بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عورت کا فرض نماز اور تراویح باجماعت کے لیے مساجد میں حاضر ہونا

عورت کا فرض نماز اور تراویح باجماعت کے لیے مساجد میں حاضر ہونا

 

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
ہماری مسجد ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں رمضان کے مہینے میں نمازِ تراویح میں خواتین بھی شریک ہوتی ہیں، جن کے لیے ایک کمرہ مختص کیا گیا ہے ، جو کہ مسجد ہی میں شامل ہے۔ گزشتہ سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ کچھ حضرات اس کے حق میں ہیں کہ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیے، لیکن کچھ حضرات کو اس پر اعتراض ہے اور کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے، اس لیے کہ اکثر علماء اس سے منع کرتے ہیں۔ اب کمیٹی کی طرف سے آپ حضرات کی خدمت میں استدعا ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں، جس کے مطابق ہم عمل کرسکیں۔ جزاکم اللّٰہ خیرا۔                      المستفتی: محمد طارق، کراچی

الجواب حامدًا ومصلیًا

واضح رہے کہ عورت کے لیے نماز ادا کرنے کی بہتر جگہ اس کا اپنا گھر اور گھر کا بھی وہ حصہ جو زیادہ محفوظ ومستور ہو اور اس میں ادنیٰ بھی بے پردگی کا اندیشہ نہ ہو وہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کا بابرکت زمانہ چونکہ شروفساد سے خالی تھا، اُدھر عورتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  سے احکام سیکھنے کی ضرورت تھی، اس لیے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی، اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں، میلی کچیلی جائیں، زینت اختیار نہ کریں، اس کے باوجود صحابہ کرام علیہم الرضوان کا معمول یہ تھا کہ عورتوں کو ترغیب دیتے تھے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر r سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’لاتمنعوا نساء کم المساجد ، وبیوتہن خیرلہن۔‘‘    (رواہ ابوداؤد، مشکوٰۃ،ص:۹۶)
’’اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو، اور ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ a نے فرمایا:
’’صلٰوۃ المرأۃ فی بیتہا أفضل من صلٰوتہا فی حجرتہا، وصلٰوتہا فی مخدعہا أفضل من صلٰوتہا فی بیتہا۔‘‘                             (رواہ ابوداؤد، مشکوٰۃ، ص:۹۶)
’’عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا، اپنے گھر کی چاردیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔‘‘
بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ ثابت ہے کہ آپ کی طرف سے عورتوں کو شرائط کے ساتھ مسجد میں آنے کی اجازت کے باوجود عورتوں کے لیے گھروں میں نماز پڑھنے کوآپ پسند فرماتے تھے، چنانچہ مسند احمد میں حضرت ام حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: 
’’قد علمت أنکِ تحبین الصلٰوۃ معي وصلٰوتک فی بیتک خیر لک من صلٰوتک فی حجرتک، وصلٰوتک فی حجرتک خیر من صلٰوتک فی دارک، وصلٰوتک فی دارک خیر لک من مسجد قومک ، وصلٰوتک فی مسجد قومک خیرلک من صلٰوتک فی مسجدي، قال: فأمرتْ فبني لہا مسجد فی أقصی شیء من بیتہا وأظلمہ ، فکانت تصلی فیہ حتی لقیتِ اللّٰہَ عزوجل۔‘‘ (مسندِ احمد، ج:۱، ص:۳۷۱، وقال الہیثمي: ورجالہ رجال الصحیح غیر عبداللہ بن سوید الانصاري، وثقہ ابن حبان)
’’مجھے معلوم ہے کہ تمہیں میرے ساتھ نماز پڑھنا محبوب ہے، مگر تمہارا اپنے گھر کے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہترہے، اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا گھر کے احاطے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور احاطے میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد (میرے ساتھ) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ: حضرت اُمِ حمید رضی اللہ عنہا نے یہ ارشاد سن کر اپنے گھر کے لوگوں کو حکم دیا کہ گھر کے سب سے دُور اور تاریک ترین کونے میں ان کے لیے نماز کی جگہ بنادی جائے، چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق جگہ بنادی گئی، وہ اسی جگہ نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔‘‘
درج بالا احادیث میں عورتوں کے مساجد میں آنے کے بارے میں آنحضرت a کا منشائے مبارک بھی معلوم ہوجاتا ہے اور حضرات صحابہ وصحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذوق بھی۔
یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے دورِ سعادت کی بات تھی، لیکن بعد میں جب عورتوں نے ان قیود میں کوتاہی شروع کردی، جن کے ساتھ ان کو مساجد میں جانے کی اجازت دی گئی تو فقہائے اُمت نے ان کے جانے کو مکروہ قرار دے دیا۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:
’’لو أدرک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ما أحدث النساء لمنعہن المسجد کما منعت نساء بنی إسرائیل۔‘‘ (صحیح بخاری، ج:۱، ص:۱۲۰، صحیح مسلم، ج:۱، ص: ۱۸۳، مؤطا امام مالکؒ، ص:۱۸۴)
’’ عورتوں نے جو نئی روش اختراع کرلی ہے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد سے روک دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔‘‘
حضرت اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد ان کے زمانے کی عورتوں کے بارے میں ہے، اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے زمانے کی عورتوں کا کیا حال ہوگا؟ 
الغرض حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورت کی نماز کو گھر اور گھر میں بھی اندرونی حصہ میں پڑھنے کو مسجدِ نبوی کی جماعت میں شرکت سے بھی افضل قرار دیا ہے، اور جن قیود وشرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے آنحضرت a نے عورتوں کو مساجد میں جانے کی اجازت دی، جب عورتوں نے ان قیود وشرائط کو ملحوظ نہیں رکھا تو اجازت بھی باقی نہیں رہی۔ اس بناپر فقہائے اُمت نے جو درحقیقت حکمائے اُمت ہیں، عورتوں کی مساجد میں حاضری کو مکروہ قرار دیا ہے، گویا یہ چیز اپنی اصل کے اعتبار سے جائز تھی، مگر کسی عارض کی وجہ سے ممنوع ہوگئی ہے۔
اس تمہید کے بعد واضح ہو کہ احناف کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آنا مکروہِ تحریمی ہے، خواہ وہ تراویح ہی کی نماز ہو، چنانچہ ان کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے اور مسجد میں قرآن مجید سننے سے افضل ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مسجد میں عورتوں کا تراویح پڑھنے کا اہتمام کرنا شرعاً درست نہیں، ان کو اپنے اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھنے کا کہا جائے کہ اسی میں شریعت کی اتباع ہے، اور شرور وفتن سے حفاظت بھی ہے۔ درِ مختار میں ہے:
’’(ویکرہ حضورہن  الجماعۃ) ولو لجمعۃ وعید ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا لیلا (علی المذہب) المفتی بہ لفساد الزمان۔‘‘      (درِ مختار، ص:۵۶۵ -۵۶۶، ج:۱)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’وکرہ لہن حضور الجماعۃ إلا للعجوز فی الفجر والمغرب والعشاء، والفتوی الیوم علی الکراہۃ فی کل الصلٰوۃ لظہور الفساد‘‘ (فتاویٰ ہندیہ، ج:۱، ص: ۸۹)      فقط واللہ اعلم
                                                                           الجواب صحیح                                                                                        الجواب صحیح                                                                                                کتبہٗ
                                                           محمد عبدالمجید دین پوری                                                                     محمد شفیق عارف                                                                                  محمد انس انور
                                                                                                                                                                                                                                                                 دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین