بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو الحجة 1446ھ 02 جون 2025 ء

بینات

 
 

فروعی اختلافات اور سلفِ صالحین کا منہجِ اختلاف

فروعی اختلافات اور سلفِ صالحین کا منہجِ اختلاف


اسلامی معاشرے میں فقہی وفروعی اختلاف امرِ واقعی ہے، بلکہ امت کے لیے مفید اور باعثِ رحمت ہے۔ مسائلِ فقہیہ اور دیگر فروعی مسائل میں اختلاف کا ثبوت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے سے ہے۔ تابعین اور تبع تابعین بھی بعض مسائل میں باہم اختلافِ رائےرکھتے تھے، انہوں نے اس اختلاف کو دین کی رحمت، وسعت‎اور امت کے لیے آسانی کے طور پرسمجھا، مختلف زمانوں میں کئی اہل علم نے ان مسائل میں اختلاف ختم کرکے امت کو ایک مسئلہ پر جمع کرنے کی کوشش کی، مگر جمہور علماءِ سلف اس بات پر راضی نہ ہوئے، کیوں کہ اختلاف ایک فطری چیز ہے، اسی طرح ذہنی سطح اور استعداد وصلاحیت کا تفاوت بھی مسلّم ہے۔ حضرت شیخ محمد عوامہ حفظہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: 
’’السعي في توحيد المذاہب، وحمل الناس علٰی واحد منہا، جنون أوضلال۔‘‘
ترجمہ: ’’فقہی مسالک اور فروعی مذاہب کو ایک بنانے اور تمام مسلمانوں کو اس ايک پر جمع کرنے کی کوشش حماقت یا راہِ حق سے روگردانی ہے۔‘‘ (أدب الاختلاف في مسائل العلم والدين، ص:۲۷، دار اليسر)
اسی سلسلہ میں ایک شخص نے خلیفہ راشد حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز (۱۰۲ھ)  رحمۃ اللہ علیہ  سے عرض کیا: 
’’لو جمعت الناس علی شيء؟ فقال: ما يسرني أنہم لم يختلفوا، قال: ثم کتب إلی الآفاق وإلی الأمصار: ليقض کل قوم، بما اجتمع عليہ فقہاؤہم۔‘‘
ترجمہ: ’’اگر آپ تمام لوگوں کو ایک ہی عمل پر جمع کردیں ( تو زیادہ بہتر ہے)، آپؒ نے فرمایا : ان (فقہاء اور علماء) کے اختلاف نہ کرنے سے مجھے بالکل خوشی نہیں ہوتی( بلکہ ان کے اختلاف سے خوشی ہوتی ہے)۔ بعد ازاں آپ ؒ نے اپنے ماتحت تمام شہروں میں لکھ بھیجا کہ ہر علاقے کے لوگ اسی مسئلہ پر عمل کریں، جس پر وہاں کے فقہاء متفق ہوں۔‘‘ (سنن الدارمي، باب اختلاف الفقہاء، الرقم: ۶۵۲، ۱/ ۴۸۹، دار المغني للنشر والتوزيع، المملکۃ العربيۃ السعوديۃ، ط: الأولٰی، ۱۴۱۲ ہـ)
امام دار الہجرۃ حضرت سیدنا امام مالک (۱۷۹ھ)  رحمۃ اللہ علیہ  نے جب اپنی شہرہ آفاق اور حدیث مبارک کی مقبول ترین کتاب ’’الموطا‘‘ مکمل فرمائی، تو اس کا شہرہ ہر جگہ ہونے لگا، خلیفۂ وقت (ابو جعفرمنصور) نے حج کے سفر کے دوران ان سے ملاقات کرکے یہ درخواست کی: ’’ہم چاہتے ہیں آپ کی کتاب کے نسخے لکھوا کر تمام بلادِ اسلامیہ میں پھیلا دیں، تاکہ ہر جگہ اسی کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔‘‘ آپؒ نے دور اندیشی پر مبنی بصیرت افروز جواب ارشاد فرمایا:
’’ ایسا ہر گز مت کیجیے! ہر علاقے میں ہم سے پہلے علم پہنچ چکا ہے، انہیں اسی کے مطابق عمل کرنے دیں جو انہوں نے اپنے لیے پسند کیا ہے، کیوں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے اکثر مدینہ منورہ سے نکل کر مختلف شہروں میں جا بسے تھے، کوفہ، بصرہ اور شام ان تمام علاقوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کثیر تعداد اور ان کے ساتھ ساتھ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   کا علمی ورثہ پہنچ چکا ہے۔‘‘ (ملخص من الانتقاء في فضائل الأئمۃ الثلاثۃ الفقہاء لابن عبد البرؒ (۴۶۳ھ)، باب في رئاستہٖ، ووجاہتہٖ في علم الدين عند العامۃ والسلاطين، ص:۸۰، المکتبۃ الغفوريۃ العاصمۃ کراتشي، باکستان)
حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز  رحمۃ اللہ علیہ  کا فقہی اختلاف پر خوشی کا اظہار اور امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  کی یہ وسعتِ نظری اسی بات کا نتیجہ تھی کہ انہیں مزاجِ نبوت سے شناسائی تھی۔ وہ اسباب ِاختلاف اور مقاصدِ اختلاف سے واقف تھے اور انہیں فروعی مسائل میں اختلاف کے رحمت ہونے کا یقین تھا، یہ تاریخی حقیقت ہےکہ جب بھی کسی نے اتحادِ مسالک کی کوشش کی ، اس سے نہ صرف ایک اور مسلک وجود میں آیا، بلکہ عموماً وہ فتنہ کاباعث اور امتِ مسلمہ میں انتشار کا سبب بنا ہے۔ 
الغرض ائمہ اُمت کئی اصولی وکلامی بنیادوں میں اتفاق کے باوجود فروعی اختلاف میں وسیع پھیلاؤ رکھتے ہیں۔
فقہاء اسلام کی اختلافی آراء کی بدولت آج بھی اسلامی تعلیمات کی افادیت اور اس میں پنہاں راہنمائی کا عنصر آباد و شاداب ہے اور قیامت تک باقی رہے گا (ان شاء اللہ تعالیٰ) یہ علمی آراء عقلی اور ذہنی شعور کی بڑھوتری کا ذریعہ ہیں۔ نصوصِ شرعیہ کی متنوّع علمی جولانیاں، قرآن کریم اور سنتِ رسول (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کا ہمہ جہتی مطالعہ اور زندگی کے تمام شعبوں کے لیے ان مصادر کی افادیت و جامعیت اسی نظریۂ اختلاف کی دَین ہے۔
لیکن آراء کا یہ علمی اختلاف ان علمائے عظام اور ائمہ سلف کے اخلاق و کردار اور باہمی ربط و تعلق میں بگاڑ کا سبب تھا، نہ ہی اس کو بنیاد بنا کر وہ ایک دوسرے کی تحقیر و تنقیص کرتے تھے، کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ اجتہادی مسائل میں اختلاف، نفرت و بغض کا سبب نہیں ہوسکتا اور نہ ہی یہ حق و باطل کا معیار ہے، تاریخی روایات میں اگرچہ اختلاف کی وجہ سے جدل وجدال کے کچھ واقعات منقول ہیں، لیکن ان واقعات کی شرح فیصد اخلاقی اقدار کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، لیکن تفرق پسندی کے نتیجہ میں جدلی واقعات کی شہرت زیادہ ہوگئی ۔ 
اس موقع پر امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کا واقعہ بیان کرنا انتہائی موزوں معلوم ہوتا ہے، علامہ ذہبی (۷۲۸ھ)  رحمۃ اللہ علیہ  ’’سیر أعلام النبلاء‘‘ میں نقل فرماتے ہیں:
’’قال يونس الصدفي: ما رأيت أعقل من الشافعي، ناظرتہ يومًا في مسألۃ، ثم افترقنا، ولقيني، فأخذ بيدي، ثم قال: يا أبا موسٰی، ألا يستقيم أن نکون إخوانًا وإن لم نتفق في مسألۃ؟‘‘  (سير أعلام النبلاء للذہبي: ۱۰: ۱۱، مؤسسۃ الرسالۃ)
ترجمہ: ’’حضرت یونس صدفی  رحمۃ اللہ علیہ  ( یہ امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  کے شاگرد اور ہم عصر تھے) فرماتے ہیں: میں نے امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  سے بڑھ کر کسی کو عقل مند نہیں دیکھا، ایک دن ہمارا کسی مسئلہ میں مناظرہ ہوا، (جس پر اتفاق نہیں ہو سکا) اور ہم جدا ہو گئے، پھر وہ ( بعد میں ) مجھ سے ملے، میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:اے ابو موسیٰ! کیا یہ رویہ درست نہیں کہ ہم بھائی بھائی ہو جائیں، اگر چہ ہمارا مسائل میں اختلاف ہو۔‘‘
یہ سلف صالحین کا عملی نمونہ ہے، جو فروعی اختلاف اور معاشرتی بھائی چارگی کاحسین امتزاج ہے، موجودہ علمی ماحول، فقہی مسائل اور عام خاندانی اور معاشرتی زندگی میں اس جذبہ کی بہت ضرورت ہے کہ مسائل میں اختلاف تفرق ، انتشار، ذہنی کڑھن اور بددلی و بد گمانی کاباعث نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ماحول پیدا کرنے کے لیے مستقل ایک فکر، محنت اور دعوت کی ضرورت ہے۔ 
 اس طرح کے اور کئی واقعات ذخیرۂ تاریخ کا اوجھل حصہ ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے ان فروعی اختلاف میں ایک دوسرے کی عزت و احترام کا پاس رکھنا اور مدِمقابل کو خود سے برتر سمجھ کر، ان کے مقام و مرتبہ کا اعتراف کرنا، سلفِ صالحین کا شیوہ تھا ۔ موجودہ پر فتن، ذہنی انتشار، دلی بیزاری، خود پسندی اور اعجاب بالرأی کے دور میں آداب ِ اختلاف اور مقاصدِ اختلاف کوسمجھنا انتہائی ضروری ہے، ورنہ یہ بیماریاں‘ دین بیزاری، سلف سے لا تعلقی اوراپنی سندوں سے کاٹنےکا سامان فراہم کر چکی ہیں اور متوارث دینی بنیادوں کی جڑیں متزلزل کرنے کو ہیں۔ 

فروعی مسائل کے اختلاف میں افراط وتفریط

فروعی مسائل کے اختلاف میں علمی اور عملی دونوں میدانوں میں افراط اور تفریط پائی جاتی ہے:
 افراط اس طرح کہ ان مسائل کو حق و باطل کا معیار اور اسلام و کفر کی سرحد بنا کر پیش کیا جانے لگا ہے، بعض حضرات اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اظہار تو نہیں کرتے، لیکن ان کا طرزِ عمل اور رویہ اسی بات کی غمازی کرتا ہے، جو طعن و تشنیع، گالم گلوچ، تحقیر وتنقیص اور بُرے القابات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ طرزِعمل اور فاسد فکر‘ اسبابِ اختلاف، آدابِ اختلاف نہ پہنچاننے کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ 
تفریط یہ ہے کہ فروعی مسائل میں اختلاف کو ہی غلط سمجھنا اور یہ کہنا کہ یہ صرف علماء کی اپنی کارستانیاں ہیں اور پوری اُمت کو ایک مسئلہ پر جمع ہو جانا چاہیے، ایسے لوگ اس طرح کے اختلاف کوہی ختم کردینے کے داعی ہیں، جس کے لیے قرآن کریم کی تفرقہ والی آیات کا سہارا لیتے ہیں، جبکہ اختلافات کا خاتمہ عقل کے بھی خلاف ہے اور مزاجِ شریعت کے بھی منافی ہے۔ ایسے حضرات تاریخِ اختلاف اور مقاصدِ اختلاف سے ناواقف ہیں۔
  علمائے کرام نے امت کو ان دونوں غلط افکار سے بچانے کی مختلف سطح پر کاوشیں کی ہیں۔ اسبابِ اختلاف کے حوالہ سے شیخ الحدیث مولانا زکریا  رحمۃ اللہ علیہ  کا رسالہ ’’اختلاف الائمہ‘‘ اور اسباب اور آدابِ ِاختلاف سمجھنے کے لیے شیخ عوامہ حفظہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’أدب الاختلاف في مسائل العلم والدین‘‘ بہترانتخاب ہو سکتا ہے۔

فروعی اختلاف میں مثالی طرزِ عمل

فروعی اختلاف کے حوالہ سے مثالی طرزِ عمل، علمی اور نظریاتی طرزِ فکر یہ ہونا چاہیے :
ؓ    اختلاف کو رحمت سمجھا جائے، کیوں کہ اس سے نصوص کی ہمہ جہتی معلوم ہوتی ہے، ایک ہی بات کے مختلف اور متعدد پہلو سامنے آتے ہیں، جس سے فہم و بصیرت کو جِلاملتی ہے، عقلیں روشن اور بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
ؓ       اختلاف کرنے کا اہل کون ہے؟ کس کا اختلاف قابلِ غور ہو سکتا ہے؟ اس کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے، جو جس فن کے ماہر ہوتے ہیں، وہی لوگ اس فن میں اختلاف کرنے کے اہل ہوتے ہیں، جو شخص اس میدان کا نہیں، اسے اختلاف سے خود کو بچانا چاہیے۔
ؓ       اختلاف‘ اصلاحِ امت کا ذریعہ ہونا چاہیے، ناکہ امتِ مسلمہ میں تفرقہ بازی اور فتنہ انگیزی مقصود ہو۔
ؓ       اختلاف میں مدِمقابل کے علمی مقام و مرتبہ کا لحاظ رکھا جائے، جو گفتگو سے بھی نظر آئے اور طرزِ عمل سے بھی۔
ؓ       اختلاف‘ حسد، کینہ اور بغض و عناد کی آمیزش سے پاک ہونا چاہیے ۔
ؓ       اختلاف میں جو بات درست لگے، دلائل کی بنیاد پر ٹھوس انداز میں بیان کر دینی چاہیے، تاہم بعد ازاں اس پر اصرار نہیں کرنا چاہیے کہ پوری امت اسی بات کو تسلیم کرے ۔
ؓ       اختلاف ان مسائل میں کرنا چاہیے جن مسائل میں شریعت کی طرف سے گنجائش رکھی گئی ہے، جن پر اجماع ہو چکا ہو یا جوامور نصوص سے ثابت ہیں، ان میں اختلاف ضلال، گمراہی اور فتنہ ہے ۔
ؓ       اختلاف سے پہلے اسبابِ اختلاف، مقاصدِ اختلاف اور آدابِ اختلاف کو اچھی طرح پڑھ اور سمجھ لینا چاہیے۔
ؓ        آدابِ اختلاف کی عملی تربیت کے لیے معتدل علماء کرام کی مجالس اختیار کرنی چاہئیں اور سلف صالحین کے واقعات کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے۔

سلف صالحین کے علمی خطوط کی اہمیت

ذخیرۂ تاریخ میں سلفِ صالحین اور ائمہ متبوعین کے آپس کے ایسے مکالمات اور خطوط موجود ہیں، جن میں مفید علمی مباحث، دقیق علمی وفنی نکات، اہم بنیادی اصول، مناہجِ استدلال، فوائدِجلیلہ اور ادبی شہ پاروں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے متعلق محبت بھرے القابات، خیر خواہانہ جذبات، مدِمقابل کے علمی قد وکا ٹھ کا کھلے دل سے اعتراف اور دوسرے کے مقام ومرتبہ کی رعایت کے بہترین مناظر چھلکتے ہیں، جن سے آدابِ اختلاف، اسبابِ اختلاف اور اصولِ اختلاف سمجھے جاسکتے ہیں۔ عالمِ عرب کے مشہور محقق ومحدث، شیخ المشایخ حضرۃ الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے ائمہ سلف میں سے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ   (۱۵۰ھ) کا مکتوب بنام فقیہ بصرہ امام عثمان البتی (۱۴۳ھ) اور امام دار الہجرۃ مالک بن انس(۱۷۹ھ) اورفقیہ مصر لیث بن سعد (۱۷۵ھ) w کے آپس کے مکاتیب کو تحقیق کے ساتھ مرتب کرکے ایک رسالہ کی صورت میں شائع کیا ہے، جس کانام ’’نماذج من رسائل الأئمۃ السلف وأدبہم العلمي‘‘ ہے، جو آدابِ اختلاف اور اسباب ِ اختلاف کے باب میں سلفِ صالحین کا منہج جاننے کے لیے ایک قیمتی خزینہ ہے۔ ان مکاتیب کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ جلد منصہ شہود پر لانے کی توفیق نصیب فرمائیں۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین