بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

بینات

 
 

فتنوں کے زمانہ میں ایمان کی اہمیت  اوراُس کی حفاظت کے طریقے


فتنوں کے زمانہ میں ایمان کی اہمیت 

اوراُس کی حفاظت کے طریقے


اللہ تعالیٰ کی اس کائنات میں اَن گنت نعمتیں ہیں، ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ایمان کی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان میری نعمتوں کا شکر ادا کرےاور ان کی حفاظت کرے اور ان نعمتوں کے تقاضوں کوصحیح طریقوں سے پورا کرتے ہوئے اس کا اظہار کرے۔ ایمان کا شکر یہ ہے کہ ایک مسلمان اس کی حفاظت کرے اور اسے اپنے ساتھ قبر تک لے جائے، گویا اپنے اور دوسروں کے ا یمان کی حفاظت کرنا یہ اہم ترین فریضہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے قرآن کریم میں ایمان والوں کو حکم دیا ہے:
’’يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘ (آل عمران:۱۰۲)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرا کرو، جیسا ڈرنے کا حق ہے اور بجز اسلام کے اور کسی حالت پر جان مت دینا۔ ‘‘
اور ایمان کا اظہار یہ ہے کہ ایمانی تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کی جائے، ایمانی صفات کے ساتھ زندگی گزارنے پر انسان کی دنیا و آخرت کی زندگی کی‎ فلاح اور کامیابی کا دارومدار ہے اورجودنیا میں نافرمانی والی زندگی گزارتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی دنیاکی زندگی تنگ کردیتا ہے اور آخرت میںبھی سخت پکڑ کا سامنا ہوگا۔ کافروں کے بارے میں آتا ہے کہ کافر جب آخرت میں اللہ کے عذاب میں گھرے ہوں گے اور مسلمانوں کو جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتا دیکھ کر بارباریہ آرزو اور تمنا کریں گے کہ کاش! ہم بھی دنیا میں ایمان لے آتے، بلکہ یہ آرزو تو موت کےوقت سے ہی شروع ہوجائے گی، جب فرشتہ جان نکالنے کے لیے کھڑا ہوگا اور موت کے بعدکے حقائق آنکھوں کے سامنے آجائیں گے، اس وقت یہ آرزو کریں گے کہ کاش! ہم بھی ایمان والوں میں ہوتے اورآج موت کے بعد جس عذاب میں ہم مبتلا ہیں، اس سے محفوظ رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کافروں کی اس آرزو کو اس طرح بیان کیا ہے:
’’رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِيْنَ‘‘ (ا لحجر:۲)
ترجمہ:’’ کافر لوگ بار بار تمنا کریں گے کہ کیا خوب ہوتا اگر وہ (دنیا میں) مسلمان ہوتے۔ ‘‘
اس آیت کے فوائد کے ضمن میں علامہ شبیر احمد عثمانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے کافروں کی اس آرزو کے مواقع ذکر کیے ہیں :
1-دنیا و آخرت کا ہر وہ موقع جن میں کافروں کو نامرادی اور مسلمانوں کو کامیابی پیش آئے گی، کفار رو رو کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا اور نعمتِ اسلام سے محروم رہ جانے کی حسرت کریں گے۔ 
2-موت کے وقت جب عالم الغیب کا مشاہدہ ہوگا۔ 
3-جب بہت سے مسلمان اپنے گناہوں کے سبب دوزخ میں ہوں گے اور ایمان کی وجہ سے رحمتِ خداوندی کی بدولت جہنم سے چھٹکارہ حاصل کرکے جنت میں چلے جائیں گے۔ 
دنیا میں انسان اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ کچھ مال دے کر اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرے، لیکن آخرت میں عذاب سے نجات کے لیے ایمان ضروری ہے، اس کے بغیر نہیں بچاجاسکتا، نہ کسی قسم کی رشوت چلے گی، بلکہ اگرفرض کریں وہاں کسی کے پاس مال ہواور وہ درخواست کرے کہ میرے سے مال لے کر مجھے چھوڑ دیا جائے، تب بھی جان نہیں چھوٹے گی۔ویسے تو ہر زمانے میں ایمان کی حفاظت ضروری رہی ہے، لیکن دورِ جدید میں جہاں ہر طرف مادیت کا ایک سیلاب ہے، ہر طرف سے فتنوں کی یلغار ہے، گویا ہر دن کوئی نہ کوئی فتنہ جنم لے رہا ہے، اس دور میں نیکی کرنا مشکل ہےتو نیکی کی حفاظت اس سے زیادہ مشکل ہے، گویا قربِ قیامت ہے کہ انسان کی دلی کیفیت رات دن کے تغیر کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے، مادی دنیا کی حصول کی خاطر اپنے ایمان کو ختم کررہا ہے، اس کو حدیث شریف میں یوں تعبیر کیا ہے:
’’بادروا بالأعمال فِتنًا کَقِطَع الليْلِ المظلم، يُصبحُ الرجلُ مؤمِنا ويُمْسِي کافِرا، ويُمسِي مُؤمِنا ويُصبْحُ کافِرا، يَبيعُ دِينَہُ بِعَرَضٍ من الدُّنْيا۔‘‘ (سنن الترمذي :۴/ ۴۸۷)
ترجمہ: ’’اعمالِ صالحہ میں جلدی کرو، قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہوجائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے (اور ان فتنوں کا اثر یہ ہوگاکہ )آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اُٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا، اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کفر کی حالت میں اُٹھے گا، نیز اپنے دین کو دنیا کی تھوڑی سی متاع کے عوض بیچ دےگا۔ ‘‘
گویا آج کے اس پرفتن دور میں انسان اپنی سب سے قیمتی متاع جس پر آخرت کی کامیابی و فلاح موقوف ہے، دنیا کے چند ٹکوں کی خاطر ضائع کر رہا ہے۔ وہ دنیا جس کی ہرراحت و آسائش اور ہر تکلیف و مشقت کو فنا ہے اور موت کے وقت دنیا کی ہر چیز انسان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے، دنیا کی نعمتوں کی آخرت کی بیش بہا نعمتوں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں ہے، اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے:
’’بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوۃَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰی‘‘    (الاعلیٰ:۱۷، ۱۶)
ترجمہ: ’’تم دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو، حالانکہ آخرت (دنیا سے) بدرجہا بہتر اور پائیدار ہے۔ ‘‘
 آج جن فتنوں کا سامنا ہے، ان میں بہت سے تو دین کے نام پر اور اسلامی عنوانات اور شرعی اصطلاحات استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، کوئی جدیدیت کے نام پرعقائد کو کھوکھلا اور اعمال کو بےوزن کر رہا ہے، کوئی اکابر و اسلاف سے بیزاری پیدا کر رہا ہے، کوئی قرآنی آیات کی من مانی تشریح کر کے لوگوں کے لیے گمراہی کے اسباب تیار کر رہا ہے، کوئی احادیث کے متفقہ مفاہیم کو بگاڑ کر یہ باور کرا رہا ہے کہ اکابرینِ اُمت نے قرآن و حدیث کی صحیح تفسیر و تشریح نہیں کی اور خود ساختہ مفہوم نکال کر قرآن و حدیث کی تصریحات کی مخالفت کر رہا ہے، کوئی نزولِ مسیح  علیہ السلام  کا انکارکررہا ہے، کوئی مہدویت کا دعوے دار بن کر اُمت کو گمراہ کررہا ہے، غرض ہر طرف سے فتنہ پرور لوگ مسلمانوں کا ایمان خراب کررہے ہیں اور ایمان کاسودہ کرنے پرتلے ہوئے ہیں، یہ اُمت جتنا دورِ نبوی سے دورہورہی ہے، اتنا ہی فتنوں کے قریب ہورہی ہے۔ فتنوں کا ایک سیلاب ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا، ہر ایک کسی نہ کسی شکل میں ان فتنوں کا شکار ہورہا ہے۔ 
ایک حدیث شریف میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:
’’فَإِنِّي لَاَرَی الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِکُمْ کَوَقْعِ الْقَطْرِ (الْمَـطَرِ)۔‘‘ (صحيح البخاري-نسخۃ طوق النجاۃ، ص: ۱۰۲)
ترجمہ: ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ (عن قریب) تمہارے گھروں میں فتنے اس طرح برس رہے ہوں گے، جیسے بارش برستی ہے۔‘‘

فتنہ کسے کہتے ہیں؟

ہر طرح کی آزمائش کو فتنہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، مال ودولت کو بھی فتنہ کہا گیا ہے:
’’وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ‘‘
’’اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد فتنہ ہے۔‘‘
گویا ہر وہ چیز جو انسان کو اپنے رب سے غافل کردے فتنہ ہے، شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے فتنہ کی تعریف یہ کی ہے کہ :
’’باطل کو حق کی شکل میں کیا جائے، یہاں تک کہ عام آدمی کو حق اور باطل کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوجائے۔ ‘‘                                         (تحفۂ قادیانیت جلد: ۶ ، ص:۳۱۰)
فتنے مختلف ہیں، اس میں سے ایک انسان کا اندرونی فتنہ ہے، جس کی وجہ سے دل میں خرابی کا ہونا اور عبادت میں حلاوت کا نہ ہونا، اسی طرح کچھ خارجی فتنے ہیں، مثلاً گھر میں، اولاد میں، معاشرے میں فتنوں کا پیدا ہوجانا۔ فتنوں کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں، جن کا ذکر محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  نے بصائر و عبر میں ایک جگہ کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے:

1-عملی فتنے

عملی فتنےیعنی گناہوں کی مختلف قسموں کا امت میں عام ہوجانا، جیسے :بے حیائی، شراب نوشی، سود خوری وغیرہ، جتنی ان برائیوں میں کثرت ہوگی، اتنا ہی نیکیوں میں کمی واقع ہوگی اور ان برائیوں کےاثرات سارے ہی اعمالِ صالحہ پر پڑیں گے۔ 

2- علمی فتنے

علمی فتنے جو علوم وفنون کے راستے سے آتے ہیں اور ان کا اثر براہِ راست عقائد پر پڑتا ہے، ان فتنوں کے ذریعہ الحاد و تحریف اور تشکیک کو عام کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں ایک مسلمان اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ‘‘
ہر چیز کی حفاظت کے لیے کچھ تدبیریں ہوتی ہیں، جس کےذریعہ اس چیز کی حفاظت کی جاتی ہے، اسی طرح ایمان کی حفاظت کے لیے کچھ تدبیریں ہیں، جس کے ذریعے ہم اپنے ایمان کو بچاسکتے ہیں :

1-انبیاء کرام  علیہم السلام  اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کی سیرت کا مطالعہ 

انبیاء علیہم السلام  علیہم السلام  کی دنیا میں بعثت کا مقصد ہی ایمان کی دعوت ہوتا ہے اور جس قدر آزمائش اس ایمان کی وجہ سے اُن پر آتی ہے، کسی اور پر نہیں آتی، اسی لیے انہیں ایمان کی سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے، حالانکہ ان کا ایمان پر خاتمہ یقینی ہوتا ہے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے ایمان پر خاتمہ کی دعا کرتے ہیں، جیسے حضرت یوسف  علیہ السلام  نے دعا فرمائی، جس کا ذکر سورۂ یوسف میں ہے:
’’فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ   ۣ اَنْتَ وَلِيّٖ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ  تَوَفَّنِيْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِيْ بِالصّٰلِحِيْنَ‘‘    (یوسف:۱۰۱)
ترجمہ: ’’اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! آپ میرے کارساز ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، مجھ کو پوری فرمانبرداری کی حالت میں دنیا سے اُٹھالیجیے اور مجھ کو خاص نیک بندوں میں شامل کر لیجیے۔ ‘‘
جس چیز کی اہمیت جس قدر زیادہ ہوتی ہے، اس کی تاکید اسی حساب سے کی جاتی ہے۔ انبیاء  علیہم السلام  کو ایمان کی فکر ہر چیز سے زیادہ تھی، اس لیے اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کرتے تھے کہ ایمان پر جمے رہنا اور اسی پر مرنا جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب n نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی تھی :
’’وَوَصّٰی بِہَا إِبْرٰہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘  (بقرہ:۱۳۲)
ترجمہ: ’’اور اسی کا حکم کر گئے ہیں ابراہیم ( علیہ السلام ) اپنے بیٹوں کو اور (اسی طرح) یعقوب( علیہ السلام ) بھی، میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے اس دین (اسلام) کو تمہارے لیے منتخب فرمایا ہے، سو تم بجز اسلام کے اور کسی حالت پر جان مت دینا۔‘‘

2-اہلِ حق علماء اور صلحاء کی صحبت اور ان کی مجالس میں شرکت‎

ایمان کی حفاظت اور اعمالِ صالحہ کی پابندی اور اخلاق کی درستگی کے لیے اللہ والوں کی صحبت ضروری ہے، کیونکہ انسان کے اندر یہ خاصیت ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے خیالات و حالات سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے اور دوسروں کا اثر قبول کرتا ہے، اسی وجہ سےنیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کی دینِ اسلام میں بہت تاکید آئی ہے، اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ایمان والوں کواس بات کا حکم دیا کہ سچوں کی صحبت ا ختیار کرو:
’’يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ‘‘‎    (التوبۃ: ۱۱۹)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ ‘‘
 نیک لوگوں کی صحبت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان ان کے احترام اور حیاء کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے بچا رہتا ہے، بلکہ اہل اللہ کی صحبت‘ حفاظتِ ایمان کا بھی ذریعہ ہے، اس حوالے سے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں :
’’صحبتِ اولیاءاللہ میں ایک خاص بات قلب میں ایسی پیدا ہوجاتی ہے کہ جس سے خروج عن الاسلام کا احتمال نہیں رہتا، خواہ گناہ اور فسق و فجور سبھی کچھ اس سے وقوع میں آئیں، لیکن ایسا نہیں ہوتا کہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے، مردودیت کی نوبت نہیں آتی، بر خلاف اس کے ہزاروں برس کی عبادت میں بھی بذاتہٖ یہ اثر نہیں کہ وہ کسی مردودیت سے محفوظ رہے۔ ‘‘  (حسن العزیز بحوالہ فضائل ایمان )
عوام کے ساتھ اہلِ علم کے لیے بھی اہلِ حق علماء کی صحبت ضروری ہے، ان کی صحبت کے بغیراہلِ علم کے اندر علم کی گہرائی، عمل کی پختگی، خداخوفی، فکرِ آخرت، اخلاقی بلندی اور شرعی ذمہ داریوں کا احساس پیدا نہیں ہوتا، بلکہ فتنہ میں پڑنے کا شدید خطرہ رہتا ہے۔ آج کل کے بہت سے نام نہاد مفکرین اور اسلامی سکالر جنہیں اعدائے اسلام اور گمراہ لوگوں کی شاگردی میں رہنا نصیب ہوا، جس کے نتیجہ میں وہ ان کی زبان بولتے ہیں، اور ان کے ذہن سے سوچتے ہیں، اور کے اندر اعدائے اسلام کی محبت بسی ہوئی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر سے قبولِ حق کی توفیق سلب ہوگئی ہے، ان کا وجود امت کےلیے سراپا فتنہ بنا ہواہے۔ 

3-اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت و فرمانبرداری اور برائیوں سے بچنا

ایمان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ شریعت کی کامل پیروی کی جائے اور خلاف شرع امور سے اپنےآپ کو بچایا جائے، کیوں کہ نیکی اور برائی کا اثر انسان کے دل پر پڑتا ہے اور دل کی خرابی کا اثر سارے جسم پر ہوتا ہے، جیسا کہ ایک حدیث آتا ہے:
’’اَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہُ اَلَا وَہِيَ الْقَلْبُ۔‘‘                                        (صحیح بخاری)
ترجمہ: ’’خبردار ! بلاشبہ بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ ٹکڑا صالح رہتا ہے تو تمام بدن میں صالحیت رہتی ہے اور جب اس میں فساد پیدا ہوتا ہے تو پورے جسم کا نظام بگڑجاتا ہے، خبردار! اور وہ ٹکڑا دل ہے۔ ‘‘‎
جتنی نیک اعمال کی کثرت ہوگی ایمان میں اسی قدر مضبوطی ہوگی اور برائیاں جتنی زیادہ ہوں گی ایمان میں اسی حساب سے کمزوری ہوگی۔ آج ہم لوگ اچھی باتیں پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، لیکن ہمارے دلوں پر ان کا اثر نہیں ہوتا، اس کی اصل وجہ گناہوں کی کثرت ہے۔

4-تلاوتِ قرآن اور ذکر و اذکار اور دعاؤں کا اہتمام

ایمان کی بقا اور فتنوں سے حفاظت کے لیے روزانہ قرآن کریم کی اور خصوصیت کے ساتھ جمعہ کے روز سورۃالکہف کی تلاوت کا معمول اور صبح شام کےمسنون اذکار، موقع محل کی دعائیں اور ان دعاؤں کے مانگنے کا اہتمام کرنا چاہیے، جس میں ایمان و یقین کی حفاظت اور کفر و ارتداد اور فتنوں سے پناہ مانگی گئی ہے، یہاں کچھ دعائیں ذکر کی جاتی ہیں :
۱- ’’اللّٰہُمَّ اَعْطِنِيْ إِیْمَانًا صَادِقًا وَیَقِیْنًا لَیْسَ بَعْدَہٗ کُفْرٌ۔‘‘
’’ اے اللہ! مجھے ایسا سچا ایمان اوریقین عطا فرمائیے جس کے بعد کفر(وارتداد) نہ ہو!‘‘
۲- ’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ۔‘‘ 
’’ اے اللہ! میں کفرسے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ ‘‘
۳- ’’ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰی دِیْنِکَ۔‘‘ 
’’ اے دلوں کو اُلٹنے پلٹنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جمادیجیے۔ ‘‘
۴-’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا ‌بَعْدَ اِذْ ‌ہَدَيْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ‘‘
’’اے رب! نہ پھیر ہمارے دلوں کو جب تو ہم کو ہدایت کرچکا اور عنایت کر ہم کو اپنے پاس سے رحمت تو ہی ہے سب کچھ دینے والا۔ ‘‘
۵- ’’اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ ‌وَاَرِنَا ‌الْبَاطِلَ بَاطِلًا، وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ.‘‘
’’اے اللہ! حق بات کی طرف ہماری رہنمائی فرما اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق دے اور ہمیں باطل کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی توفیق دے۔ ‘‘

5-فضائل و عقائد اور فتنوں کے متعلق کتابوں کا مطالعہ اور ان کی تعلیم

دینِ اسلام میں عقائد کی بڑی اہمیت ہے اور آخرت کی نجات عقیدہ کی درستگی پر موقوف ہے، اس اہمیت کی وجہ سے نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ ابتدا سے ہی بچہ کو عقیدۂ توحید و رسالت کی تلقین ہوجائےاور جب بچہ بولنا شروع کرے تو پہلی بات جو اُسے سکھائی جائے وہ عقیدۂ توحید پر مشتمل کلمہ ہو، جیسا کہ ایک حدیث میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بچوں کے متعلق یہ تعلیمات دی ہیں کہ: ’’ جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو ان کو ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘ سکھاؤ‘‘، جب اس کے اندر کچھ سمجھ بوجھ پیدا ہو تو اس کلمہ کا مطلب اور معنی سکھایا جائے، یہ کلمہ اسلام کے تمام عقائد کو شامل ہے، گویا جو شخص اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے، اس کے لیے ہر اس بات پر دل وجان سے ایمان لانا فرض ہوجاتا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول نے بتلائی ہیں، آج کل بہت سے مسلمان اپنے بچوں کودینی تعلیم اور اسلامی عقائد نہیں سکھاتے، بلکہ خود بھی ان سے ناواقف ہوتے ہیں، اس ناواقفیت کی وجہ سے بسا اوقات اسلامی عقائد کاا نکار کر کے اسلام کے دائرہ سے نکل جاتے ہیں، اس لیے عقائد پر مشتمل کتابوں کا مطالعہ اور تعلیم ضروری ہے کہ اس سے عقائد کی درستگی رہتی ہے۔ فضائل کی کتابوں کی تعلیم و مطالعہ سے اچھے اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات اور نہ کرنے پر وعیدیں سامنے آتی ہیں، برے اعمال کا انجام، دنیا کی حقیقت، موت کے بعد کے مراحل، قبر اور آخرت، جنت، جہنم کے احوال سامنے آتے ہیں، جس کی وجہ سے نیک اعمال کرنے کا شوق اور برے اعمال سے بچنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔ 
 فتنوں کے متعلق احادیث میں ’’کتاب الفتن‘‘ ایک مستقل عنوان ہے، جس میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فتنوں سے متعلق اپنی امت کی رہنمائی کی ہے اور ان سے بچنے کے بارے میں ہدایات دی ہیں کہ ان سے کیسے بچا جائے؟ ان کے مطالعہ سے فتنوں سے آگاہی حاصل ہوتی اور اس سے بچنے کے لیے جو تدابیر بتلائی گئی ہیں وہ بھی سامنے آجاتی ہیں، اس حوالے سے دو کتابوں کا ذکر فائدہ سے خالی نہ ہوگا:
۱- دورِ حاضر کے فتنے اور اُن کا علاج (محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  )۔
۲-حدیثِ نبوی اور دورِ حاضر کے فتنے ( شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی  رحمۃ اللہ علیہ ، تخریج و تشریح: مولانامفتی محمد شعیب اللہ خان مفتاحی)۔ 
اس کے ساتھ آج کل جو گمراہ فرقے مسلمانوں کا ایمان خراب کررہے ہیں، اِلحاد اور تشکیک پیدا کررہے، ان کے بارے میں علماء نے جو کتابیں لکھی ہیں ان کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ 
خلاصہ یہ ہے کہ گھروں میں اس طرح کی کتابوں کا مطالعہ اور تعلیم سے ایما ن کی پختگی اور فتنوں سے حفاظت اور دین کی سمجھ اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ 

6-ایمان کی حفاظت اور فتنوں سے بچنے کے متعلق بزرگوں کی نصیحتوں پر عمل کیا جائے

یہاں ایک نصیحت ذکر کی جاتی ہے زمانہ فتن کے متعلق، جسے حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ   کو شیخ محمد زاہد کوثری  رحمۃ اللہ علیہ  نے کی تھی، جو سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہے: 
’’وإني أرجوکم مراعاۃ قول جدکم: کُنْ في الفتنۃِ کابنِ اللّبون؛ لا ضرعٌ فيُحلَب، ولا ظہرٌ فيُرکَب۔ ‘‘ (رسائل الإمام محمد زاہد الکوثري إلی العلامۃ محمد يوسف البنوري رحمہما اللہ تعالٰی)
’’مجھے اُمید ہے کہ آپ اپنے دادا (حضرت علی  رضی اللہ عنہ) کے اس فرمان کو ملحوظ رکھیں گے: ’’فتنے (کے زمانے) میں اس دو سالہ اونٹ کی مانند ہو جاؤ جو دودھ دے سکے نہ سواری کے قابل ہو۔‘‘ 
یعنی ان فتنوں سے بچنے کی اس حد تک کوشش کیجیے کہ فتنہ پر ور لوگ آپ کو کسی طرح استعمال نہ کرسکیں۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہر طرح کے فتنوں سے بچائے، آمین یا رب العالمین بجاہِ سید المرسلین !
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین