بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فریضۂ زکاۃاور اس کی ادائیگی (دوسری اور آخری قسط)

فریضۂ زکاۃاور اس کی ادائیگی                        (دوسری اور آخری قسط)

زکاۃ کن افراد پر اور کن افراد کے لیے ہے؟ دنیا میں بسنے والے افراد کا جائزہ لیا جائے تو ان تما م افراد کو تین طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱:… مالدار افراد، جن پر مخصوص شرائط کے بعد زکاۃ فرض ہوتی ہے۔ ۲:…دوسرے غریب افراد، جن پرزکاۃ فرض نہیں ہوتی اور ان کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے۔ ۳:…تیسرے وہ متوسط درجے کے افراد، جن پر زکاۃ تو فرض نہیں ہوتی، لیکن ان کے لیے زکاۃ لینا بھی جائز نہیں۔ اب ان تینوں قسم کے افراد کو پہچاننے کے لیے کیا معیار اور کسوٹی ہے کہ اس کے مطابق ہر طبقے والا اپنی حالت اور کیفیت کو پہچان کر اس کے مطابق اپنے اوپر عائد احکامات ِ الٰہیہ کوپہچان کر پورا کر سکے؟ اس کے لیے دو چیزوں کا جاننا ضروری ہے: ایک تو وہ کون سی اشیا یا اموال ہیں جن کے ہوتے ہوئے زکاۃ فرض ہوتی ہے؟ اور دوسرا وہ اشیا یا اموال کتنی مقدار میں ہوں کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی شخص زکاۃ دینے والا یا زکاۃ لینے والا ٹھہرتا ہے؟ ان میں سے پہلی چیز کو ’’اموالِ زکاۃ ‘‘ اور دوسری چیز کو ’’نصابِ زکاۃ ‘‘ سے پہچانا جاتا ہے۔ ذیل میں اموالِ زکاۃ اور نصاب ِ زکاۃ کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے: اموالِ زکاۃ اموالِ زکاۃ سے مراد وہ اشیا یا اموال ہیں جن کا(مخصوص مقدار میں)مالک ہونے پر زکاۃ فرض ہوتی ہے۔ وہ کل چار قسم (کی اشیا یا اموال) ہیں: ۱:…سونا، خواہ وہ زیور کی شکل میں ہو، ڈلی ہو، اینٹ ہو یا کسی برتن وغیرہ کی شکل میں ہو، چاہے استعمال میں ہو یا نہ ہو، خالص ہو یا اس میں کوئی کھوٹ یا ملاوٹ وغیرہ ہو، بہر صورت یہ (سونا)مالِ زکاۃ ہے۔ ۲:…چاندی، خواہ وہ زیور کی شکل میں ہو، ڈلی ہو، اینٹ ہو یا کسی برتن وغیرہ کی شکل میں ہو، چاہے استعمال میں ہو یا نہ ہو، خالص ہو یا اس میں کوئی کھوٹ یا ملاوٹ وغیرہ ہو، بہر صورت یہ (چاندی)مالِ زکاۃ ہے۔ ۳:…نقدی، اپنے ملک کی ہو یا کسی اور ملک کی، اپنے پاس ہو یا بینک میں، چیک ہو یا ڈرافٹ،نوٹ ہو یا سکّے، کسی کو قرض دی ہوئی ہو(بشرطیکہ ملنے کی امید ہو)ان تمام صورتوں میں یہ (نقدی) مالِ زکاۃ ہے۔ ۴:…مالِ تجارت، یعنی تاجِر کی دکان کا ہر وہ سامان جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو اور تاحال اس کے بیچنے کی نیت باقی ہو،تو یہ (مالِ تجارت)مالِ زکاۃ ہے۔(اور اگر مذکورہ مال یعنی مالِ تجارت کوگھر کے استعمال کے لیے رکھ لیا، یا اس کے بارے میں بیٹے یا دوست وغیرہ کو ہدیہ میں دینا طے کر لیا، یا پھرویسے ہی اس مال کے بارے میں بیچنے کی نیت نہ رہی تو یہ مال،مالِ زکاۃ نہ رہا)۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاۃ،أموال الزکاۃ،ج:۲،ص:۱۰۰،دار إحیاء التراث العربی) یہ کل چار قسم کے اموال ہیں جن پر (مخصوص مقدار تک پہنچنے پر)زکاۃ فرض ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی مقروض ہو تو قرضوں کی ادائیگی کے بعد بچنے والے اموال کی زکاۃ دی جائے گی۔ نصابِ زکاۃ سطورِ بالا میں معاشرے کے تین طبقات کو بیان کیا گیا تھا،جن کی تمیز ’’نصاب ‘‘کے مالک ہونے پر موقوف ہے، اس تمیز کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ نصاب دو قسم کا ہوتا ہے، ایک نصاب کا تعلق ’’زکاۃ دینے والے ‘‘ سے ہے اور دوسرے نصاب کاتعلق ’’زکاۃ لینے والے ‘‘ سے ہے، دونوں قسم کے نصابوں میں کچھ فرق ہے، جو ذیل میں لکھا جا رہا ہے: پہلی قسم کا نصاب (زکاۃ دینے والے کے لیے) اللہ رب العزت نے اپنے غریب بندوں کے لیے امراء پر ان کے اموال کی ایک مخصوص مقدار پر زکاۃ فرض کی ہے، جس کو نصاب کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس نصاب کا مالک ہو تو اس پر زکاۃ فرض ہے اور اگر کسی کے پاس اس نصاب سے کم ہو تو اس شخص پر زکاۃ فرض نہیں ہے۔ اس نصاب میںصرف وہ (چاروں)اموالِ زکاۃ شامل ہیں جو اوپر ذکر کیے گئے۔ چاروں قسم کے اموالِ زکاۃ کی وہ مخصوص مقداریںجن پر زکاۃ فرض ہوتی ہے،ذیل میں لکھی جاتی ہیں: ۱:…اگر کسی کے پاس صرف ’’سونا‘‘ ہو اور کوئی مال(مثلاً:چاندی، نقدی یا مال تجارت) نہ ہو تو جب تک سونا ساڑھے سات تولے (479۔87گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکاۃ فرض نہیں ہوتی، اور اگر سونا اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکاۃ فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاۃ، صفۃالزکاۃ،ج:۲،ص:۱۰۵،دار إحیاء التراث العربی) ۲:…اگر کسی کے پاس صرف ’’چاندی ‘‘ ہو اور کوئی مال (سونا، نقدی یا مال تجارت) نہ ہو تو جب تک چاندی ساڑھے باون تولے (35۔612گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکاۃ فرض نہیں ہوتی، اور اگر چاندی اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکاۃ فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاۃ،أموال الزکاۃ:،ج:۲،ص:۱۰۰،دار إحیاء التراث العربی) ۳:…اگر کسی کے پاس صرف ’’نقدی‘‘ ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب تک نقدی اتنی نہ ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35۔612گرام)چاندی خریدی جاسکے، اس وقت تک زکاۃ فرض نہیں ہوتی اور اگر نقدی اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35۔612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو زکاۃ فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاۃ،أموال الزکاۃ:،ج:۲،ص:۱۰۳،دار إحیاء التراث العربی) ۴:… اگر کسی کے پاس سونا اور چاندی ہو (چاہے جتنی بھی ہو) یا سونا اور نقدی ہو یا سونا اور مالِ تجارت ہو یا چاندی اور نقدی ہویا چاندی اور مالِ تجارت ہویا (تینوں مال)سونا، چاندی اور نقدی ہو یا سونا، چاندی اور مالِ تجارت ہو یا(چاروں مال) سونا، چاندی، نقدی اور مالِ تجارت ہو تو ان تمام صورتوں میں ان اموال کی قیمت لگائی جائے گی، اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولے (35۔612 گرام) چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو زکاۃ واجب ہو گی، ورنہ نہیں۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاۃ،صفۃ الزکاۃ،ج:۲،ص:۱۰۵-۱۰۶، دار إحیاء التراث العربی) دوسری قسم کا نصاب (زکاۃ لینے والے کے لیے) اس نصاب میں مذکورہ نصاب (یعنی پہلی قسم کے نصاب کی تمام صورتوں )کے ساتھ ضرورت سے زائد سامان کو بھی شامل کیا جائے گا،اور نصاب کی اس دوسری قسم میں بھی وہ تمام صورتیں بنیں گی جو پہلی قسم کے نصاب میں بنتی تھیں، مثلاً: ۱:…اگر کسی کے پاس صرف ’’سونا‘‘ اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہوتو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائے گی، اگر ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35۔612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاۃ لینا جائز نہیںہے اور ایسے شخص پر صدقۂ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔ ۲:…اگر کسی کے پاس صرف ’’چاندی ‘‘ اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہو اور کوئی مال (سونا، نقدی یا مال تجارت) نہ ہوتو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائے گی، اگر ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35۔612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاۃ لینا جائز نہیںہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔ ۳:…اگر کسی کے پاس صرف ’’نقدی‘‘ اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35۔612گرام)چاندی خریدی جاسکے، تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاۃ لینا جائز نہیںہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔ اور اگر ان دونوں کی قیمت اتنی نہ ہو کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35۔612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو ایسے شخص کا زکاۃ لینا جائز ہے۔ ۴:…اگر کسی کے پاس (پانچوںمال) سونا، چاندی، نقدی،مالِ تجارت اور ’’ضرورت سے زائد سامان ‘‘ہوتوان تمام صورتوں میں ان تمام اموال کی قیمت لگائی جائے گی، اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولے (35۔612گرام)چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کا زکاۃ لیناجائز نہیںہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔اور اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہوتو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں صاحب نصاب نہیں کہلاتا، یعنی اس شخص کا زکاۃ اور ہر قسم کے صدقات ِ واجبہ لینا جائز ہو گا۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاۃ،مصارف الزکاۃ،ج:۲،ص:۱۵۸، دار إحیاء التراث العربی) ضرورت سے زائد سامان وہ تمام چیزیں ہیں جو گھروں میں رکھی رہتی ہیں، جن کی سالہا سال ضرورت نہیں پڑتی۔ الف:وی سی آر، ڈش،ناجائز مضامین کی آڈیو ویڈیوکیسٹیں جیسی چیزیں ضروریات میں داخل نہیں،بلکہ لغویات ہیں۔مذکورہ قسم کا سامان ضرورت سے زائد کہلاتا ہے،اس لیے ان سب کی قیمت حساب میں لگائی جائے گی۔ ب:رہائشی مکان، پہننے،اوڑھنے کے کپڑے، ضرورت کی سواری اور گھریلو ضرورت کا سامان جو عام طور پر استعمال میں رہتا ہے، یہ سب ضرورت کے سامان میں داخل ہیں، اس کی وجہ سے انسان شرعاً مال دار نہیں ہوتا، یعنی ان کی قیمت نصاب میں شامل نہیں کی جاتی۔(الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الزکاۃ، الباب الأول فی تفسیر الزکاۃ،ج:۱،ص:۱۷۴، رشیدیہ) ج:صنعتی آلات، مشینیں اور دوسرے وسائل رزق (جن سے انسان اپنی روزی کماتا ہے) بھی ضرورت میں داخل ہیں، ان کی قیمت بھی نصاب میں شامل نہیں کی جاتی، مثلاً:درزی کی سلائی مشین، ترکھان، لوہاراور کاشت کار وغیرہ کے اوزار، سبزی یا پھل بیچنے والے کی ریڑھی یا سائیکل وغیرہ۔ (الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الزکاۃ، الباب الأول فی تفسیر الزکاۃ،ج:۱،ص:۱۷۴، رشیدیہ) د:اگر کسی کے پاس ضرورت پوری کرنے کا سامان ہے، لیکن اس نے کچھ سامان اپنی ضرورت سے زائدبھی اپنے پاس رکھا ہوا ہے، مثلاً:کسی کی ضرورت ایک گاڑی سے پوری ہو جاتی ہے، لیکن اس کے پاس دو گاڑیاں ہیں،یا اس کی ضرورت ایک مکان سے پوری ہو جاتی ہے، لیکن اس نے دو مکان رکھے ہوئے ہیں تو اس زائد گاڑی اور زائد مکان کی قیمت کو نصاب میں داخل کیا جائے گا۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاۃ،مصارف الزکاۃ،ج:۲،ص:۱۵۸،دار إحیاء التراث العربی) زکاۃ واجب ہونے کے لیے تاریخ زندگی میں سب سے پہلی بار جب کسی کی ملکیت میں پہلی قسم کے نصاب کے مطابق مال آجائے، تو وہ دیکھے کہ اس دن قمری سال (چاند )کی کون سی تاریخ ہے؟اس تاریخ کو نوٹ کر لے،یہ تاریخ اس شخص کے لیے زکاۃ کے حساب کی تاریخ کے طور پر متعین ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ زکاۃ کے وجوب اور ادائیگی کے لیے قمری سال ہونا ضروری ہے، اگر کسی کو قمری تاریخ یاد نہ ہو تو خوب غور و فکر کر کے کوئی قمری تاریخ متعین کر لینا چاہیے،آئندہ اسی کے مطابق حساب کیا جائے گا، البتہ حساب کتاب کرنے کے بعد ادائیگی زکاۃ شمسی تاریخ سے کرنا جائز ہے۔ زکاۃ کا حساب کرنے کا طریقہ جس چاند کی تاریخ کو کسی کے پاس بقدر نصاب مال آیا، اس سے اگلے سال ٹھیک اسی تاریخ میں اپنے مال کا حساب کیا جائے، اگر بقدر نصاب کے مال ہے تو اس کل مال کا اڑھائی فیصد (2.5%) زکاۃ دینا ہو گی۔ (العالمگیریہ، کتاب الزکاۃ،ج:۱،ص:۱۷۵، رشیدیہ) مال پر سال گزرنے کا مطلب جس تاریخ میں زکاۃ واجب ہوئی تھی اس کے ایک سال بعد زکاۃ دی جائے گی،اس ایک سال کے گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پہلی تاریخ اور ایک سال کے بعد والی تاریخ میں مال ِنصاب کے بقدر اس شخص کی ملکیت میں رہے، ان دونوں تاریخوں کے درمیان میں مال میں جتنی بھی کمی بیشی ہوتی رہے، اس سے کچھ اثر نہیں پڑتا، بس شرط یہ ہے کہ مال بالکلیہ ختم نہ ہو گیا ہو، یعنی مال کے ہر ہر جز پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے، بلکہ واجب ہونے کے بعد اگلے سال اسی تاریخ میں نصاب کا باقی رہنا ضروری ہے، اگر نصاب باقی ہوا تو ادائیگی لازم ہو گی، ورنہ نہیں۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاۃ،اموال الزکاۃ،ج:۲،ص:۹۶،دار إحیاء التراث العربی) مالِ تجارت کی زکاۃ کے احکام ’’مال ِ تجارت کی مراد ‘‘پیچھے واضح کی جا چکی ہے۔ بعض افراد اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تجارت کا مال صر ف و ہ ہے جس کی انسان باقاعدہ تجارت کرتا ہو، اور نفع کمانے کی نیت سے خرید و فروخت کرتا ہو،حالانکہ شرعاً کسی چیز کے مالِ تجارت بننے کے لیے اس میں مذکورہ قید ضروری نہیں، بلکہ جو چیزبھی انسان فروخت کرنے کی نیت سے خریدے وہ تجارت کے مال میں شمار ہوتی ہے، البتہ خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہ ہوتو بعدمیں فروخت کر لینے کی نیت سے وہ چیز مالِ تجارت نہیں بنے گی۔دوسری طرف وہ چیز جسے تجارت کی نیت سے خریدا تھا، اگر بعد میں تجارت کی نیت بدل لی تو وہ چیز مالِ تجارت سے نکل جائے گی۔سونا، چاندی اور نقدرقم اس تعریف سے خارج ہے، یعنی ان کے لیے کسی خاص نیت وغیرہ کی ضرورت نہیں، یہ ہر حال میں مالِ زکاۃ ہیں۔(ردالمحتار،کتاب الزکاۃ،ج:۲،ص: ۲۶۷، سعید) تجارتی اموال سے متعلق کچھ مسائل ۱:… جن اشیا کو فروخت کرنا مقصود نہ ہو، بلکہ ان کی ذات کو باقی رکھتے ہوئے ان سے کرایہ وغیرہ حاصل کرنا یا کسی اور شکل میںنفع کمانا مقصود ہو، تو وہ چیزیں مالِ تجارت میں داخل نہیںہیں،مثلاً: کارخانوں کا منجمد اثاثہ، پرنٹنگ پریس، مشینری، پلانٹ، دکان کا فرنیچر، استعمال کی گاڑی، ٹریکٹر، ٹیوب ویل، کرائے پر چلانے کی نیت سے خریدی گئی گاڑی، رکشہ وغیرہ، کرائے پر دینے کی نیت سے بنا یا گیا مکان یا دوکان وغیرہ،گھر کے استعمال کے برتن، کرائے پر دینے کے لیے رکھے ہوئے برتن، کراکری کا سامان، فریج، فرنیچر، سلائی یا دھلائی کی مشین، ڈرائی کلینرز کے پلانٹ وغیرہ۔اس قسم کی چیزیں چونکہ فروخت کرنے کی نیت سے نہیں خریدی گئیں،بلکہ ان کو باقی رکھ کر ان سے نفع اٹھانا مقصود ہے، اس لیے یہ مالِ تجارت میں داخل نہیں ہوں گی اور ان پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی، ہاں اگر ان کو خریدا ہی فروخت کرنے کے لیے ہو تو یہ مالِ تجارت ہو ں گی۔ اسی طرح موجودہ دور میں بعض مکینک حضرات اپنے کام کاج کے اوزاروں کے ساتھ بعض اوزاروں کو اس لیے خریدتے ہیں کہ بوقتِ ضرورت گاہکوں کی مشینری وغیرہ میں فٹ کر دیں گے، اور اس کی قیمت گاہکوں سے وصول کر لیں گے، تو یہ مال بھی مالِ تجارت میں داخل ہے۔(ردالمحتار،کتاب الزکاۃ،ج:۲،ص:۲۶۷،سعید) ۲:… اگر کوئی جانور بیچنے کے لیے خریدے تو وہ بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں،ان کی زکاۃ بھی تجارت کے اموال کی طرح واجب ہو گی۔(احسن الفتاویٰ:،ج:۴،ص:۲۸۶) قصاب جو جانور ذبح کر کے گوشت بیچتے ہیںتو یہ جانور بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں۔جو جانور دودھ حاصل کرنے کے لیے خریدے تو وہ مالِ تجارت میں داخل نہیں ہیں، البتہ ان کے دودھ سے حاصل ہونے والی کمائی نقد رقم میں داخل ہو کر نصاب کا حصہ بنے گی۔(احسن الفتاویٰ:،ج:۴،ص:۲۸۷) سامانِ تجارت کی قیمت لگانے کا طریقہ ’’پہلی قسم کا نصاب ‘‘اور ’’دوسری قسم کا نصاب ‘‘پہچاننے کے طریقے میں جو یہ ذکر کیا گیا کہ ’’دوسری قسم کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان کی قیمت لگائی جائے ‘‘ تو اس قیمت سے مراد اس سامان کی قیمتِ فروخت ہے، نہ کہ قیمتِ خرید،یعنی حساب کرنے کی تاریخ میں اس سامان کی قیمت لگوائی جائے جو عام بازار میں اس کی قیمت کے برابر ہواور عموماً اس قیمت پر وہ بک بھی جاتا ہو،اس کو نصاب میں شمار کیا جائے گا۔اسی طرح سونا، چاندی کی بھی قیمت ِفروخت کا اعتبار ہو گا،مثلاً: کراچی میں کسی شخص نے یہ چیز دس ہزار میں خریدی، پھر فروخت کرنے کے وقت اس کی قیمت پندرہ ہزار یا کم ہو کے سات ہزار ہو گئی تو قیمت فروخت والی قیمت کو زکاۃ کے لیے شمار کیا جائے گا۔ (رد المحتار، کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ الغنم:،ج:۲،ص:۲۸۶، سعید) قرض پر زکاۃ کا حکم جو رقم کسی کو بطور قرض دی ہو، اس کی دو قسمیں ہیں :ایک تووہ قرض ہے، جس کے (کبھی نہ کبھی)واپس ملنے کی امید ہو۔ دوسرا وہ قرض ہے،جس کے واپس ملنے کی امید ختم ہوچکی ہو۔  تو پہلی قسم والے قرض کی زکاۃ دی جائے گی اور دوسری قسم کے قرض کی زکاۃ نہیں دی جائے گی۔البتہ اگر کبھی یہ قرض بھی وصول ہو گیا تو اس کی بھی زکاۃ ادا کی جائے گی۔ (ہندیہ، کتاب الزکاۃ، الباب الاول،ج:۱،ص:۱۷۴،۱۷۵، رشیدیہ) بینکوں کے زکاۃ کاٹنے کا حکم حکومت کے آرڈینیس کے تحت حکومت بینکوں سے لوگوں کی رقمیں زکاۃ کی مد میں کاٹتی ہے۔شرعاً اس طریقے سے زکاۃ کی ادائیگی نہیں ہوتی، حکومتِ وقت کے اس طرح زکاۃ کاٹنے میں شرعاً دس خرابیاں ہیں جنہیں فتاویٰ بینات جلد دوم،ص:۶۳۵ تا۶۴۰میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے، بوقتِ ضرورت وہاںمراجعت کر لی جائے۔ (فتاویٰ بینات،کتاب الزکاۃ، حکومت کا مسلمانوں سے زکاۃ وصول کرنا،ص:۶۳۵-۶۴۰، مکتبہ بینات) کمیٹی کی رقم پر زکاۃ کا حکم کچھ افراد مل کے کمیٹی ڈالتے ہیں، کچھ ممبروںکی کمیٹی پہلے نکل آتی ہے،مثلاً: بیس افراد نے مل ایک ایک ہزار روپے جمع کر کے کمیٹی ڈالی، ان میں سے ایک کی کمیٹی پہلے نکل آئی، اب اس شخص کے پاس انیس ہزار روپے دوسروں کے ہیں اور ایک ہزار اپنا، تو یہ شخص اگر صاحب نصاب ہے تو یہ اپنے ایک ہزار روپے کو اس نصاب میں داخل کرے گا، انیس ہزار کو نہیں،اسی طرح ہر ممبر صرف اتنی رقم نصابِ زکاۃ میں جمع کرے گا، جتنی اس نے ابھی تک جمع کروائی تھی، البتہ آخری شخص پورے بیس ہزار کو اپنے نصاب میں شامل کرے گا، اور اگر یہ مذکورہ افراد صاحبِ نصاب نہیں ہوں تو اس نکلنے والی کمیٹی کی رقم پر زکاۃ واجب نہیں ہو گی۔(الفتاویٰ الھندیہ، کتاب الزکاۃ، الباب الأول فی تفسیر الزکاۃ،ج:۱،ص:۱۷۳، رشیدیہ) خلاصہ کلام آخر میں بطورِ خلاصہ ان تمام اثاثوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جن پر زکاۃ واجب ہوتی ہے اور جن پر واجب نہیں ہوتی۔وہ اثاثے جن پر زکاۃ واجب ہوتی ہے، وہ یہ ہیں: ۱:… سونے کی مارکیٹ ویلیو(خواہ سونا زیور کی صورت میں ہو، یا کسی بھی شکل میں ہو)۔ ۲:… چاندی کی مارکیٹ ویلیو (خواہ چاندی زیور کی صورت میں ہو یا کسی بھی شکل میں ہو)۔۳:…نقد رقم۔ ۴:… کسی کے پاس رکھی گئی امانت (خواہ رقم ہو یا سونا، چاندی)۔۵:…بینک بیلنس۔ ۶:…غیر ملکی کرنسی کی مارکیٹ ویلیو۔ ۷:… کسی بھی مقصد (مثلاً: حج، بچوں کی شادی یا مکان وغیرہ کی خریدنے)کے لیے رکھی ہوئی رقم۔ ۸:…حج کے لیے جمع کروائی ہوئی وہ رقم جو معلم کی فیس اور کرایہ جات وغیرہ کاٹ کر واپس کر دی جاتی ہے۔ ۹:… بچت سر ٹیفکیٹ مثلاً: NIT،NDFC،FEBCکی اصل رقم (اگرچہ ان کا خریدنا ناجائز ہے)۔ ۱۰:… پرائز بانڈز کی اصل قیمت (اگرچہ ان کی خرید و فروخت اور ان پر ملنے والا انعام جائز نہیں ہے)۔ ۱۱:… انشورنس پالیسی میں جمع کردہ اصل رقم (اگرچہ مروجہ انشورنس کی تمام صورتیں ناجائز ہیں)۔ ۱۲:… قرض دی ہوئی رقم(بشرطیکہ واپس ملنے کی امید ہو)۔ ۱۳:…کسی بھی مقصد کے لیے دی ہوئی ایڈوانس رقم، جس کا اصل یا بدل اسے واپس ملے گا۔ ۱۴:… سیکورٹی ڈیپازٹ کے طور پر جمع کردہ رقم۔ ۱۵:… بی سی (کمیٹی)میں جمع کروائی ہوئی رقم(بشرطیکہ ابھی تک کمیٹی نکلی نہ ہو)۔ ۱۶:…تجارتی یا تجارت کی نیت سے خریدے گئے حصص۔ ۱۷:… شرکت والے معاملے میں اپنے حصے کے قابل زکاۃ اثاثوں کی رقم بمع نفع۔ ۱۸:…بیچنے کے لیے خریدا ہوا سامان، جائیداد، حصص اور خام مال۔ ۱۹:…تجارت کے لیے خریدی ہوئی پراپرٹی۔ ۲۰:… ہر قسم کے تجارتی مال کی مارکیٹ ویلیو (یعنی: قیمت ِفروخت)۔ ۲۱:… فروخت شدہ چیزوں کی قابلِ وصول رقم۔ ۲۲:… تیار مال کا اسٹاک۔ ۲۳:… خام مال۔ جو رقم مالِ زکاۃ سے منہا کی جائے گی ۱:… ادھار لی ہوئی رقم۔ ۲:… خریدی ہوئی چیز کی واجب الاداء قیمت۔ ۳:… کمیٹی حاصل کرنے کے بعد بقیہ اقساط کی رقم۔ ۴:… ملازمین کی تنخواہ، جس کی ادائیگی اس تاریخ تک لازم ہو چکی ہے۔ ۵:… یوٹیلٹی بلز، کرایہ وغیرہ جن کی ادائیگی اس تاریخ تک لازم ہو چکی ہو۔ ۶:… گزشتہ سالوں کی زکاۃ اگر ابھی تک ادا نہ کی گئی ہو۔ ۷:… قسطوں پر خریدی ہوئی چیز کی واجب الاداء قسطیں۔ اب ماقبل میں ذکر کیے گئے ’’وہ اثاثے جن پر زکاۃ واجب ہوتی ہے‘‘ کی تمام صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کل قیمت جمع کر لیں، پھر ’’جو رقم مالِ زکاۃ سے منہا کی جائے گی‘‘ میں ذکر کی گئی صورتوں کے ہونے کی صورت میں تمام چیزوں کی قیمت جمع کر کے پہلی رقم میں سے نفی کر لیں، اب جو رقم باقی بچے، اس کا چالیسواں حصہ(یعنی : ڈھائی فی صد )بطورِ زکاۃ نکال کر مستحقین تک پہنچائیں۔ ناقابلِ زکاۃ اثاثے ۱:… رہائشی مکان، ایک ہو یا زیادہ۔۲:… دکان، البتہ دکان کا مال مالِ زکاۃ ہوتا ہے۔ ۳:…فیکٹری کی زمین، بشرطیکہ فروخت کی نیت سے نہ لی گئی ہو۔ ۴:… دکان، گھر، فیکٹری کا فرنیچر۔ ۵:… زرعی زمین، بشرطیکہ فروخت کی نیت نہ ہو۔ ۶:… کرایہ پر دیا ہوا مکان، دکان یا فلیٹ۔ ۷:… مکان، دکان، اسکول یا فیکٹری بنانے کے لیے خریدا ہوا پلاٹ۔ ۸:… کرایہ پر چلانے کے لیے ٹرانسپورٹ گاڑی، مثلاً: ٹیکسی، رکشہ یا بس وغیرہ۔ مذکورہ اشیاء پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین