بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عہد رسالت میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت ( نویں قسط )

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام s کی فقہی تربیت اور عہد ِ تابعینؒ میں اُس کے نتائج و ثمرات    (نویں قسط)

قولِ صحابیؓ کی اہمیت ‘امام ابویوسف vکی نظر میں قاضی ابویوسف vصحابیؓ کے قول کے مقابلے میں قیاس کو چھوڑ دیتے تھے، چنانچہ نامور حنفی فقیہ ابوبکر الجصاص v اپنے استاد امام ابوالحسن کرخی vالمتوفی ۳۴۸ھ کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’کان أبو الحسنؒ یقول: کثیراً مما أریٰ لأبی یوسفؒ فی اضعاف مسئلۃ یقول: القیاس کذا، إلا أنی ترکتُہٗ للأثر، و ذلک الأثر قول صحابیؓ لاتعرف عن غیرہ من نظرائہ خلافُہٗ ،قال أبوالحسنؒ فہذا یدل من قولہ دلالۃ بینۃ علٰی أنہ کان یریٰ أن تقلید الصحابیؓ إذا لم نعلم خلافَہٗ من أھل عصرہ أولٰی من القیاس۔‘‘  (۱) ’’ابوالحسن کرخی v فرماتے تھے: میں نے بہت مرتبہ دیکھا ہے کہ وہ مسئلہ کی کمزوری کو (بتاتے ہوئے) فرماتے تھے، قیاس یہی ہے، مگر میں نے قیاس کو اثر کی وجہ سے چھوڑا ہے، اور وہ اثر صحابیؓ کا قول ہے کہ اس قول میں اس صحابیؓ کے نظیر و ہمسروں کا خلاف معلوم نہیں ہوتا۔ابوالحسن کرخی v فرماتے ہیں:قاضی ابویوسف v کا یہ قول اس امر کی دلیل ہے کہ وہ صحابیؓ کی تقلید کو اگر ان کے معاصرین سے اس کا خلاف معلوم نہ ہو تو قیاس سے بہتر قرار دیتے ہیں۔‘‘ اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابویوسف v سنن و آثار کا دائرہ کتنا وسیع تر سمجھتے ہیں اور کس حد تک ان کی رعایت کرتے اور ان پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ مذکورہ بالا صفات کا جامع، حافظ، امام، مجتہد اور صحبت یافتہ شاگرد اپنے استاد امام ابوحنیفہ v کی صحبت میں دقت ِنظر و فقہی بصیرت کا ذکر یوں کرتا ہے: ’’ما رأیت أحدًا أعلم بتفسیر الحدیث و مواضع النکت التی قید من الفقہ ربما ملت إلی الحدیث وکان ہو أبصر بالحدیث الصحیح۔‘‘  (۲) ’’میں نے حدیث کی تفسیر و تشریح کرنے والا، نکات و اسرارِ حدیث کا سمجھنے والا اور صحیح حدیث کا ادراک کرنے والا امام ابوحنیفہ v سے زیادہ کوئی نہیں دیکھا۔ بارہا ایسا ہوا کہ میں حدیث کو دیکھ کر اس کی طرف مائل ہوا، لیکن حقیقت میں صحیح حدیث کی بصیرت مجھ سے بڑھ کر اُنہیں حاصل تھی۔‘‘ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امام ابوحنیفہ v کی فقہی حدیثوں پر نظر کیسی وسیع اور گہری تھی اور فقہی اسرار و نکات کی رسائی میں وہ اپنے تمام معاصرین سے ممتاز تھے۔ حافظ اسرائیل بن یونس السبیعیv المتوفی ۱۶۲ھ فرماتے ہیں: ’’کان نعم الرجل النعمانؒ، ماکان أحفظہ لکل حدیث فیہ فقہ ، و أشد فحصہ عنہ و أعلمہ بمافیہ من الفقہ۔‘‘  (۳) ’’امام ابوحنیفہ v بہت اچھے آدمی تھے، ان سے زیادہ کسی کو وہ حدیثیں یاد نہ تھیں، جن میں فقہِ حدیث کی باتیں موجود ہیں اور ان سے زیادہ کسی نے اس کی کاوش و جستجو نہیں کی اور نہ ان سے زیادہ فقہِ حدیث کا کوئی جاننے والا موجود ہے۔‘‘ امامِ لغت و حافظِ حدیث نضر بن شمیل بصری vالمتوفی ۲۰۳ھ کہتے ہیں: ’’کان النّاس نیاما عن الفقہ حتٰی أیقظہم أبوحنیفۃؒ مما فتقہٗ و بینہٗ ولحظہٗ۔‘‘ (۴) ’’لوگ فقہ کی طرف سے خوابِ غفلت میں پڑے تھے، یہاں تک کہ امام ابوحنیفہ v نے اس کی عقدہ کشائی اور وضاحت و شرح اور تلخیص کرکے انہیں خواب غفلت سے بیدار کیا۔‘‘ فقہاء و فقہ ِحدیث حقیقت یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ v اور ان کے نامور تلامذہ اور دیگر مجتہدین فقہاء معانیِ حدیث کو محدثین کی بہ نسبت زیادہ بہتر سمجھتے اور فقہ ِحدیث کی بصیرت سے خوب آراستہ تھے، چنانچہ امام ابوعیسیٰ ترمذی vفرماتے ہیں: ’’وہم (الفقہائ) أعلم بمعانی الحدیث۔‘‘  (۵) ’’اور وہ (فقہائ) حدیث کے معانی کو بہتر سمجھتے ہیں۔‘‘ فقہی بصیرت میں امام ابوحنیفہ v کی سیادت و قیادت بلاشبہ امام ابوحنیفہ v حدیث کے معانی کے سمجھنے اور فقہ حدیث تک رسائی میں اپنے ہمعصروں میں سب سے زیادہ فائق و ممتاز تھے، چنانچہ حافظ شمس الدین الذہبی vلکھتے ہیں: ’’ساد أہل زمانہ فی التفقہ  و تفریع المسائل۔‘‘  (۶) ’’امام ابوحنیفہ v نے تفقہ (فقہی بصیرت) حاصل کرنے اور تفریع مسائل میں اپنے معاصرین کی سیادت و قیادت کی ہے۔‘‘ مزید لکھتے ہیں: ’’و أمّا الفقہ والتدقیق فی الرأی وغوامضہ إلیہ المنتہٰی فالناس علیہ عیال فی ذٰلک۔‘‘  (۷) ’’لیکن فقہ، فقہی مسائل میں دقت نظر اور مشکلاتِ فقہ کے حل میں وہی حرفِ آخر ہیں اور لوگ ان کے محتاج ہیں۔‘‘ فقہی بصیرت سے آراستہ تین مجتہد امام امام ابوحنیفہ v کے نامور شاگرد عبداللہ بن المبارک vکا قول ہے: ’’إن کان الأثرقدعرف واحتیج إلی الرأی، فرأی مالکؒ وسفیانؒ و أبی حنیفۃؒ، وأبوحنیفۃؒ أحسنہم وأدقہم فطنۃ وأغوصہم علی الفقہ۔‘‘  (۸) ’’حدیث واثر موجود ہو اور رائے کی احتیاج ہو تو امام مالکؒ و سفیان ثوریؒ اور امام ابوحنیفہ w کی بات ماننی چاہیے اور امام ابوحنیفہ v باریک بینی اور زیرکی میں سب سے بہتر ہیں، اور فقہی بصیرت میں وہ ان تینوں میں سب سے زیادہ گہری نظر کے مالک ہیں۔‘‘ امام ابوحنیفہ vکا اپنے علمی و تحقیقی سرمایہ پر تبصرہ امام ابوحنیفہ v کے نامور شاگرد فقیہ و مجتہد حسن بن زیاد لو ٔ لؤی المتوفی ۲۰۴ھ فرماتے ہیں: میں نے امام موصوف کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’قولنا ہٰذا رأی وہو أحسن ماقدرنا علیہ فمن جاء نا بأحسن من قولنا فہو أولٰی بالصواب منا۔‘‘  (۹) ’’ہمار اقول کہ ’’یہ رائے ہے ‘‘اور یہ وہ رائے ہے جسے ہم نے اپنی بساط کے مطابق سب سے بہتر طریقے پر پیش کیا ہے۔ جو کوئی ہماری اس تحقیق سے زیادہ اچھی تحقیق پیش کرے وہ ہم سے زیادہ برسرحق ہوگا (اس کی تحقیق کو قبول کرنا چاہیے)۔‘‘ شیخ الاسلام امام اعمش v کا اعترافِ حقیقت حافظ عبید اللہ بن عمرو الرقی vالمتوفی ۲۸۰ھ کا بیان ہے: ’’ایک مرتبہ امام ابوحنیفہ v شیخ الاسلام امام حدیث حضرت سلیمان اعمشv کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص نے حضرت اعمش v سے مسئلہ پوچھا، وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکے، اس کی نظر امام ابوحنیفہ v پر پڑی، اس نے امام ابوحنیفہ v سے پوچھا، آپؒ نے اُسے فوراً جواب دیا۔ امام اعمش v نے امام ابوحنیفہ v سے کہا:’’نحن الصّیاد لۃ وأنتم الأطبّائ۔‘‘(۱۰)’’ہم (محدثین) دوا فروش ہیں اور تم (فقہائ) ڈاکٹر ہو۔‘‘  یہی حال امام ابوحنیفہ v کے نامور تلامذہ کا تھا۔ چنانچہ قاضی ابویوسف v کے شاگرد فقیہ بشر بن الولید کندی vالمتوفی ۲۳۰ھ نے امام ابویوسف v کا بیان نقل کیا کہ ایک نشست میں حضرت اعمشv اور میں تنہا تھے، حضرت اعمش vنے چند حدیثیں سنائیں، پھر ایک مسئلہ پوچھا، میں نے جواب دیا، فرمایا: اس کی اصل اور دلیل کیا ہے؟ میں نے کہا: اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو آپ نے ابھی بیان کی ہے۔ حضرت اعمش vنے فرمایا: مجھے یہ حدیث اس وقت سے یاد ہے جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں بھی نہیں آئے تھے، لیکن اس کی یہ تاویل اور مطلب مجھ پر منکشف نہیں ہوا جو اَب سمجھ میں آیا ہے، پھر فرمایا : ’’نحن الصّیادلۃ و أنتم الأطباء ۔‘‘(۱۱)’’ہم دوا فروش ہیں تم ڈاکٹر ہو۔‘‘ سفیان بن عیینہ v کی شاگردوں کو فقہِ حدیث کی تاکید سفیان بن عیینہ v المتوفی ۱۹۸ھ اپنی مجالسِ درس میں فقہی بصیرت حاصل کرنے پر زیادہ زور دیتے، لیکن ان کے شاگرد اس پر دھیان نہیں دیتے تھے، چنانچہ حافظ علی بن خشرم المروزی vالمتوفی ۲۵۷ھ کا بیان ہے کہ : ’’ہم سفیان بن عیینہ v کی مجلس میں حاضر تھے، وہ فرماتے تھے: اے طالب علمو! فقہ حدیث (فقہی بصیرت) سیکھو، تاکہ تمہیں اصحاب الرائے مغلوب نہ کریں۔ ابو حنیفہ v نے کوئی بات نہیں کہی، مگر یہ کہ ہم اس سلسلے میں ایک دو حدیثیں بیان کرسکتے ہیں۔ موصوف نے یہ فرمایا اور اصحابِ حدیث نے فقہ حدیث کوچھوڑ دیا، ان کی اس بات پر توجہ نہ دی اور بولے: بتائیے عمرو بن دینار کن سے روایت کرتے ہیں؟۔‘‘  (۱۲) امام ابوحنیفہ v کی فقہی بصیرت کے بنیادی سرچشمے امام ابوحنیفہ vنے نت نئے مسائل حل کرنے اور ان کے استخراج و استنباط کے بنیادی سرچشموں کی نشاندہی کی ہے، اُسے حافظ ابوالحجاج المزی vالمتوفی ۷۴۲ھ نے اپنی سند سے نقل کیا ہے، کہتے ہیں کہ: ’’یحییٰ بن ضریسؒ کہتے ہیں کہ میں سفیان ثوری vکی مجلس میں حاضر تھا کہ ایک شخص آیا اور سفیان ثوری vسے کہنے لگا: تم ابو حنیفہ v سے کیوں ناراض رہتے ہو؟ ثوریؒ نے پوچھا، کیا ہوگیا؟ وہ بولا: میں نے امام ابوحنیفہv کو یہ کہتے سنا ہے کہ میں مسئلہ کتاب اللہ میں ٹٹولتا ہوں، اس میں رہنمائی نہیں پاتا تو سنت میں ڈھونڈتا ہوں، پھر کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ؐ میں بھی سراغ نہیں لگتا تو صحابہ s کے اقوال میں جستجو کرتا ہوں اور ان میں سے جس کے قول کو چاہتا ہوں اختیار کرتا ہوں، اور ان میں سے جس کا قول چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں اور ان کے اقوال سے باہر کسی اور کے قول کو نہیں لیتا۔‘‘  (۱۳) پھر جب بات ابراہیم نخعیؒ، شعبیؒ، ابن سیرینؒ، حسن بصریؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، اور سعید بن المسیبؒ تک آتی ہے تو (امام ابوحنیفہ v نے کچھ اور بھی نام لیے)تو پھر یہ بات تابعین کی ہو جاتی ہے، انہوں نے اجتہاد کیا تو میں بھی اجتہاد کرتا ہوں، جیسے انہوں نے اجتہاد کیا۔ حافظ ابن ضریسؒ کا بیان ہے کہ حضرت سفیان ثوری vیہ باتیں سن کر بہت دیر خاموش رہے، پھر بصیرتِ فقہی سے کچھ کلمات فرمائے، مجلس میں ہر شخص نے انہیں قلمبند کیا (وہ یہ ہیں):’’ ہم جب سخت وعید کی حدیثیں سنتے ہیں تو ڈرتے ہیں اور جب نرمی (ترغیب) کی حدیثیں سنتے ہیں تو مغفرت کی امید رکھتے ہیں، ہم زندوں کا محاسبہ کرتے ہیں، جو دنیا سے رخصت ہوگئے ان پر حکم نہیں لگاتے، ہم نے جو سنا اُسے تسلیم کرتے ہیں، جو نہیں جانتے اُسے عالم الغیب کے سپرد کرتے ہیں، ہم ان کی فقہی رائے و بصیرت کے مقابلے میں اپنی رائے کو رقم کرتے ہیں۔‘‘ مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب اللہ و سنت رسول اللہؐ یہ دونوں سرچشمے علم و معرفت کے وہ بنیادی سرمایہ ٔ فیوض و برکات ہیں، جن سے امام ابوحنیفہ v مسائل کا استخراج کرتے اور مرادِ حق کو پانے اور اس تک پہنچنے کی پیہم کوشش کرتے رہتے تھے۔ مورخ ابو عبداللہ الصیمری vالمتوفی ۴۳۶ھ نے امام ابوحنیفہ v کا مذکورہ بالا بیان حسب ذیل الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’(وہ مسائل جو بصراحت قرآن میں مذکور نہیں ہیں ان کا) میں پہلے قرآن میں کھوج لگاتاہوں، اگر انہیں اس میں پاتا ہوں تو بہت اچھا اور جب اس میں نہیں پاتا تو پھر رسول اللہ a  کی سنن اور صحیح آثار میں جو معتبر راویوں کے پاس معتبر سند سے موجود ہیں ان میں جستجو کرتا ہوں، پھر اُسے اختیار کرلیتا ہوں۔اگر ان دونوں میں نہیں ملتا تو پھر اصحابِ رسولs کے اقوال میں دیکھتا ہوں، جس کے قول کو چاہتا ہوں اختیار کرتا ہوں اور جس کو چاہتاہوں چھوڑتا ہوں اور صحابہ s کے اقوال کے دائرے سے باہر نہیں نکلتا۔ عہد ِتابعین میں سب تابعی مجتہد برابرہیں، کسی کا میں متبع و مقلد نہیں، اجتہاد کرتا ہوں، جیسے وہ اجتہاد کرتے ہیں۔ چنانچہ جب ابراہیم نخعیؒ، شعبیؒ، حسن بصریؒ، ابن سیرینؒ، سعید بن المسیبؒ اور کچھ اور مجتہدین تک بات آتی ہے اور وہ اجتہاد کرتے ہیں تو پھر مجھے بھی حق ہے کہ میں بھی اجتہاد کروں، جیسے انہوں نے اجتہاد کیا ہے۔ ‘‘  (۱۴) امام ابوحنیفہ vکا مذکورہ بالا بیان اس امرکا نہایت واضح ثبوت ہے کہ وہ تابعین میں سے کسی مجتہد تابعی کے افکار و نظریات اور مسلک و مذہب کے نہ ترجمان تھے، نہ اس کے تابع و پیروکار۔ امام ابوحنیفہ v نے صحابہ s کے اجتہادی مسائل میں پیروی کو اس لیے ضروری قرار دیا کہ اصابت ِرائے میں وہ تابعین سے بہت بہتر و برتر تھے اور اس امر کی دلیل یہ حدیث ہے: ’’لوأن أحدکم أنفق مثل أحد ذہبًا مابلغ مُد أحدہم ولا نصیفہ۔‘‘(۱۵) ’’تم میں سے کوئی اگر احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ان کے مُد (پیمانہ) کے برابر (جس کا وزن پونے دو سیر ہے) بلکہ اس کے نصف وزن کو بھی نہیں پہنچے گا۔‘‘ شمس الائمہ السرخسی vاس کی تشریح کرتے ہوئے یوں کہتے ہیں: ’’فعرفنا أنہم یوفقون لإصابۃ الرأی مالا یوفق غیرہم منہ فیکون رأیہم أبعد من احتمال الخطأ من رأی من بعدہم ۔‘‘  (۱۶) ’’تو ہمیں معلوم ہوا کہ صحابہs(اصابت ِرائے اور صحیح رائے کی رسائی) میں توفیق الٰہی سے صحت کی اس حدتک پہنچ چکے ہیں جس حد کو دوسرا کوئی نہیں پہنچتا، اس لیے ان کی رائے ان کے بعد آنے والوں کی رائے سے غلطی اور خطا کے احتمال سے دور ہے۔‘‘ شمس الائمہ السرخسی vمزید لکھتے ہیں: ’’ماجاء عن الصحابۃؓ اتبعناہم، وماجاء نا عن التابعینؒ زاحمناہم ، إنما قال ذلک لأنہٗ کان من جملۃ التابعین ۔۔۔۔۔۔ کان ممن یجتہد فی عہد التابعینؒ ویعلم الناس حتٰی ناظر الشعبیؒ فی مسئلۃ النذر بالمعصیۃ۔‘‘  (۱۷) ’’صحابہ s سے جو آیا ہے ہم ان کی اتباع اور پیروی کریں گے اور تابعینؒ کی طرف سے جو بات آئے گی ہم بھی اجتہاد کے ذریعے ان سے مقابلہ کریں گے۔ ہم کہتے ہیں:ابوحنیفہ v نے یہ بات اس لیے فرمائی ہے کہ وہ تابعی ہیں اور ان فقہاء میں سے ہیں جو عہد ِتابعین میں اجتہاد کرتے اور لوگوں کو اجتہاد کا طریقہ سکھاتے اور پڑھاتے تھے، یہاں تک کہ نذر بالمعصیۃ کے مسئلے میں امام شعبی v سے (جنہوں نے پانچ سو صحابہؓ     کو دیکھا تھا) انہوں نے مناظرہ کیا تھا۔‘‘ ظاہر ہے وہ ابراہیمؒ، حسن بصریؒ و ابن سیرینؒ کے اجتہاد کی پابندی کیونکر کرسکتے ہیں۔ ہاں! جن اجتہادی مسائل میں ان کی رائے ان کے موافق ہوگی وہ ان کے ساتھ رہیں گے۔ حواشی وحوالہ جات ۱:…اصول الجصاص، ج: ۲، ص: ۱۷۲۔        ۲:…تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۰۔ ۳:…ایضاً، ص: ۳۳۹۔                ۴:…ایضاً، ص: ۳۴۵۔ ۵:…جامع الترمذی، (باب غسل المیت)دہلی، مطبع احمدی، ص: ۱۶۶۔     ۶:…تاریخ الاسلام، ص: ۳۰۶۔ (ترجمہ ابو حنیفہؒ) ۷:…سیراعلام النبلائ، ج: ۶، ص: ۳۹۳۔        ۸:…تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۳۔ ۹:…ایضاً،ص: ۳۵۲۔                ۱۰:…جامع بیان العلم و فضلہ، ج: ۲، ص: ۱۳۰-۱۳۱۔ ۱۱:…مناقب الامام ابی حنیفہ و صاحبیہ، ص: ۲۱۔        ۱۲:…معرفۃ علوم الحدیث، ص: ۶۶۔ ۱۳:…تہذیب الکمال للمزی، بیروت، دارالفکر، ج: ۱۷، ص:۱۱۷۔    ۱۴:… اخبار أبی حنیفۃ و أصحابہ للصیمری، ص: ۲۴۔ ۱۵:…المحرر فی اصول الفقہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ج: ۲، ص: ۸۵۔    ۱۶:…ایضاً۔ ۱۷:…اصول السرخسی، ج:۱،ص:۳۱۳۔                                                                                         (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین