بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

فرض نمازوں کے بعد دعا کی اہمیت (دوسری قسط)

فرض نمازوں کے بعد دعا کی اہمیت                             (دوسری قسط)

نماز کے بعد دعاترک کرنے پر حدیث میں مذمت ۱۵:…امام ابودائود vاورامام ابن ماجہv نے حضرت مطلب بن ابی وداعۃ q سے نقل کیاہے کہ رسول اللہ aنے ارشاد فرمایا: ’’تہجد (کی نماز)دودورکعتیں ہیں،ہر دورکعت پر قعدہ ہے،اورنماز خشوع وخضوع اور تمسکن ہے،اورآپ اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے پروردگار کی طرف اٹھائیں،اوریوں کہیں (دعامانگیں)اے اللہ !میری مغفرت فرما۔پس جس نے ایسانہیں کیا(یعنی دل نہ لگایا،نہ عاجزی اور مسکنت وبے چارگی ظاہر کی، اس میں دعانہ کرنا بھی شامل ہے)تو(ایسی)نمازناقص ہے‘‘۔ (۱) آپa کایہ فرمان :’’وتشہد فی کل رکعتین‘‘یہ آپa کے قول’’مثنٰی‘‘کی تفسیر ہے،جس طرح کہ امام ابوحنیفہv نے حدیث’’صلاۃ اللیل مثنیٰ مثنیٰ‘‘(کے الفاظ) ’’مثنی مثنی‘‘ کی تفسیر اس (تشہد فی کل رکعتین) سے فرمائی ہے،اور (حدیث میں مذکور)لفظ تشہد اوراس پر عطف(کردہ الفاظ)’’تباء س‘‘اور’’ تمسکن‘‘ افعال مضارع(کے صیغے)ہیں،ان (کے شروع میں)سے ایک تاء کو تخفیفاً حذف کیاگیاہے۔ اور آپa کے قول’’تباء س‘‘سے مراددعا کے اندر خضوع یعنی عاجزی کرنے کو کہتے ہیں اور یہ (تباء س)’’بؤس‘‘سے ہے،عاجزی اورفقر وحاجت کے اظہار کو کہتے ہیں، اور (لفظِ) ’’تمسکن‘‘ یعنی اپنی دعامیں تضرع اور بے چارگی وبدحالی ظاہر کرنے کہتے ہیں۔ ’’تقنع یدک‘‘یہ اقناع سے ہے، اٹھانے کے معنی میں آتاہے (یعنی دعامیں دونوں ہاتھوں کو اٹھانا مرادہے)اسی طرح صاحب نہایہ نے فرمایا ہے اور لفظِ’’خداج‘‘کامعنی ہے: ناقص ہونا۔ یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ دعامیں ہاتھ اٹھانے کاحکم اس بات پر دلیل ہے کہ اس دعا سے مراد وہ دعاہے جو دعاسلام کے بعد ہو،اس لیے کہ سلام سے پہلے دعا(کرنے)میں رفع الیدین (یعنی ہاتھ اٹھانا)نہیں ہے،اور نہ ہی کسی نے اس (سلام سے قبل دعامیں رفع الیدین کے)قول کو اختیار کیا ہے۔ ۱۶:…امام ابودائود vنے حضرت ابو رمثہqسے روایت کی ہے :فرماتے ہیں کہ نبی کریم a نے نماز پڑھی،پھر آپaپِھر کر بیٹھ گئے،وہ شخص جو تکبیر اولیٰ میں شریک تھا کھڑاہوگیا اور دورکعت نماز پڑھنے لگا۔ حضرت عمر q(یہ دیکھ کر )فوراً اُٹھے،اور اس شخص کے دونوں مونڈھے پکڑکر ہلائے اورفرمایا کہ بیٹھ جائو، کیوں کہ اہل کتاب(یعنی یہود ونصاریٰ)اسی لئے ہلاکت کی وادی میں جاگرے کہ وہ اپنی نمازوں کے درمیان (دعاکے ذریعہ)جدائی نہیں کرتے تھے۔(حضرت عمرqکی یہ بات سن کر )نبی کریم a نے نظر مبارک اوپر اٹھائی اور فرمایا کہ :اے خطاب کے بیٹے!اللہ نے تمہیں راہِ حق پر پہنچایا (یعنی تم نے سچ کہا)۔(۲)صاحب مشکوٰۃ نے اس حدیث کو’’باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘میں ذکر فرمایا ہے۔ ۱۷:…امام عبدبن حمید،امام ابن جریر،امام ابن المنذر،امام ابن حاتم اورامام ابن مردویہw نے مختلف سندوں سے حضرت ابن عباس rسے اللہ تعالیٰ کے فرمان:’’فإذا فرغت فانصب‘‘ کے بارے میں نقل کیاہے کہ (انہوں نے اس کی تفسیر میں)فرمایاکہ:جب تم نماز سے فارغ ہوجائو تواپنے رب کی طرف دعامیں اپنے آپ کو تھکادو اوراس سے اپنی حاجت طلب کرو۔ ۱۸:…امام ابن ابی الدنیا v نے حضرت عبداللہ بن مسعود q سے نقل کیاہے کہ ’’فَإِذَا فَرَغْتَ (من الصلاۃ)  فَانْصَبْ (إلی الدعائ) وَإِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ (فی المسألۃ)‘‘یعنی جب نماز سے فارغ ہوجائیں تودعامیں توجہ ومحنت کریں اور اپنے رب کی طرف دعامیں رغبت کریں۔ ۱۹:…امام فریابی،امام عبدبن حمید،امام ابن جریراورامام ابن ابی حاتمw نے حضرت مجاہد v سے نقل کیاہے کہ:انہوں نے ’’فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ‘‘کی تفسیر میں فرمایا: ’’جب تم بیٹھ جائو تودعااور سوال کرنے میں خوب محنت اور مشقت کرو‘‘۔ ۲۰:…امام عبدالرزاق،امام عبدبن حمید،امام ابن جریر،امام ابن المنذرw نے حضرت قتادہ v سے’’فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ‘‘ کی تفسیر میں نقل کیاہے کہ انہوںنے فرمایا: ’’یعنی جب تم اپنی نماز سے فارغ ہوجائو تودعامیں خوب محنت کرو‘‘۔ ۲۱:… حضرت عبدبن حمیدv،امام ابن نصرv نے حضرت ضحاکw سے ’’فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ‘‘ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :’’جب تم اپنی فرض نماز سے فارغ ہوجائو تواپنے رب کی طرف دعااورمانگنے میں رغبت کرو‘‘۔ ۲۲:…امام شمس الجزری v نے’’ الحصن الحصین‘‘میں یہ حدیث ذکر فرمائی ہے کہ: ’’مَنْ قَرَأَ آیَۃَ الْکُرْسِیِّ دُبُرَ کُلِّ صَلَاۃٍ مَکْتُوْبَۃٍ، لَمْ یَمْنَعْہُ مِنْ دُخُوْلِ الْجَنَّۃِ إِلاَّ أَنْ یَّمُوْتَ‘‘۔(۳) ترجمہ:’’ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے گا، اس کے لیے جنت میں داخلہ سے سوائے موت کے کوئی چیز مانع نہیں ہے‘‘۔ اس حدیث مبارکہ کو امام نسائی vنے اپنی سنن میں اور امام ابن حبانvنے اپنی صحیح میں (بل أخرجہ فی کتاب الصلوۃ المفرد وصححہ فیہ) اورامام ابن السنی v نے ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘ میں نقل فرمایاہے،جبکہ حضرت ملاعلی قاریv نے’’ الحصن الحصین ‘‘پراپنی شرح میں یہ اضافہ فرمایا ہے کہ امام طبرانی v نے بھی اس حدیث کونقل کیاہے اوران سب نے اس کو حضرت ابو امامہq سے نقل کیاہے۔(۴)میںکہتاہوں کہ اس باب میں جو احادیث نبویہ l ہم نے ذکر کی ہیں، ان سے ثابت ہوتاہے کہ فر ض (نماز) کے بعددعا(کرنا) سنت ہے۔ اعتراض: اگر کہاجائے کہ شیخ عبدالحق دہلویv ’’الصراط المستقیم‘‘پر اپنی شرح میں فرماتے ہیں کہ: یہ جو آج کل عرب وعجم کے شہروں میں جو طریقہ متعارف ہواہے کہ مساجد کے ائمہ اور مقتدی حضرات سلام (پھیرنے )کے بعد اجتماعی دعاکرتے ہیں(اس طور پرکہ)امام حضرات دعاکرتے ہیں اورمقتدی آمین کہتے ہیں،یہ نبی کریم a کی ہدایات وطریقہ(اور تعلیمات میں سے)نہیں ہے، اور اس بارے میں کوئی حدیث نہیں آئی ہے،(بلکہ)یہ ایک بدعت ہے جس کو پسند کرلیا گیا ہے، تو اس کا جواب کیاہوگا؟ جواب: میں کہتا ہوں کہ اس کاجواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے: ۱:… ایک جواب یہ ہے کہ ’’مفتاح الصلاۃ‘‘کے مصنف علامہ فتح محمد بن الشیخ عیسیٰ السطاوی اپنی ’’فتوح الصلاۃ‘‘نامی کتاب میں فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ وحاصل یہ ہے کہ ـبے شک شیخ عبدالحق v نے اس پر بدعت (ہونے )کاحکم لگایا،اس لیے کہ شیخ دہلوی v صحاح ستہ وغیرہ میں مروی وہ احادیث جونماز کے بعد دعائوں کے بارے میں منقول ہیں، اس پر مطلع نہیں ہیں۔ (شیخ عیسٰی کاکلام ختم ہوا) ۲:…دوسراجواب یہ ہے کہ اگرانہوں (شیخ عبدالحق v)نے یہ مراد لیاہے کہ نفس دعا نماز کے بعد بدعت ہے،توبلاشک ان کاقول صحیح نہیں ہے،اس لیے کہ کہ ان کا یہ قول مردود ہے ان مذکورہ احادیث نبویہ l کی بنا پر جو فرض نماز کے بعد دعاکی سنیت پر دلالت کرتی ہیں۔ ۳:…تیسراجواب یہ ہے کہ اگر شیخ عبدالحقvکی مراد یہ ہو کہ نماز کے بعد دعااس مخصوص کیفیت کے ساتھ کہ ہاتھوں کواٹھانا اور مقتدیوں کا آمین آمین کہنابدعت ہے، تویہ بھی صحیح نہیں، اس لیے کہ ہاتھ اٹھانا(یعنی ہاتھ اُٹھاکر دعاکرنا)دعاکے سنن یعنی طریقوں میں سے ہے،اوردعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پرپھیرنا بھی سنن دعامیں سے ہے، اور سامعین کی طرف سے آمین آمین کہنابھی سنن دعا میں سے ہے، اگر چہ یہ امور و(طریقے) سنن مستحبہ (سنن مؤکدہ) میںنہیں ہیں۔ اور سنن منقولہ سے مرکب کام کو بدعت قرار دیناصحیح نہیں ہے، اور رہی یہ بات کہ ہاتھ اٹھانا دعاکے طریقوں (آداب) میں سے ہے، سو یہ احادیث نبویہ سے ثابت ہے۔ دعامیں ہاتھ اُٹھانے کے بارے میں مروی احادیث ۲۳:…دعا میں ہاتھ اٹھانے کی بابت منقول روایات میںسے ایک روایت یہ ہے جس کوامام ابودائود vنے بسند خلاد بن السائب عن ابیہ اورسائب بن یزید عن ابیہ یہ روایت نقل فرمایا ہے کہ جب رسول اللہ aدعافرماتے توہاتھ مبارک اٹھاتے اور(دعا سے فارغ ہوکر)ہاتھوں کو چہرئہ انور پر پھیرتے۔ امام طبرانی v نے اس روایت کو اپنی معجم کبیر میں’’عن خلاد بن السائب عن ابیہ‘‘کی سند سے نقل کیا ہے۔ ۲۴:…اسی طرح امام ترمذیv نے حضرت عمر بن خطابqسے نقل فرمایا ہے کہ رسول اللہ a جب دعا میں ہاتھ مبارک اٹھاتے توچہرئہ اقدس پر پھیرے بغیر نیچے نہیں فرماتے تھے۔ ۲۵:…اور امام ابودائودvنے اسی طرح کی ایک روایت حضرت ابن عباس rاور انہوں نے نبی کریمaسے نقل فرمائی ہے۔ اسی طرح (رفع الیدین فی الدعاء کی دلیل یہ بھی ہے کہ )امام ابن الجزری vصاحب ’’الحصن الحصین‘‘فرماتے ہیں کہ :بے شک (دعامیں)ہاتھوں کو اٹھانا دعاکے آداب میں سے ہے (اور) اس کو (محدثین کی )ایک جماعت یعنی اصحاب کتب ستہ نے روایت کیاہے، اور یہ بات کہ ہاتھ کندھوں کے برابر تک اٹھے ہوئے ہوں، اس کو امام احمد vنے اپنی ’’مسند‘‘،امام ابودائود v نے اپنی ’’سنن ‘‘اور امام ابوبکر بن ابی شیبہ vنے اپنی مصنف میں نقل کیاہے۔(۵)  ۲۶:…ان روایات میں سے ایک روایت وہ بھی ہے جس کو حضرت ابن عباسrنے نقل فرمایا ہے کہ رسول اللہa نے فرمایا کہ:اللہ تعالیٰ سے مانگنایہ ہے کہ دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھائے یااس کے برابر۔امام ابودائود vنے اس روایت کو نقل کیاہے اور الفاظ انہی کے ہیں،اورامام حاکم vنے مستدرک میں اسے روایت کیاہے۔ ۲۷:…اسی طرح ایک روایت وہ بھی ہے جو حضرت علیqسے منقول ہے کہ ہاتھوں کا اٹھانا استکانہ(عاجزی)ہے، جس کاذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ :’’(ان کافروں نے )نہ عاجزی کی اورنہ اللہ کے سامنے گڑگڑائے۔‘‘ دعاکے وقت ہاتھوں کے اٹھانے کے بارے میں احادیث بہت اور مشہورہیں۔ اور رہی یہ بات کہ دعا سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنادعاکے آداب میں سے ہے تویہ بھی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے،جن میں سے ابودائودؒ وطبرانیؒ کی دعامیں رفع الیدین کے بارے میںروایت ابھی آپ کے سامنے ہم نے پیش کیں۔اوربعض وہ ہیں جو ابودائود،ترمذی،ابن ماجہ،ابن حبان اور حاکمw کے حوالہ سے بعد میں آئیں گی۔ ۲۸:…ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جسے امام ترمذیvنے عمر بن خطاب qسے نقل کیاہے کہ :’’رسول اللہa جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو جب تک چہرے پر پھیرنہ لیتے واپس نہ کرتے۔‘‘ ۲۹:…ان میں کی ایک حدیث ابن ماجہ کی ہے جو انہوں نے ابن عباسrسے نقل کی ہے کہ رسول اللہaنے ارشاد فرمایا:’’جب تم دعاسے فارغ ہوجائو تواپنے ہاتھوں کو چہرے پر پھیردو۔‘‘ جہاں تک متقدمین کے اس قول کاتعلق ہے کہ’’ آمین آمین ‘‘کہنا دعاکے آداب میں سے ہے تویہ بھی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ ایک حدیث توامام جزریv نے اپنی حصن حصین میں ذکر کی ہے کہ دعاکے آداب میں سے ہے کہ سننے والا آمین کہے۔ یہ امام بخاری،مسلم،ابودائود اورنسائی wکی روایت ہے۔اور دعاکرنے والے کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ دعاسے فارغ ہونے کے بعد اپنے ہاتھوں کو چہرے پر پھیردے۔ اسے ابودائود،ترمذی،ابن ماجہ، ابن حبانw نے اپنی صحیح میں اورحاکمwنے مستدرک میں نقل کیاہے۔اوران میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب حضرت موسیٰ mنے اللہ تعالیٰ سے مختلف دعائیں مانگیں اورہارونmنے اس پرآمین کہا تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کی دعائیں قبول کیں،جیساکہ قرآن کریم میں ہے:’’قَالَ قَدْأُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا‘‘(فرمایا:کہ تم دونوں کی دعائیں قبول کرلی گئی ہیں)جیساکہ تفسیر کی کتابوں میں ہے۔ مصادر ومراجع ۱:… أبوداؤد،۲/۴۰، کتاب الصلاۃ،باب فی صلاۃ النہار۔ ۲:…أبوداؤد،۱/۳۶۲-۳۶۳،کتاب الصلاۃ، باب فی الرجل یتطوع فی مکانہ الذی صلی فیہ المکتوبۃ۔ ۳:…الحصن الحصین،ص:۷۹،ط:لکھنؤبالہند۔ ۴:…النسائی فی عمل الیوم واللیلۃ، ص:۱۸۲-۱۸۳، ثواب من قرأ آیۃ الکرسی دبر کل صلاۃ۔ ابن السنی فی عمل الیوم واللیلۃ، ص:۱۱۰،رقم:۱۲۴۔ المعجم الکبیرللطبرانی،۸/۱۱۴۔ ۵:…الحصن الحصین، ص:۳۷۔                                                 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین