بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

غیر معروف لے پالک کی ولدیت کا اندراج کیسے کریں؟

غیر معروف لے پالک کی ولدیت کا اندراج کیسے کریں؟


    کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کی اولاد نہیں ہے اور وہ کسی اور کے بچہ کو یا پھر یتیم خانہ سے کسی بچہ کو اٹھا کر اپنا لے پالک بنالیتا ہے تو اس لے پالک کی ولدیت کی جگہ پر یہ شخص اپنا نام بطور والد لکھ سکتا ہے؟ مثلاً شناختی کارڈ وغیرہ میں اور اگر نہیں لکھ سکتا ہے تو پھر اس کی کیا صورت ہے کہ وہ اپنا نام بطور والد لکھے اور اگر وہ اپنا نام نہیں لکھ سکتا تو پھر کس کا نام لکھے؟         نوٹ:ایک صورت یہ ہے کہ اس لے پالک کا والد معلوم ہو اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس لے پالک کا والد معلوم نہ ہو تو دونوں صورتوں میں کیا حکم ہے؟

مستفتی:محمود شاہ


الجواب باسمہٖ تعالٰی

صورتِ مسئولہ میں لے پالک بچے کی ولدیت کے خانہ میں گود لینے والے شخص کا اپنا نام لکھنا شرعاً درست نہیں، بلکہ بچے کے حقیقی والد ہی کا نام لکھا جائے۔ البتہ سرپرست کے طور پر پرورش کرنے والا شخص اپنا نام لکھ سکتا ہے، بچے کے والد کا نام معلوم ہو یا نہ ہو، بہر دوصورت حکم یہی ہے کہ غیر والد کا نام ولدیت کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔

ولدیت معلوم نہ ہونے کی صورت میں عبد اللہ (اللہ کا بندہ) درج کردیا جائے یا عبد الخالق لکھ لیں۔قرآن کریم میں ہے:

’’ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ‘‘۔ (الأحزاب:۵)

ترجمہ:…’’تم ان کو ان کے باپوں کی طرف منسوب کیا کرو، یہ اللہ کے نزدیک راستی کی بات ہے اور اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو تووہ تمہارے دین کے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں اور تم کو اس میں جو بھول چوک ہوجاوے تو اس سے تو تم پر کچھ گناہ نہ ہوگا، لیکن ہاں جو دل سے ارادہ کرکے کرو‘‘۔(بیان القرآن)    فقط واللہ اعلم

الجواب صحیحالجواب صحیحکتبہ
ابو بکر سعید الرحمٰنمحمد شفیق عارفعبد الحمید
  دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین