بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

غیرموجود سامان دکھاکر آن لائن کاروبار کرنا!

غیرموجود سامان دکھاکر آن لائن کاروبار کرنا!


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں:
۱:-آج کل احباب آن لائن کپڑے کے سوٹ واٹس ایپ پر ریٹ لگاکر بیچ رہے ہیں ، لیکن ان کے پاس موجود نہیں ہے، آرڈر پر منگواکر دیتے ہیں۔ کیا یہ طریقہ درست ہے؟ اگر نہیں تو از راہِ کرم اس طرح سے بیچنے کا درست طریقہ بھی بتلادیں ۔ 
۲:- آن لائن تصویر دکھانا کسی چیز کا نمونہ دکھانے کی طرح ہے یا نہیں؟ 
۳:- نیز یہ کہ آن لائن تصویر دیکھنے کے بعد خرید کردہ چیز بیان کی گئی اور دکھائی گئی صفات کے مطابق نہ ہوئی تو کیا خریدار کو خیارِ رؤیت حاصل ہوگا؟ شکریہ مستفتی: عبداللہ
الجواب باسمہٖ تعالیٰ
 رضی اللہ عنہ :- آن لائن کاروبار میں اگر ’’مبیع‘‘ (جو چیز فروخت کی جارہی ہو) بائع (بیچنے والے) کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی، لیکن اگر مبیع بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار، تصویر دکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ: ’’فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی‘‘، وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں’’مبیع‘‘ موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت یا وکیل کے قبضے میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔
اس کے جواز کی صورتیں درج ذیل ہیں:
۱:- بائع مال پہنچنے سے پہلے بیع نہ کرے، بلکہ وعدۂ بیع کرے،بیع مال پہنچنے کے بعد کرے اور بائع مشتری سے یہ کہہ دے کہ یہ چیز اگر آپ مجھ سے خریدیں گے تو میں آپ کو اتنے کی دوں گا۔
 ۲:-آن لائن کام کرنے والا فرد یا کمپنی ایک فرد (مشتری) سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے فرد یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اُجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے، یعنی بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے بروکری کی اُجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کرے۔
 ۳:-جہاں سے مال خریدا ہے، وہاں کسی کو یا مال بردار کمپنی کو مال پر قبضہ کا وکیل بنادے، اس کے قبضے کے بعد بیع جائز ہے۔ البتہ جواز کی ہر صورت میں خریدار کو مطلوبہ چیز ملنے کے بعد خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، یعنی جب ’’مبیع‘‘ خریدار کو مل جائے تو دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہونے کی صورت میں اُسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔حدیث شریف میں ہے:
’’عن ابن عباسؓ، أن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم قال: ’’من ابتاع طعاما فلا يبعہ حتی يستوفيہ‘‘، قال ابن عباسؓ: وأحسب کل شيء مثلہ.‘‘ 
 (الصحيح لمسلم، رقم الحديث:۱۵۲۵ )
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب کوئی کھانے کی چیز خریدے تو اس وقت تک نہ بیچے جب تک اس پر مکمل قبضہ نہ کرلے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: میں سمجھتا ہوں کہ ہر چیز کا یہی حکم ہے۔‘‘
’’فتح القدیر‘‘ میں ہے:
’’ومن اشتری شيئا مما ينقل ويحول لم يجز لہ بيعہ حتی يقبضہ، لأنہ عليہ الصلاۃ والسلام نہٰی عن بيع ما لم يقبض ولأن فيہ غرر انفساخ العقد علی اعتبار الہلاک... ثم علل الحديث (لأن فيہ غرر انفساخ العقد) الأول (علی اعتبار ہلاک المبيع) قبل القبض فيتبين حينئذٍ أنہ باع ملک الغير بغير إذنہٖ وذٰلک مفسد للعقد، وفي الصحاح أنہ صلی اللہ عليہ وسلم نہٰی عن بيع الغرر. ‘‘ (فتح القدير لابن ہمام، ج:۶، ص:۵۱۰-۵۱۲)
w ، e:- آن لائن خرید وفروخت کرتے ہوئے ’’مبیع‘‘ کی تصویر دکھانا بعینہ نمونہ دکھانے کی طرح نہیں ہے، کیونکہ تصویر کسی شئے کی مثل تو ہے، عین نہیں ہے اور مثل‘ عین کا غیر ہے، لہٰذا حقیقتاً مبیع دیکھ لینے کے بعد خریدار کو خیارِ رؤیت حاصل ہوگا۔ اس کی نظیر یہ ہے:
’’ (لا) تحرم (المنظور إلی فرجہا الداخل) إذا رآہ (من مرآۃ أو ماء) لأن المرئي مثالہ (بالانعکاس) لا ہو۔ (قولہ: لأن المرئي مثالہ إلخ) يشير إلی ما في الفتح من الفرق بين الرؤيۃ من الزجاج والمرآۃ، وبين الرؤيۃ في الماء، ومن الماء حيث قال: کأن العلۃ واللہ سبحانہ وتعالی أعلم أن المرئي في المرآۃ مثالہ لا ہو وبہٰذا عللوا الحنثَ فيما إذا حلف لا ينظر إلی وجہ فلان، فنظرہ في المرآۃ أو الماء وعلی ہٰذا فالتحريم بہ من وراء الزجاج، بناء علی نفوذ البصر منہ فيری نفس المرئي بخلاف المرآۃ، ومن الماء، وہٰذا ينفي کون الإبصار من المرآۃ والماء بواسطۃ انعکاس الأشعۃ، وإلا لرآہ بعينہ بل بانطباع مثل الصورۃ فيہما، بخلاف المرئي في الماء؛ لأن البصر ينفذ فيہ إذا کان صافيا فيری نفس ما فيہ، وإن کان لا يراہ علی الوجہ الذي ہو عليہ، ولہٰذا کان لہ الخيار إذا اشتری سمکۃ رآہا في ماء بحيث تؤخذ منہ بلا حيلۃ. اہـ. وبہٖ يظہر فائدۃ قول الشارح مثالہ، لکنہ لا يناسب قول المصنف تبعا للدرر بالانعکاس، ولہٰذا قال في الفتح وہٰذا ينفي إلخ، وقد يجاب بأنہ ليس مراد المصنف بالانعکاس البناء علی القول بأن الشعاع الخارج من الحدقۃ الواقع علی سطح الصقيل کالمرآۃ والماء ينعکس من سطح الصقيل إلی المرئي، حتی يلزم أنہ يکون المرئي حينئذ حقيقتہ لا مثالہ، وإنما أراد بہ انعکاس نفس المرئي، وہو المراد بالمثال فيکون مبنيا علی القول الآخر ويعبرون عنہ بالانطباع، وہو أن المقابل للصقيل تنطبع صورتہ، ومثالہ فيہ لا عينہ، ويدل عليہ تعبير قاضي خان بقولہ؛ لأنہ لم ير فرجہا، وإنما رأی عکس فرجہا، فافہم.‘‘ 
 (فتاویٰ شامی، ج:۳، ص:۳۴، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: سعيد)
 الجواب صحیح الجواب صحیح فقط واللہ اعلم
 ابوبکر سعیدالرحمٰن محمد انعام الحق کتبہ
 الجواب صحیح محمد حذیفہ رحمانی
 محمد شفیق عارف دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ
 علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین