بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

غزوۂ تبوک میں پنہاں تربیتی پہلوؤں پر ایک نظر!


غزوۂ تبوک میں پنہاں تربیتی پہلوؤں پر ایک نظر!


رجب سن ۹ھ کا واقعہ ہے، جس میں مسلمانوں کے خلاف بنسبت مشرکینِ عرب و یہود کے زیادہ سخت وجنگجو رومن امپائرکی فوج برسر پیکار ہوئی، جنہیں نصف دنیا پر حکمرانیت کا طُرّۂ امتیاز حاصل تھا، جس کی مسلح افواج نے حال ہی میں سلطنتِ ایران کو شکست سے دوچار کیا تھا، جن کی وسعتِ مالی، قوتِ بدنی وعسکری نظام وغیرہ کو پیش نظر رکھ کر مسلمانوں کی حالت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک ’’پرِکاہ‘‘ کا ’’کوہ‘‘ سے مقابلہ ہے۔ علاوہ ازیں عرب عیسائی قبائل لخم، جزام، عاملہ، قبیلہ غسان وغیرہ بھی مقامِ موتہ پر ہونے والی شکست فاش کا بدلہ وانتقام لینے کے واسطے بے چین وبے تاب اُن کے شانہ بشانہ شریک تھے۔اس کے بالمقابل مسلمانوں کی زبوں حالی کا کچھ یوں حال تھا، جس کی تفصیل سے متعلق مشہور مؤرخ ابن اسحاقؒ رقم طراز ہیں:
’’أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمر أصحابہٗ بالتھیؤ لغزو الروم، وذٰلک في زمان من عسرۃ الناس، وشدّۃ من الحرّ، وجدب من البلاد، وحین طابت الأثمار، والناس یحبون المُـقام في ثمارھم وظلالھم، ویکرھون الشخوص علی الحال من الزمان الذین ھم علیہ، وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قلما یخرج في غزوۃ إلا کنی بھا، وأخبر أنہ یرید غیر الوجہ الذي یصمد لہ إلا ماکان من غزوۃ تبوک، فإنہ بیّنھا الناس؛ لبعد الشقۃ وشدۃ الزمان وکثرۃ العدو الذي یصمد لہ لتأھب الناس لذٰلک أھبتہ۔‘‘  (سیرتِ ابن ہشام:۲/۵۱۶)
’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا جانثار صحابہؓ کو رومیوں کے خلاف جنگ کی تیاری کا حکم دیا، یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگ کسمپرسی کی حالت میں، سخت گرمی، قحط سالی کا شکار تھے، جب کہ مدینہ کے نخلستان میں کھجوریں پک رہی تھیں (جس کا شدّت سے انتظار رہتا تھا)، جس پر اُگنے والی کھجوروں اور ان کے زیرِ سایہ بیٹھنے کو ہر چیز سے محبوب جانا جاتا تھا، نیز ان پیش آمدہ حالت میں خود کو دھکیلنا طبیعت پر شاق وگراں معلوم ہوتا تھا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ شریفہ یہ تھی کہ جس سمت سے جہاد پر روانگی کا قصد فرماتے اس کو عام لوگوں پر مخفی رکھتے، اور اس کے خلاف جہت کو (توریۃً) بیان فرماتےتھے ، مگر غزوۂ تبوک وہ واحد معرکہ تھا کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسافت کی دوری، حالات کی سختی اور فریقِ مخالف کی کثرتِ تعداد کے سبب لوگوں کو صراحتاً سمتِ سفر سے آگاہ کیا، تاکہ لوگ حسبِ حالت زادِ راہ تیار کرلیں۔‘‘
اس معرکہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جاں نثاری اُخوتِ اسلامی کے اُن گراں قدر جذبات کا اظہار کیا کہ اوراقِ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ نیز اس میں قیامت تک کے انسانوں کے واسطے مختلف حیثیتوں سے تربیتی پہلوں نمایا ں ہوتے ہیں، جس کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے انسان دینی ودنیاوی ہر اعتبار سے ترقی کی منازل بآسانی طے کرسکتا ہے، جن میں سے چند فوائد ہدیۂ قارئین ہیں:

1:راہِ خدا میں جانی ومالی قربانیاں پیش کرنے کا جذبہ 

حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب نفیرِ عام کا حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صرف ایک صدا پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک بڑی تعداد کا ضروریاتِ زندگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جہاد کے لیے نکلنا ان کے پاک طینت ہونے کی بیّن دلیل ہے۔نیز اس کسمپُرسی کی کیفیت اور مسلمانوں کی شکستہ حالی کی بنا پر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے عام تعاون کا اعلان کیا اور اس میں صدقہ خیرات کی ترغیبی مہم چلائی، جس پر شمعِ رسالت کے پروانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس میں حضرت ذوالنورین عثمان غنی رضی اللہ عنہ   ۹۰۰اونٹ، ۱۰۰ گھوڑے اور ایک ہزار دینار پیش کرکے ’’مجھز جیش العسرۃ‘‘ کے لقب سے سرفراز ہوئے، جبکہ عبد الرحمٰن بن عوف- رضی اللہ عنہ - چالیس ہزار درہم راہ ِخدا میں صرف کرکے مستحقِ اجر ہوئے۔ (سیرتِ ابن ہشام:۲/۵۱۸)

2:نیکی کے کاموں میں منافست ومسابقت مطلوب ہے

حضرت عمر - رضی اللہ عنہ - کا بیان ملتا ہے کہ میں نے سوچا کہ آج کے دن تو میں صدیق اکبر- رضی اللہ عنہ - سے بازی مارسکتا ہوں، چونکہ میری مالی حالت ان سے قدرے خوشحال ہے، اس بنا پر وہ اثاث البیت کا نصف جو ڈھائی ہزار روپیہ پر مشتمل تھا، پیش خدمت کیا، مگر قربان جائیں حضرت صدیق اکبر- رضی اللہ عنہ - کی جانثاری پر، جنہوں نے گھر میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت کے سوا کچھ بھی باقی نہ چھوڑا، گھر میں جو کچھ تھا، سب خدا کے نام پر نثار کردیا۔ جب یہ منظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا تو فرمایا کہ: مجھے معلوم ہوگیا، میں صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  پر کبھی بازی نہیں جیت سکتا۔(حیاۃ الصحابہؓ:۲/۱۵، انفاق الصحابۃؓ المال فی غزوۃ تبوک)

3: تعداد کی قلت وکثرت پر اعتماد دھوکہ شیطانی ہے

رومن امپائر افواج کی تعداد تقریباً ۴۰۰۰۰ (چالیس ہزار) تھی، جبکہ اس کے بالمقابل مسلمانوں کا تیس ہزار کا لشکر ’’کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِإِذْنِ اللہِ‘‘ کا والہانہ نعرہ بلند کیے عشقِ نبوی سے سرشار وادیوں وبستیوں کو قطع کیے جارہے تھے۔

4:عذر تراشی جرم میں اضافہ کا باعث ہے

مسلمانوں کے ہمراہ منافقین کی ایک بڑی تعداد اس سفر میں شریک ہوئی، مگر ان کی ایک جماعت نے مدینہ ہی میں تراشیدہ اعذار کے انبار لگاکر رخصت کا سوال کیا، جیسا کہ منافق جد بن قیس نے یہ عذر گڑھا کہ میں نہایت حسین وجمیل ہوں، بنو اصفر کی خواتین کو دیکھ کر نفس پر قابو نہیں پاسکتا، لہٰذا اس ابتلاء و فتنہ سے مجھے محفوظ رکھیں، جس کی شناعت وفتنہ میں پڑجانے کو قرآن مجید نے یوں آشکارا کیا: ’’وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّيْ وَلَاتَفْتِنِّيْ أَلَا فِي الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا۔‘‘(تفسیر قرطبی:۸/۱۵۸، سورۃ التوبہ:۴۹)
اس کے علاوہ رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی بن سلول اور اس کے ہمنوا و ہم مشرب افراد مدینہ کے قریب ذُباب پہاڑی تک شریک ہوئے اور پھر موقع کو غنیمت جان کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

5:اجتماعی امورِ دینیہ میں رخنہ ورکاوٹ ڈالنے پر سخت تنبیہ

منافقین کی ایک بڑی تعداد خود تو شرکت سے باز رہی، جبکہ سویلم یہودی کے گھر جمع ہوکر سادہ لوح مسلمانوں کو جہاد جیسے عظیم امر سے روکنے کی مہم کا آغاز کیا، جیسا کہ قرآن مجید نے ان کا جملہ حکایۃً نقل کرکے ان کو سخت ڈانٹ پلائی: ’’وَقَالُوْا لَاتَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَھَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا۔‘‘(البقرۃ:۸۱)جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اطلاع ہوئی تو آپ نے طلحہ بن عبیداللہ  رضی اللہ عنہ  کو بھیج کر اس یہودی کے گھر کو نذر آتش کرنے کا حکم دیا۔(سیرتِ ابن ہشام:۲/۵۱۷)

6: فرائض کی تکمیل کےاسباب مہیا نہ ہونے پر غم کا اظہار

ایک طرف تومنافقین نے مختلف اعذار تراشے، اپنے تئیں خود کو جنگی صعوبتوں سے باز رکھا،تو دوسری جانب مالی اعتبار سے پسپاں حال مسلمانوں کی ایک جماعت رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں اشکبار حالت میں حاضرِ خدمت ہوئی، جس کا نقشہ قرآن مجید نے یوں کھینچا ہے:
 ’’ولَا عَلَی الَّذِیْنَ اِذَ امَآ اَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ قُلْتَ لَآاَجِدُ مَآ اَحْمِلُکُمْ عَلَیْہِ      ۪ تَوَلَّوْا وَّاَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا اَلَّا یَجِدُوْا مَا یُنْفِقُوْنَ‘‘  (البقرۃ:۹۲)
ترجمہ: ’’اور نہ ان لوگوں پر (کوئی گناہ ہے) جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ تمہارے پاس اس غرض سے آئے کہ تم انہیں کوئی سواری مہیا کردو، اور تم نے کہا کہ: میرے پاس تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر میں تمہیں سوار کرسکوں، تو وہ اس حالت میں واپس گئے کہ ان کی آنکھیں اس غم میں آنسوؤں سے بہہ رہی تھیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘

7: ایک دوسرے کے ساتھ احسان و مالی تعاون

جب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس سے بھی سواری و زادِ راہ کا انتظام نہ ہوسکا تو ان حضرات کا نہایت افسردگی کے عالم میں حضرت ابن یامین بن عمیر- رضی اللہ عنہ - پر گزر ہوا، ان سے رونے کی وجہ معلوم ہونے پر انہوں نے سواری کے واسطے اونٹ اور زادِراہ کے لیے کھجوریں فراہم کرکے امت کو ہمدردی کے جذبات کا ثبوت دیا۔ (سیرتِ ابن ہشام:۲/۵۱۸)

8:سفرِ تبلیغ وجہاد میں روانگی سے قبل اہل وعیال کے واسطے نیابت کا اہتمام

یہ پہلا معرکہ تھا جس میں کسی زوجہ محترمہ کو ہمراہ لیے بغیر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم عازمِ سفر ہوئے، اس بنا پر اہل وعیال کی دیکھ بھال کے لیے حضرت علی -کرّم اللہ وجہہ- کو اپنا جانشین مقرر کیا، اور سفر پر روانہ ہوئے، مگر منافقین نے ان کو پست ہمت وابتلاء نفاق کے طعنے دیتے ہوئے موردِ الزام ٹھہرایا، جس پر کبیدہ خاطر ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے بھی اپنا رختِ سفر باندھا اور مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر مقامِ جُرف پر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قافلے سے جاملے، مگر اطلاع ملنے پر آپ نے انہیں دوبارہ لوٹنے کا حکم دیا، نیز ارشاد فرمایا : 
’’اَلَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ، مِنْ مُّوسٰی إِلَّا اَنَّہٗ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ۔‘‘ (صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ تبوک، رقم الحدیث:۴۴۱۶)
’’کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سے اس نسبت کا شرف حاصل ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام  کو موسیٰ- علیہ السلام - کے کوہِ طور جانے پر (نسبتِ نیابت کا شرف) حاصل ہوا؟۔‘‘ 
یہ سن کر حضرت علی-کرّم اللہ وجہہ- مطمئن ہوکر واپس مدینہ لوٹ آئے۔
نوٹ:اس سے معلوم چلا کہ داماد کو بھی اہل وعیال کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا جاسکتا ہے، نیز’’اَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰی‘‘ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھائی کو بھی اس خدمت پر مامور کیا جاسکتا ہے، اور حضرت علی  رضی اللہ عنہ  ان دونوں حیثیتوں کی جامع شخصیت تھے ۔

9: عذابِ الٰہی کا مظہر بستیوں پر سے گزرتے ہوئے خشیت کے آثار کا ظہور

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کا قافلہ جب مقام حِجر کو پہنچا، جہاں قومِ ثمود کے کھنڈرات تھے، جہاں ہزاروں برس قبل حضرت صالح  علیہ السلام  نے توحید کی صدا بلند کی تھی، مگر ان کی دعوت پر لبیک کہنے کے بجائے ظلم وتعدی کی داستان رقم کرنے پر حق تعالیٰ شانہ نے ان پر زلزلے وکڑک کا عذاب مسلط کرکے ان کا نام ونشان تک مٹادیا، البتہ پہاڑوں میں تراشیدہ قصر ومحلات زبانِ حال سے ان کی داستانِ عبرت سنارہے تھے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرامؓ کو تاکید فرمائی: ’’ان ظالم لوگوں کی آبادی ومسکن سے گزرتے ہوئے حق تعالیٰ سے ڈرو، مبادا یہ کہ وہی عذاب تم پر نازل نہ ہوجائے، کوئی شخص بھی یہاں قیام کی کوشش نہ کرے ، یہاں کا پانی استعمال میں نہ لائے، اور جو پانی استعمال کرکے آٹا وغیرہ گوندھا گیا ہو، اسے جانور کے سامنے ڈال دیا جائے۔‘‘(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ تبوک، رقم الحدیث:۴۴۱۸) چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس عبرت ناک مقام کو چہرۂ انور پر رومال ڈالے تیزی سے عبور کیا۔حساس اور لطیف مزاج انسان کو عذاب زدہ مقامات پر ہزارہا سال بعد بھی ایک وحشت وغضب اُترتا محسوس ہوتا ہے، حضور  علیہ السلام  سے بڑھ کر ایسے اثرات کا احساس بھلا کس کو ہوسکتا تھا۔(تاریخ امت مسلمہ، جلداول، ص:۳۶۴)

10: غیرتِ شرعی ایمان کا حصہ ہے 

حضرت ابو خیثمہ  رضی اللہ عنہ  سفرِ تبوک سے گرمی کی شدت کے پیش نظر لوٹ آئے تھے، جب اپنے باغ کے سایہ فگن خیمے میں داخل ہوئے اور اہلیہ کی جانب سے ٹھنڈا پانی پیش کیا گیا تو غیرتِ ایمانی واخوتِ اسلامی نے جوش مارا اور فرمانے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اور ان کے اصحابؓ سخت گرمی کی تپش سے دوچار ہوں اور ابوخیثمہ یہاں ٹھنڈی چھاؤں وشیریں پانی سے لطف اندوز ہو، ضمیر نے ایسا جھنجھوڑا کی اسی وقت قسم اُٹھائی کہ اس باغ میں قدم بھی نہ رکھوں گا، حتیٰ کہ دوبارہ ان کے ساتھ شریک نہ ہوجاؤں، بہرحال اسی وقت عازمِ سفر ہوئے اورحاضرِ خدمت ہوئے، تاخیر کی وجہ دریافت کیے جانے پر سارا ماجرا بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں خوب خیر کی دعاؤں سے نوازا۔ (سیرتِ ابن ہشام:۲/۵۲۱) 

11: چھوٹوں کی رائے کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا

روایت میں آتا ہے کہ سفر کے دوران بھوک کی شدت کا یہ عالم تھا کہ لوگ اپنے سواری کے جانور ذبح کرکے کھانے پر مجبور تھے، جب یہ سارا منظر حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے دیکھا تو دربارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں حاضرہوکر عرض کیا کہ اس عمل سے اصحاب کو روک دیجئے، اس طرح تو سفر سے واپسی میں شدید دِقت پیش آئے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : پھر اس کے علاوہ دوسری راہ کیا ہے؟ اس پر حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے زیرکی ودانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ سب کے پاس موجود زاد ِراہ جمع فرمالیں، اور آپ اس پر برکت کی دعا کیجئے، امید ہے کہ اللہ کی طرف سے راہ ہموار ہوجائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ مشورہ پسند آیا، آپ نے اعلان کیا، تمام صحابہ رضی اللہ عنہم  نے اپنے پاس جو تھوڑا بہت زادِ راہ محفوظ تھا، سب ایک چمڑے کے دسترخوان پر جمع کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پر برکت کی دعا کی، اور فرمایا: ’’خُذُوْا فِيْ أوْعِيَتِکُمْ‘‘ سب اپنے توشہ دان کو مکمل بھر لو، سب نے توشہ دان کو بھرا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم دیا کہ اب تم لوگ کھاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ سب نے خوب سیر ہوکر کھایا، حتیٰ کہ بہت سارا کھانا اب بھی باقی رہا۔

12:کٹھن و مشکل مراحل طے کرتے وقت اکابر کے احکامات کی مخالفت سے احتراز

دورانِ سفر پانی کی قلت و سخت گرمی کے باعث پیاس سے بُرا حال تھا، اثناء سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ کل ہم مقامِ تبوک عین زوال کے وقت پہنچیں گے، لیکن یاد رکھنا کہ مجھ سے سبقت کرکے چشمہ سے کوئی شخص پانی استعمال نہ کرے، صحابہؓ نے آپ کی بات پر لبیک کہا، لیکن چند منافقین نے سبقت کرکے پانی استعمال کیا، جس سے پانی میں گدلا پن آنے لگا، نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس پانی سے ہاتھ منہ دھوکر دوبارہ اسی میں انڈیل دیا، اللہ کی شان اس میں معجزاتی طور پر خوب پانی بھر آیا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی:۵/۲۳۶)

13: مخلص دوست کبھی پیٹھ نہیں پھیرتا 

حضرت ابوذر غفاری  رضی اللہ عنہ  کی سواری لاغر وکمزوری کی بنا پر لشکر سے کوسوں دور رہ گئی، جس کو دیکھ کر آپؓ نے اپنا سامان کمر پر لادکر پاپیادہ لشکر کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا، دوسری جانب حضرات صحابہؓ نے آپ کی عدم موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :’’ چھوڑدو، اگر اس میں خیر ہوگی تو اللہ اسے تم سے ملادیں گے، وگرنہ وہ شامل نہ ہوسکے گا۔‘‘ ابھی یہ جملہ مکمل ہی ہوا تھا کہ اچانک دور سے ایک پاپیادہ کمر پر سامان لادے شخص کو آتا دیکھا گیا ، جس پر بےساختہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان مبارک پر جاری ہوا ’’کُن أباذر‘‘ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ:۴/۸۳) (اے اللہ! یہ ابوذر کا آنا مقدر فرمادے)، اللہ کی شان وہ حضرت ابوذر غفاری  رضی اللہ عنہ  ہی تھے، جنہوں نے اپنی رفاقتِ کاملہ کا عملی ثبوت پیش کیا۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تنہا اس حال میں آتا دیکھ کر فرمایا : ’’رحم اللہ أبا ذر، یمشي وحدہٗ، یموت وحدہٗ، ویبعث وحدہٗ۔‘‘ ( اللہ رحم فرمائے ابوذر پر، تنِ تنہا سفر کرتا ہے، سب سے دور علیحدہ موت کی آغوش میں سلایا جائے گا، اورآخر میں اکیلا قبر سے اُٹھایا جائے گا) چنانچہ ایسا ہی ہوا، حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  کے مشورہ پر مقامِ ربذہ کو اہلیہ وخادم سمیت اپنا مسکن وموطن بنایا، اور عراق سے واپسی پر حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  کا اس مقام سے گزر ہوا، آپ کی نعش کو اس طرح تنہا دیکھ کر نمازِ جنازہ پڑھائی، اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیشنگوئی کو یاد کرکے آبدیدہ ہوگئے۔ (الکامل:۲/۱۴۹) 

14:  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا بحیثیت صلح پسند حاکم کا کردار

مقامِ تبوک پر دورانِ قیام مختلف قبائل کے زعماءِ یہود نے خدمتِ نبوی میں حاضر ہوکر جزیہ قبول کرنے کی درخواست پیش کی، جن میں ایلہ مقام کے سربراہ یوحنّا بن روبہ کا نام سرِفہرست ملتا ہے، آپ نے ان تمام کی درخواست کو صلح وامن پسندی کے قیام کی خاطر قبول کیا۔نیز حضرت خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ  کو دومۃ الجندل کے حاکم اُکیدر نصرانی کی گرفتاری کا حکم دیا، اور پیش گوئی فرمائی کہ وہ جانور کا شکار کرتے ہوئے شکار ہوگا، چنانچہ یوں ہی ہوا، حضرت خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ  اس کی تلاش میں روانہ ہوئے، تو دوسری طرف اُکیدر فلک بوس محل کی چھت پر اہلیہ سمیت شہر کے اطراف و اکناف کا نظارہ کرنے میں مصروف تھا کہ اچانک اس کی نگاہ نیل گائے پر پڑی، شکار کی محبت وفریفتگی کا یہ عالم تھا کہ خود پر قابو نہ پاسکا، اور خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ  کے ہاتھ گرفتار ہوا، چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں پیش کیے جانے کے بعد ادائیگیِ جزیہ پر مصالحت سمیت لوٹا۔ (سیرتِ ابن ہشام:۲/۵۲۷) 

15: دنیا کی رذالت وعدمِ ثباتی کا ہر دم استحضار

جب اُکیدر نصرانی آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو بعض صحابہؓ نے اس کے قباء کی حسن رعنائی وملائمت کو دیکھا تو از راہِ تعجب اس کو چھونے لگے، اس موقع پر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کو خطاب کرکے پوری اُمت کے رُخ کو درست کیا، اور فرمایا کہ: تم اس پر حیرت وفریفتگی میں مبتلا ہو، بخدا جنت میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ  کو پیش کیا جانے والا رومال اس سے بھی کئی گنا زیادہ خوبصورت وملائم ہے۔(صحیح مسلم، رقم:۲۴۸۹) 
درحقیقت یہی فرق ہوتا ہے ایک نبی اور عام لیڈر کے مابین، عین اس وقت جب کہ معرکہ کارزار گرم ہو، تیروں کا مینہ برس رہا ہو، ہاتھ پاؤں اس طرح کٹ کٹ کر گررہے ہوں جس طرح موسمِ خزاں میں پتے جھڑتے ہیں، دشمن کی فوجیں سیلاب کی طرح بڑھی آرہی ہوں، عین اس وقت بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے اصحاب کی تربیت کا کوئی معمولی پہلو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

16: رفقاء کے ساتھ ایک غم خوار امیرِ کارواں کا کردار

سفرِ تبوک میں ایک مخلص صحابی حضرت ذوالبجادین  رضی اللہ عنہ    کا بخار کی شدت کے باعث انتقال ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  خود بنفسِ نفیس ان کے تکفین وتدفین کے مراحل میں شریک رہے، حتیٰ کہ اپنے دستِ اقدس سے ان کو سپرد خاک کرکے ایک غم خوار امیر کے کردار سے روشناس کیا، اور ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: ’’اللّٰھم إني أمسیت راضیاً عنہ فارض عنہ۔‘‘ (رحمۃٌ للعالمین، ص:۱۱۸، حصہ اول)  

17: تفرقہ بازی و فسادات کی دینِ اسلام میں بالکل گنجائش نہیں

’’تبوک‘‘ روانگی سے قبل منافقین نے مسلمانوں کے مابین باہمی پھوٹ ڈالنے اور مسلمانوں کی بیخ کنی کی غرض سے ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا، جس کو ضرورت ومصلحت کے دلفریب جلی عنوان کے ساتھ سرکاری حیثیت دینے کی غرض سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف آوری کی درخواست پیش کی گئی، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سفرِ تبوک سے واپسی پر حاضری کا وعدہ کیا، مگر اللہ رب العزت نے منافقین کے عزائم اور اس نام نہاد مسجد کی قلعی کھول کر حقیقتِ حال سے آگاہ کیا۔ (تفسیر قرطبی:۸/۲۵۳) چنانچہ اس سلسلہ میں ان آیات کا نزول ہوا : 
’’وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ  وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی وَ اللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ  لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا۔‘‘   (توبہ:۱۰۷،۱۰۸)
ترجمہ: ’’اور جنہوں نے (ان اغراض کے لیے) مسجد بنائی کہ (اسلام کو ) ضرر پہنچائیں اور (اس میں بیٹھ کر) کفر کی باتیں کریں، اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں، اور اس شخص کے قیام کا سامان کردیں جس اس کے قبل سے خدا ورسول کا مخالف ہے، اور قسمیں کھا جاویں گے کہ بجز بھلائی کے ہماری اور کچھ نیت نہیں، اور اللہ گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں۔ آپ اس میں کبھی (نماز کے لیے) کھڑے نہ ہوں۔‘‘

18: اعترافِ جرم صفاءِقلب کی علامت ہے 

اس سفر میں صرف دس افراد بغیر کسی شک وارتیاب وعذرِ شرعی پابہ رکاب نہ ہوسکے، جن میں کعب بن مالک، ہلال بن امیہ، مرارہ بن ربیع  رضی اللہ عنہم  کے نام نمایاں تھے، البتہ حق و صداقت سے معمور دل نےان حضرات کو منافقین کی طرح حیل و حجت پیش کرکے عذر خواہی کی جسارت سے باز رکھا، چنانچہ ندامت وپشیمانی کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کیا، مگر تکوینی نظام ومصلحت کے تحت ان حضرات سے مقاطعتِ کلامی کا حکم دیا گیا، چنانچہ تقریباً۵۰ دن مقاطعت کے بعد ان تینوں حضرات کی قبولیتِ توبہ سے متعلق ان آیات کا نزول ہوا: 
’’وعَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا حَتّٰٓی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَ ضَاقَتْ عَلَیْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَ ظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّآ اِلَیْہِ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ لِیَتُوْبُوْا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔‘‘   (التوبہ:۱۱۸) 
ترجمہ: ’’اور ان شخصوں پر بھی (توجہ فرمائی)جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگی کرنے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ ہوگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ خدا (کی گرفت) سے کہیں پناہ نہیں،بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے (اس وقت وہ خاص توجہ کے قابل ہوئے اور ) پھر ان کے حال پر خصوصی توجہ فرمائی، تاکہ وہ آئندہ بھی رجوع کیا کریں۔بے شک اللہ تعالی بہت توجہ فرمانے والے بڑے رحم کرنے والے ہیں۔‘‘

19: اللہ ورسول  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ا طاعت تمام رشتوں سے مقدم ہے

اس سماجی بائیکاٹ کے باعث نہایت رنج والم کی کیفیت کا سماں تھا، زمین باوجود اپنی وسعت تنگ محسوس ہورہی تھی، اقارب اور دوست احباب سب بیگانے نظر آنے لگے تھے۔ حضرت کعب  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ میرا نہایت قریبی دوست اور چچیرا بھائی ابو قتادہ رضی اللہ عنہ  بھی مجھے جواب نہ دیتا تھا، خود نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ عالم تھا کہ آپ محبت بھری نگاہوں سے گوشۂ چشم سے میری شکستہ حالت کو مشاہدہ فرماتے، مگر ان کی جانب نگاہ اُٹھتے ہی معرضانہ رویہ دل چیر دیتا تھا۔ (صحیح بخاری)  یہ سب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کے آگے سرنگوں ہونے کا نتیجہ تھا۔ 

20:  باطل واغیار کی جانب سے دنیاوی حشم وخدم کی پیشکش کو ٹُھکرانا

رئیسِ غسان کو جب اس تمام واقعہ ومقاطعتِ کلامی کی اطلاع پہنچی، اس نے شام کا ایک قاصد حضرت کعب  رضی اللہ عنہ  کے پاس بھیجا اور اس نے دنیاوی آسائش و آرائش کے دلفریب تخیلاتی مناظر کو بصورتِ خط پیش کیا، اس خط کا مندرجہ یہ تھا: ’’ہم نے سنا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہاری قدر نہ کی، اس لیے تم میرے پاس چلے آؤ، میں تمہاری شان کے موافق تم سے برتاؤ کروں گا۔‘‘ حضرت کعب  رضی اللہ عنہ  معتوبِ نبوی ہونے کے باجود شدید برہم ہوئے اور خط کوتندور میں جھونک دیا۔

21:   مسلمانوں کے مابین محبت و تعلق کےجذبات

اللہ کی طرف سے اجابتِ توبہ کی نوید سنائے جانے پر تمام مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، جس کی بشارت سلع نامی پہاڑ سے ایک بلند آواز شخص نے سنائی۔ روایت میں آتا ہے کہ وہ بلند آواز شخصیت حضرت صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  تھے۔ اس خوش کُن خبر کو سنتے ہی حضرت کعب  رضی اللہ عنہ  دوڑتے ہوئے مسجد نبوی حاضرِ خدمت ہوئے، صحابہ کرامؓ جوق درجوق مبارکباد دینے لگے، اور خود نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  کا چہرۂ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا۔ اس سلسلہ کی ایک یادگار گھڑی کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت کعب  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: ’’مہاجرین میں سے سب سے پہلے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ  نے کھڑے ہوکر میرا استقبال کیا، مجھ سے مصافحہ کرکے گلے لگایا، میں ان کے اس احسان کو کبھی نہیں بھلاسکتا۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ تبوک، رقم الحدیث:۴۴۱۸)

22: درست گوئی باعثِ نجات ہے

حضرت کعب  رضی اللہ عنہ  توبہ کی قبولیت پر فرماتے ہیں: ’’اللہ رب العزت نے اسلام کی دولت سے سرفرازی کے بعد دوسری عظیم دولت صداقت گوئی کی اہمیت کو دل میں پیوستہ کیا، جس کی بدولت مجھے اس ابتلاء سے خلاصی نصیب ہوئی۔‘‘ چنانچہ پھر عزم کیا کہ آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا اور اس عہد کو تادمِ حیات بخوبی نبھایا۔(صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ تبوک، رقم الحدیث:۴۴۱۸) نیز حدیث شریف میں آتا ہے: 
’’سچی بات نیکی ہے، اور جنت کی جانب رہنما ہے، جبکہ جھوٹ گناہ ہے، اور گناہ جہنم کی جانب مفضی ہے۔‘‘
ان تمام تربیتی پہلؤوں میں پوری اُمت کو غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے، جن کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے ایک پُرسکون وپائیدار بھائی چارگی کے جذبات پر قائم معاشرہ میں ایک دوسرے کے حقوق کو بآسانی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ان باتوں کو سمجھنے وعملی زندگی میں زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین