بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

غیر عالم دین کا درسِ قرآن دینا

غیر عالم دین کا درسِ قرآن دینا



کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ:
میں بہادر آباد محلہ کا رہائشی ہوں اور اس کی مرکزی مسجد ”․․․․․․․․“ کا نمازی ہوں مسجد اور اس کے نمازی دیوبند مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں‘ اہل محلہ اور نمازیوں کی دینی تربیت کے پیش نظر مسجد میں ہفتہ وار مختلف علمائے کرام کے درس ہوتے ہیں‘ جن سے ہمیں بے حد دینی فائدہ محسوس ہوتا ہے‘ ماہِ مبارک میں یہاں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ کسی معتمد اور مستند عالم دین کو بلاکر ان سے درسِ قرآن دلوایاجاتا ہے‘ چنانچہ اسی سلسلے میں حضرت مفتی عتیق الرحمن شہید اور مولانا عزیز الرحمن صاحب استاذ حدیث جامعہ عثمانیہ بھی تشریف لاچکے ہیں‘ امسال انتہائی حیرت انگیز طور پر ”تنظیم اسلامی“ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کو․․․․․․․․ درسِ قرآن کے لئے بلایا گیا اور تاحال ان کا درس جاری ہے۔ بندہ اور اس کے ہم فکر دینی درد رکھنے والے بہت سے نمازیوں کو اس بارے میں سخت تشویش اور ذہنی پریشانی کا سامنا ہے۔ مذکورہ بالا صورت کے تناظر میں آنجناب سے ان چند امور سے متعلق وضاحت مطلوب ہے:
۱- ایک غیر عالم اور مزید یہ کہ تنظیم اسلامی کے نظریات کے حامل شخص کو مسجد کے منبر پر درس قرآن کے منصب پر فائز کرنا شرعی نقطہٴ نگاہ سے کیا حکم رکھتا ہے‘ جبکہ تفسیر قرآن کی اہمیت ونزاکت کی بنا پر متعدد علوم پر دسترس ہونا مفسر کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے؟
۲- اس علاقے میں بیسیوں علمائے کرام کے ہوتے ہوئے موصوف کو درس کے لئے منتخب کرنا کیا علم دین کی ناقدری میں شمار نہیں ہوگا؟
۳- درس قرآن کی اہلیت کا اصل معیار کیا ہے؟ براہ مہربانی وضاحت سے تحریر فرمائیں۔
۴- موجودہ حالات میں ․․․ جبکہ یہ درس قرآن کے تقدس اور مسلک دیوبند کے تحفظ کا مسئلہ ہے اور اس سلسلہ کے جاری رہنے میں علاقے کی دینی اور نظریاتی فضا مسموم ہونے اور نمازیوں میں انتشار کا خدشہ بھی ہے ․․․ ہماری شرعی ذمہ داری کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
آنجناب سے گذارش ہے کہ ان امور کے بارے میں وضاحت کے ساتھ جواب تحریر فرماکر عند اللہ وعند الناس ماجور ہوں۔
مستفتی:حسن شاہ
الجواب باسمہ تعالیٰ
”درسِ قرآن“ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرنے کا نام ہے اور علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی کو بیان کیا جائے‘ اس کے احکام کی حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے۔ نیز مرادِ خداوندی کو متعین کیا جائے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ ”علم تفسیر“ کے اس توضیحی عنوان میں علم تفسیر کی حقیقت‘ نزاکت اور اس کے حصول کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو بہت ہی مختصر اور سادہ الفاظ میں تعبیر کیا گیا ہے‘ اس عنوان کی تفصیلات اور علمی ابحاث میں جائے بغیر یوں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم‘ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ اس کی ترجمانی اور تفصیل وتوضیح کے لئے ایسی لیاقت اور اہلیت درکار ہے‘ جو اس کلام کی عظمت کے شایانِ شان ہو‘ ورنہ معمولی لغزش غلط ترجمانی کا مرتکب بناکر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے باغیوں میں شمار کروا دے گی اور تفسیر قرآن ودرس قرآن کا شوق دنیا وآخرت کی نجات وفلاح کی بجائے ہلاکت وبربادی کا ذریعہ بن جائے گا۔اسی خطرہ کے پیش نظر علماء کرام فرماتے ہیں اور دنیا کا عام اصول بھی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی علم وفن ایسا نہیں جو اس تک پہنچنے والے متعین راستوں اور واسطوں کے بغیر حاصل ہوتا ہو‘ یہی اصول قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے والوں کے بھی پیش نظر ہونا چاہئے‘ اگر کوئی انسان اس اصول اور ضابطہ سے ہٹ کر خدا کی کتاب کو تختہٴ مشق بناتا ہے تو ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ ظلم وناانصافی ہے‘ بلکہ خود انسان اپنے اوپر بھی ظلم کرنے والا بن جاتا ہے۔ اسی عظیم خطرہ کی بنا پر علماء امت کے ایک طبقہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نبوی ارشادات سے آگے کوئی بھی لفظ زبان سے نکالا ہی نہ جائے‘ کیونکہ قرآن فہمی اور قرآن بیانی میں غلطی سرزد ہونے کی بناء پر انسان ان تمام وعیدات کا مصداق بن جاتا ہے‘ جو قرآن بیانی میں اپنی رائے اور مذاق ومزاج کی آلودگی شامل کرنے والوں کی بابت وارد ہوئی ہیں‘ لیکن علامہ جلال الدین سیوطی  (م‘۹۱۱ھ) فرماتے ہیں کہ جمہور علمأ امت کی رائے کے مطابق قرآنی اعجاز کے اسرار ورموز کو سمجھنے کے لئے مطلوبہ استعداد اور صلاحیت کے حاملین کے لئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنا جائز ہے اور یہ استعداد وصلاحیت علوم وفنون کی تقریباً ۱۵/ پندرہ گھاٹیاں سر کرنے کے بعد پیدا ہوتی ہے‘ جن میں لغت ‘ صرف‘ نحو‘ اشتقاق‘ معانی‘ بیان‘ بدیع‘ قرآء ات‘ اصول الدین‘ اصول فقہ‘ فقہ‘ حدیث‘ علم اسباب نزول‘ علم ناسخ ومنسوخ اور نور بصیرت ووہبی علم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ علوم وفنون چونکہ ہمارے ہاں درسِ نظامی کے درسی نصاب میں شامل ہیں اسی بنیاد پر کہا جاتاہے کہ درسِ قرآن دینے والے کے لئے کم از کم درسِ نظامی کا فاضل ہونا ضروری ہے‘ کیونکہ جس آدمی نے اپنی زندگی کے آٹھ‘ دس سال ان علوم وفنون کے سائے میں گزارے ہوں اسے ان علوم میں اعلیٰ درجہ کا کمال اور مہارت اگر حاصل نہ بھی ہو تو کچھ نہ کچھ مناسبت تو ضرور حاصل ہوجاتی ہے اور اس سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ درس نظامی کے فاضل کو اعجاز قرآن کے بیان کرنے میں اپنی علمی بے مائیگی کا احساس دامن گیر رہے گا اور وہ اپنی طرف سے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے اور الفاظ قرآنی میں مراد خداوندی متعین کرنے میں جاہلانہ بے باکی اور جرأت سے کم از کم محفوظ رہے گا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مستند عالم دین جو بات اور جتنی بات کہے گا وہ سلف صالحین پر اعتماد اور استناد کی روشنی میں کہے گا اور یہ تفسیر قرآن کا اہم بنیادی اصول ہے کہ تفسیر قرآن کا بار گراں اٹھانے والا اپنی طرف سے الفاظ وتعبیرات اور مراد ومعانی منتخب کرنے کی بجائے اسلاف پر اعتماد کرتے ہوئے ان ہی کے ارشادات کو سامنے رکھے‘ یعنی نبی اکرم ا کے اقوال وافعال‘ آپ ا کے صحابہ کرام  کے فرامین اور آراء کو تفسیر بیان کرتے ہوئے اساس وبنیاد سمجھے پھرحضور ا کے اسوہٴ حسنہ اور صحابہ کرام  کے طرز فکر وعمل پر کار بند رہنے والے فقہاء ملت اور علمأ حق کے عقائد واعمال اور اخلاق وعادات کو اپنا سرمایہ اور مأخذ سمجھے‘ اگر کوئی مفسر قرآن یا مدرس قرآن اس اصول سے پہلو تہی کرتے ہوئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے کی ٹھان لے اور درس قرآن کے نام پر کتاب الٰہی کو تحتہٴ مشق بنائے تو ہم تک قرآن اور دین کی تشریحات پہچانے والے واسطوں اور ذریعوں کا کہنا ہے کہ وہ ناجائز کررہا ہے‘ اس کا یہ عمل ‘ دین یا قرآن کی خدمت نہیں‘ بلکہ امت میں فتنہ اور گمراہی کا ذریعہ ہے پھر ستم بالائے ستم یہ کہ یہ مفسر یا مدرس اپنے اعمال ونظریات کی وجہ سے سلف بیزاری اور الحاد سے متہم ہوچکا ہو۔ اگر ایسے شخص کو کتاب اللہ کا مفسر بناکر بٹھا دیا جائے اور مرادِ الٰہی کا ترجمان قرار دیا جائے تو پھر مسلمانوں کے عقائد ونظریات اور دینیات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ چنانچہ حافظ جلال الدین سیوطی  نے ”الاتقان فی علوم القرآن“ میں امام ابوطالب الطبری کے حوالہ سے مفسر کے آداب کے ضمن میں مفسر کے لئے ضروری شرائط کا تذکرہ یوں فرمایا ہے:
”اعلم ان من شرطہ صحة الاعتقاد اولاً ‘ولزوم سنة الدین فان من کان مغموصاً علیہ فی دینہ لایؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین ثم لایؤتمن فی الدین علی الاخبار عن عالم فکیف یؤتمن فی الاخبار عن اسرار اللہ تعالیٰ ‘ولانہ لایؤمن ان کان متہماً بالالحاد ان یبغی الفتنة ویغر الناس بلیّہ وخداعہ کدأب الباطنیة وغلاة الرافضة․․․ الخ“۔(الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی النوع:۷۸‘ج:۲۰ ص:۱۷۶‘ ط:سہیل اکیڈمی لاہور)
ترجمہ:․․․”جاننا چاہئے کہ مفسر کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے تو اس کا عقیدہ صحیح ہو‘ دوسرے وہ سنت دین کا پابند ہو‘ کیونکہ جو شخص دین میں مخدوش ہو‘ کسی دنیوی معاملہ میں بھی اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا‘ پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے‘ اس میں بھی وہ لائق اعتماد نہیں تو اسرار الٰہی کی خبر دینے میں کس طرح لائق اعتماد ہوگا‘ نیز ایسے شخص پر اگر الحاد کی تہمت ہو تو اس کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ تفسیر بیانی کے ذریعہ فتنہ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکاری سے گمراہ کرے‘ جیساکہ فرقہٴ باطنیہ اور غالی رافضیوں کا طریقہ ٴ کار ہے“۔
مزید برآں جو شخص نظریاتی وفکری طور پر زیغ وضلال کا شکار ہو‘ عملی اعتبار سے بدعت وکجروی اور بے راہ روی کا علمبردار ہو اور روحانی لحاظ سے تکبر وغرور‘ نفس پرستی اور حب جاہ وحب مال کے علاوہ نفسانی خواہشات سے دوچار ہو تو حضرت لدھیانوی شہید کے بقول ایسا شخص جو تفسیر لکھے اور بیان کرے گا وہ قرآن کریم کی تفسیر نہیں ہوگی‘ بلکہ اس کے بدعت آلودذہن کا بخار اور بیمار دل کا تعفن ہوگا‘ ایسے فکری وروحانی مریضوں کے لئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنا یا درسِ قرآن دینا تو کجا‘ علمأ تفسیر کے بقول قرآن فہمی کی کوشش کرنا بھی حرام ہے‘ کیونکہ ان لوگوں کی بیمار ذہنیت اور نفسانی خواہش کے غلبہ کی وجہ سے انہیں ہر ہر موقع پر اپنی بیماری اور نفسانیت کا عکس نظر آئے گا اور اپنے فاسد افکار وخیالات ‘ خود ساختہ تعبیرات وتشریحات کو عوام الناس کے سامنے قرآنی طشت میں رکھ کر پیش کرے گا اور لوگ اس کی جہالت کو علم‘ اس کی فاسد آراء کو قرآن کی تفسیر خیال کرتے ہوئے اسے اپنا پیشوا اور مقتدیٰ کے درجہ پر بٹھا لیں گے‘ اس طرح معاشرہ میں ضلالت وگمراہی کا طوفان برپا ہوجائے گا‘ چنانچہ ”الاتقان“ میں امام زرکشی کی ”البرہان“ کے حوالہ سے مذکور ہے جو پورے سوالنامہ کے جواب کے لئے بھی کافی ہے:
”اعلم انہ لایحصل للناظر فہم معانی الوحی ولایظہر لہ اسرارہ وفی قلبہ بدعة او کبر او ہوی اوحب الدنیا او ہو مصر علی ذنب او غیر متحقق بالایمان او ضعیف التحقیق او یعتمد علی قول مفسر لیس عندہ علم او راجح الی معقولہ وہذہ کلہا حجب وموانع بعضہا آکد من بعض ․․․ الخ“۔ (الاتقان للسیوطی:نوع:۷۸‘ ۲/۱۷۶‘ ط:لاہور)
ترجمہ:․․․”جاننا چاہئے کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے پر وحی کے معانی ظاہر نہیں ہوتے اور اس پر وحی کے اسرار نہیں کھلتے‘ جبکہ اس کے دل میں بدعت ہو‘ یا تکبر ہو‘ یا اپنی ذاتی خواہش ہو‘ دنیا کی محبت ہو یا وہ گناہ پر اصرار کرنے والا ہو‘ یا اس کا ایمان پختہ نہ ہو یا اس میں تحقیق کا مادہ کمزور ہو‘ یا وہ کسی ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو علم سے کوراہو‘ یا وہ قرآن کریم کی تفسیر میں عقل کے گھوڑے دوڑاتاہو‘ یہ تمام چیزیں فہم قرآن سے حجاب اور مانع ہیں‘ ان میں بعض دوسری بعض سے زیادہ قوی ہیں“۔
الغرض جو شخص کسی بھی طور پر یعنی علمی‘ عملی‘ فکری واعتقادی‘ نیز دین ودیانت کے لحاظ سے قرآن کریم کی تفہیم وتشریح کا اہل اور حقدار نہ ہو‘ اگر وہ اس منصب پر بیٹھ کر تفسیر قرآن کے نام پر رائے زنی کرے گا تو وہ نہ صرف یہ کہ حرام کا مرتکب ہوگا‘ بلکہ ان تمام وعیدات کا مصداق ومستحق بھی ہوگا جو حضور ا نے ”رائے وتخمین“ کے ذریعہ تفسیر کرنے والوں کے بارے میں فرمائی ہیں‘ جن میں سرفہرست یہ ارشاد گرامی ہے:
”جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے بغیر علم کے قرآن میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنائے“۔ (مشکوٰة:۳۵)
اس تفصیلی بحث سے سوالنامہ میں مذکور تمام سوالات کے جوابات تو کسی فرد‘ ادارہ یا تنظیم کا نام لئے بغیر تقریباً آچکے ہیں‘ تاہم اختصار کے ساتھ سوالوں کے ترتیب وار جوابات ذکر کئے جاتے ہیں:
۱- کسی بھی غیر عالم‘ بالخصوص جمہور علمأ امت کے افکار ونظریات سے منحرف شخص کو مسجد کے منبر پر مدرس قرآن کے منصب پر فائز کرنا شرعی نقطہٴ نگاہ سے بالکل ناجائز ہے۔
۲- مستند علمأ کے ہوتے ہوئے غیر مستند آدمی کو درس کے لئے بٹھانا نہ صرف یہ کہ علم دین کی ناقدری ہے‘ بلکہ قرآن کریم کے ساتھ زیادتی اور قرآن کی بے حرمتی بھی ہے۔
۳-درس قرآن کی اہلیت کا اصل معیار‘ تفسیر قرآن کے علمی مأخذ کی معرفت‘ وممارست‘ علمی رسوخ تام اور سلامتئی فکر ونظر ہے۔
۴- مذکورہ علاقہ کے صحیح العقیدہ مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ برائی کے ازالہ کے لئے اچھائی کی مقدور بھر کوشش کریں‘ مسلمانوں کے درمیان فتنہ وانتشار کی روک تھام کے لئے ”امر بالمعروف نہی عن المنکر“ کا احسن طریقہ اختیار کرتے ہوئے اہل محلہ‘ مسجد کمیٹی اور علاقہ کے بااثر حضرات کی باہمی مشاورت اور فہمائش کے ساتھ مذکورہ شخص کو فوری طور پر درس قرآن کی مصروفیت سے روک دیں تاکہ فاسد افکار ونظریات کی تبلیغ وترویج کا انسداد ہوسکے اور لوگوں کے درمیان فتنہ وانتشار برپا نہ ہو‘ نیز موصوف کی بجائے کسی مستند‘ راسخ العقیدہ‘ مضبوط عالم دین کو ان کی جگہ درسِ قرآن کے لئے مقرر کریں۔
کتبہ
رفیق احمد بالاکوٹی
الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین