بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

غازی فیصل خالد کا اقدام اور حکومت کی ذمہ داری

غازی فیصل خالد کا اقدام اور حکومت کی ذمہ داری

 

اسلامیانِ پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ جو گستاخ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی عزت وناموس کے خلاف بھونکتا ہے، اسے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ اگر سزا نہ دی گئی تو لوگ خود قانون کو ہاتھ میں لے لیں گے، جیسا کہ ممتاز قادری شہیدؒ اور اب فیصل خالد نے پشاور کی بھری عدالت میں مدعیِ نبوت کوقتل کرکے اس کا ثبوت دیا ہے۔ اس قتل کی ذمہ داری اس نظام پر عائد ہوتی ہے، جس نے باوجود عدالت سے مجرموں کے خلاف فیصلہ ہونے کے ابھی تک ان کی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا۔ نہ صرف یہ کہ عمل درآمد نہیں کیا، بلکہ اُلٹا مجرموں کی پشت پناہی کی گئی اور پروٹوکول کے ساتھ اُنہیں باہر بھجوایا گیا۔ 
اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں معزز رکن جناب عمران شاہ صاحب نے بڑی خوبصورت بات فرمائی کہ: ’’میں وفاقی حکومت، خیبرپختون خوا حکومت، اور خاص طور پر صدرِ پاکستان سے گزارش کروں گا کہ پشاور کی عدالت میں جو واقعہ پیش آیا اور کم سن بچے غازی فیصل خالد نے ایک گستاخِ رسول کو مارا تو اُسے صدارتی آرڈیننس کے ذریعہ بری کیا جائے۔ صدرِ پاکستان فوری صدارتی فرمان جاری کریں اور اس بچے کو رہا کیا جائے۔ اگر رہا نہیں ہوسکتا تو پھر جیسے ریمنڈ ڈیوس سے دیت لے کر اسے ملک سے باہر بھیجا گیا، جیسے سانحۂ ساہیوال میں مقتولین کے ورثاء کو دیت دے کر خاموش کرادیا گیا اور اس واقعہ کے ملزمان کو رہا کردیا گیا، اسی طرح دیت دے کر اس بچہ کو بھی رہا کیا جائے اور اس کی دیت میں دینے کو تیار ہوں۔‘‘ 
اس پر وزیر مملکت جناب علی محمد خان نے حکومتی موقف دیتے ہوئے فرمایا: ’’عمران شاہ صاحب نے بہت اہم ایشو اُٹھایا ہے اور میں ان کی بات سے بالکل اتفاق کرتا ہوں کہ جب عدالتوں میں کیس ڈھیلے ہوتے ہیں تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ کچھ امور ایسے ہیں کہ جن میں حکومت اپنا کردار ادا کرسکتی ہے، مثال کے طور پر ملزمان کے پکڑنے میں پراسکیوشن کے نظام کو بہتر کرنے میں، کچھ امور میں عدالتوں کا اختیار ہوتا ہے، آپ نے جس کیس کی طرف اشارہ کیا وہ دو سال سے وہاں چل رہاتھا۔ عمران صاحب نے جو پوائنٹ اُٹھایا کہ پچھلی ڈیڑھ دو دہائیوں میں کتنے سو کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں، لیکن ان میں سزائیں نہیںہوئیں، تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ پھر سوچتے ہیں کہ ریاست کی طرف سے سزا نہیں دی جارہی تو لوگ اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘ 
بہرحال ہم اربابِ اقتدار سے یہ کہنا چاہیں گے کہ نظامِ انصاف کو درست کریں اور جن گستاخوں پر جرم ثابت ہوچکا ہے، ان کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچائیں، تاکہ اس طرح قانون کو ہاتھ میں لینے والوںکا سد باب ہو اور قانون شکنی کا کوئی اور واقعہ پیش آنے کی نوبت نہ آئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین