بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علومِ حدیث میں تصانیف کا آغاز!

علومِ حدیث میں تصانیف کا آغاز!


قرآن مجید دینِ اسلام کی اَساس اور بنیاد ہے اور اسی محکم بنیاد پر اسلام کی خوبصورت اور بلند و بالا عمارت مستوی ہے اور یہی وہ کتابِ سماوی ہے جو تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی، ارشادِ ربانی ہے:
’’إِنَّ ہٰذَا الْقُرْأٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِيْ ہِيَ أَقْوَمُ۔‘ ‘ (بنی اسرائیل:۹)
ترجمہ:’’یہ قرآن وہ راستہ دکھاتاہے جو سب سے سیدھا ہے۔‘‘
جن لوگوں نے قرآنی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنایا، وہ کبھی تاریک راہوں میں نہ بھٹکے اور قرآن مجید نے انہیں ’’إِنَّ لَہُمْ أَجْرًا کَبِیْرًا‘‘ کا مژدہ سنایا۔ مسلمانوں کی جمعیت نے جب قرآنی احکامات کی پاسداری کی تو اللہ رب العزت نے انہیں ’’لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِيْ الْأَرْضِ‘‘ کے نقد انعام سے نوازا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت جو اسلام سے پہلے جہالت کی اَتھاہ گہرائیوں میں تھی اور ان پر کوئی حکومت کرنا پسند نہ کرتا تھا، قرآنی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کے بعد دنیا میں اللہ کی رضا کا پروانہ حاصل کیا اور ماسوا انبیاءB کے تمام انسانوں سے افضل قرار پائے۔ قرآن مجید کی وضاحت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے اور اس کے بغیر منشأ خداوندی کو سمجھنا محال ہے: ’’أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ‘‘ گویا تعلیم کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کارِ نبوت کا ایک جزء تھا، تعلیم کتاب بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وفعل وحیِ الٰہی تھا: ’’إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْيٌ یُّوْحٰی۔‘‘ لہٰذا فہمِ قرآن کا مدار فہمِ حدیث پر ہوا اور فہمِ حدیث گویا فہمِ قرآن کے لیے ناگزیر ہے۔یہی علوم (قرآن وحدیث) علمِ شریعت کی بنیاد کہلائے اور طالبینِ علوم کی نظر ہمیشہ سے انہی علومِ عالیہ پر رہی، قرنِ اول سے ہی لوگوں نے ان دونوں علوم کی خدمت کو سعادت سمجھا اور اس بحرِ ذخار میں غوطہ زن ہوکر گوہرِ نایاب اُمت کے سامنے رکھ دیئے اور اپنی عمر عزیز کو اس علم کی جستجو میں فنا کرتے رہے۔
علومِ قرآن وحدیث اپنی وسعت کی وجہ سے کئی شعبوںمیں منقسم ہوگئے اور ہر شعبے میں انہیں ایسے رجال کار مہیا ہوگئے، جنہوں نے اس کی تدوین وتبویب کی اور ہر فن کو دوسرے فن سے ممتاز کیا۔ علومِ حدیث کی وسعت کے لیے چھٹی صدی ہجری کے محدث وفقیہ، امام ابوبکر زین الدین حازمیؒ کے فرمان پر نگاہ ڈالیے:
’’علم الحدیث یشمل علی أنواع کثیرۃ، تقرب من مائۃ نوع، ذکر منہا أبوعبد اللّٰہ الحاکم فی معرفۃ علوم الحدیث۔‘‘ (عجالۃ المبتدی وفضالۃ المنتہی للحازمی، ص:۳، المطبعۃ الامیریۃ) 
’’علمِ حدیث کی سوکے لگ بھگ انواع ہیں، ابو عبد اللہ حاکم ؒ نے اپنی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ میں ان انواع میں سے معتدبہ ذکر کی ہیں۔‘‘ 
امام ابن صلاح رحمہ اللہ نے مقدمہ میں پینسٹھ (۶۵) انواع ذکر کی ہیں، جبکہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے دیگر کتب سے جمع کرکے اپنے اضافات کے ساتھ ’’تدریب الراوي‘‘ میں چورانوے (۹۴) انواع ذکر کی ہیں۔یہ ساری انواع بعد کے لوگوں کی اختراع کردہ نہیں، بلکہ قرونِ اولیٰ میں علومِ حدیث کی بعض انواع کا وجود ملتا ہے، جس پر اس مضمون میں روشنی ڈالی جائے گی کہ علمِ حدیث میں تصانیف کی ابتداء کب سے ہوئی؟
علمِ حدیث کی خدمت تو عہدِ نبوی سے ہی شروع ہوچکی تھی، لیکن عرب چونکہ حافظہ کی مدد سے علم کو باقی رکھتے تھے، لہٰذا پہلی صدی ہجری میں کتابت کا کچھ خاص اہتمام نہ تھا، حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا خیال اس طرف گیا کہ اگر اسی طرح حافظہ پر اعتماد رہا تو رفتہ رفتہ اس میں انحطاط آجائے گا اور یہ علوم ضائع ہوجائیں گے، لہٰذا انہوں نے ابن شہاب زہریؒ کو کتابتِ حدیث کا حکم فرمایا، اس سے پہلے کتابت کا رواج جو خال خال تھا، اس نے زور پکڑا اور نقوشِ ذہنیہ صفحۂ قرطاس پر آنے لگے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شرح نخبہ میں فرمایا: 
’’فمِنْ أَوَّلِ مَنْ صَنَّفَ في ذٰلک القاضي أبو محمد الرامہرمزيّ کتابہ المحدث الفاصل۔‘‘
حافظ رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق ابو محمدرامہرمزی رحمہ اللہ اول مصنفین میں سے ہیں اور ان کی وفات ۳۶۰ھ میں ہوئی، گویا علمِ حدیث چوتھی صدی ہجری میںمرتب ہوا۔ حافظؒ کے اس کلام پر مضمون کے آخر میں تفصیلی روشنی ڈالیں گے کہ حافظؒ کے کلام کا کیا مطلب ہے؟ اور شراح نے اس کی کیا توجیہات فرمائی ہیں! سرِدست یہ دیکھنا ہے کہ علومِ حدیث میں تصانیف کا آغاز کب ہوا؟!
امام حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ میں ’’النوع العشرین‘‘ کے تحت متقدمینِ فن کا ذکر فرمایاہے اور انہی اساطینِ علم میں علی بن المدینی رحمہ اللہ کا تذکرہ کیا ہے۔ نیز اصولِ حدیث میں ان کی تصنیفاتِ کثیرہ کا بھی ذکر کیا ہے، ان کی تصنیفات کے ذکر سے قبل ان کے مختصر حالات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے، تاکہ علومِ حدیث میں ان کا تقدُّم اور جلالتِ شان معلوم ہو سکے۔

مختصر احوال علی ابن المدینی رحمہ اللہ 

 

نام و کنیت اورولادت باسعادت

آپ کی کنیت ابو الحسن اور مکمل نسب اس طرح ہے: علی بن عبد اللہ بن جعفر بن نجیح بن بکربن سعد السعدی، المعروف بابن المدینی ؒ۔ علی بن المدینی ؒ بصرہ میں ۱۶۱ھ میں پیدا ہوئے۔

اساتذۂ علی بن المدینی رحمہ اللہ 

علی بن المدینی ؒ کے اساتذہ میں سے: ان کے والد عبد اللہ بن جعفر (۱۷۸ھ) ، حماد بن زید (۹۸-۱۷۹ھ) جعفر بن سلیمان (۱۷۸ھ) ، یزید بن زریع (۱۰۱-۱۸۲ھ) ، عبد العزیز الدراوردی (۱۸۷ھ) معتمر ابن سلیمان (۱۰۶-۱۸۷ھ) ،سفیان بن عیینہ (۱۰۷-۱۹۸ھ) ، جریر بن عبد الحمید (۱۸۸ھ) ، غندر (۲۹۴ھ) ، حاتم بن وردان (۱۸۴ھ) ، عبد العزیز بن ابی حازم (۱۸۴ھ) ، معاویہ بن عبد الکریم(۱۸۰ھ) ، یوسف ابن الماجشون (۱۸۵ھ) ، عبد الوہاب ثقفی (۱۹۴ھ) ، ہشام بن یوسف (۱۹۷ھ) ، عبد الرزاق (۱۲۶-۲۱۱ھ) اور ان کے علاوہ بہت سے اساطینِ علم وفضل داخل ہیں۔
امام ابن مدینی ؒ نے ان اساتذہ سے علم حاصل کیا اور اس میں وصفِ کمال کو پہنچے اور اس شان میں ممتاز ہوئے اور تصانیف فرمائیں اور احادیث کو جمع کیا۔ کہاگیا ہے کہ: ’’ان کی تصانیف دو سو (۲۰۰) کے لگ بھگ ہیں۔‘‘ امام ابن مدینی ؒ کا حلقۂ تلامیذ بھی بہت وسیع ہے، بڑے بڑے محدثین نے آپ سے روایات بیان فرمائی ہیں۔

 تلامذہ علی بن المدینی رحمہ اللہ 

آپ سے جنہوں نے روایت کی ہے ان میں سے: احمد بن حنبل (۱۶۴- ۲۴۱ھ) ، ابویحییٰ صاعقہ (۱۸۵-۲۵۵ھ) ، زعفرانی (۲۶۰ھ) ، ابوبکر صاغانی (۲۷۰ھ) ، ابو عبد اللہ بخاری (۱۹۴-۲۵۶ھ) ، ابوحاتم (۱۹۵-۲۷۷ھ) ، حنبل بن اسحاق (۲۷۳ھ) ، محمد بن یحییٰ (۱۷۲-۲۵۸ھ) ، ابوداؤد (۲۷۵ھ) ، حمید بن زنجویہ (۲۵۱ھ) ، حسن البزار(۲۴۹ھ) ، ابوداؤد الحرانی (۲۷۲ھ) ، ابویعلی موصلی (۲۱۱-۳۰۷ھ)، ابوالقاسم بغوی وغیرہم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ آپ کے شیخ سفیان بن عیینہؒ نے بھی آپ سے روایات نقل کی ہیں۔

ابن مدینی رحمہ اللہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کی نظر میں

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ باوجود یکہ آپ کے شیخ تھے، آپ کا بہت ادب فرماتے اور نہایت تعظیم سے پیش آتے تھے۔ مسلم ابن علان اپنی روایت سے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سفیان بن عیینہؒ نے علی بن المدینی ؒ کے واسطے سے حدیث بیان فرمائی اور پھر فرمایا: تم لوگ مجھے علی بن المدینی کی محبت کے بارے میں ملامت کرتے ہو، اللہ کی قسم! میں نے علی سے اس سے زیادہ استفادہ کیا ہے جتنا استفادہ اس نے مجھ سے کیا ہے۔ ابن عیینہؒ فرماتے ہیں:میں تمہاری مجلس میں بیٹھنے کا مشتاق نہیں ہوں، اگر علی بن المدینی نہ ہوتے تو میں تمہاری مجلس میں نہ بیٹھتا۔ خلف ابن ولید جوہری (۲۱۲ھ) فرماتے ہیں: ایک دن ابن عیینہؒ ہمارے پاس آئے اور علی بن المدینی ہمارے پاس تشریف فرماتھے، تو ابن عیینہؒ نے فرمایا: اگر علی ابن المدینی نہ ہوتے تو میں تمہارے پاس نہ آتا۔

علی ابن مدینی ؒ دیگر اساطین علم کی نظر میں

ابو حاتم رازیؒ (۲۷۷ھ) کا ارشاد ہے: علی ابن المدینی ؒ معرفتِ حدیث اور معرفتِ علل میں سب لوگوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ، علی ابن المدینی کا نام نہیں لیا کرتے تھے، بلکہ آپ کی عظمت کی وجہ سے آپ کی کنیت بیان کرتے تھے۔ ابراہیم ابن معقلؒ (۲۹۵ھ) نے فرمایا: میں نے امام بخاریؒ سے سنا وہ فرما رہے تھے: میں اپنے آپ کو کسی کے سامنے چھوٹا خیال نہیں کرتا سوائے علی ابن المدینی کے۔
امام بخاریؒ سے منقول ہے، ان سے پوچھا گیا: آپ کس بات کی تمنا رکھتے ہیں؟ امام بخاریؒ نے فرمایا: کہ میں عراق جاؤں اور علی بن المدینی بقیدِ حیات ہوں اور میں ان کی مجلس میں شرکت کروں۔
ابوعبیدہ آجریؒ فرماتے ہیں، ابو داؤد سے پوچھاگیا: احمد بن حنبل زیادہ علم والے ہیں یا پھر علی ابن المدینی؟ آپ نے فرمایا: علی ابن المدینی اختلافِ حدیث میں امام احمد سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔

انتقال پُرملال

امام علی ابن المدینیؒ کی وفات ۲۳۴ ہجری کو مقام سامرّاء میں ہوئی۔امام بخاریؒ فرماتے ہیں:۲۸ ذیقعدہ کو ۲۳۴ھ میں آپ کا وصال ہوا۔ (سیر اعلام النبلاء للذہبی، ج:۱۱،ص:۴۱،ط:مؤسسۃ الرسالۃ) 
علی بن المدینیؒ کے ترجمہ سے مقصود اُن کی جلالتِ شان وعلوِ مرتبت کا بیان تھا کہ دوسری صدی کے عظیم المرتبت محدث نے علومِ حدیث پر قلم اُٹھایا تو ایسی تصانیف چھوڑیں کہ بعد کے علماء اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتے اور ہر دور میں علمائے حدیث ان کے خوشہ چین رہے۔ ذیل میں علی ابن المدینیؒ کی تصانیف کا ذکر کیا جاتا ہے، جس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجائے گی کہ علومِ حدیث میں تصانیف کا آغاز کب سے ہوا؟
حاکم ؒ نے ’’معرفۃ علوم الحدیث‘‘ میں اور امام ذہبیؒ نے ’’سیر أعلام النبلاء‘‘ میں علی بن المدینی کی ۲۶ کتب کا ذکر کیا ہے۔

تصانیف علی بن المدینیؒ

۱:- ’’الاسماء والکنی‘‘ (۸) اجزاء     ۲:- ’’الضعفاء‘‘ (۱۰) اجزاء
۳:- ’’المدلسون ‘‘ (۵) اجزاء     ۴:- ’’اول من فصح عن الرجال ‘‘ (۱) جزء
۵:- ’’الطبقات ‘‘ (۱۰) اجزاء         ۶:- ’’ من روی عمن لم یرہ‘‘ (۱) جزء
۷:- ’’ علل المسند‘‘ (۳۰) اجزاء    ۸:- ’’ العلل من روایۃ إسماعیل القاضي ‘‘(۱۴) اجزاء
۹:- ’’ التاریخ ‘‘ (۱۰) اجزاء         ۱۰:- ’’ علل حدیث ابن عیینۃ‘‘ (۱۳) اجزاء
۱۱:- ’’ من لایحتج بہ ولا یسقط ‘‘ (۲) اجزاء     ۱۲:- ’’ من نزل من الصحابۃؓ النواحي ‘‘ (۵) اجزاء
۱۳:- ’’العرض علی المحدث ‘‘ (۵) اجزاء     ۱۴:- ’’ من حدث ورجع عنہ ‘‘ (۲) اجزاء 
۱۵:- ’’سؤالات یحییٰ القطان ‘‘ (۲) اجزاء     ۱۶:- ’’ سؤال یحییٰ وابن مہدي عن الرجال ‘‘ (۵) اجزاء
۱۷:- ’’الأسانید الشاذۃ ‘‘ (۲) اجزاء     ۱۸:- ’’الثقات ‘‘ (۱۰) اجزاء
۱۹:- ’’اختلاف الحدیث ‘‘ (۵) اجزاء     ۲۰:- ’’ الأشربۃ ‘‘ (۳) اجزاء
۲۱:- ’’الغریب‘‘ (۵) اجزاء         ۲۲:- ’’الإخوۃ والأخوات‘‘ (۳) اجزاء
۲۳:- ’’ من عرف بغیر اسم أبیہ ‘‘ (۲) اجزاء     ۲۴:- ’’ من عرف بلقبہٖ‘‘ (۱) جزء
۲۵:- ’’العلل المتفرقۃ‘‘ (۳۰) اجزاء     ۲۶:- ’’ مذاہب المحدثین‘‘ (۲) اجزاء
(سیر اعلام النبلاء للذہبی، ترجمہ علی ابن المدینی، ج:۱۱،ص:۶۰،ط:مؤسسۃ الرسالۃ ۔ معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، النوع العشرون، ص:۷۱،ط:دار الکتب المصریہ) 

نتیجہ

امام علی ابن المدینی ؒ کے احوال اور ان کی تصانیف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ علومِ حدیث میں تصانیف کا آغاز علی ابن المدینی ؒ کے ہاتھوں دوسری صدی کے اخیر میں ہوگیا تھا۔ اس سے معترضین کا وہ اعتراض بھی دور ہوگیا کہ علوم حدیث کی تدوین وتبویب علمائے متأخرین نے شروع کی۔ اس کے علاوہ جزوی اور ضمنی طور پر بھی محدثین ہمیشہ علومِ حدیث پر اجزاء لکھتے رہے، جیسے امام شافعیؒ نے اپنی کتاب ’’الرسالۃ‘‘ میں ضمناً اہم مباحث ذکر فرمائے ہیں۔ امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی ابتداء میں علومِ حدیث پر جاندار مقدمہ تحریر فرمایا۔ امام ترمذیؒ نے سنن کے آخر میں ’’کتاب العلل‘‘ کی صورت میں پر مغز رسالہ لکھا، غرض یہ کہ متقدمین نے قرونِ اولیٰ میں کسی بھی طرح اس علم سے بے اعتنائی نہیں فرمائی۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام کا جائزہ

ابتدائے مضمون میں حافظؒ کے کلام کا اجمالی ذکر تھا کہ انہوں نے ’’شرح نخبۃ الفکر‘‘ میں ’’فمِنْ أَوَّلِ مَنْ صَنَّفَ في ذٰلک القاضي أبو محمد الرامہرمزيّ کتابَہ المحدث الفاصل‘‘ سے علم حدیث میں اول تصانیف کا ذکر کیا ہے۔ (شرح نخبۃ الفکر لابن حجرؒ، ص:۳۸، ط: مکتبۃ البشریٰ) 
ماقبل کے بیان سے معلوم ہوا کہ علومِ حدیث میں تصانیف کا آغاز دوسری صدی ہجری میں ہو چکا تھا اور اس سلسلہ میں علی ابن المدینیؒ کی چند کتب کے اسماء بھی ذکر کر دیئے گئے، جبکہ ابو محمد الرامہرمزیؒ (۳۶۰ھ) چوتھی صدی کے بزرگ ہیں تو حافظؒ کی اس عبارت کا کیا مطلب ہے؟

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام سے متعلق ملا علی قاریؒ کی تشریح

پہلا مطلب: ۔۔۔۔    ملا علی قاریؒ نے شرح نخبہ میں حافظؒ کی عبارت کی توضیح اس طرح فرمائی کہ ’’مِنْ أَوَّلِ‘‘ میں’’ مِنْ‘‘ تبعیضیہ ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ابو محمد رامہرمزی اوائل مصنفین میں سے ہیں، نہ کہ اول مصنف ہیں۔ گویا ایک جماعت نے اس زمانے میں تصانیف کیں، لیکن کوئی کسی پر سبقت نہ کرسکا۔ (شرح شرح النخبۃ لملا علی قاری، ص:۱۳۷،ط:قدیمی) ملاعلی قاریؒ کی توضیح سے بھی قرونِ اولیٰ کی تصانیف پر کوئی روشنی نہیں پڑتی ، بلکہ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسی چوتھی صدی ہجری میں بہت سے لوگوں نے تصانیف کیں جن میں سے ایک رامہرمزیؒ بھی تھے۔
دوسرا مطلب: ۔۔۔۔     حافظؒ کے کلام کا ایک دوسرا مطلب ہے جسے اختیار کرنے کے بعد تمام اقوال میں تطبیق ہوجاتی ہے کہ اول تصانیف سے مراد اشہر تصانیف ہیں کہ جن مصنفین کی کتابوں کے اسماء گرامی حافظؒ نے ’’شرح النخبۃ‘‘ میں ذکر کیے ہیں، وہ کتابیں مقبول بین الناس ہوئیں اور مشہور ہوئیں، لہٰذا علومِ حدیث میں شہرت پانے کے اعتبار سے یہ اول تصانیف ہوئیں۔
تیسرا اور لطیف مطلب: ۔۔۔۔     حافظؒ کی اس عبارت کا ایک لطیف مطلب جسے دکتور محمود الطحان نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، وہ یہ کہ علومِ حدیث میں تصانیف کا آغاز تو قرونِ اولیٰ میں ہو چکا تھا، لیکن ہر فن دوسرے فن میں منضم تھا اور ممتاز نہ تھا، اصطلاحات مستقل نہ تھیں، چوتھی صدی ہجری میں اس پر ترتیب سے کتابیں لکھی گئیں اور ہر فن کو دوسرے سے ممتاز کیاگیا، گویا اس کی تنقیح چوتھی صدی ہجری میں ہوئی۔ (تیسیر مصطلح الحدیث، مقدمۃ العلمیۃ، ص:۱۰، ط:مکتبۃ البشریٰ) 

خلاصۂ کلام

ساری تحریر کا لبِ لباب اور ثمرہ یہ ہے کہ علومِ حدیث میں تصانیف کا آغاز تو قرونِ اولیٰ میں علی ابن المدینیؒ کے ہاتھوں شروع ہوا اور چوتھی صدی ہجری میں اس کی تنقیح ہوئی اور کتابیں لکھی گئیں جو اطرافِ عالم میں مشہور ہوئیں۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین