بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عہد رسالت میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت (دسویں قسط)

 

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام s کی فقہی تربیت اور عہد ِ تابعینؒ میں اُس کے نتائج و ثمرات    (دسویں قسط)

شاہ ولی اللہ vکا نظریہ حضرت شاہ ولی اللہv کا نظریہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ v ابراہیم نخعی v کے مذہب کے تابع و پیرو ہیں، چنانچہ موصوف لکھتے ہیں: ’’کان أبوحنیفۃ رضی اللّٰہ عنہ ألزمہم بمذہب إبراہیم و أقرانہ لایجاوزہٗ إلاماشاء اللّٰہ۔‘‘(۱) ’’امام ابوحنیفہ v نے ابراہیم نخعی vاور ان کے ہم عصروں کی پیروی کو اپنے اوپر لازم کر رکھا تھا، وہ اس سے تجاوز نہیں کرتے تھے مگر بہت کم۔‘‘  موصوف حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں: ’’کان أبوحنیفۃ رضی اللّٰہ عنہ ألزمہم بمذہب إبراہیم و أقرانہ لایجاوزہ الّاماشاء اللّٰہ وکان عظیم الشان فی التخریج علی مذہبہ و دقیق النظر فی وجوہ التخریجات مقبلاً علی الفروع أتم إقبال۔‘‘(۲) ’’امام ابوحنیفہ vابراہیم نخعی v اور ان کے ہم عصر علماء کے مذہب کے پابند تھے اور ابراہیم نخعی v کے مذہب سے باہر نہیں جاتے الاماشا اللہ، وہ ان کے مذہب کے مطابق مسائل کی تخریج کرتے ، بڑی شان رکھتے اور وجوہِ تخریجات کے معلوم کرنے میں دقیق النظر تھے۔ ‘‘     حضرت شاہ ولی اللہ v کا مذکورہ بالا بیان متعدد وجوہ و اسباب سے محل نظر ہے: ۱:…امام ابوحنیفہ v نے مشہور مجتہدین تابعین کو نام بنام گنا کر بتایا ہے کہ میں ان میں سے کسی مجتہد کے مسلک کی تقلید نہیں کرتا، ان میں پہلا نام ابراہیم نخعی vکا ہے، پھر ان کے مشہور ہم عصر مجتہدین کے نام ہیں۔ ۲:…خلاصیات کے ماہر ائمہ اصول فقہ اس امر پر متفق ہیں کہ امام ابوحنیفہ v مجتہدین تابعین میں سے کسی امام کے مذہب کے مقلد و ترجمان اور ناشر نہیں، چنانچہ وہ ’’زاحمناہم‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ہم نہ ان کے اجماع کو تسلیم کرتے ہیں، نہ ان کے مسلک و نظریات کے پیروکار ہیں‘‘۔۔۔۔۔ بلکہ ’’ہم رجال و نحن رجال‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’وہ بھی مجتہدہیں، ہم بھی مجتہد ہیں‘‘ ۔۔۔۔۔کے قائل ہیں، ان کو اجتہاد کا حق ہے، ہم بھی اجتہاد کرتے ہیں، ہم ان کے اجتہاد کے پابند نہیں، یہ اور بات ہے کہ بعض مسائل میں ہمارا اُن کا اتفاق ہو جائے۔ ۳:…انہی وجوہ سے اصولیین امام ابوحنیفہ v کو مجتہد ِمطلق مانتے اور ان کے مذہب کے مقلد ہیں۔ ۴:…کوئی اصولی شاہ ولی اللہ دہلوی v کے مذکورہ نظریہ کا ہم نوا نہیں ہے۔ ۵:…محقق عصر علامہ محمد عبدالرشید نعمانی v نے ’’ماتمس إلیہ الحاجۃ‘‘ میں شاہ ولی اللہv کے مذکورہ نظریے کی تردید کی ہے۔(۳) یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ شاہ ولی اللہ v کا یہ نظریہ بھی ان کے تفردات میں سے ہے۔ بعض اعتراض کرنے والوں کے اس اعتراض کا کہ امام ابوحنیفہ v تابعی نہ تھے، جواب دیتے ہوئے شمس الائمہ v رقم طراز ہیں: ’’عن أبی حنیفۃ أنہ قال: إذا اجتمعت و الصّحابۃؓ علی شئی سلمناہ لہم و إذا اجتمع التابعونؒ زاحمناہم ۔۔۔۔۔ وأما أبوحنیفۃؒ فہو تابعی قد أدرک فیما یحکی أربعۃ من الصحابۃؓ ۔۔۔۔۔ فجاز لہٗ مزاحمۃ التابعینؒ، فإن أبا حنیفۃؒ قدکان من أہل الاجتہاد فی زمن التابعینؒ، وکان یفقہ الناس فیما قیل أربعین سنۃ وکثیر من التابعینؒ کانوا موجودین بعد سنۃ عشرین ومائۃ، فلما لحق أیامہم، وہومن أہل الفتیا، جاز لہ مخالفتُہم والقول معہم۔‘‘(۴) ’’حضرت امام ابوحنیفہ v کا بیان ہے کہ صحابہ s کا جب کسی بات پر اجماع ہو جاتا ہے تو ہم اُسے تسلیم کرتے ہیں اور اگر تابعینؒ کا کسی بات پر اجماع ہو تو ہم ان کے اجماع کو نہیں مانیں گے، ہم ان کی اس میں مزاحمت کریں گے ۔۔۔۔۔ ابوحنیفہ v تابعی ہیں، موصوف نے جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے چار صحابہؓ   کو دیکھا ہے ۔۔۔۔۔ انہیں تابعینؒ سے مزاحمت کرنے کا حق ہے، اس لیے کہ امام ابوحنیفہ v عہد تابعین میں اہل اجتہاد میں سے تھے۔ وہ چالیس برس تک طلبہ کو فقہ پڑھاتے رہے، جیسا کہ مشہور ہے اور ان کے زمانے میں ۱۲۰ھ کے بعد بھی تابعینؒ کثیرتعداد میں موجود تھے، امام موصوفؒ اس زمانے میں ان کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور ابوحنیفہ v اربابِ فتویٰ میں سے تھے، موصوف کو ان کی مخالفت اور موافقت دونوں جائز و درست ہے۔‘‘ امام ابوحنیفہ v کی چالیس سالہ فقہی، تدریسی و تحقیقی خدمات نے فقہ ابوحنیفہؒ   کو اسلامی قلمرو میں ایسا پھیلایا اور اس کا نفع ایسا عام و تام کیا تھا کہ شیخ الاسلام سفیان بن عیینہ v المتوفی ۱۹۸ کا بیان ہے: ’’شیئان ماظننت أنہما یجاوزان قنطرۃَ الکوفۃ وقد بلغا الآفاقَ۔‘‘(۵) ’’دو چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق میرا وہم و گمان نہ تھا کہ وہ کوفہ کا پل پار کریں گی، مگر وہ تو دنیا کے تمام اطراف میں پھیل گئی ہیں۔‘‘ قراء تِ حمزہ کسائیؒ اور فقہ ابوحنیفہؒ یہ دونوں اسلامی قلم رو کے چپے چپے میں پہنچی ہوئی ہیں۔ یحییٰ بن معینv فرماتے تھے: ’’القراء ۃ عندی قراء ۃ حمزۃؒ والفقہ فقہ أبی حنیفۃؒ، علٰی ہٰذا أدرکتُ الناسَ۔‘‘(۶) ’’میرے نزدیک قراء ت‘ حمزہ ؒکی قراء ت ہے، اور فقہ ‘امام ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے، میں نے لوگوں کو اسی پر عمل کرتے پایا ہے۔‘‘ امام ابوحنیفہ  vکا سنن و آثار اور فقہ کا علمی و تحقیقی سرمایہ دوسری صدی ہجری میں براعظم ایشیا اور افریقہ میں پہنچ گیا تھا، اسلامی قلمرو کے مرکز عراق، حجاز، خراسان، شام و مصر اور بربر میں یہ علمی ورثہ اپنی افادیت کی وجہ سے مجتہدین اور دانشوروں کے علمی سرمائے میں اپنی جگہ بناچکا اور مرکز ِتوجہ بن گیا تھا۔ عہد ِعباسی میں عراق، بغداد، کوفہ و بصرہ علم کے مشہور مرکز تھے، یہاں امام ابوحنیفہ v کی کتابیں ان کے شاگردوں اور ہم عصروں کے زیرمطالعہ تھیں، چنانچہ مجتہدین میں امام سفیان ثوریv (۹۷-۱۶۱ھ/ ۷۱۶-۷۷۸ئ) کے پاس امام ابوحنیفہ v کی کتاب الرہن کا تذکرہ کتب تاریخ میں عام ہے۔(۷) دانشور ومؤرخ محمد بن عمر الواقدیv(۱۳۰-۲۰۷ھ/ ۷۴۷-۸۲۳ئ) کے عظیم کتب خانے(۸) میں امام ابوحنیفہ v کی کتابیں موجود تھیں۔(۹) یہ ایسا عظیم کتب خانہ تھا جو بغداد میں ان کے نامور شاگرد محمد بن سعدvکے پاس بھی منقول و محفوظ تھا۔(۱۰) امام احمد بن حنبلv(۱۶۴- ۲۴۱ھ/ ۷۸۰-۸۵۵ئ) ہر جمعہ کو اس کے کتب خانے سے دو جز منگا کر اس سرمائے کا مطالعہ اور اس سے استفادہ کرتے تھے۔(۱۱) کوفہ میں امام ابوحنیفہ v کے شاگرد اسد بن عمرو البحلی الکوفی المتوفی ۱۸۸ھ کے پاس امام موصوف کی کتابیں موجود و محفوظ تھیں۔(۱۲) حجاز میں مدینہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی، ائمہ مجتہدین میں امام مالک vکو نہایت ممتاز مقام حاصل تھا، ان کے مطالعے میں بھی امام ابوحنیفہ v کا علمی و تحقیقی ذخیرہ موجود تھا، چنانچہ علامہ عبدالعزیز بن محمد درا وردی vالمتوفی ۱۸۶ھ نے امام مالک v کا بیان نقل کیا ہے: ’’عندی من فقہ أبی حنیفۃؒ ستون آلاف مسألۃ۔‘‘(۱۳) ’’میرے پاس امام ابوحنیفہ v کے ساٹھ ہزار مسئلے موجود ہیں۔‘‘ امام مالک v‘ امام ابوحنیفہ vکی کتابیں مطالعہ کرتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے تھے، چنانچہ امام شافعی v نے عبدالعزیز دراوَردی vسے سنا، وہ فرماتے تھے: ’’کان مالک بن أنسؒ ینظر کتبَ أبی حنیفۃؒ و ینتفع بھا۔‘‘(۱۴) ’’امام مالک بن انسv‘ امام ابوحنیفہ v کی کتابیں مطالعہ کرتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔‘‘ اور امام موصوف کی کتابیں مجتہدین کی رہنمائی کرتی تھیں، جیسا کہ علامہ جلال الدین سیوطی v کے مندرجہ ذیل بیان سے عیاں ہے، وہ فرماتے ہیںکہ: ’’امام ابوحنیفہ v کے ان خصوصی مناقب میں سے جن میں وہ یکتا ہیں، ایک یہ ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت مدون کیا اور اس کے ابواب کو ترتیب دیا، پھر امام مالک بن انس v نے موطأ کی ترتیب میں انہی کی پیروی کی اور اس امر میں امام ابوحنیفہ v پر کسی کو سبقت حاصل نہیں۔‘‘(۱۵) خراسان: ترمذ اور بلخ میں امام ابوحنیفہ v کے شاگرد عبدالعزیز بن خالد الترمذیv امام ابوحنیفہ v کی کتابوں کی روایت و اشاعت کرتے تھے۔(۱۶) بلخ میں قاضی بلخ ابو مطیع حکم بن عبداللہ البلخی v(۱۱۳-۱۹۷ھ/ ۷۳۱-۸۱۳ئ) موجود تھے، یہ امام ابوحنیفہ v سے ان کی کتاب ’’الفقہ الأکبر‘‘ کے راوی ہیں۔(۱۷) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس بھی امام ابوحنیفہ vکی کتابیں موجود تھیں۔ مَرْو میں امام ابوحنیفہv کے شاگرد عبداللہ بن المبارک مروزی خراسانیv (۱۱۸-۱۸۱ھ/ ۷۳۶-۷۹۷ئ) کے پاس بھی امام ابوحنیفہ v کی کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا، بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تحقیقاتی ذخیرہ سفر و حضر میں بھی ساتھ رکھتے تھے، چنانچہ جب بیروت میں عبداللہ بن مبارکv کی مجتہد مطلق ابوعمرو عبدالرحمن اوزاعی v (۸۸-۱۵۷ھ/ ۷۰۷-۷۷۴ئ) سے ملاقات ہوئی اورانہوں نے ابن المبارک vسے امام ابوحنیفہ v کے متعلق پوچھا تو موصوف نے اُنہیں امام ابوحنیفہ v کے فقہی مسائل دکھائے تو ان کی غلط فہمی دور ہوئی اور امام ابوحنیفہ v کے علمی مقام کا اندازہ ہوا۔(۱۸) افریقہ، بلادِ بربر و مصر میں ابوسعید سابق بن عبداللہ المعروف بالبربریv، جو شاعر و زاہد اور امام ابوحنیفہ vکے شاگرد اور کتاب الآثار کے ان سے راوی ہیں موجود تھے، چنانچہ حافظ ابوالقاسم ابن عساکرv  المتوفی ۵۳۱ھ نے تصریح کی ہے کہ ابوسعید سابق بربریv، امام ابوحنیفہ vسے کتاب الآثار کے راوی ہیں۔(۱۹)مصر علوم اسلامی کا مرکز تھا، یہاں امام ابوحنیفہ v کا علمی ذخیرہ، امام مالکv، امام محمدv اور امام ابو یوسفv کے شاگرد‘ اسد بن الفرات v(۱۴۲- ۲۱۳ھ/ ۷۵۹- ۸۲۸ئ) لے کر پہنچے تھے اور امام مالک vکے نامور فقیہ عبداللہ ابن وہب vالمتوفی ۱۹۷ھ اور عبدالرحمن ابن القاسم v المتوفی ۱۹۱ھ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امام ابوحنیفہ v کی کتابوں کے مسائل کے متعلق امام مالک v کی آرا ان سے معلوم کیں، چنانچہ فقیہ ابواسحاق شیرازیv المتوفی ۴۷۶ھ میں رقم طراز ہیں: ’’ہٰذہ کتب أبی حنیفۃؒ، وسأل أن یجیب فیہا علٰی مذہب مالکؒ۔‘‘(۲۰) ’’اسد ؒنے کہا: یہ امام ابوحنیفہ v کی کتابیں ہیں اور پوچھا آپ ان کا امام مالک v کے مسلک پر جواب دیں۔‘‘ دیارِ مغرب میں یہی کتابیں ’’کتب الاسدیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ امام شافعیv کے شاگرد اور ان کے مذہب کے راوی، امام طحاوی vکے ماموں امام ابوابراہیم اسماعیل مزنیv المتوفی ۲۹۴ھ امام ابوحنیفہ v کی کتابوں کا مطالعہ کرتے تھے، چنانچہ امام طحاوی v المتوفی ۳۲۱ھ کا بیان ہے: ’’إنی کنت أری خالی یدیم النظر فی کتب أبی حنیفۃ فلذلک انتقلت إلیہ۔‘‘(۲۱) ’’میں دیکھتا تھا کہ میرے ماموں ہمیشہ امام ابوحنیفہ v کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے، چنانچہ میں نے شافعی مذہب چھوڑ کر حنفی مذہب اختیار کیا۔ ‘‘ ابن الندیم vنے امام ابوحنیفہ v کی تدوین علم کی خوبی کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے: ’’العلم برًا و بحرًا شرقًا و غربًا بعدًا و قربًا تدوینہ - رضی اللّٰہ عنہ- ۔‘‘ ’’اللہ امام (ابوحنیفہv) سے راضی ہو، اس تدوین نے خشکی و سمندر، مشرق و مغرب، دور و نزدیک ہر جگہ کو علم سے بھر دیا ہے‘‘۔(۲۲) امام ابوحنیفہ v کا عظیم ترین کارنامہ تابعینؒ کے دور میں علم شریعت کی تشکیل و تدوین کی سعادت امام ابوحنیفہ vکو حاصل ہے، چنانچہ قاضی ابوبکر عتیق بن دائود یمانیv اپنے رسالے ’’فضل أبی حنیفۃؒ‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’امام ابوحنیفہ v پہلے شخص ہیں جنہوں نے شریعت کے علم کو مدون و مرتب کیا اور کسی کو ان پر سبقت حاصل نہیں، اس لیے کہ صحابہؓ و تابعین s نے علم شریعت ابواب میں مدون نہیں کیا تھا اور نہ کتابی صورت میں ترتیب دیا تھا، وہ صرف اپنی قوتِ فہم پر بھروسہ رکھتے تھے، انہوں نے اپنے دل و دماغ کو علم کا خزانہ بنایا ہوا تھا۔ ان اکابر تابعینؒ کے بعد جب ابوحنیفہv  نمایاںہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ علم شریعت منتشر ہے، انہیں خطرہ ہوا کہ بعد میںآنے والی نسلیں اس علم کو برباد کردیں گی، اس لیے کہ رسول اللہ a کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے سینوں سے علم چھین نہیں لے گا، بلکہ وہ عالموں کو دنیا سے اٹھا لے گا، پھر دنیا میں جاہل سردار رہ جائیں گے، جن کے پاس علم نہ ہوگا، وہ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، اس لیے ابوحنیفہ v نے شریعت کا علم مدون و مرتب کیا اور اس کی ابواب میں ترتیب کی، کتاب میں عنوان اور ابواب قائم کیے، چنانچہ کتاب الطہارت سے ابتدا کی، پھر کتاب الصلاۃ کا عنوان قائم کیا، پھر عبادات کے تمام ابواب ترتیب وار مقرر کیے، پھر معاملات کے ابواب قائم کیے اور میراث کے ابواب پر شریعت کو ختم کیا۔ آغاز طہارت سے کیا، پھر صلاۃ کا عنوان لگایا، اس لیے کہ ہر مکلف انسان کو صحت ِاعتقاد کے بعد نماز پڑھنے کا حکم ہے، یہ خاص اور اہم عبادات میں سے ہے، ہر مکلف پر فرض ہے۔ آخرمیں معاملات ہیں، کیونکہ اصل یہی ہے کہ یہ معاملات نہ ہوں اور انسان ان سے بری الذمہ ہو، کتاب کا خاتمہ و صایا اور مواریث پر کیا، اس لیے کہ ان کا تعلق اس کے آخری حالات سے ہے، کیسی اچھی ابتدا اور کیسا اچھا خاتمہ ہے۔ جو ائمہ امام ابوحنیفہ v کے بعد آئے انہوں نے امام ابوحنیفہ v کے علم سے فائدہ اٹھایا، ان کی پیروی کی اور ان کتابوں پر اپنی کتابوں کی تفریع کی، انہی سانچوں میں اپنی کتابوں کو ڈھالا۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیa کی شریعت کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، اور امام ابوحنیفہ v پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کی تدوین کی ہے، تو بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ ضمانت لے اور اس کا پہلا مدون غلطی کرے۔ ‘‘(۲۳) اجتہادی مسائل میں ائمہ فقہا کی کشادہ دلی مجتہدین میں جس طرح اجتہادی مسائل کے استنباط و استخراج میں اختلافِ نظر رہا، یہ اختلاف ان کے شاگردوں میں بھی نمایاں رہا جو اجتہادی مسائل میں ان کی کشادہ دلی، برداشت اور رواداری کی نہایت روشن دلیل ہے، چنانچہ مسجد حرام مکہ معظمہ میں ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ حضرت اعمشv (۶۱-۱۴۸ھ/ ۶۸۱- ۷۶۵ئ) امام مالکv(۹۳۔۱۷۹ھ) اور حضرت عثمان بنتیv(۱۴۳ھ) تشریف فرما تھے، کسی نے ان سے ایک مسئلہ پوچھا، مسئلہ ایک اور ہرامام کا جواب مختلف، مسئلہ پوچھنے والے سے نہ رہا گیا، اس نے ان سے پوچھا کہ وجۂ اختلاف آخر ہے کیا؟ مؤرخ خطیب بغدادی vاس واقعے کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’حضرت اعمشؒ کوفہ سے، حضرت مالک بن انسؒ مدینہ سے اور حضرت عثمان بتیؒ بصرہ سے، حج کے لیے نکلے اور مسجد حرام میں بیٹھ کر فتوے دیئے، وہ فتوے ایک دوسرے کے خلاف ہوئے تو ایک شخص نے حضرت اعمشؒ سے عرض کی: آپ اہل مدینہ کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں؟ حضرت اعمشؒ نے جواب میں کہا: ہم میں اور اہل مدینہ میں اختلاف آج کا نہیں، پرانا ہے، چنانچہ ہم اپنے علما کے قول کو پسند کرتے ہیں اور وہ اپنے علما کے قول کے دلدادہ ہیں (ہر ایک اپنے اسلاف کے اقوال و آراء پر عمل کرتا ہے، سب دین پر عمل کرتے ہیں) ۔‘‘(۲۴) اسلامی دنیا کے چار مقبول و عظیم الشان فقہی مذاہب مذاہب اربعہ جنہیں اسلامی دنیا میں شہرت حاصل ہے، ان میں: ۱:…عظیم ترین مذہب حنفی مذہب ہے، ۲:… پھر عظیم تر مذہب شافعی مذہب، ۳:… اس کے بعدمالکی مذہب اور ۴:…پھرحنبلی مذہب ہے۔ مؤخرالذکر مذاہب ثلاثہ بھی حضرت عبداللہ بن مسعودq کے تلامذہ اور فقیہانِ کوفہ کے مرہونِ منت ہیں، خاص طور پر امام محمد v کے تربیت یافتہ شاگردوں کا فیض و ثمرہ ہیں۔ علامہ شمس الدین الذہبیv فقیہانِ کوفہ کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ : ’’اہل کوفہ میں سب سے بڑھ کر فقیہ حضرت علی q اور ابن مسعودqہیں اور ان دونوں مجتہدوں کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ، علقمہ v اور علقمہ v کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ ابراہیم v تھے، اور ابراہیم v کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ حمادv تھے، اور حماد vکے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ ابو حنیفہ vتھے اور ابوحنیفہ vکے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ ابویوسف vتھے، ان کے شاگرد سارے جہاں میں پھیل گئے اور ان کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ محمدvتھے اور محمدv کے شاگردوں میں سب سے بڑھ کر فقیہ ابو عبداللہ الشافعی vتھے۔‘‘(۲۵) حواشی وحوالہ جات ۱:…الانصاف فی بیان سبب الاختلاف، لاہور، ۱۹۷۱ئ، ص: ۱۸۔    ۲:…حجۃ اللہ البالغۃ، کراچی، قدیمی کتب خانہ، ج: ۲، ص: ۴۱۹۔ ۳:… ماتمس الیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجۃ، ص: ۷۴۔        ۴:…اصول الجصاص، ج: ۲، ص: ۱۲۰۔ ۵:…تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۷۔            ۶:…ایضاً۔ ۷:…تاریخ بغداد، ج: ۱۳، ص: ۳۴۲، الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیہ، حیدر آباد دکن، مطبعۃ دائرۃ المعارف النظامیہ، ۱۳۳۲ھ، ج: ۱، ص: ۲۵۰۔ ۸:…تاریخ بغداد، ج: ۳، ص: ۵-۶، اسلامی کتب خانے عہد عباسی میں، تالیف راقم السطور، لاہور، الفیصل ناشران و تاجران کتب، ۲۰۰۰ھ، ص: ۴۴۳۔ ۹:…الجواہر المضیۃ، ج: ۱، ص: ۱۸۱۔            ۱۰:…تاریخ بغداد، ج :۵، ص: ۳۲۲۔ ۱۱:…ایضاً۔                     ۱۲:…الجواہر المضیۃ، ج: ۱، ص: ۱۴۰۔ ۱۳:… اقوام المسالک فی بحث روایۃ مالکؒ وروایۃ ابی حنیفۃؒ عن مالکؒ، تالیف محمد زاہد الکوثریؒ، ۱۴۰۸ھ، ص:۹۷۔ ۱۴:…اقوام المسالک، ص: ۹۹۔            ۱۵:…تبییض الصحیفہ، حیدر آباد دکن، مطبعۃ دائرۃ المعارف، ۱۳۳۴ھ، ص: ۳۶۔ ۱۶:…مناقب الامام الاعظمؒ،صدر الائمہ موفق بن احمد المکیؒ، کوئٹہ، مکتبہ اسلامیہ، ۱۴۰۷ھ، ج: ۱، ص: ۶۸۔ ۱۷:…الجواہر المضیۃ، ج:۲، ص: ۲۶۵-۲۶۶، میزان الاعتدال، ج: ۱، ص: ۵۷۴، ابومطیع بلخیؒ کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عبداللہ بن المبارکv سے ان کی تعدیل منقول ہے، چنانچہ سید الحفاظ یحییٰ بن معینv نے اپنے شاگرد احمد بن محمد بغدادی vسے فرمایا تھا :’’فماظنک بمن عدلہ ابن المبارکؒ ووکیعؒ۔‘‘ (مناقب امام الاعظمؒ للکردری، ج: ۱، ص: ۹۱)۔۔’’تمہارا کیا خیال ہے جس کی توثیق و تعدیل عبداللہ بن المبارکؒ اور وکیعؒ نے کی ہو۔‘‘ ۱۸:…تاریخ بغداد، ج:۱۳، ص: ۳۳۸۔            ۱۹:…تاریخ ابن عساکر، ترجمہ سابق بن عبداللہ معروف بالبربری۔ ۲۰:…طبقات الفقہائ، بغداد، المکتبۃ العربیہ، ۱۳۵۶ھ، ص: ۱۳۲۔    ۲۱:…وفیات الاعیان لابن خلکانؒ، بیروت، دار صادر،ج: ۱، ص: ۷۱۔ ۲۲:…الفہرست، ابن ندیم ، کراچی، نور محمد اصح المطابع ، ۱۹۹۰ئ، ص: ۲۰۶۔    ۲۳:…مناقب الامام الاعظمؒ لصدر الائمہ، ج: ۲، ص: ۱۳۶- ۱۳۷۔ ۲۴:…تاریخ بغداد، ج:۸، ص: ۱۶۶۔ (ترجمہ جمعہ بن یونس، رقم: ۴۲۷۱)    ۲۵:…سیر اعلام النبلائ، ج: ۵، ص: ۲۳۶۔                                                                                               (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین