بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

فتاویٰ عالمگیری اور اس کے مؤلفین

فتاویٰ عالمگیری اور اس کے مؤلفین


جناب نبی کریم ا کے زمانے سے لے کر آج تک مسلمان جہاں کہیں گئے، وہاں انہوں نے اپنے علمی، اخلاقی، عملی اور تمدنی مآثر چھوڑے، جو آج تک ان کی پہچان بنے ہوئے ہیں۔
دینی علوم میں خدمات کے اعتبار سے بر صغیر پاک وہند کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ یہاں مختلف اسلامی علوم نے اپنے لئے جگہ بنائی، مفسرین پیدا ہوئے، محدثین نے علم حدیث کی بساط بچھائی اور فقہاء نے فہم ودرک کی مسندیں آراستہ کیں، نوپیش آمدہ مسائل کی گِرہ کشائی کی، کتابیں لکھیں، مدرسے قائم کئے اور وعظ وارشاد کی محفلیں سجائیں۔اس کارِ خیر میں علماء امت کے فرض منصبی کی بجا آوری میں بعض سلاطین اسلام کی دین دوستی کا بہت بڑا حصہ بھی شامل ہے۔
ایسے ہی علمی کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ ’’الفتاویٰ الہندیۃ‘‘ معروف بہ فتاویٰ عالمگیری بھی ہے، جسے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیرؒکی ایماء وتمنا پر علماء کی ایک جماعت نے مرتب کیا۔
اورنگزیب عالمگیرؒ:
ابو مظفر محی الدین اورنگزیب عالمگیرؒ بن شاہ جہاں ۱۵؍ذو القعدہ ۱۰۲۸ھ کو دوحد کے مقام پر پیدا ہوئے ۔ اورنگزیب عالمگیر کی زندگی کے دونمایاں پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں، ایک پہلو بادشاہت کاہے اور دوسرا عالم دین وخادمِ اسلام ہونے کا۔ ہم یہاں صرف ان کے علم وتدین کے موضوع سے تعرض کریںگے اور وہ بھی صرف اس پہلو سے کہ اصل موضوع (فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب وتصنیف) کے ساتھ عالمگیر کی زندگی کے ایک حصہ کا تعلق ہے۔ آپؒ کی سعی مسلسل سے یہ فتاویٰ معرض وجود میں آیا۔انہوں نے علم دین مولانا عبد اللطیفؒ، مولانا ہاشم گیلانیؒ اور شیخ محی الدین بن عبد اللہ بہاریؒ سے حاصل کیا۔ عمدگیٔ خط میں ضرب المثل تھے۔ خط نسخ اور خط نستعلیق کے ماہر تھے۔ تختِ سلطنت پر براجمان ہونے سے پہلے اپنے ہاتھ سے ایک مصحف لکھا اور اُسے مکہ مکرمہ بھیجا ،پھر حکمرانی کے دور میں دوسرا مصحف لکھا، جس پر اس زمانے میں سات ہزار روپیہ کا خرچ آیا اور اُسے مدینہ منورہ بھیجا۔
عالمگیرؒ کو علم حدیث میں بھی کمال حاصل تھا، دورِحکمرانی سے پہلے ایک کتاب ’’الأربعین‘‘ لکھی، جس میں نبی کریم ا کی چالیس قولی احادیث جمع کیں۔ اسی طرح کی ایک دوسری کتاب زمانۂ بادشاہت میں لکھی، پھر ان دونوں کا فارسی میں ترجمہ کیا اور عمدہ حواشی بھی لگائے۔
بادشاہ موصوف ہفتہ میں تین دن مولانا سید محمد حسینی قنوجی، علامہ محمد شفیع یزدی اور نظام الدین برہان پوری رحمہم اللہ کے ساتھ احیاء العلوم، کیمیائے سعادت اور فتاویٰ ہندیہ کا مذاکرہ کیا کرتے تھے۔ فقہ میں مہارت تامہ رکھتے تھے اور اس کی جزئیات کا مکمل استحضار تھا۔ فقہ سے محبت وشغف کی بین دلیل فتاویٰ ہندیہ(فتاویٰ عالمگیری) کی تالیف ہے، جو اُن کے زمانے میں اُن کے حکم سے ہوئی۔ادب وشعر وشاعری پر بھی دسترس تھی، لیکن خود بھی شعر نہ کہتے اور لوگوں کو بھی اشعار میں وقت ضائع کرنے سے روکتے تھے۔ 
نیکی اور دینداری کے لحاظ سے متقی، متورع، نماز باجماعت کے پابند اور تہجد گزار تھے۔ جن ایام میں نبی اکرم ا سے روزہ رکھنا ثابت ہے، اُن ایام میں روزے رکھنے کا معمول تھا۔
بہرحال اورنگزیب عالمگیرؒ ایسی بہتیری خصوصیات کے مالک تھے جو کسی مسلمان حکمران میں ہونی چاہئیں۔ برصغیر میں اسلامی احکام کی نشر واشاعت میں اُن کا بڑا حصہ ہے ۔ یکم ذو القعدہ ۱۰۶۸ھ (بمطابق ۲۳؍جولائی ۱۶۵۸ء) کو تخت ہند پر متمکن ہوئے۔ پچاس برس حکومت کی اور نوے برس عمرپاکر ذو القعدہ ۱۱۱۸ھ (۲۱؍فروری ۱۷۰۷ء) کو دکن میں وفات پائی۔ (نزہۃ الخواطر،ج:۶، ص:۷۳۷)
فتاویٰ عالمگیری کے اصل محرک:
اورنگزیب عالمگیرؒ علمی ذوق کے مالک تھے۔ اُن کا اپنا ذاتی وسیع کتب خانہ تھا، جو ان کے آباء و اجداد کے زمانے سے چلا آرہا تھا، جس سے فتاویٰ کی ترتیب وتألیف میں علماء مدد حاصل کرتے تھے۔ جو علمائے کرام ترتیب فتاویٰ کا کام انجام دے رہے تھے، ان کے علمی مرتبے کے مطابق ان کے لئے وظائف وعطایا کا انتظام کیا گیا تھا۔اورنگزیبؒ کے زمانے میں اکابر علماء اور ائمۂ مذہب فہم مسائل میں حنفی فقہ کے مطابق فتوے دیتے رہے اور عملی اسلامی زندگی فقہ حنفی کا مظہر ہوا کرتی تھی۔ ادھر جو مسائل کتب فقہ اور نسخہ ہائے فتاویٰ میں مذکور تھے، فقہاء وعلماء میں اختلاف کی وجہ سے روایاتِ ضعیفہ اور اقوالِ مختلفہ مخلوط ہوکر رہ گئے تھے، جس کی وجہ سے بہت سے مفتیان ضعاف پر فتوے دیتے اور انہی پر عمل کرتے تھے۔ عالمگیرؒ کے قلب وضمیر پر یہ بات القاء ہوئی کہ تمام بلند مرتبت علماء وفقہاء کے اجتماع واشتراک سے یہ اہم کام کیا جائے کہ علماء ان کے کتب خانہ خاص میں فن فقہ کے معتبر ذخیرہ کو مرکزِ توجہ ٹھہرا کر ایسی جامع کتاب مرتب کریں، جس کے تمام مسائل مفتیٰ بہا ہوں، تاکہ فتویٰ جاری کرنے میں قاضی اور مفتیان اسلام، اس موضوع سے متعلق تمام کتب اور مختلف ذخائرِ فقہ کے تتبع اور تفحص سے بے نیاز ہوجائیں۔
اس مہم کو کامیابی سے سرانجام دینے کے لئے عالمگیرؒ نے اس عظیم کارنامے کی انجام دہی کے لئے شیخ نظام الدین برہان پوریؒ کی سرکردگی میں ایک جماعت تشکیل دی۔ علماء وفضلاء کی جو جماعت دار الخلافہ میں موجود تھی، اس خدمت میں مصروف ہوگئی۔ علاوہ ازیں سلطنتِ ہند کے ہر گوشے میں اطلاعات پہنچادی گئیں اور ان علوم میں جو حضرات مہارت رکھتے تھے، بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔
اس سلسلے میں ان کے لئے معقول وظائف اور بادشاہ کے کتب خانہ خاص سے کتابوں کی رسائی کا بہترین انتظام کیا گیا۔ (عالمگیر نامہ، بحوالہ برصغیر میں علم فقہ، ص:۲۸۱)
فتاویٰ عالمگیری کا سن تالیف:
یقین اور قطعیت کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ فتاویٰ عالمگیری کی تصنیف وتالیف کا آغاز کب ہوا اور کتنی مدت میں یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا، البتہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی تالیف کا آغاز ۱۰۷۷ھ یا ۱۰۷۸ھ میں ہوا، اور تکمیل ۱۰۸۰ھ یا ۱۰۸۱ھ میں ہوئی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ’’عالمگیر نامہ‘‘ کے مصنف منشی محمد کاظم بن محمد امین نے ایک عنوان قائم کیا ہے:
’’آغاز سال دہم والائے دولت عالمگیری …… مطابق سنہ ہزار وہفتا دو ہفت ہجری‘‘ ۔
اس عنوان کے تحت عالمگیر نامہ میں گیارہویں سال جلوس کا ذکر ہے اور اسی ضمن میں فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب کا بھی تذکرہ ہے۔ چونکہ عالمگیرنامہ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے پہلے دس سالہ دورِ حکومت کے واقعات پر مشتمل ہے، اور فتاویٰ عالمگیری کا ذکر اس کتاب کے آخر میں کیاگیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس فتاویٰ کی تالیف اس وقت شروع ہوئی، جب عالمگیرؒ کو تختِ ہند پر متمکن ہوئے دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا، جوکہ تاریخی اعتبار سے ۱۰۷۷ھ یا ۱۰۷۸ھ بنتا ہے، لیکن فتاویٰ عالمگیری کی تالیف کا سلسلہ اسی سال اختتام پذیر نہیں ہوا تھا، کیونکہ عبارت کے آخری الفاظ یہ بتاتے ہیں کہ کتاب لکھی جارہی ہے۔ عبارت یہ ہے:
’’وچوں آں کتاب مستطاب صورتِ اتمام گیرد وپیرایۂ اختتام پذیرد، جہانیاں را از سائر کتب فقہی مغنی خواہد بود وبرکات اجر وثوابش ابد الآباد در نسخۂ حسنات شہنشاہ مؤید قدسی ملکات مثبت ومرقوم خواہد گشت‘‘۔
عام طور پر مشہور ہے کہ فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب وتدوین پر دو سال کی مدت صرف ہوئی، اگر یہ صحیح ہے تو اس کی تالیف کا آغاز ۱۰۷۷ھ یا ۱۰۷۸ھ میں ہوا، اور تکمیل ۱۰۸۰ھ یا ۱۰۸۱ھ میں ہوئی۔
فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب وتنسیق:
دیگر کتب فقہ کی طرح اس میں بھی ’’کتاب‘‘ کے عنوان کے تحت ابواب ہیں اور پھر ہرباب کے تحت فصول کے نام سے کچھ ذیلی عنوانات قائم کرکے مسئلہ زیر بحث سے متعلق بہت سے ضمنی مسائل کی وضاحت کی گئی ہے، مثلاً: کتاب الطہارۃ سات ابواب پر مشتمل ہے، جنہیں’’ الباب الاول‘‘، ’’الباب الثانی‘‘…الخ کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے اور پھر اس کے تحت پانچ فصلیں ہیں، جنہیں ’’الفصل الاول‘‘، ’’الفصل الثانی‘‘ وغیرہ سے معنون کیا گیا ہے، زیادہ واضح الفاظ میں یوں سمجھنا چاہئے:
(کتاب الطہارۃ) وفیہ سبعۃ ابواب: الباب الاول فی الوضوء وفیہ خمسۃ فصول، الفصل الاول فی فرائض الوضوء۔ الفصل الثانی فی سنن الوضوء۔ الفصل الثالث فی مستحبات الوضوء۔ الفصل الرابع فی مکروہات الوضوء۔ الفصل الخامس فی نواقض الوضوء۔الباب الثانی فی الغسل وفیہ ثلاثۃ فصول۔ الفصل الاول فی فرائضہ۔ الفصل الثانی فی سنن الغسل۔ الفصل الثالث فی المعانی الموجبۃ للغسل وہی ثلاثۃ۔
یہی طریق کار تقریباً پوری کتاب میں ہے، سوائے چند جگہوں کے، مثلاً: ’’کتاب اللقیط، کتاب اللقطۃ، کتاب الإباق‘‘ اور ’’کتاب المفقود‘‘ کے تحت باب کا عنوان نہیں، اسی طرح کتاب القاضی کے تحت ابواب تو ہیں، مگر ان کے نیچے فصل کا عنوان نہیں ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں اس بات کا تقریباً التزام کیا گیا ہے کہ ہر کتاب کے شروع میں مسئلہ متعلقہ کے معنی ومطلب کی وضاحت کی گئی ہے، مثلاً: ’’کتاب الحوالۃ‘‘ کی ابتداء میں بتایا گیا ہے کہ حوالہ کے کیا معنی ہیں۔
فتاویٰ عالمگیری کی علمی وفقہی حیثیت:
فتاویٰ ہندیہ کو علمی وفقہی دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں جو مسائل بیان ہوئے ہیں، وہ فقہ حنفی کی رو سے یا تو راجح اور مفتی بہ ہیں یا ظاہر الروایہ میں سے ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ فقہ کی تمام اہم اور قابل ذکر کتابوں کا نچوڑ ہے، اس کے مآخذ اور مراجع فقہ حنفی میں بڑی وقعت رکھتے ہیں۔
خصوصیاتِ فتاویٰ عالمگیری:
فتاویٰ عالمگیری اپنے اندر کچھ ایسی خصوصیات رکھتا ہے جو فتاویٰ کی دوسری کتابوں میں نہیں یا بہت کم ہیں، اس کی چند اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
۱…اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی ایک شخص کی تالیف نہیں، بلکہ علماء کی ایک ممتاز جماعت کی محنت اور جد وجہد کا نتیجہ ہے، اس لئے اس میں فقہی اعتبار سے غلطی کا امکان کم ہے۔
۲…ہر مسئلہ کے ساتھ اس کے مآخذ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے، اگر اس میں کسی دوسری کتاب سے نقل کیا گیا ہے تو ’’ناقلا عن فلان‘‘ کرکے اصل مأخذ کی طرف بھی اشارہ کردیا۔
۳…اگر مسئلہ کے بارے میں دو مختلف اقوال ہیں اور دونوں میں سے کوئی قابل ترجیح نہیں تو دونوں کو مع حوالہ نقل کردیا گیا ہے۔
۴…اگر کسی کتاب کی لفظ بلفظ نقل ہے تو’’ کذا‘‘ لکھ دیا ہے اور اگر اس کا خلاصہ اور مفہوم لیا ہے تو ’’ہکذا‘‘ سے اشارہ کردیا گیا ہے۔
۵…اس کتاب کے فارسی اور اردو زبانوں میں ترجمے کئے گئے ہیں، تاکہ اس کے مضامین اور مندرجات سے زیادہ سے زیادہ لوگ مستفید ہوسکیں۔
فتاویٰ عالمگیری کے مآخذ:
فتاویٰ عالمگیری فقہ کی تمام اہم اور معتبر کتابوں کا خلاصہ اور عطر ہے، ذیل میں عالمگیری کے چند مشہور اور کثیر المراجعۃ مآخذ کی فہرست دی جاتی ہے، جس سے اندازہ ہوتاہے کہ علماء نے کس محنت اور جانفشانی سے فقہ وفتاویٰ کا یہ ذخیرہ جمع کیا ہے۔
    ۱…الہدایۃ،برہان الدین مرغینانی۔۲…ذخیرۃ العقبی شرح منیۃ المصلی۔۳…جامع المضمرات، صوفی یوسف بن عمر کادوری۔۴…بدائع الصنائع، أبوبکر الکاسانی۔ ۵…المغنی،ابن قدامہ حنبلی۔۶…شرح الہدایۃ للعینی۔۷…فرائض الزاہدی، مختار بن محمود۔۸…محیط السرخسی۔۹…المحیط البرہانی، صدر الشریعۃ محمود بن تاج الدین۔۱۰…ظہیریۃ، ظہیر الدین بخاری۔۱۱…فتاویٰ قاضی خان، حسن بن منصور أوزجندی۔ ۱۲…شرح الوقایۃ۔۱۳…التبیین، امام نسفی۔۱۴…السراج الوہاج، أبوبکر الحدادی۔۱۵…فتح القدیر،کمال الدین ابن ہمام۔۱۶…البحر الرائق، زین الدین ابن نجیم۔۱۷…الجامع الصغیر، امام محمد۔۱۸…الجامع الوجیز، کردری۔۱۹…تاتارخانیۃ،عالم بن علاء۔۲۰…فتاویٰ سراجیۃ، أوشنی فرغانی۔۲۱…الإختیارلتعلیل المختار، عبد اﷲ الموصلی۔ ۲۲…الکفایۃ شرح الہدایۃ جلال الدین خوارزمی۔۲۳…فتاویٰ برہانیۃ ۔۲۴…الجوہرۃ النیرۃ، أبوبکر الحدادی۔۲۵…قنیۃ المنیۃ، نجم الدین الزاہدی۔۲۶…النہر الفائق، عمر بن إبراہیم ابن نجیم۔۲۷…فتاویٰ الحجۃ ۔    ۲۸…النہایۃ، حسین بن علی السغناقی۔۲۹…الوافی، عبد اﷲ النسفی۔۳۰…خزانۃ الفقہ، امام أبو اللیث۔۳۱…الملتقط، محمد بن یوسف سمرقندی ۳۲…شرح المنیۃ، حجمی۔۳۳…فتاویٰ غیاثیۃ، شیخ داؤد بن یوسف۔ ۳۴…الشمنی، تقی الدین شمنی۔۳۵…فتاویٰ شیخ الإسلام المعروف بخواہر زادہ۔۳۶…عتابیۃ۔۳۷…منیۃ المصلی ،سدید الدین کاشغری۔۳۸…خزانۃ المفتین، امام حسین بن محمد المنقانی۔۳۹…رمز الحقائق شرح کنز، عینی۔۴۰…المفید والمزید۔۴۱…حلیلۃ المجلی شرح المنیۃ لابن امیر الحاج۔۴۲…کنز الدقائق، عبد اﷲ النسفی۔۴۳…خزانۃ الفتاویٰ، أحمد بن محمد الخفقی۔۴۴…الأسرار فی الأصول والفروع،أبوزید الدبوسی۔۴۵…شرح الزیادات۔۴۶…شرح النقایۃ، شیخ المکارم ۔ ۴۷…الصغیری، حلبی۔۴۸…الکبیری، حلبی۔۴۹…شرح المجمع، ابن الملک۔ ۵۰…التجنیس،صاحب الہدایۃ۔۵۱…التنویر شرح تلخیص الجامع الصغیر۔۵۲…العنایۃ شرح الہدایۃ، محمد بن محمود بابرتی۔۵۳…فتاویٰ الغرائب۔۵۴…فتاویٰ آہو الصیرفیۃ۔
۵۵…مختار الفتاویٰ۔۵۶…مختصر القدوری، امام قدوری۔۵۷…فتاویٰ التمرتاشی، ظہیر الدین حنفی۔۵۸…ینابیع الأحکام، اسفرائینی۔۵۹…الوقایۃ، محمود بن عبید اﷲ محبوبی۔۶۰…النقایۃ، صدر الشریعۃ عبید اﷲ بن مسعود۔۶۱…مختارات النوازل، صاحب الہدایۃ۔۶۲…شرح النقایۃ، برجندی۔۶۳…الغایۃ شرح الہدایۃ، أحمد بن إبراہیم السروجی۔ ۶۴…الفصول العمادیۃ ، جمال الدین حنفی۔۶۵…الحاوی القدسی، جمال الدین أحمد بن محمد۔ ۶۶…فصول الأستروشنی، مجد الدین أبو الفتح۔
ان کے علاوہ اور بھی کئی مراجع اور مآخذ ہیں:
فتاویٰ عالمگیری کے مرتبین:
فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میں ہندوستان میںعالمگیر کے دور کے تقریباً تمام ممتاز علماء وفقہاء شریک تھے، جن میں خود عالمگیر بھی ذاتی دلچسپی سے شریک کار رہے، لیکن اس عظیم کارنامے میں کتنے حضرات شریک تھے، ان کی صحیح تعدادکا حتمی اندازہ نہیں لگایا جاسکا۔ مختلف اصحابِ تحقیق نے اس موضوع پر لکھا ہے، جس کو جس عالم کے متعلق علم ہوا، اس کا ذکر کردیا۔ مولانا اسحاق بھٹی صاحب نے ’’برصغیر میں علم فقہ‘‘ نامی کتاب میں اٹھائیس حضرات کا نام ذکر کیا ہے، جو اس عظیم کام میں شریک ہوئے، جن کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں:
۱…شیخ نظام الدین برہان پوریؒ:
    فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب وتالیف پر بہت سے علماء مقرر ہوئے اور اس کا اہتمام، اُس دور کے مشہور عالم شیخ نظام الدین برہان پوریؒ کے سپردکیا گیا، چنانچہ نزہۃ الخواطر (ج:۵،ص:۶۵۶) میں علامہ عبد الحی حسنیؒ ان کے حالات میں لکھتے ہیں۔’’ولاّہ تدوین الفتاویٰ الہندیۃ وترتیبہا باستخدام الفقہاء الحنفیۃ‘‘ ۔اور اسی صفحہ پر آگے چل کر لکھتے ہیں:
 ’’وولی أربعۃ رجال منہم تحت أمرہ ای الشیخ نظام الدینؒ فقسم أرباعہا علی أربعتہم، أحدہم القاضی محمد حسین الجونپوری المحتسب وثانیہم السید علی أکبر أسعد اﷲ خانی وثالثہم الشیخ حامد الجونپوری ورابعہم المفتی محمد أکرم اللاہوری‘‘۔
    شیخ نظام الدینؒ مشہور فقہاء حنفیہ میں سے تھے، ان کا وطن برہان پور (گجرات) تھا، ان کے اساتذہ میں سے مشہور شخصیات شیخ نصیر الدین برہان پوریؒ اور شیخ ابو تراب بن ابی المعالی امیٹھوی رحمہم اللہ تھے۔ عالمگیرؒ کو شہزادگی کے زمانے میں جب دکن کا انتظام سپرد ہوا تو وہیں شیخ نظام الدینؒ سے ملاقات ہوئی اور ان کو اپنے دامنِ دولت سے وابستہ کرلیا اور پھر آخر وقت تک ان کو جدا نہیں کیا۔ عالمگیرؒ کی کوئی علمی وسیاسی مجلس مشکل سے شیخ نظام الدینؒ کی شرکت سے خالی ہوتی تھی۔ عالمگیرؒ ان کا اتنا احترام کرتا تھا کہ آداب وتسلیم کی پابندی سے انہیں مستثنی کردیا تھا۔ اس کی واضح دلیل فتاویٰ کی ترتیب کی ذمہ داری ان کے حوالے کرنا ہے۔ عالمگیر نامہ کے مصنف لکھتے ہیں:
’’وسرکردگی واہتمام ایں مہم صواب انجام بفضیلت مآب شیخ نظامؒ کہ جامع فضائل معقول ومنقول است تفویض یافت‘‘۔               (فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۲۷)
۲…شیخ نظام الدین ٹھٹھوی سندھیؒ:
    یہ سندھ کے ایک بلند پایہ علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آباؤ و اجداد شیراز کے رہنے والے تھے، جنہوں نے بعد میں ہرات میں سکونت اختیار کرلی تھی، ۹۰۶ھ میں ہرات سے قندھار منتقل ہوئے، اکیس سال وہاں مقیم رہنے کے بعد ۹۲۷ھ میں سندھ کے شہر ٹھٹھہ تشریف لائے۔ شیخ نظام الدینؒ فقہ میں کافی دسترس رکھتے تھے، اسی علم ودانائی نے انہیں دربار شاہی میں پہنچایا اور وہاں مختلف مناصب پر مامور ہوئے اور دوسرے علماء کے ساتھ فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میں حصہ لیا، چنانچہ تذکرۂ علمائے ہند (ص:۲۸۸) میں ہے:
’’سید نظام الدین ٹھٹھویؒ در فقہ اوفق انام ودرعلوم اعلم کرام برآمدہ، بجذبۂ طبع گرائیدہ سوئے شاہ جہاں آباد شتافت ودر تالیف فتاویٰ عالمگیری بسے مشکلات حل کردہ‘‘۔                                    (بحوالہ برصغیر میں علم فقہ ص:۲۹۲)
    نزہۃ الخواطر (ج:۵،ص:۶۵۶) میں ہے:
’’سافر إلی دہلی وبذل جہودہ فی تدوین الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
۳…شیخ ابوالخیر ٹھٹھویؒ:
    شیخ ابو الخیرؒ بھی صوبہ سندھ کے مشہور علمی شہر ٹھٹھہ کے رہنے والے تھے او رفتاویٰ عالمگیری کے مرتبین میں سے تھے، تذکرہ علمائے ہند میں ان کے بارے میں مرقوم ہے:
    ’’شیخ ابو الخیر ٹھٹھوی در فتاویٰ عالمگیری شریک استنباط مسائل بود‘‘۔
    استنباط مسائل سے غالباً مراد یہ ہے کہ فقہاء احناف کے مختلف اقوال میں جو قول کتاب وسنت کے مطابق ہوتا، اس کی وہ نشاندہی کرتے تھے، اس سے ان کے تبحر علمی کا پتہ چلتا ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۱۰۲) 
    ’’نزہۃ الخواطر،ج:۵، ص:۴۶۸‘‘ میں ہے:
’’ولاّہ عالمغیر بن شاہجہان الدہلوی سلطان الہند علی تدوین الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔ 
۴…شیخ رضی الدین بھاگل پوریؒ:
    یہ عالم اور فقیہ تھے، اپنے دور کے اکابر علماء میں سے تھے، ترویج علم میں مشغول رہے، یہاں تک کہ ان کے علم وفضل کی شہرت چار سو پھیل گئی۔ ان میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہ قواعد حرب اور ملکی سیاست میں مہارت رکھتے تھے۔ فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میں بھی ان کی شرکت تھی، چنانچہ مآثر عالمگیری میں ہے: ’’در مؤلفین فتاویٰ عالمگیری متخرج بود‘‘۔(بحوالہ برصغیر میں علم فقہ، ص:۲۹۶)
    ’’نزہۃ الخواطر: ج:۵ص:۵۳۰‘‘ میں ہے:
     ’’فاستخدمہ عالمگیر فی تألیف الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
۵…مولانا محمد جمیل جونپوریؒ:
    یہ ہندوستان کے عظیم المرتبت علماء میں سے تھے، جو جونپور کے ایک علمی خاندان میں ۱۰۵۵ھ کو پیدا ہوئے۔ موصوف انتہائی ذہین تھے، ملکۂ فراست بدرجۂ غایت کے حامل تھے، ان کی عمدہ تصانیف ہیں، جن میں سے مطول اور شرح جامی کا حاشیہ بھی شامل ہیں۔
     فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میں ان کی خدمات کا ذکر’’ نزہۃ الخواطر:ج:۶،ص:۸۱۲‘‘ میں ان الفاظ کے ساتھ ہے: ’’ولہ ید بیضاء فی تألیف الفتاویٰ الہندیۃ‘‘ ۔
    علامہ مرحوم کا انتقال ۶؍رجب ۱۱۲۳ھ میں ہوا۔
۶…قاضی محمد حسین جونپوریؒ:
    جونپور کے باشندے اور اپنے وقت کے ممتاز علماء میں سے تھے، فقہ اور اصول میں انہیں خصوصیت سے وافر مقدار میں حصہ ملاتھا۔ اورنگزیب عالمگیرؒ جب تخت نشین ہوئے تو انہوں نے اپنے اوائل عہد حکومت میں انہیں الہٰ آباد منتقل کردیا اور وہاں کی مسند قضا ان کے سپرد کی گئی۔ بعد ازاں ان کے منصب میں اضافہ کرکے انہیں فوج کے محکمۂ احتساب پر متعین کیا گیا۔ ان کے کمالات کی بنا پر ان کو بھی فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میں شریک کیا گیا، تذکرہ علمائے ہند میں ہے:
’’درتالیف فتاویٰ عالمگیری سعی نمودہ‘‘ ۔(بحوالہ فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۳۴) 
    ’’نزہۃ الخواطر:ج:۵، ص:۶۳۰‘‘ میں ہے:
     ’’وہوممن بذل جہودہ فی تدوین الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
     علامہ موصوف کا انتقال ۱۰۸۰ھ میں ہوا۔
۷…مفتی وجیہ الدین گوپامئویؒ:
    اودھ کا مشہور اور مردم خیز قصبہ گوپامئو اُن کا وطن تھا۔ ۲؍رجب ۱۰۰۵ھ میں ان کی ولادت ہوئی، علم اپنے دادا شیخ جعفرؒ وغیرہ سے حاصل کیا،تصنیفی میدان میں بھی خاص شہرت کے حامل تھے۔ ان کی تصانیف میں سے حصن حصین کی شرح، خیالی اور مطول پر تعلیقات اور تصوف سے متعلق رسائل حلقۂ علماء میں مشہور ہیں۔ فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میں ان کا بھی حصہ تھا۔ نزہۃ الخواطر:ج:۵، ص:۶۶۱ ‘‘ میں ہے۔
’’ولہ مشارکۃ فی تصنیف الفتاویٰ الہندیۃ ذکرہ السہارنپوریؒ فی مرآۃ جہاں نما وقال إنہ أمر بتالیف الربع من ذلک الکتاب وتحت یدہ عشرۃ رجال من الفقہاء‘‘۔
    فتاویٰ کی تالیف میں ان کے کام کی نوعیت کا اندازہ ذیل کی عبارت سے بھی ہوتا ہے۔ 
    زمخشری کی قسطاس کا ایک قلمی نسخہ خدا بخش خان کی لائبریری میں ۱۲۰۰ھ کا لکھا ہوا موجود ہے، اس پر شیخ وجیہہ الدین کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کوئی عبارت ہے، کاتب اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد لکھتا ہے:
     ’’عبارت منقول از دستخط مولانا وجیہہ الدینؒ رئیس فتاویٰ عالمگیری‘‘۔
     اس عبارت کے آخری ٹکڑے سے معلوم ہوتا ہے کہ فتاویٰ کی تالیف میں ان کا کافی حصہ تھا، اور اُنہیں اس میں کوئی امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ (فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۳۵)
    علامہ موصوف کا انتقال ۵؍جمادی الاخری ۱۰۸۳ھ کو دہلی میں ہوا۔
۸…سید محمد بن محمد قنوجیؒ:
    محمد نام اور میر خطاب تھا، قنوج مقام پر ان کی پیدائش ہوئی، وہیں پرورش پائی۔ علم کے لئے سفر کیا اور پھر وطن واپس آکر گھر میں گوشہ نشین ہوگئے اور عبادت اور افادہ کے لئے اپنے آپ کو اس طرح وقف کردیا کہ دنیوی معاملات کے لئے کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھتے تھے۔ شاہجہاں نے اُنہیں اپنے دربار میں بلایا۔ یہ ایک زمانہ تک ان کے ساتھ رہے، ان کے بعد ان کے بیٹے عالمگیر نے ان کی مصاحبت اختیار کی ۔ عالمگیر ان کا نہایت احترام کرتے تھے اور ہفتہ میں تین دن ان سے احیاء علوم، کیمیائے سعادت اور فتاویٰ ہندیہ سے متعلق بحث ومباحثہ کرتے۔ عالمگیرؒ انہیں استاد کہہ کر پکارتے۔ علامہ قنوجیؒ نہ کبھی امارت ومنصب کی طرف متوجہ ہوئے اور نہ ہی علماء کی وضع قطع سے نکلے، حالانکہ یہ اپنے شہر میں صاحب جائداد اور کئی گاؤں کے مالک تھے۔
    علوم ریاضیہ اور علوم عربیہ میں اُنہیں دسترس حاصل تھی، انہوں نے علامہ تفتازانیؒ کی کتاب ’’مطول‘‘ پر حاشیہ تحریر فرمایا۔ فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میں بڑی خدمات سرانجام دیں، چنانچہ ’’تذکرہ علمائے ہند:ص:۲۱۶‘‘میں ہے:
 ’’درتالیف فتاویٰ عالمگیری مساعی جمیل بکار بردہ‘‘۔(فتاویٰ عالمگیری کے مولفین ،ص:۲۹) 
    میر صاحب کا انتقال ۱۱۰۱ھ کو ہوا۔
۹…مولانا حامد جونپوریؒ:
    مولانا حامد جونپوریؒ بڑے فقہاء میں سے تھے۔ عنفوان شباب ہی میں دلی چلے گئے، وہاں شاہجہانی دربار کے مشہور عالم مرزا محمد زاہد کابلیؒ (منطق میں میر زاہد اُن ہی کی تصنیف ہے) کی خدمت میں پہنچے۔ عربی کی اکثر متداول کتابیں ان سے پڑھیں۔ علوم وفنون میں خوب محنت کی، یہاں تک کہ اپنے اساتذہ کی زندگی ہی میں کئی علوم میں فوقیت حاصل کرلی تھی۔ شاہجہاں کے بعد جب عالمگیرؒ تخت پر بیٹھا تو اس نے بھی دربار کے تعلق اور مناصب کو برقرار رکھا اور فتاویٰ کی تالیف کے لئے ان کا انتخاب بھی عمل میں آیا۔ چنانچہ تذکرہ علمائے ہند میں ہے:
 ’’ودر عہد عالمگیرؒ داخل مؤلفین فتاویٰ شد‘‘۔ (فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۱۰۴)
     ’’نزہۃ الخواطر:ج:۶، ص:۷۱۰‘‘ میں ہے:
     ’’استخدمہ عالمگیر بن شاہجہاں لتدوین الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
۱۰… مولانا جلال الدین محمد مچھلی شہریؒ:
    مچھلی شہر ضلع جونپور کے باشندے تھے، ان کا نسب نبی کریم ا کے چچازاد بھائی حضرت جعفر طیارؓ سے ملتا ہے۔ میدان علم میں آئے تو فقہ واصول میں خاص امتیاز حاصل کی، درس وتدریس کا چشمہ فیض جاری کیا، جس سے لوگ ایک عرصہ تک مستفیض ہوتے رہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ان کی خدمات کا ذکر ’’مشاہیر جونپور ص:۱۲۲‘‘ میں موجود ہے، مصنف لکھتے ہیں: 
’’از تصنیفات وتالیفاتش فتاویٰ عالمگیری حصہ اول است کہ حسب أمر سلطانی جمع نمود‘‘۔                                          (فتاویٰ عالمگیری کے مصنفین، ص:۱۰۳)
    علامہ عبد الحی حسنیؒ’’ نزہۃ الخواطر،ج:۶، ص:۷۰۸‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’وشارک العلماء فی تصنیف الفتاویٰ الہندیۃ بأمر عالمگیر بن شاہجہاں سلطان الہند، وقیل: إنہ صنّف المجلد الأول منہا وحدہ‘‘۔
۱۱…قاضی علی اکبر الہٰ آبادیؒ:
    قاضی صاحب علوم عقلیہ میں کافی مہارت رکھتے تھے، سعد اللہ خان (عالمگیرؒ کے دربار کے مقبول ترین آدمی) کے خاص ہم نشینوں میں تھے، اسی تعلق سے ’’سعد اللہ خانی‘‘ مشہور ہوگئے تھے۔ (فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۱۰۱) 
    پھر عالمگیرؒ نے اُنہیں اپنے قریب کیا اور اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کیا۔ جب عالمگیر ان کی فوقیتِ علم اور تقویٰ پر مطلع ہوئے تو اُنہیں لاہور کے محکمۂ قضا پر مقرر کردیا۔ اکثر امراء ان سے ناراض رہتے، لیکن عالمگیرؒکی ہیبت اور دبدبے کی وجہ سے کسی کو آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ ہوسکی۔ اسی اثناء میں امیر قوام الدین اصفہانی کو لاہور کا والی مقرر کیاگیا، اس نے نظام الدین کو توال کو اشارہ کیا کہ ان پر قابو پائے۔ اس نے اپنے آدمیوں کی طاقت سے ان کو اپنی گرفت میںلے لیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قاضی علی اکبرؒ اور ان کے بھانجے سید فاضل کو قتل کردیا گیا۔ جب یہ بات عالمگیرؒ کو معلوم ہوئی تو اس نے قوام الدین اور نظام الدین کو معزول کرکے، نظام الدین کو قاضی کے ورثا کے حوالے کردیا، انہوں نے اُسے قصاصاً قتل کردیا، جبکہ ورثا نے قوام الدین کو معاف کردیا۔ 
    قاضی صاحبؒ مصنف بھی تھے، ان کی مشہور تصنیفات میں سے فصول اکبری، اصول اکبری اور اس کی شرح ہیں۔
    فتاویٰ کی تالیف میں مقرر کئے گئے، جیساکہ’’ فرحۃ الناظرین ،ص:۸۴‘‘ میں ہے:
 ’’بتالیف فتاویٰ عالمگیری مامور شدہ بعنایت خلیفہ رحمانی امتیاز داشت‘‘۔
                                            (بحوالہ فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۱۰۱) 
    نزہۃ الخواطر،ج:۵، ص:۵۹۰‘‘ میں ہے:
 ’’وکان ممن ولی النظارۃ علی تدوین الفتاویٰ العالمگیریۃ‘‘۔
     قاضی علی اکبر کی وفات ۱۰۹۰ھ میں ہوئی۔
۱۲…قاضی عبد الصمد جونپوریؒ:
    قاضی موصوف نہایت فاضل آدمی تھے، فقہ اور اصول فقہ کے چوٹی کے علماء میں سے تھے، بہت سے علوم میں مہارت حاصل کی اور پھر دہلی آئے۔ فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میں شریک رہے۔
    ’’ نزہۃ الخواطر،ج:۶، ص:۷۵۱‘‘ میں ہے:
     ’’وشارک العلماء فی تصنیف الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔ 
    موصوف کا انتقال ۲۷ رجب کو دکن میں ہوا۔
۱۳… مولانا ابو الواعظ ہرگامیؒ:
    مولانا ابو الواعظؒ اپنے وقت کے مشاہیر علماء میں سے تھے۔ اُن کا محبوب مشغلہ درس وتدریس تھا۔ انہوں نے اپنی بہت سی یادگاریں چھوڑی ہیں، ان میں ہدایہ، مطول اور ملا جلال کے حواشی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میںشرکت ہے، آمد نامہ میں ہے:
 ’’تالیف فتاویٰ عالمگیری شرکت داشتند‘‘ ۔(بحوالہ فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۹۴)
    ’’نزہۃ الخواطر،ج:۵، ص:۴۷۶‘‘ میں ہے:
     ’’وکان ابو الواعظ من مصنفی الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
۱۴…مفتی ابوالبرکات دہلویؒ:
    فتاویٰ عالمگیری کے مرتبین کی طویل فہرست میں دہلی کے مفتی ابوالبرکات بن حسان الدینؒ بھی شامل ہیں۔ مفتی ابوالبرکاتؒ کا شمار اس زمانے کے کبار فقہاء حنفیہ میں ہوتا تھا۔ فقہی مسائل سے متعلق ان کی تصنیف ’’مجمع البرکات‘‘ کے نام سے ہے۔ عالمگیرؒ کے زمانے میں وہ مسندِ افتاء پر فائز ہوئے۔ 
    ’’نزہۃ الخواطر،ج:۶، ص:۶۸۲‘‘ میں ہے:
     ’’وہو من مصنفی الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
۱۵…شیخ احمد بن ابی منصور گوپامئویؒ:
    مولانا موصوف گوپامئو کے علمی خطے میں پیدا ہوئے، اپنے والد شیخ ابو المنصورؒ اور علامہ احمد بن سعید امیٹھویؒ (المعروف بہ ملاجیون) سے علم حاصل کیا۔ ہمیشہ علمی مباحث میں مشغول رہتے، علم فقہ واصول او رعلوم عربیہ کے نامور عالم تھے، اسی بنا پر عالمگیرؒ نے فتاویٰ کی ترتیب کے لئے ان کی خدمات حاصل کیں، چنانچہ’’ نزہۃ الخواطر،ج:۶، ص:۲۹۲‘‘ میں ہے:
 ’’واستخدم فی تالیف الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
۱۶…مولانا عبد الفتاح صمدانیؒ:
    شیخ ابو الفرح عبد الفتاح بن ہاشم صمدانیؒ کا شمار دورِ گزشتہ کے مشاہیر فقہائے ہند میں ہوتا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری کی تالیف میں اہم علمی وفقہی خدمات انجام دیں، چنانچہ ’’نزہۃ الخواطر،ج:۶، ص: ۷۵۲‘‘میں ہے: ’’وشارک العلماء فی تصنیف الفتاویٰ الہندیۃ وبذل جہدہ فیہ‘‘ ۔
۱۷…قاضی عصمت اللہ لکھنویؒ:
    اٹھارہ واسطوں سے ان کا سلسلۂ نسب شہرۂ آفاق صوفی، ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ سے جاملتا ہے۔ قاضی عصمت اللہؒ بڑے فاضل آدمی تھے۔ لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ علوم وفنون میں مہارت حاصل کی۔ قاضی صاحبؒ بڑے سخی اور فیاض تھے، روزانہ ۲۰۰ طلباء کو کھانا کھلاتے اور رمضان میں روزانہ ایک ہزار افراد کو اپنے ذاتی باورچی خانہ سے کھلاتے۔ فتاویٰ عالمگیری کی تصنیف میں شریک رہے، جیساکہ ’’نزہۃ الخواطر،ج:۶، ص:۷۶۲‘‘ میں ہے:
 ’’وکان من مصنفی الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
۱۸… قاضی محمد دولت فتح پوریؒ:
    قاضی محمد دولتؒ، موضع سہالی میں پیدا ہوئے، وہیں پرورش پائی اور شیخ قطب الدین بن عبد الحلیم سہالویؒ سے علم حاصل کیا، وہاں سے دہلی گئے اور تصنیف فتاویٰ کا کام انجام دیا۔ ’’نزہۃ الخواطر، ج:۶،ص:۸۱۶‘‘ میں ہے:
 ’’ودخل فی زمرۃ مؤلفی الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
۱۹…مولانا محمد سعید سہالویؒ:
    ملاسعیدؒ، ملا قطب الدین سہالویؒ کے منجھلے صاحبزادے تھے۔ تعلیم کی تکمیل اپنے والد ہی سے کی اور عرصہ تک والد کے ساتھ درس وتدریس کا مشغلہ رکھا۔ والد کی شہادت کے بعد عالمگیرؒ کے دربار سے تعلق رکھا اور فتاویٰ کی تالیف میں شریک رہے۔’’ نزہۃ الخواطر،ج:۶، ص:۸۱۹‘‘میں ہے:
 ’’لہ مشارکۃ فی تالیف الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
۲۰…شیخ محمد غوث کاکوریؒ:
    مولانا موصوف ۱۰۵۶ھ میں پیدا ہوئے۔ مکتبی تعلیم کے بعد ملا محمد زماںؒ، ملا ابو الواعظؒ اور مولانا قطب الدین سہالویؒ سے علم حاصل کیا، پھر دہلی چلے گئے۔ عالمگیرؒ ان کا بڑا اعزاز کرتے تھے اور حدیث میں خاص طور سے ان سے استفادہ کیا تھا۔ فتاویٰ کی تصنیف میں ان کا بھی ہاتھ ہے ، چنانچہ’’ نزہۃ الخواطر،ج:۶،ص:۸۳۲‘‘ میں ہے:
’’ولی تدوین الفتاویٰ الہندیۃ فدخل فی زمرۃ مؤلفیہا‘‘۔
۲۱…مفتی محمد اکرم لاہوریؒ:
    پہلے بتایاگیا کہ فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کا کام ابتداء میں جن علماء کے سپرد کیا گیا، ان میں مفتی محمد اکرم لاہوریؒ بھی تھے۔ یہ مفتی محمد اکرم لاہوریؒ کون تھے؟ غالباً یہ وہی ہیں جنہیں تذکرہ نویسوں نے مفتی قاضی محمد اکرم دہلویؒ تحریر کیا ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ اصلاً لاہوری تھے، بعد میں دہلی تشریف لے گئے۔ عظیم فقہاء میں سے تھے۔ (برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۳۶)
    اکابر علماء سے علم وافتاء کے وارث بنے۔ طویل عرصے تک دہلی میں مسند افتاء پر فائز رہے، پھر اورنگ آباد میں مسند قضا پر متمکن کئے گئے، تمام عمراس منصب پر فائز رہے۔ان کی وفات ۱۱۱۶ھ میں ہوئی۔
۲۲…شاہ عبد الرحیم دہلویؒ:
    حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد ماجد حضرت شاہ عبد الرحیم دہلویؒ فتاویٰ عالمگیری کے باقاعدہ مرتبین میں تو شامل نہ تھے، البتہ اس کی ترتیب وتدوین کے بعد اس پر نظرثانی میں ان کا حصہ ہے۔ (برصغیر میں علم فقہ، ص:۳۲۸)
۲۳…ملافصیح الدین پھلواریؒ:
    مولانا موصوف پھلواری میں پیدا ہوئے، وہیں پرورش پائی اور علم حاصل کیا، اس کے بعد دہلی آئے اور ملاجیونؒ سے علم حاصل کیا، پھر اپنے وطن واپس آکر درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔
    ان کا ذکر مرتب فتاویٰ کی حیثیت سے کسی تذکرے میں مرقوم تو نہیں، البتہ اپریل ۱۹۴۷ء کے ’’معارف‘‘ (اعظم گڑھ) میں ان کا ذکر ملتا ہے، چنانچہ ملافصیح الدینؒ کے صاحبزادے، ملاصبیح الدینؒ کے نام سلطان عالمگیرؒ کی طرف سے جو فرمان تھا، اس میں اس کا ذکر ملتا ہے، فرمان میں ہے:
’’دریں وقت میمنت اقتران، فرمان والاشان، واجب الاذعان صادر شد کہ یک روپیہ یومیہ از خزانہ بلدہ عظیم صوبہ بہار ویک صد وبست بیگہ زمین از پرگنہ پھلواری، مضاف صوبہ بہار درمدد معاش بصلائے تدوین فتاویٰ بنام ملا شیخ فصیح الدینؒ مقرر بود‘‘۔                                       (معارف اعظم گڑھ، اپریل ۱۹۴۷ء ص:۲۹۵)
۲۴…قاضی سید عنایت اللہ مونگیریؒ:
    بعض حضرات نے قاضی عنایت اللہ مونگیریؒ کو بھی مدوِّنین فتاویٰ میں شامل کیا ہے، چنانچہ اکتوبر ۱۹۴۷ء کے ’’معارف‘‘ (اعظم گڑھ) میں اس سلسلے میں کافی معلومات بیان کی گئی ہیں، لکھا ہے:
’’عام طور پر مشہور ہے کہ مونگیر کے ایک عالم بھی فتاویٰ عالمگیری کی تدوین میں شریک تھے، لیکن خاندانی روایات کی بنا پر باوثوق کہا جاسکتا ہے کہ محکمۂ قضا میں آنے سے قبل وہ اس مجلس تدوین کے رکن تھے‘‘۔       (معارف اعظم گڑھ، اکتوبر ۱۹۴۷ء ص:۲۸۸)
۲۵…مولانا محمد شفیع سرہندیؒ:
    مولانا محمد شفیع سرہندیؒ عہد عالمگیری کے ممتاز عالم تھے۔ عالمگیرؒ کو اُن سے بڑی عقیدت تھی۔ جب فتاویٰ کی تالیف کا کام شروع ہوا تو عالمگیرؒ نے مولانا موصوف کی خدمات بھی حاصل کیں، جس کی شاہی سند ان کے خاندان میں اب تک محفوظ ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ،ص:۱۰۷)
۲۶…ملا وجیہہ الربؒ:
    ان کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا، فرمان شاہی کی اس عبارت سے جو مولانا محمد شفیعؒ سے تعلق رکھتی ہے، پتا چلتا ہے کہ مولوی محمد شفیعؒ کے ساتھ یہ بھی فتاویٰ کی تصنیف میں شریک تھے، عبارت یہ ہے:
’’بشرط جمع فتاویٰ عالمگیری بہمراہی شیخ وجیہ الرب مرحوم دروجہ معاش محمد شفیعؒ ولد شریف محمد مقرر بود‘‘۔                              (فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین ،ص:۱۰۹)
۲۷…ملا غلام محمدؒ :
    مارچ ۱۹۴۸ء کے’’ معارف‘‘ میں ملا غلام محمدؒ قاضی القضاۃ کے متعلق لکھا گیا ہے کہ وہ بھی مؤلفین فتاویٰ میں ہیں اور ایک قلمی کتاب ’’آثارِ اشرف‘‘ کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، لیکن کوشش کے باوجود وہ کتاب دستیاب نہ ہوسکی۔ (فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۹۸)
۲۸…علامہ ابو الفرحؒ:
    ’’حیات جلیل ص: ۱۳‘‘ میں ہے:
’’امیر میران علامہ ابو الفرحؒ معروف بہ سید معدن، جو فتاویٰ عالمگیری کی ترتیب وتالیف میں دیگر علماء کے دست وبازو تھے‘‘۔
     مؤلف نے کسی مآخذ کا حوالہ نہیں دیا ہے، اس لئے قطعی طور سے فتاویٰ کی تدوین میں ان کی شرکت کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ (فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۹۷)
فتاویٰ عالمگیری کے ترجمے:
    فتاویٰ عالمگیری، ممتاز علماء کی شب وروز محنت کے بعد منصۂ شہود پر آئی۔ کتاب عربی میں لکھی گئی، جس کی وجہ سے تمام لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے، ان کی آسانی کے لئے اورنگزیب عالمگیرؒنے چلپی عبد اللہ اور ان کے شاگردوں کو اس کے فارسی ترجمے کے لئے مامور کیا۔
    ’’ نزہۃ الخواطر، ج:۵،ص:۵۸۰‘‘ میں ہے:
 ’’وأمر بترجمۃ الفتاویٰ الہندیۃ‘‘۔
     ’’تبصرۃ الناظرین‘‘ میں ہے:
’’وچلپی عبد اللہ بترجمۂ آں (فتاویٰ عالمگیری) مامور بود‘‘۔ (فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، ص:۹۹)
    اس کے بعد قاضی القضاۃ نجم الدین علی کاکورویؒ کا ایک اور فارسی ترجمہ مع مختصر شرح کے معرض وجود میں آیا، لیکن یہ صرف کتاب الجنایات ہی پر مشتمل ہے۔ ’’نزہۃ الخواطر،ج:۷، ص:۱۱۲۱‘‘ میں ہے:
’’لہ مصنفات، منہا شرح بسیط بالفارسی علی کتاب الجنایات من الفتاوی الہندیۃ‘‘۔
    اس کے علاوہ فتاویٰ عالمگیری کااُردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے، یہ ترجمہ مولانا سید امیر علی ملیح آبادی کا ہے۔اس کی عظیم خصوصیت یہ ہے کہ شروع میں فاضل مترجم نے ایک مبسوط اور مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے، جو نہایت محققانہ اور عالمانہ ہے، اس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ فتاویٰ عالمگیری میں کون کون سے فتاویٰ، علمی اور فقہی اعتبار سے قابل اعتماد نہیں۔ ’’نزہۃ الخواطر،ج:۸، ص:۱۱۹۶‘‘ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے، چنانچہ مصنفؒ فرماتے ہیں:
 ’’لہ مصنفات عدیدۃ… ومنہا ترجمۃ الفتاویٰ العالمگیریۃ‘‘۔
اختتامیہ:
مندرجہ بالا سطور سے فتاویٰ عالمگیری کی تالیف کے سلسلے میں علماء وفقہاء کی محنت اور عرق ریزی واضح ہوتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بادشاہِ وقت اورنگزیب عالمگیرؒ کی دلچسپی اور اشتیاقِ علم کا بھی پتہ چلتا ہے۔ انہی مساعئی جمیلہ اور جانفشانی کا نتیجہ ہے کہ یہ کتاب فقہی دنیا میں مقبول عام ہے، جو عند اللہ مقبولیت کی علامت ہے۔ 
فجزاہم اﷲ سبحانہ وتعالیٰ عنا وعن سائر المسلمین خیر الجزاء وجعل سعیہم مشکورا فی الاولیٰ والآخرۃ، اٰمین۔
مصادر ومراجع:
۱-نزہۃ الخواطر (الإعلام بمن فی تاریخ الہند من الأعلام) مولانا عبد الحی حسنی لکھنویؒ۔
۲-برصغیر میں علم فقہ ، مولانا اسحاق بھٹی۔
۳-فتاویٰ عالمگیری کے مؤلفین، مولانا نجیب اللہ ندوی۔
۴-معارف (اعظم گڑھ) ندوۃ المصنفین کا ماہنامہ رسالہ۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین