بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام کی فقہی تربیت اور عہد ِ تابعینؒ میں اُس کے نتائج و ثمرات (چھٹی قسط)

عہد ِ رسالت میں صحابہ کرام s کی فقہی تربیت اور عہد ِ تابعینؒ میں اُس کے نتائج و ثمرات   (چھٹی قسط)

’’عہدِ رسالت میں صحابہ کرام s کی فقہی تربیت اور اس کے نتائج و ثمرات‘‘ کی سرگزشت آپ کی نظر سے گزری، جو خیرالقرون کی دو اہم کڑیوں عہدِ رسالتؐ اور عہدِ صحابہؓ پر محیط تھی۔ اس سلسلے کی تیسری اہم کڑی عہد تابعینؒ (۱) پر مشتمل ہے۔ یہ گوناگوں پہلو رکھتی ہے، اس میں بحث کی زیادہ گنجائش ہے۔ بعض جامعات میں اس کے بعض پہلوئوں پر تحقیقی کام ہوا بھی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح عہدِ صحابہؓ میں پانچ صحابہ s نے احکام پر کام کیا، دور صحابہؓ میں کسی اور صحابیؓ سے اس میں شرکت منقول نہیں، اسی طرح عہدِ تابعینؒ میں امام ابوحنیفہ v پہلے تابعی ہیں جن سے شریعت کے تمام ابواب کی تشکیل و تدوین کتابی صورت میں ظہور پذیر ہوئی۔ یہ کام قدرت کی طرف سے انہی کے لیے مقدرتھا، وہی احکام شریعت کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ چنانچہ نقد حدیث و رجال کے اپنے وقت کے مشہور عالم یحییٰ بن سعید القطان (۱۲۰-۱۹۸ھ/ ۷۳۷-۸۱۳ئ) امام ابوحنیفہ v کے متعلق فرماتے تھے : ’’  إِنّہ و اللّٰہ أعلم ہذہ الأمۃ بما جاء عن اللّٰہ و رسولہ ۔‘‘ (۲) ’’واللہ! امام ابوحنیفہ v اس امت میں اللہ اور اس کے رسول aکی لائی ہوئی شریعت کے سب سے بڑے عالم تھے۔‘‘ چنانچہ فقہی خدمت کی یہ سعادت دوسرے قرون میں امام ابوحنیفہ v اور ان کے شاگردوں کے حصہ میں آئی، مفتیِ مشرق محدث و فقیہ خلف بن ایوب بلخیv (۱۳۹-۲۰۵ھ) فرماتے تھے: ’’  صارعلم من اللّٰہ تعالٰی إلٰی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم صار إلی أصحابہ ثم صار إلٰی التابعین، ثم صار إلٰی أبی حنیفۃؒ و أصحابہ فمن شاء فلیرض ومن شاء فلیسخط ۔‘‘(۳) ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم محمد a کو پہنچا، پھر وہ علم رسالتمآب a کی طرف سے صحابۂ کرام s میں آیا، پھر صحابہ s سے تابعین w میں پھیلا، پھر تابعین wمیں یہ علم امام ابوحنیفہv اور ان کے شاگردوں میں آیا، سو جو چاہے اس (حقیقت) پر خوش ہو اور جو چاہے اس پر ناراض ہو۔ ‘‘ اس تاریخی حقیقت کو علامہ جلال الدین سیوطی v نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ’’  من مناقب أبی حنیفۃؒ التی انفرد بھا أنّہ أوّل من دوّن علم الشریعۃ ورتّبہ أبوابًا ثم تبعہ مالک بن أنس فی ترتیب الموطأ ولم یسبق أباحنیفۃ أحد ۔‘‘(۴) ’’امام ابوحنیفہ v کے ان خصوصی مناقب میں سے جن میں وہ یکتا و منفرد ہیں، ایک یہ ہے کہ وہی پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم شریعت کو مدون کیا اور اس کی ابواب پر ترتیب کی، پھر امام مالکv  نے مؤطأ کی ترتیب میں ان کی پیروی کی اور اس امر میں امام ابوحنیفہ v پر کسی کو سبقت حاصل نہیں۔ ‘‘ ان وجوہ سے اس دوسری قسط میں فقہائے تابعین کی مجتہدانہ سرگرمیوں کی مختصر نشاندہی کے بعد عہد تابعین میں امام ابوحنیفہ v کے فن حدیث، فقہ، رجال میں علمی خدمات و مقام اور اسلامی قلمرو میں ان کے علمی و تحقیقی ورثے کے ثمرات و نتائج کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ تابعین w کی مجلس میں فقہی مسائل میں مذاکرہ اس سنت ِمتواترہ و متوارثہ پر تابعین w کے دور میں عمل جاری رہا، چنانچہ مؤرخ اسلام علامہ شمس الدین ذہبی v المتوفی ۷۴۸ھ نے تاریخ الاسلام میں نامور محدث فضیل (۵) بن غزو ان ضبی کوفی المتوفی بعد ۱۴۰ھ/۷۵۷ء کا بیان نقل کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’  کنا نجلس أنا ومغیرۃ(۶) وعددناسا نتذاکر الفقہ فربما لم نقم حتی نسمع النداء لصلاۃ الفجر ۔‘‘(۷) ’’ہماری رات میں بیٹھک رہتی تھی اور مغیرہ بن مقسم ضبی المتوفی ۱۳۳ھ اور چند اہلِ علم کا نام اور لیا، سب فقہی مسائل میں مذاکرہ کرتے اور بسا اوقات اس مجلس سے کوئی اٹھتا نہیںتھا، تاآنکہ فجرکی اذان سنتے اور نماز فجر کے لیے اٹھتے تھے ۔ ‘‘ رائے (فقہی بصیرت) اور مطالب ومعانیِ حدیث میں ربط و تلازم وہ مجتہدین و فقہائے امت جنہوں نے اس سنت ِمتواترہ و متوارثہ کی آبیاری کی اور اُسے زندہ رکھا، انہی پر طعن و تشنیع کی جاتی ہے۔ تذکرہ و رجال کی کتابوں میں اُنہیں ’’ أصحاب الرأی‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ سنت کو چھوڑ کر رائے پر عمل کرتے ہیں، حالانکہ یہی مجتہدین و فقہا سنت و آثار کے معانی و مطالب کو بہتر سمجھتے، اور وہ ان کی نسبت ان پر عمل بھی زیادہ کرتے ہیں، ان مجتہدین و فقہا کے معانی و مطالبِ حدیث کو بہ غورسمجھنے کا اعتراف امام بخاری v کے نامور شاگرد امام ترمذی v کو ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’وہم (الفقہائ) أعلم بمعانی الحدیث۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’وہ فقہا معانیِ حدیث کو بہتر طور پر جانتے سمجھتے ہیں۔‘‘ اور سنت پر عمل کے زیادہ دلدادہ ہیں، اس لیے کہ فقہی بصیرت اور معانیِ حدیث کی تقسیم میں گہرا ربط و تلازم ہے۔ ان کا بنیادی اصول یہ ہے : ’’لایستقیم العمل بالحدیث إلا بالرأی، ولا یستقیم العمل بالرأی إلَّابالحدیث۔‘‘ ’’رائے (فقہی بصیرت) کے بغیر حدیث پر عمل درست نہیں ہوتا، اور حدیث کے بغیر فقہی بصیرت درست نہیں ہوتی، اس اصول کی طرف امام محمدvنے کتاب ادب القاضی میں رہنمائی کی ہے۔‘‘ اس اصول کی روشنی میں اربابِ اصول فقہ اور فقہا یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ائمہ احناف کا سنت پر عمل دوسرے ائمہ مجتہدین کی نسبت سے زیادہ ہے، چنانچہ شمس الائمہ سر خسی ’’اصول السر خسی‘‘ میں رقم طراز ہیں: ترجمہ:’’امام محمدv نے ادب القاضی میں تصریح کی ہے کہ حدیث پر عمل فقہی بصیرت کے بغیر درست نہیں ہوتا، اور حدیث کے بغیر فقہی بصیرت درست نہیں۔ حقیقت میں ہمارے اصحاب (متقدمین ائمہ حنفیہؒ) نے سنت پر عمل کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے، چنانچہ حدیث شریف کی تعظیم و تکریم جیسی ان سے ظاہر ہوتی ہے اور اصحاب الحدیث سے ظاہر نہیں ہوتی، اس امر کی دلیل یہ ہے کہ ۱:۔۔۔۔انہوں نے (اصحاب الرائے نے)  سنت کو اتنا قوی درجہ دیا ہے کہ اس سے کتاب اللہ کا نسخ جائز سمجھا ہے۔ ۲:۔۔۔۔مرسل روایتوں پر عمل درست قرار دیا۔ ۳:۔۔۔۔مجہول راوی کی روایت کو قیاس پر مقدم کیا ہے۔ ۴:۔۔۔۔ صحابی ؓ کے قول کو قیاس پر فوقیت دی، اس لیے کہ صحابیؓ کے قول میں رسول اللہ aسے سننے کا احتمال برابر برقرار ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔ان تمام باتوں کے بعد بھی ۵:۔۔۔۔انہوں نے(یعنی فریق مخالف امام شافعی v نے) قیاس صحیح پر عمل کیا اور یہ وہ بات ہے جس کا اثر اپنی قوت کے ساتھ نمایاں ہے (اس کے برعکس حدیث پر عمل کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ مرسل روایتوں پر عمل جائز قرار نہیں دیتے، چنانچہ انہوں نے حدیث و سنت کے بڑے ذخیرے پر عمل چھوڑرکھا ہے اور اُسے ناقابل عمل قرار دے رکھا ہے۔ انہوں نے خیرالقرون کے مجہول راوی کی روایت کو قبول نہیں کیا، اس طرح بعض سنتوں پر عمل معطل کیا۔ امام موصوف نے جب صحابہ s میں سے کسی صحابیؓ کی تقلید کو روا نہیں رکھا تو انہوں نے سماع کے شبہ سے صرفِ نظر کی اور قیاس کے شبہ پر عمل کو جائز رکھا۔ حالانکہ یہ ان باتوں میں سے ہے کہ کسی حال میں وجوب کی نسبت اس کی طرف کرنا جائز نہیں، اس کا حال اس شخص کے حال کی طرح ہے جو قیاس پر عمل کو قطعاً جائز قرار نہیں دیتا، پھر امام موصوف ’’استصحابِ حال‘‘(۸)، پر عمل کرتے ہیں۔ موصوف کا استصحابِ حال کو اختیار کرنا دلیل کے بغیر احتیاط پر عمل کرنا ہے اور ترکِ عمل دلیل سے ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ہمارے اصحاب احکامِ شرع کے اصول و فروع میں پیشوا و رہنما ہیں اور ان کے فتوے سے لوگوں کے لیے شریعت کا راستہ کھلا ہے، تاہم یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ ایک گہرا سمندر ہے، ہر تیراک اس سمندر میں تیر نہیں پاتا اور نہ ہر طالب اس کی شرائط کو پورا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی بخشنے والا ہے۔ ‘‘(۹) امام فخرالاسلام بزدوی v ’’کنزالوصول ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں: ترجمہ:’’ہمارے اصحاب وہ ہیں جنہیں اس باب (فقہ حدیث) میں بلند رتبہ اور اعلیٰ مرتبہ حاصل ہے اور وہی علمائے ربانی کتاب و سنت کے علم میں لائق اقتدا ہیں اور وہی ’’اصحاب الحدیث‘‘ ہیں جو حدیث کے معانی سمجھتے ہیں۔ حدیث کے معانی کا فہم و ادراک انہی علما کا حق تسلیم کیا گیا ہے، چنانچہ ان کو ’’أصحاب الرأی‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا اور وہ رائے اس فقہ کا نام ہے جس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے اور یہ معانی حدیث کے سمجھنے والے ہی اصحاب الحدیث کہلانے کے زیادہ لائق ہیں۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ ان کے یہاں سنت کا مرتبہ اتنا قوی ہے کہ انہوں نے سنت سے کتاب اللہ کا نسخ جائز قرار دیا اور انہوں نے سنت و حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ’’مراسیل‘‘ پر عمل کیا اور مرسل حدیث پر عمل کرنا رائے سے بہتر سمجھا۔ اور جس نے مراسیل کو نظراندز کیا، اس نے سنت کے بہت بڑے حصے کوچھوڑ دیا اور اصل کوچھوڑ کر فرع پر عمل کیا، اس نے حدیث کو جو اصل ہے چھوڑ کرقیاس پر عمل کیا، جو فرع کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے مجہول راوی کی روایت کو قیاس پر مقدم کیا۔ انہوں نے صحابیؓ کے قول کو قیاس پر فوقیت دی۔ امام محمد v نے ’’کتاب ادب القاضی‘‘ میں تصریح کی ہے کہ :لایستقیم الحدیث إلا بالرأی ولا یستقیم الرأی إلا بالحدیث‘‘ ۔۔۔۔ ’’حدیث کا مطلب و منشا رائے و فقہی بصیرت کے بغیر صحیح طور پر سمجھا نہیں جاتا اور رائے و قیاس‘ حدیث کے بغیر صحیح نہیں ہوتا۔‘‘ حتیٰ کہ جو حدیث کو اچھی طرح سمجھ نہیں پاتا اور علم حدیث میں مہارت حاصل نہیں کرپاتا، اس کی رائے و قیاس درست نہیں، وہ قضا اور فتوے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اگرچہ اس نے اپنی کتابوں کو حدیث سے بھرا ہوا ہو، اور جو معانی حدیث میں بحث و نظر کیے بغیر ظاہر حدیث پر مطمئن ہوگیا اور اس نے فروع کو اصول کے تحت ترتیب دینے سے منہ موڑ، اُسے ظاہری کہاجاتا ہے۔ ‘‘(۱۰) یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ v کسی ایسے عالم کو منصبِ افتا و قضا کا اہل نہیں سمجھتے جو فقہ و حدیث میں بصیرت نہ رکھتا ہو، چنانچہ امام طحاوی v المتوفی ۳۲۱ھ مختصر الطحاوی میں رقم طراز ہیں: ’’اور ایسے عالم کو قاضی بنانا مناسب ہے جس کی ۱:۔۔۔پاک دامنی، ۲:۔۔۔صلاح، ۳:۔۔۔فہم و فراست قابل اعتماد ہو، ۴:۔۔۔سنت و آثار کا علم رکھتا ہو، ۵:۔۔۔ (جس کی) وجوہِ فقہ کی معرفت قابل اعتماد ہو۔ ایسے صاحب رائے عالم کو قاضی نہ بنائیں جسے سنت و احادیث کا علم نہ ہو اور نہ ایسے حدیث داں کو جسے فقہ کا علم اور فقہ میں بصیرت نہ ہو، اور جو عالم مذکورئہ بالا صفات سے آراستہ ہو وہ فتویٰ نہ دے اور فتویٰ دے تو صرف ایسی بات کاجسے اس نے (تحقیق سے) سنا ہو۔‘‘ (۱۱) امام محمد vنے جس بات کی طرف ’’کتاب ادب القاضی‘‘ میں اشارہ و تنبیہ کی ہے کہ رائے کے بغیر حدیث کے معانی نہیں سمجھے جاسکتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نصوصِ شرعیہ معقولۃ المعانی ہیں، ان کا ادراک فہم سلیم اور عقل و دانش سے کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ کام وہی اربابِ صدق و صفا سرانجام دے سکتے ہیںجنہیں اللہ تعالیٰ نے مزاجِ شریعت سے مناسبت اور فقہی بصیرت کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ نصوصِ شرعیہ معقولۃ المعانی ہیں، مگر ان کا ادراک و فہم آسان نہیں، یہ ہر عالم کے بس کا کام نہیں، چنانچہ امام ابن تیمیہ v المتوفی ۷۲۸ھ فرماتے ہیں کہ : ’’میں نے اپنی بساط کے مطابق شرعی دلائل پر غور و فکر کیا تو میں نے قیاس صحیح کو حدیث صحیح کے مخالف نہیں پایا، جیسا کہ معقول صحیح منقول صحیح کے مخالف نہیں ہوتا، بلکہ میں نے قیاس کو اکثر مخالف حدیث و اثر پایا تو لازماً میں نے ان میں سے ایک کو ضعیف پایا، لیکن قیاسِ صحیح اور قیاسِ فاسد میں بہت سے فاضل علما امتیاز کرنے سے قاصر ہیں، اور علما کا تو ذکر ہی کیا ہے، اس لیے کہ احکام میں علت ِموثرہ کا صحیح ادراک اور ان معانی کا فہم جن کا تعلق احکام سے ہے اشرف علوم سے ہے۔ ان میں سے کچھ تو بہت روشن و نمایاں ہوتے ہیں جن کو بیشتر اہل علم سمجھتے ہیں، اور بعض دقیق ہوتے ہیں جن کو خاص علما سمجھتے ہیں، اس لیے بہت سے علما کے قیاس نصوص کے مخالف ہوتے ہیں، اس لیے کہ قیاسِ صحیح کی حقیقت ان پر منکشف نہیں ہوتی، جس طرح بہت سے اہل علم پر نصوص میں جو دقیق دلائل‘ احکام پر دلالت کرتے ہیں، مخفی رہتے ہیں۔ ‘‘(۱۲) اس سے ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ v کی فقہِ حدیث پر نظر اور صحیح حدیث کا ادراک و بصیرت ان کے تلامذہ کی نظر میں مسلم تھی۔ صحیح حدیث کی شناخت اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ محض سلسلۂ اسناد سے حدیث کی صحت معلوم نہیں ہوتی، حاکم نیشاپوری vلکھتے ہیں : ’’إن الصحیح لایعرف بروایۃ فقط إنما یعرف بالفہم و الحفظ و کثرۃ السماع۔‘‘(۱۳) ’’صحیح حدیث محض اپنے سلسلۂ سند سے نہیں پہچانی جاتی، اس کی صحت تین باتوں سے معلوم ہوتی ہے:۱:۔۔۔فہم و فراست، ۲:۔۔۔حفظ، ۳:۔۔۔کثرتِ سماع۔‘‘ امام ابوحنیفہ v مذکورئہ بالا تینوں صفات سے بدرجہ اتم بہرہ ور ہیں، اس امر کا صحیح اندازہ امام موصوف کی تحصیل و طلب علم سے کیا جاسکتا ہے جو مختصراً ہدیۂ ناظرین ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ v کی تحصیل حدیث کا زمانہ علامہ شمس الدین ذہبی v المتوفی ۷۴۸ھ نے تصریح کی ہے کہ موصوف نے حدیث کی تحصیل ۱۰۰ھ اور اس کے بعد کے سالوں میں کی ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’أنّ الإمام أباحنیفۃؒ طلب الحدیث و أکثرمنہ فی سنۃ مائۃ و بعدہا۔‘‘(۱۴) ’’بلاشبہ امام ابوحنیفہ v نے ۱۰۰ھ اور اس کے بعد کے سالوں میں حدیث کی تحصیل کی اور بہت زیادہ کی ہے۔‘‘ مو ٔرخ ذہبی vکے مذکورئہ بالا بیان سے امام اعظم v کی۱:۔۔۔طلبِ حدیث، ۲:۔۔۔ حدیث کی کثرتِ طلب، اور ۳:۔۔۔طلب حدیث کے زمانے کی تعیین سے ایک محقق کے لیے بہت سے علمی گوشے کھل جاتے ہیں۔ حواشی وحوالہ جات ۱:…یہاں یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ تابعین کرام wکا عہد ۱۸۰ھ- ۷۹۶ء میں ختم ہوا ہے۔ چنانچہ علامہ حافظ سراج الدین معروف بابن الملقن v المتوفی ۸۰۴ھ ’’المقنع فی علوم الحدیث، ۲/۵۱۵ ‘‘ مکہ ، دارالفوزللنشر، ۱۴۱۳ھ میں اور صاحب تدریب الراوی، طبع: مکہ ۱۳۷۹ھ، ص: ۴۳۳،میں رقمطراز ہیں کہ :’’ أوّل التابعین وفاۃً أبوزید معضد بن زید سنۃ ثلاثین فی خلافۃ عثمانؓ و آخرہم خلف بن خلیفۃ، مات بعد ثمانین ومائۃ ‘‘۔۔۔۔۔۔ ’’تابعین میں سب سے پہلے وفات پانے والے ابوزید معضد بن زید vتھے، موصوف خلافت عثمانی ۳۰ھ میں شہید ہوئے تھے۔ اور تابعین میں سب سے آخر میں انتقال کرنے والے خلف بن خلیفہ v تھے، موصوف کا انتقال ۱۸۰ھ میں ہوا تھا۔‘‘ ۲:…مقدمۃ کتاب التعلیم، تالیف مسعود بن شیبہ السندی، حیدر آباد السند، لجنۃ احیاء الادب السندی، ۱۹۶۵ئ، ص: ۱۳۴۔ ۳:…تاریخ بغداد، ج:۱۳، ص: ۳۳۶۔        ۴:…تبییض الصحیفہ، طبع دائرۃ المعارف النظامیہ، ۱۳۳۴ھ، ص: ۳۶۔ ۵:…فضیل بن غزوان الضبی الکوفی (بعد ۱۴۰ھ) کا تذکرہ ذہبی v نے ’’الإمام المحدث الثقۃ‘‘ کے الفاظ سے کیا ہے۔ یہ صحاح سۃ کے رواۃ میں سے ہیں، حضرت عکرمہ مولیٰ ابن عباسؓ اور سالم بن عبداللہ وغیرہ سے روایت کرتے ہیں۔ محمد بن فضیل، عبداللہ بن المبارک اور یحییٰ القطان وغیرہ موصوف سے روایت کرتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل vوغیرہ نے موصوف کو ثقہ قرر دیا۔ یہ ایسے بلند پایہ فقہا میں سے ہیں جن کی راتیں فقہی مسائل کی بحث میں گزرتی تھیں۔ امام موصوف کا تذکرہ علامہ شیرازی v سے طبقات الفقہاء میں اور ابن حزم اندلسی v سے غیرمعمولی جستجو کے باوجود نام رہ گیا، بلکہ اور بھی ایسے کتنے فقہاء و مجتہد ہوں گے جن کا تذکرہ و نام ان سے رہ گیا ہوگا۔ (سیر اعلام النبلائ، ج: ۶، ص: ۲۰۳، تہذیب الکمال، بیروت، دارالمامون للتراث، ج:۲، ص: ۵-۱۱) ۶:…مغیرۃ بن مقسم الضبی مولاہم الأعمٰی الکوفی صحاح ستہ کے رواۃ میں سے ہیں۔ مورخ ذہبی v نے موصوف کا تذکرہ ان الفاظ سے کیا ہے:’’ الإمام، العلامہ الثقۃ الضبی الکوفی الأعمٰی ‘‘۔صغار تابعین میں موصوف کا شمار ہوتا ہے، عکرمہ، ابراہیم نخعی اور شعبی کے شاگرد ہیں۔ تابعین میں سلیمان تیمی v نے موصوف سے روایت کی ہے۔ شعبہ vکا بیان ہے کہ یہ حکم اور حماد دونوں سے بڑے حافظ تھے اور ابوبکر بن عباس کہتے ہیں :’’ مارأیت أفقہ منہ‘‘۔۔۔۔۔’’میں نے موصوف سے بڑا فقیہ نہیں دیکھا ،چنانچہ میں ان سے چمٹا رہا۔‘‘ (سیراعلام النبلائ: ۶/ ۱۱) جریر بن عبدا لحمید vنے موصوف کے حفظ کے متعلق خود مغیرہ کا قول نقل کیا کہ: ’’ماوقع فی سماعی شئی فنسیتہ‘‘ میرے کانوں میں کوئی چیزپڑی ہو، پھر میں اس کو بھولوں ایسا نہیں ہوا۔ اس پر علامہ الذہبی v المتوفی ۷۴۸ھ لکھتے ہیں: ’’ہذا واللّٰہ الحفظ، لا حفظ من درس کتاباً مرات عدۃٍ، حتی عرضہ، ثم علیہ، ثم درسہ فحفظہ، ثم نسیہ أوأکثرہ ۔‘‘(سیراعلام النبلائ: ۶/ ۱۱) ۔۔۔۔۔’’واللہ حفظ یہ ہے، اس کا حفظ نہیں جس نے کتاب کئی بار پڑھائی، یہاں تک کہ اسے طلبہ میں پیش کیا، انہیں پڑھائی، سنائی، پھر اس پر توجہ کی اور محفوظ کرلی، پھر اسے پڑھایا تو یاد کیا، پھر اسے بھول گئے یا اس کا اکثر حصہ ذہن سے جاتا رہا۔ ‘‘حافظ عجلی v المتوفی ۲۶۱ھ فرماتے ہیں:’’مغیرۃ ثقۃ فقیہ کان من فقہاء أصحاب إبراہیم، وکان أعمٰی ۔‘‘ (تاریخ الثقات، ص: ۴۳۷، و سیرا علام النبلائ، ج:۶، ص: ۱۲)۔۔۔۔۔۔ ’’مغیرہ، ثقہ اور فقیہ تھے، ابراہیم نخعی v کے شاگردوں میں سے تھے اور اندھے تھے۔ ‘‘ابن سعد vکا بیان ہے: ’’کان ثقۃ کثیر الحدیث۔‘‘(الطبقات الکبریٰ، ج: ۶، ص: ۳۳۷)’’مغیرہ ثقہ اور ان کے پاس حدیث کا ذخیرہ بہت تھا۔‘‘امام کا قول ۱۳۳ھ اور ابن معلی فرماتے ہیں: ۱۳۴ھ میں انتقال ہوا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی ہجری کے آخر سے دوسری صدی ہجری کی تیسری دہائی تک فقہا کا جن میں اندھے بھی ہوتے راتوں میں فقہی مسائل پر بحث کا معمول تھا۔ مذکورہ بالا بیان سے معلوم ہوا کہ ابراہیم نخعی v کے شاگرد اس سنت متواترہ پر گامزن رہے، پھر امام ابوحنیفہ v اور ان کے شاگردوں نے اس طریقہ کو اپنایا اور یہ طریقہ امام ابوبکر الجصاص v  المتوفی ۳۷۰ھ کے زمانے تک اس پر عمل جاری تھا۔ (احکام القرآن للجصّاص، ج: ۲، ص: ۵۹۰) ۷:…تاریخ الاسلام (حوادث و وفیات ۱۳۱-۱۴۰ھ) ص: ۵۴۲۔ ۸:…استصحاب حال یہ ارباب اصول کی اصطلاح ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکم ثابت کرنے والا اس چیز کو باقی رکھنے والا نہیں ہے، اس لیے کہ ایک چیز کی ایجاد اور ہے اور اس چیز کو باقی رکھنا اور بات ہے، اس لیے ضروری نہیں کہ جس دلیل نے اس کو زمانۂ ماضی میں وجود بخشا ہے وہ دلیل اس کو زمانۂ حال میں باقی رکھنے والی ہو، اس لیے کہ بقا عرض ہے جو وجود کے بعد لاحق ہوتی ہے، عرض اس چیز کی عین اور ذات نہیں ہے، لہٰذا وجود سے بقا کی نفی کرنا درست ہے، چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ ایک چیز وجودپذیر ہوئی اور باقی نہیں رہی، لہٰذا اب بقا کے لیے ایک جداگانہ سبب درکار ہے، تو تنہا استصحاب کے حکم سے بقا کا حکم کرنا بغیر دلیل کے حکم لگانا ہے، اور یہ بات درست نہیں، اس کے لیے جداگانہ دلیل کی حاجت ہے اور وہ موجود نہیں۔ (کشاف اصطلاحات الفنون، لاہور، سہیل اکیڈیمی ۱۹۹۲ئ، ج: ۱، ص: ۸۰۹) ۹:…اصول السّرخسی، مصر، دارالکتاب العربی، ۱۳۷۲ھ، ج: ۲، ص: ۱۱۳ (ولہ) المحررفی اصول الفقہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۹۹۶ئ، ۲/ ۸۷۔ ۱۰:…کنزالوصول الی معرفۃ الاصول، کراچی، اصح المطابع، ۱۳۸۶ھ، ص: ۴-۵۔ ۱۱:…احمد بن محمد الطحاوی، مختصر الطحاوی، القاہرہ، دارالکتاب العربی، ۱۳۷۰ھ، ص: ۳۳۲۔ ۱۲:…ابن قیم جوزیہ، اعلام الموقعین عن رب العالمین، بیروت، دارالجیل ب ت، ج: ۲، ص:۴۷۔ ۱۳:…معرفۃ علوم الحدیث، ص: ۵۹۔ (التاسع عشرمن علوم الحدیث)۔        ۱۴:…سیر اعلام النبلائ، ج: ۶، ص: ۳۹۶۔                                                                                       (جاری ہے)

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین