ہونی چاہیے، نبوت کی خوشبو آنی چاہیے، اس لیے ہمارے اعمال میں یہ چیزیں ظاہر ہونی چاہئیں کہ دیکھنے والا دیکھے کہ یہ کوئی عام انسان نہیں ہے۔

اپنے علاقے کے ائمہ اور مدرسین سےربط وتعلق پیدا کریں

جب آپ اپنے اپنے علاقوں میں جائیں تو علاقے میں جہاں کہیں بھی اپنے ساتھی ہیں، ان سے رابطہ رہنا چاہیے، پورے علاقے میں مسجد کے امام ہیں، خطیب بھی ہیں، مدرس بھی ہیں، ان کاآپس میں ایک ربط ہونا چاہیے، آپس میں طے کرلو کہ ہر مہینے کی پہلی جمعرات کو ہم جمع ہوا کریں گے اور اس میں ترتیب قائم کرو کہ آنے والے مہینے کی پہلی جمعرات کو فلاں مولوی صاحب کی مسجد میں جمع ہوں گے، عصر کے بعد کا وقت رکھو، مغرب کے بعد کا نہیں کہ آپ کو کھانا نہ کھلانا پڑے، چائے وائے پلادیا کرو، عصر کے بعد جمع ہوجائیں، (اس مجلس میں) آپ کے جو مسائل ہوں، ان پر بحث ہونی چاہیے، ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہونا چاہیے، اس طرح محبت بھی بڑھے گی اور تعاون بھی ہوگا، اسی مجلس میں یہ طے کرلو کہ آنے والے مہینے کی پہلی جمعرات کو فلاں مولوی صاحب کی مسجد میں جمع ہوں گے، اس طرح تعلق رہے گا۔

اپنی مادرِعلمی اور اساتذہ سے وفاکریں

دین ہمیں وفا سکھاتا ہے، جس ادارے میں انسان نے پڑھا ہے، اس کے حقوق ہوتے ہیں اور اسی کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ کبھی کبھی وہاں کے حالات معلوم کرلیا کرو، خط لکھ دیا کرو، اور یہاں سے ایک رسالہ (ماہنامہ بینات،اردو/ عربی) نکلتا ہے، وہ اپنے نام پر جاری کرادو تو رابطہ رہے گا، کبھی کراچی آنا ہو تو یہاں آؤ، اساتذہ سے ملو، یہ بھی ہونا چاہیے، یہ نہیں کہ فارغ ہوگئے تو اب پتہ ہی نہیں کہ کون ہے، کون نہیں؟۔

دورِجدید کے فتنے اورعلماء کا فریضہ

ایک زمانہ میں لیبیا میں اسلامی کا نفرنس ہوتی تھی، یہ قذافی مرحوم کی محنت کا نتیجہ تھا، میں یہ نہیں کہتا کہ قذافی فرشتہ تھا، اس میں بھی کمزوریاں تھیں، لیکن اس میں خوبیاں بھی تھیں، خدانخواستہ یورپ کی طرف سے اگر اسلام پر کوئی حملہ ہوتا تواوپر کی سطح پر سب سےپہلے اس کا جواب دینے والا قذافی ہوتا تھا، اس کی ایک مثال دیتا ہوں، میں نے اس کی ایک تقریر میں خود سنا، یورپ والوں نے کہا کہ مسلمان متعصب ہوتا ہے، اس نے کہا : مسلمان متعصب ہوتا ہے ؟! تم متعصب ہو، پھر دلائل سےثابت کیا کہ مسلمان کا ایمان ہے کہ ’’لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ‘‘ (البقرۃ:۲۸۵) آدم علیہ السلام سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر پیغمبر پر ہم ایمان لاتے ہیں، یہ نہیں کہ کسی کومانا، کسی کو نہیں، ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام پربھی ایمان رکھتے ہیں، عیسیٰ علیہ السلام پر بھی، آدم علیہ السلام اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی، ان پر صرف یہ نہیں کہ ایمان ہے، (بلکہ) محبت بھی ہے، ان کا احترام ہے؛ اسی لیے مسلمان جب کسی پیغمبر کا نام لیتا ہے تو نہایت ہی احترام سے لیتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، حضرت اسحاق علیہ السلام نے فرمایا اوران سے محبت کرتا ہے۔ اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ ہرمسلمان گھرانے میں آپ دیکھیں گے کہ انبیاء کے نام ہیں، مسلمان (گھرانوں میں) یعقوب، ابراہیم، اسحاق، یہ سارے نام ہیں، کسی کوآپ نے دیکھا کہ یزید نام رکھا ہو، یاشیطان رکھاہو؟! انبیاء کرامo سے چوں کہ محبت ہے؛ اسی لیے ان کے نام رکھتےہیں، (قذافی مرحوم) یہ بیان کرکے کہتا ہے : تم بتاؤ!کسی ایک یہودی کانام لوکہ جس نے اپنے بیٹے کانام محمد رکھا ہو، یا ابوبکر رکھا ہو، یاعمر رکھا ہو، عثمان رکھا ہو، علی رکھا ہو؟! اپنی بیٹی کانام فاطمہ یا عائشہ رکھا ہو؟!ایک عیسائی بتاؤ جس نے اپنےبچوں کانام ابوبکر، عمر، عثمان، علی رکھا ہو، اپنی بچی کا نام فاطمہ یا عائشہ رکھا ہو، اب بتاؤ متعصب تم ہو یا ہم ہیں؟ تو اس سطح پر سب سے پہلے وہ جواب دیتا تھا۔
بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اسلام کے نمائندے ہیں، ایک عالم نمائندہ ہوتا ہے، آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہیں، تو جہاں کہیں ایسے فتنے ہوں توان کا جواب دینا ہے، آج دنیا میں انکارِحدیث کا فتنہ دوبارہ سر اُٹھارہا ہے اور طرح طرح کے فتنے نکل رہے ہیں، یہ علماء کا فریضہ ہے کہ ان فتنوں کو اچھی طرح سمجھیں اور ان کی تردیدکریں، ان کا مقابلہ کریں اور مسلمانوں کو اس فتنے کے شر سے بچائیں، یہ آپ کا کام ہے، آپ دین کے سپاہی ہیں، اور سپاہی کا کام یہ ہوتا ہے کہ جہاں اس کی ضرورت پڑے وہاں کھڑا ہے۔

کتاب کے بغیر آپ کو چین نہیں آنا چاہیے

یہ مت سمجھو کہ اب ہم فارغ ہوگئے، لہٰذا اب ہمیں کتاب کی ضرورت نہیں، پڑھنے کی ضرورت نہیں، ایک عالم کو کتاب کے بغیر چین نہیں آناچاہیے، عالم اورکتاب لازم ملزوم ہیں، کوئی سی دوکتابیں آپ اپنے پاس رکھیں، ایک نہایت ہی علمی کتاب ہو اور ایک ذراہلکی قسم کی ہو، جب نشاط ہو تو نشاط کی حالت میں علمی کتاب پڑھاکریں اورجب نشاط نہ ہو، تھکے ہوئے ہوں توکوئی ہلکی کتاب، اردو زبان میں ہی سہی، پڑھ لیاکریں، لیکن(مطالعہ) اپنامعمول بنالیں، ’’وخير جليس في الزمان کتابٗ‘‘، کتاب ایک ایسی چیز اور ساتھی ہے کہ میں نے ایک سفر میں بیس گھنٹے ایک کتاب کی وجہ سے بیٹھے بیٹھے گزاردئیے، ایک بار مجھے قاہرہ سے بغداد جانا تھا، اب (ائیر پورٹ میں) کاؤنٹر پر جاؤں تو آگے جو ہمارا مصری بھائی بیٹھا تھا، وہ کہتا: ’’ساعتين، ساعتين‘‘، یوں کرتے کرتے صبح سات بجے کا جہاز رات میں تین بجے چلا، وہاں کرسی بھی ایسی تھی کہ اس کے دستے بھی نہیں تھےکہ آدمی ذرا سہارا لے لے، اس پر میں بیٹھا ہوں، لیکن کتاب پڑھ رہاہوں، ایک دو گھنٹے کے بعد وہاں چائے خانے میں چائے پی لی، نماز کا وقت ہوا تو نما ز کی جگہ بنی ہوئی تھی، وہاں نماز پڑھ لی، سارا وقت گزر گیا، لیکن مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔ کتاب کے ساتھ آپ کا تعلق ہونا چاہیے، کتاب کے بغیر آپ کو سکون نہیں ملنا چاہیے۔

ائمہ کرام درس ضروردیں

امامت مل جائے توپانچ نمازوں میں سے کسی ایسی نمازکے بعد جس میں نمازی زیادہ ہوتے ہوں، درس دیناشروع کردو، لیکن درس تیاری کرکے دو، یہ نہیں کہ بس پرانی معلومات کوہی لوٹاتے رہو۔ ایک مولوی صاحب تھے، ہر جمعے کربلا پر تقریر کرتے تھے، محلے والے بھی تنگ آگئے، اس محلے میں جواورائمہ تھے، انہوں نے کہا کہ ذرا مولوی صاحب کو اس سے ہٹاتے ہیں، ان کودعوت دی کہ بھئی، آؤاورہمارے ہاں سورۂ کوثر کی تفسیر بیان کرو، لیکن اس مولوی صاحب کی عادت بگڑی ہوئی تھی، وہاں گیا، بیٹھا، لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں، مولوی صاحب فرمانے لگےکہ: یہ سورت جو میں نے پڑھی ہے، جانتے ہو کس پر نازل ہوئی ہے؟ سب نے کہا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کون تھے؟! حضرت حسینؓ کے نانا جو کربلا میں شہید ہوئے، پھر کربلا پر تقریر شروع کردی۔
لوگ تنگ ہوجاتے ہیں کہ ایک ہی موضوع لے کر مولوی صاحب کھچڑی پکارہے ہیں، تیاری کروبھئی، کبھی قرآن کی کسی آیت کولےکر اس کا ترجمہ وتفسیر کردو، کبھی کسی حدیث کا ترجمہ اورتشریح کردی، کبھی کوئی فقہی مسئلہ بیان کردیا، کبھی سیرت پرکچھ بیان کردیا، اولیاء اللہ کے کچھ واقعات بیان کردئیے، یوں تنوع ہوناچاہیے؛ تاکہ لوگوں کو اس میں دلچسپی ہواور لوگ بھی غور سے بیٹھیں اور کچھ لےکر جائیں۔ بہرحال بہت سی باتیں ہیں جو آپ سنتے رہے ہیں، وہ ساری ذہن میں ہونی چاہئیں، ان پر عمل ہو، اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

وصلی اللہ علٰی سيّدنا محمّد وآلہٖ وصحبہٖ أجمعين!
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین