بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

فرد اور اجتماعیت

فرد اور اجتماعیت


پہلی بات

زمین اپنے محور کے گرد گھومتی ہے (یعنی اپنا کام کررہی ہے)، زمین اپنی اس گردش کے دوران سورج کے گرد بھی گھومتی ہے۔ زمین اپنی اس انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ ایک اجتماعی نظام ’’نظامِ شمسی‘‘ کا بھی حصہ ہے اور وہ پورا نظامِ شمسی بھی (اپنے سیاروں اور چاندوں سمیت) رواں دواں ہے، پھر وہ بھی اپنے سے بڑی ایک اور اجتماعیت ’’کہکشاں ‘‘ کا حصہ ہے، پھر یہ کہکشائیں بھی اپنے سے بڑی ایک اور اجتماعیت ’’گلیکسی‘‘ کا حصہ ہیں۔ الغرض ہر کرہ حرکت میں بھی ہے اور کسی اجتماعیت کا حصہ بھی ہے۔ 
اسی طرح دنیا کی ہر چیز اپنی انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ کسی اجتماعیت کا حصہ بھی ہے، چاہے وہ درخت ہوں یا پھل پھول، پودے، درند، چرند، پرند ہوں یا خشکی تری کے جاندار، وغیرہ، ہر کوئی کسی نا کسی اجتماعیت کا حصہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کائنات کا مزاج اجتماعیت والا ہے۔ 

دوسری بات

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’یٰٓاَیُھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ (التوبہ:۱۱۹)
’’اے ایمان والو! الله تعالیٰ سے ڈرو اور (عمل میں) سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘
 اس آیتِ کریمہ میں دو باتوں کا حکم ہے:
۱:- انفرادی سطح پر تقویٰ اور خدا خوفی پیدا کرو۔ 
۲:- اس کے ساتھ ساتھ سچے اور نیک لوگوں کے ساتھ جڑجاؤ۔ 
یعنی اپنی ذات میں تقوے والی زندگی (جس میں فرائض، واجبات اور اللہ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت ہو اور حرام اور نافرمانی سے بچاؤ ہو) گزارو، لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سچے اور نیک لوگوں کے ساتھ جڑنا بھی شروع کرو، اکیلے نہ رہو۔ 

تیسری بات: آخرت کا منظر 
 

قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا‘‘ (مریم : ۹۵)
’’اور وہ سب کے سب قیامت والے دن اکیلے اکیلے آئیں گے۔ ‘‘
یعنی قیامت والے دن اللہ کے حضور پیشی انفرادی ہوگی، ایک ایک فرد کو اکیلے اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر حساب کتاب دینا ہوگا، وہاں پیشی قوموں، قبیلوں، جماعتوں کی شکل میں نہیں ہوگی، کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا، وہاں اپنے ہی اعمال کام آئیں گے، کوئی دوسرا کسی کے کام نہیں آئے گا، نہ اپنی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈالی جاسکے گی، یہاں تک کہ شیطان پر بھی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکے گی، حالانکہ دنیا میں وہ بہکاتا بھی رہا۔ 
لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث میں یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ انسان کو اعمالِ صالحہ کی حفاظت اور پابندی کے لیے پاکیزہ اجتماعیت کا حصہ بننا بھی ضروری ہے، کیونکہ اکیلا ہمیشہ خطرے میں رہتا ہے، جیسے اکیلے کو چور ڈاکو آسانی سے لوٹ سکتے ہیں اور آٹھ دس کو لوٹنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح دین ایمان کے ڈاکو شیاطین اور انسان نما شیاطین بھی اکیلے آدمی کا دین ایمان آسانی سے لوٹ لیتے ہیں، جبکہ جہاں’’ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ‘‘ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے چند سچے اور نیک لوگ اپنی اجتماعیت قائم کردیں ان کو لوٹنا یا گمراہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے، لہٰذا فرد اور اجتماعیت کے اپنے اپنے دائرے ہیں۔ 

اجتماعیت کی اہمیت

۱:’’عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَۃِ؛ فَإِنَّ يَدَ اللہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ، وَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَہُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ اَبَعْدُ۔‘‘ (شعب الایمان للبيہقی، الحدیث:۱۰۵۷۴، ج:۱۳، ص:۴۲۶، ط:مکتبۃ الرشد) 
’’تم جماعت کو لازم پکڑو، اور فرقہ فرقہ ہونے سے بچو، کیونکہ شیطان اکیلے کے ساتھ اور دو سے دور ہوتا ہے۔ ‘‘ 
’’يَدُ اللہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ ، فَاتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأعْظَمَ، فَإِنَّہٗ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ ۔‘‘(الجامع الصحیح للسن والمسانید، ج:۴، ص: ۲۴۵)
’’جماعت کے ساتھ اللہ کی مدد ہوتی ہے، اور سوادِ اعظم کی اتباع کرو، جو جماعت سے کٹا وہ جہنم میں داخل کردیا جائے گا۔ ‘‘ 
’’مَنْ مَّاتَ وَلَیْسَ فِيْ عُنُقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مَیْتَۃً جَاھِلِیَّۃً۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم:۷۶۹)
’’جو اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں (امیر جماعت کی) بیعت کا قلادہ نہ ہوا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔ ‘‘
یعنی بغیر جماعت اور بغیر بیعتِ امیر کے زندگی گزارنا اسلام سے پہلے جاہلیت کے دور کی باتیں ہیں، اسلام نے اپنا ایک نظام دیا ہے جس میں ہر فرد اجتماعیت کی لڑی میں پرویا ہوا اور امیر کی بیعت میں بندھا ہوا ہے، شتر بے مہارکی طرح کوئی نہیں۔ 
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قرآن میں ’’حبل اللہ‘‘ سے مراد جماعت اور اجتماعیت ہے۔ 
انسان گروہوں، قبیلوں، اور جماعتوں کی شکل میں رہنا پسند کرتا ہے، چنانچہ تاریخ انسانی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ مل جل کر رہتے رہے ہیں۔ ماہرینِ نفسیات بھی کہتے ہیں: ایک طرف انسان میں ’’اَنا‘‘ خودی اور انفرادیت ہے تو دوسری طرف اجتماعیت کا حصہ بننا بھی پسند کرتا ہے۔ اسلام میں ایک طرف اپنی ذات اور اعمال کا ذمہ دار انسان کو خود قرار دیا گیا ہے تو دوسری طرف اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے کا حکم بھی اسلام نے ہی دیا ہے۔ 

حاصل سبق

اگر کوئی فرد بہت متحرک ہو، لیکن کسی اجتماعیت کا حصہ نہ بنے تو یہ مطلوب نہیں، کیونکہ یہ فطرت کے خلاف بھی ہے اور اسلام کے خلاف بھی۔ اگر کوئی فرد ساکت ہو،لیکن ساتھ ہی کسی اجتماعیت کا حصہ بن جائے تو یہ بھی پسندیدہ نہیں، کیونکہ اپنی ذات اور اعمال کا وہ خود ذمہ دار ہے۔ ایک فرد اپنی ذات میں کتنا ہی متقی کیوں نہ ہو، لیکن قرآن اسے سچوں کے ساتھ جڑنے کا حکم دیتا ہے، تاکہ یہ انفرادی نیکی کسی بڑے اجتماعی نظام کے قیام میں حصہ ڈال سکے۔ ایک فرد نافرمان ہو، بدی کے راستے پر چل رہا ہو، لیکن ساتھ وہ کسی اجتماعیت کا حصہ بن کر یہ سمجھے کہ یہ اجتماعیت مجھے آخرت میں بچا لے گی تو یہ بھی اس کی بھول ہے۔ 

فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

اجتماعیت مضبوط کیسے ہوتی ہے؟

’’اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ‘‘ (الصف:۴)
’’ اللہ تعالیٰ تو ان لوگوں کو (خاص طور پر ) پسند کرتا ہے جو اس کے رستہ میں اس طرح مل کر لڑتے ہیں کہ گویا وہ ایک عمارت ہے کہ جس میں سیسہ پلایا گیا ہے۔ ‘‘
یہ بہت جامع آیت ہے، جس میں کئی سبق مضمر ہیں:
1:- ’’يُقَاتِلُوْنَ‘‘: … اللہ کو اپنے بندوں میں سے وہ بندے محبوب ہیں جو اس کی خاطر اس کی راہ میں جان کی بازی لگانے اور خطرات مول لینے کے لیے تیار بیٹھے ہوں۔ 
2:- ’’فِيْ سَبِيْلِهٖ‘‘: … وہ بندے شعوری طور پر سوچ سمجھ کر اس کی راہ (فی سبیل اللہ) میں قتال کریں، نہ کہ کسی اور راہ یا کسی اور مقصد کے لیے۔ 
3:- ’’صَفًّا‘‘: … یعنی وہ بدنظمی اور انتشار کا شکار نہ ہوں، بلکہ صف بستہ ہو کر لڑیں،اور وہ منظم اجتماعیت میں پروئے ہوئے ہوں، صرف بھیڑ یا رش نہ ہو۔ 
4:- ’’بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ‘‘ : … کوئی بھی اجتماعیت اس وقت تک سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بن سکتی، جب تک چار صفات پیدا نہ ہوں:
۱:- عقیدے اور نصب العین میں مکمل اتفاق: اگر اس میں اختلاف ہوگا تو مضبوطی قائم نہیں رہ سکتی، لہٰذا ایک عقیدے پر جمع ہونا اور ایک مقصد پر فوکس کرنا ضروری ہے۔ 
۲:- ایک دوسرے پر اعتماد: ایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد کرنا، نہ کہ شک کیا جائے۔ اگر اعتماد نہیں ہوگا تو یہ اجتماعیت سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بن سکتی۔ 
۳:- اخلاق اور احترام کا اعلیٰ معیار: اگر یہ نہیں ہوگا تو نہ ایک دوسرے کی محبت پیدا ہوگی اور نہ عزت و احترام، نتیجۃً آپس میں ہی تصادم کا خطرہ ہے۔ 
۴:- اپنے مقصد اور نصب العین کے ساتھ عشق اور ایسا جذباتی لگاؤ جو سب کچھ قربان کرنے کے لیے آمادہ کردے۔ 
یہ وہ اوصاف تھے جو صحابہ کرامؓ کی جماعت میں پیدا ہوئے تو دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوگئیں۔ 
یہ وہ اوصاف تھے جو اجتماعیت کو مضبوط بناتے ہیں،اور اجتماعیت کو قائم رکھنے والی بنیادیں درج ذیل ہیں:

اجتماعیت کو قائم رکھنے والی بنیادیں

۱:- بیعت

بیعت کا معنی ہے عہد وپیمان۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت لیتے تھے۔ عام عہد باہمی رضامندی سے منسوخ ہو سکتے ہیں، لیکن بیعتِ شرعی منسوخ نہیں ہوسکتی۔

۲:-سمع و طاعت

اطاعت فی المعروف واجب ہے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: اگر امیر خود تو فاسق و فاجر ہو، لیکن معروف کا حکم کرے، یہاں تک کہ معروف مباح کا حکم بھی کرے تو اس کی اطاعت واجب ہے۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’اگر تمہارا امیر ’’حبشی‘‘، ’’غلام‘‘، ’’کان ناک کٹا‘‘ ہو تو بھی اطاعت کی جائے۔‘‘ (مسلم) 
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت کو اطاعتِ الٰہی قرار دیا۔ 

۳:-نصح و خیر خواہی

یہ دونوں طرف سے ضروری ہے۔ مامور اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے اور امیر زیادتی اور ظلم نہ کرے، چنانچہ جہاں ایک طرف مامور کو ہر حال میں اطاعتِ امیر کا حکم دیا گیا ہے، وہیں امیر کو بھی وعیدیں سنائی گئی ہیں، فرمایا:
’’جس امیر نے رعیت کے ساتھ دھوکہ کیا، اس پر جنت حرام ہوگی۔‘‘ (مسلم) 
’’جس امیر نے رعیت کو مشقت میں ڈالا، اللہ اُسے مشقت میں ڈالے گا اور جس نے نرمی برتی اللہ اُس سے نرمی برتے گا۔‘‘ (مسلم) 
اگر امیر میں کمزوریاں ہوں توشرعی حدود اور ادب واحترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ان کو دور کرنے کی کوشش کرے۔

۴:-عدل وانصاف

کسی بھی اجتماعیت کو قائم رکھنے کے لیے ’’عدل‘‘ بنیادی پتھر ہے، اس کے بغیر اجتماعیت بکھر جاتی ہے، اسی لیے فرمایا:
’’اِنَّ اللهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗءِ ذِي الْقُرْبٰى‘‘ (النحل:۹۰)
یعنی ’’ بے شک الله تعالیٰ اعتدال اور احسان اور اہلِ قرابت کو دینے کا حکم فرماتے ہیں۔ ‘‘
احادیث میں عادل حکمران کے بارے میں فرمایا: ’’یومِ محشر وہ عرش کے سائے تلے ہوگا۔ ‘‘
حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ  نے کعب القرظیؒ سے پوچھا: عدل کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: 
’’تم چھوٹوں کے حق میں باپ بن جاؤ، اور بڑوں کے حق میں بیٹا بن جاؤاور ہمسروں کے حق میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ ‘‘

۵:-مشاورت

یعنی دوسروں سے رائے لینا، اس سے دوسروں میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہوتا ہے، غوروفکر اور تبادلۂ خیال کا طریقہ آتا ہے، خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ مشاورت میں اپنی رائے‘ خلوص اور دلائل کے ساتھ دینے کے بعد دوسروں کی رائے کا احترام بھی ضروری ہے۔ 

۶:- تعمیری احتساب و تنقید 

کسی بھی اجتماعیت میں تنقید برائے اصلاح بہت اہم ہوتی ہے، لہٰذا ایسی تنقید جو برائے اصلاح ہو اس کی حوصلہ افزائی لازماً کرنی چاہیے، کیونکہ اجتماعیت میں کمزوریوں کا پیدا ہونا کوئی حیرت انگیز یا عجیب بات نہیں، بلکہ ایسا تو ہوتا رہتا ہے۔ 
تنقید کی بھی کچھ حدود ہیں، اگر خلوص پر مبنی تنقید مناسب وقت، مناسب انداز، مناسب ماحول میں مناسب طریقہ کار سے کی جائے تو فائدہ مند ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ 
مخلصانہ تنقید سے کسی کو بھی بالاتر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ جو جتنا بڑا ذمہ دار ہے، اسے اتنی ہی زیادہ تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھنا چاہیے۔ 
تنقید کرنے والے کو بھی بڑے چھوٹے کے آداب اور مراتب کا خیال رکھتے ہوئے تنقید کرنی چاہیے۔ اگر کوئی غلط انداز سے تنقید کررہا ہو تو اس کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے، ورنہ مسلسل غلط انداز سے تنقید‘ اجتماعیت کو نقصان پہنچاسکتی ہے، لہٰذا دوسروں کی اصلاح میں نرمی برتنی چاہیے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین