بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فضائلِ اعمال اورانکارِضعیف احادیث 

فضائلِ اعمال اورانکارِضعیف احادیث 


برادرانِ اسلام میں سے بعض دوست ریحانۃ الہند، محدثِ کبیر، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا سہارن پوری ثم مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ رحمۃً واسعۃً کی مقبولِ عام کتاب ’’فضائلِ اعمال‘‘کی مقبولیتِ عامہ سے خائف ہیں۔ علمی اعتبار سے اس معاملہ میں یتیم ہونے کی وجہ سے وہ کتاب ’’فضائلِ اعمال‘‘ پر اعتراض کرتے ہیں کہ: ’’فضائلِ اعمال‘‘ نامی کتاب ضعیف وموضوع احادیث پر مشتمل ہے۔‘‘ حالانکہ یہ اعتراض وہ اصولِ احادیث سے کم علمی کی بنا پر کرتے ہیں۔ محدثین کے نزدیک ضعیف احادیث فضائل کے باب میں قابلِ قبول ہیں، ہاں! عقائدکے باب میں قبول نہیں ہیں، جیسا کہ امام اہلِ سنۃ والجماعۃ، محقق عالم ڈاکٹر علامہ خالد محمود لکھتے ہیں کہ:
’’ ضعیف حدیث سے عقائد ثابت کرنا علم کے لیے ایک بہت بڑی آفت ہے ،علم سے ناآشنا لوگ ضعیف روایات سے عقائد کا اثبات کرتے ہیں۔ ‘‘       (آثارالحدیث ،ج:۲،ص:۱۴۶) 
 لیکن بُرا ہو تعصب کا کہ جس کی وجہ سے یہ اعتراض قائم کیا گیا اور عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ’’فضائلِ اعمال‘‘ میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔ سب ضعیف ہیں اور ضعیف احادیث قابلِ قبول نہیں ہیں۔ سب سے پہلے تو ضعیف حدیث کی تعریف جان لیں۔ مفکرِ اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحب تحریر فرما ہیں:
’’وہ حدیث ضعیف ہے جس کی سند موجود ہو (یعنی موضوع اور من گھڑت نہ ہو) لیکن اس کے راوی باعتبار یادداشت یا عدالت کے کمزور ہوں، لیکن اگر اُسے دوسری سندوں سے تائید حاصل ہو تو یہ قبول کی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں کہ صرف فضائلِ اعمال میں اُنہیں لے لیا جائے گا، بلکہ ان سے بعض حالات میں استخراجِ مسائل بھی کیا جاسکتا ہے۔ قیاس استنباطِ مسائل کے لیے ہی ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ ضعیف حدیث کو قیا س پر تر جیح دیتے تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات احکام میں ہی چل سکتی ہے ، فضائل میں نہیں ، سو اس بات سے چارہ نہیں کہ حدیث ضعیف کا بھی اپنا ایک وزن ہے، یہ من گھڑت نہیں ہوتی۔ ‘‘                     (آثارالحدیث، ج:۲، ص:۱۴۵) 
اس سے معلوم ہوا کہ ضعیف احادیث صرف فضائل ہی میں نہیں، بلکہ بعض اوقات مسائل میں بھی قابلِ قبول ہوتی ہے، اس لیے جو لوگ احناف کی ضد میں اس کی مخالفت کررہے ہیں‘ انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ احناف کی ضد میں کہیں محدثین ِامت کے مسلک وفیصلے سے ہی رُوگردانی تو نہیں کررہے ہیں۔ الشیخ محمود طحان لکھتے ہیں:
’’یجوزعند أھل الحدیث وغیر ھم روایۃ الأحادیث الضعیفۃ والتساھل في أسانید ھا من غیر بیان ضعیفھا بخلاف الأحادیث الموضوعۃ فإنّہٗ لایجوز روایتھا إلا مع بیان وضعھا۔‘‘  (تیسیر مصطلح الحدیث، ار دو،ص:۱۱۰) 
’’اہلِ حدیث کے نزدیک ضعیف احادیث اور جن کی سندوں میں تساہل ہے ان کا ضعف بیان کیے بغیر روایت کرنا جائز ہے ،بخلاف موضوع احادیث کے کہ ان کو روایت کرنا ان کے موضوع ہونے کی وضاحت کے بغیر جائز نہیں۔ ‘‘ 
نوٹ: اہلِ حدیث حضرات محدثین کرام کا لقب ہے، جیسا کہ غیر مقلد عالم حافظ زبیر علی زئی مرحوم نے بھی اپنی کتاب ’’فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد:۲،صفحہ:۲۹۴‘‘ پر تسلیم کیا ہے کہ: ’’أھل حدیث ‘‘ حضراتِ محدثین کا لقب ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر علامہ خالد محمود ضعیف احادیث کوبیان کرنے کے بارے میں تحریرفرماہیں کہ :
’’علماء نے صرف پند ونصیحت، بیانِ قصص اور فضائلِ اعمال کے مواقع پر احادیثِ ضعیفہ کے بیان کرنے کو بلا اس کے ضعف بیان کیے جائز رکھا ہے ،یہی وجہ ہے کہ کتبِ سِیَر میں آپ کو احادیثِ ضعیفہ بغیر تصریح کے بہت ملیں گی، بخلاف احادیثِ موضوعہ کے کہ ان کا بیان کرنا حرام ہے۔‘‘                                             (آثارالحدیث،ج:۲،ص:۱۴۸) 
درج بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ ضعیف احادیث کا بیان کرنا فضائل میں جائز ہے اور اسے محدثین کرام (اہلِ حدیث) قبول فرماتے ہیں۔ یہیں سے ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ خود کو طریقِ محدثین کے راہی کہلوانے سے کوئی اہلِ حدیث (جو محدثین کا لقب ہے) نہیں بنتا، جب تک اُس میں وہ شرائط وصفات نہ پائی جائیں جو ایک محدث کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ آپ غور فرمائیے !کہ حضرات محدثین کرام تو ضعیف احادیث کو قبول فرمائیں اور دامنِ محدثین تھامنے کے مدعی انکاری ہوں، فیا للعجب

کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

حافظ ابن حزم اندلسی ؒ (۷۵۷ھ) امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ  سے متعلق لکھتے ہیں :
’’امام ابوحنیفہ ؒ کے تمام شاگرد اس پر متفق ہیں کہ امام ابوحنیفہ ؒ کا طریقہ یہی تھا کہ آپ ضعیف حدیث کو قیا س پر ترجیح دیتے تھے۔ ‘‘     (ابطال الرائے والقیاس والاستحسان،ص:۶۸،آثار الحدیث،ج:۲،ص:۱۴۵) 
حافظ ابن قیم حنبلی ؒ (۷۵۱ھ) لکھتے ہیں :
’’امام ابوحنیفہ ؒ کے سب شاگرد اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ آپ کے ہاں حدیث ضعیف قیاس اور رائے پر مقدم تھی اور آپ نے اسی پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے۔۔۔ سو حدیث ضعیف اور آثارِ صحابہ ؓ  کو قیا س پر مقدم کرنا امام ابوحنیفہ ؒ اور امام احمد ؒ دونوںکا فیصلہ ہے۔‘‘        (اعلام الموقعین ،ج:۱،ص:۸۸۔ آثار الحدیث،ج:۲،ص:۱۴۶) 
حافظ ابن قیم ؒ کا یہ فرمانا کہ: ’’ آپ نے اسی پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی ہے‘‘ کا کوئی غلط مطلب اخذ نہ کرے ، اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ  کے مذہب میں ضعیف احادیث کو قیاس ورائے اور آثارِ صحابہ ؓ پر ترجیح حاصل ہے۔ ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب لکھتے ہیں :
 ’’حضرت امام ابوحنیفہ ؒ (۱۵۰ھ) کے بارے میں یہ غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے کہ وہ حدیث کے بجائے قیاس سے زیادہ کام لیتے تھے‘ یہ درست نہیں۔ جب وہ حدیث ضعیف کو بھی قیاس پر مقدم کرتے ہیں تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ صحیح حدیث کو چھوڑ کر قیاس پر مقدم کرتے ہوں۔ ضعیف حدیث کی سندیں گو وہ اپنی جگہ ضعیف ہوں، لیکن اس کے راویوں کا اگر ان پہلے راویوں سے مل کر روایت کرنے کا مظنہ نہ ہو تو اس تعددِ طرق حدیث ضعیف قوی ہوکر حسن لغیرہٖ تک پہنچ جائے گی ،لیکن اس کا فیصلہ حاذق محدثین ہی کرسکتے ہیں ،نہ کہ ہر ایک کو اس کا حق د یاجائے، نہ ہر ایک اس کا اہل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوْا الْأَمَانَاتِ إِلٰی أَھْلِھَا‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ امانتوں کو ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو۔ ‘‘
حدیث ’’أصحابیؓ کالنجوم‘‘ محدثین کے ہاں اسی طرق سے لائقِ قبول سمجھی گئی ، وہب بن جریر اپنے والد سے ، وہ حضرت اعمش سے ،وہ حضرت ابوصالح سے ، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے اور وہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اسی طرح روایت کرتے ہیں :
’’أصحابيؓ کالنجوم، من اقتدیٰ بشيء ومنہا اھتدیٰ۔‘‘
’’ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں ،جو ان میں سے کسی کی پیروی کرگیا ہدایت پالی۔ ‘‘   (آثار الحدیث ،ج:۲،ص:۱۴۶) 
نوٹ: مشکوٰۃ،صفحہ:۵۵۴ پر بھی یہ حدیث مختلف الفاظ سے موجود ہے، محدث گنگوہی ؒ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ حسن لغیرہٖ تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘
اسی طرح محقق عالم دین حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی ؒ لکھتے ہیں :
’’مواعظ ،قصص اور فضائلِ اعمال کی احادیث میں علماء کے نزدیک ضعیف سندوں میں تساہل جائز ہے، یعنی اس کے ضعف کو بیان کیے بغیر روایت کرنا جائز ہے، البتہ صفاتِ باری تعالیٰ اور حلال وحرام کی احادیث میں جائز نہیں ہے۔ ‘‘
 شیخ الاسلام محقق علیٰ الاطلاق علامہ ابن الھمام ؒ لکھتے ہیں :
’’الضعیف غیر الموضوع یعمل بہ فضائل الأعمال۔‘‘ (فتح القدیر لابن الہمامؒ ،ج:۱، ص:۳۰۳) 
ترجمہ: ’’ضعیف جو کہ موضوع نہ ہو‘ فضائلِ اعمال میں اس پر عمل کرلیا جاتا ہے۔ ‘‘ 
ابن تیمیہ ؒ باوجود اپنی تشدد پسندانہ طبیعت کے امام احمد ؒ کا قول نقل کرتے ہیں اور اس کی تائید کرتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’قول أحمد بن حنبل إذا جاء الحلال والحرام شددنا في الأسانید وإذا جاء الترغیب والترہیب تساھلنا في الأسانید وکذٰلک ماعلیہ العلماء من العمل بالحدیث الضعیف في فضائل الأعمال۔‘‘     (الفتاویٰ الکبریٰ لابن تیمیہؒ ،ج:۱۸،ص:۶۵) 
ترجمہ: ’’امام احمد بن حنبل ؒ کا قول ہے کہ جب حلال وحرام کی بات آئے گی تو ہم اسانید کی جانچ پرکھ میں سختی سے کام لیں گے، جب ترغیب وترہیب کی بات آئے گی تو ہم اسانید میں تساہل برتیں گے، اسی طرح وہ ہے جس پر علماء ہیں۔ فضائلِ اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے سے۔ ‘‘
محقق ابن ہمام ؒ ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں :
’’ولو ضعف فالمقام یکفی فیہ مثلہ۔ ‘‘                  (فتح القدیر، ج:۱، ص:۳۱۸) 
’’اور اگر ضعیف بھی ہو تو یہ مقام ایسا ہے جس میں اس کی مثل یعنی ضعیف ہی کافی ہے۔ ‘‘ 
امام نووی ؒ شارحِ مسلم لکھتے ہیں :
’’الرابع أنھم قد یروون عنھم أحادیث الترغیب والترھیب وفضائل الأعمال والقصص وأحادیث الزھد ومکارم الأخلاق ونحو ذٰلک لا یتعلق بالحلال والحرام وسائر الأحکام ، وھٰذا الضرب من الحدیث یجوز عند أھل الحدیث وغیر ھم التساھل فیہ۔ ‘‘                               (شرح مسلم نووی ،ج:۱، ص:۲۱) 
ترجمہ: ’’چوتھی بات یہ ہے کہ محدثین ضعیف راویوں سے ترغیب وترہیب، فضائل اعمال و قصص واحادیث، زہد ومکارمِ اخلاق اور ان جیسے موضوعات پر احادیث روایت کرتے ہیں، جن کا تعلق حلال وحرام اور احکام کے ساتھ نہ ہو اور حدیث کی اس قسم سے محدثین کے نزدیک روایت میں تساہل جائز ہے، جب کہ موضوع نہ ہو۔ ‘‘
امام نووی ؒ لکھتے ہیں :
’’ویجوز عند أھل الحدیث وغیر ھم التساھل في الأسانید وروایۃ ماسوی الموضوع من الضعیف والعمل بہ من غیر بیان ضعفہ من غیر صفات اللّٰہ تعالٰی والأحکام کالحلال والحرام ومما لا تعلق لہٗ بالعقائد والأحکام۔ ‘‘        (تقریب، ص:۱۶۲،ج:۱) 
ترجمہ:’’محدثین وغیرہم کے نزدیک تساہل اور ضعیف جو موضوع نہ ہو اس کو روایت کرنا، اس پرعمل کرنا اس کے ضعف کو بیان کیے بغیر جائز ہے۔ ہاں! اللہ تعالیٰ کی صفات او راحکام مثلاً: حلال وحرام اور وہ چیزیں جن کا تعلق عقائد اور احکام سے ہو‘ ان میں جائز نہیں ہے۔ ‘‘   (انواراتِ صفدر، افادات:حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی ؒ مرتب :مولانا محمود عالم صاحب ، ص:۲۱۴تا ۲۱۶) 
یہاں تک ہم نے محدثین کرام ؒ کی عبارات سے ثابت کیا کہ ضعیف احادیث کو بیان کرنا جائز ہے، لیکن ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں ضعیف حدیث کو بیان کرنا جائز نہیں، اس کے متعلق ہم اوپر حضرت ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب کے حوالے سے درج کرآئے ہیں، ایک بار پھر ملاحظہ فرمالیجئے کہ علامہ صاحب رقم طر از ہیں کہ :
’’ ضعیف حدیث سے عقائد ثابت کرنا علم کے لیے ایک بہت بڑی آفت ہے۔ علم سے ناآشنا لوگ ضعیف روایات سے عقائد کا اثبات کرتے ہیں۔ ‘‘  (آثارالحدیث ،ج:۲،ص:۱۴۶) 
غلط بات کو غلط ہی کہا جائے گا ،لیکن ناآشنا اورجاہل لوگوں کی ضد میں آکر ضعیف روایات کا سرے سے انکار کردینا بھی تو عقل مندی نہیں ہے۔ ان مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہو ا کہ محدثین کرام ؒ کے نزدیک ضعیف احادیث فضائلِ اعمال میں قابل قبول ہیں۔ لہٰذا مندرجہ بالا اعتراض کی کوئی آئینی وشرعی حیثیت نہیں ہے، بلکہ مندرجہ بالا اعتراض معترضین کی جہالت اوراُن کی اصولِ حدیث سے بے خبری کو نمایاں کرنے کے لیے کافی ہے۔ پھر دیکھئے! بہت سی ایسی کتب جن میں ضعیف احادیث بکثرت موجود ہوتی ہیں، فضائلِ اعمال کی تالیف سے ایک زمانہ قبل موجود ہیں اور بہت سی کتب اب عرب ممالک میں شائع ہورہی ہیں، جن میں خاص کر حافظ منذری ؒ کی مشہورِ عام کتاب ’’الترغیب الترہیب‘‘ بھی شامل ہے۔ فضائلِ اعمال پر معترض حلقہ اُس کتاب کے بارے میں خاموش ہے، اس کی کوئی خاص وجہ ۔۔۔۔؟ بہر حال ہم یہ سمجھتے ہیں کہ :

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین