بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علمائے کرام کو ”مولانا“ کہنا!

علمائے کرام کو ”مولانا“ کہنا!



عوام کو دین سے بدظن کرنے‘ اہل دین سے دور کرنے‘ دینی شعائر کی عظمت گرانے اور دینی اصطلاحات کو مٹانے ‘ علماء دین کو بدنام کرنے‘ انہیں بے وقعت کرنے اور ان کے بارے میں عوام الناس میں نفرت پیدا کرنے کے علاوہ عوام الناس کو ذہنی اور فکری انتشار میں مبتلا کرنے‘ اصلاح کے نام پر فساد برپا کرنے‘ اتفاق و اتحاد کے عنوان سے افتراق و اختلاف کا بیج بونے کی غرض سے‘ دین اور اہل دین سے بیزار و منحرف ایک طبقہ جو بزعم خویش محقق بھی ہے‘ آئے دن اپنی جدید اور نئی نئی تحقیقات سے عوام کو روشناس کراتارہتا ہے۔ جو چشم بددور! عہد نبوت‘ عہد صحابہ‘ اور عہد تابعین سے لے کر پورے تواتر کے ساتھ علم و عمل کی راہ پر چلنے والی جماعت اور کتاب و سنت کی متواتر تحقیقات کو اپنانے والے طائفہ منصورہ کو تقلیدی شرک‘ جہالت‘ رجعت پسندی‘ دقیانوسیت‘ ذہنی غلامی‘ تقلیدی ذہن‘ ذہنی جمود‘ ملائیت‘ ملّا ازم اور فرسودہ خیالات وغیرہ کا مکروہ عنوان دیتا ہے بلکہ اس متواتر تحقیق پر پختگی سے عمل پیرا ہونے کو بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی‘ تنگ ظرفی‘ ضد اور تعصب وغیرہ کا طعنہ دیا جاتا ہے اور تاریخ اسلام کے تابناک ماضی اور سنہری دور یعنی زمانہ خیرالقرون کو دورِ تاریکی قرار دیا جاتا ہے‘اور جہالت ثانیہ کے اپنے اس تاریک دور کو علم و روشنی کا دور قرار دے کر اسلاف کی تحقیقات و تشریحات سے نفرت و بیزاری اور سرکشی و بغاوت کا ذہن پیدا کرکے باغیانہ‘ متکبرانہ اور گستاخانہ ذہن اور اندازِ فکر پیدا کیا جاتا ہے‘ اور اس قدر خودرائی‘ انانیت اور غرور تکبر بھردیا جاتا ہے کہ پھر ان کو اپنے مقابلہ میں صحابہ کرام سمیت بڑے بڑے محققین علماء سلف صالحین‘ ماہرین شریعت ہیچ نظر آتے ہیں‘ اس لئے وہ ان پر اعتماد کرنے کی بجائے ان کی کامل تحقیق کو اپنی ناقص جاہلانہ‘ طفلانہ‘ بلکہ مجنونانہ تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنا اور پرکھ کر ان کے علم و تحقیق پر تنقید و نکتہ چینی کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں‘ اس قسم کے جدیدیئے کسی نہ کسی رنگ میں ہر جگہ موجود ہیں‘ جو ایک خاص انداز سے اپنی جدید تحقیقات کے پردہ میں خبث باطن کا تعفن پھیلارہے ہیں۔ کبھی اہل قرآن کے نام پر‘ قرآن کریم سے اعراض‘ کبھی اہل حدیث کے نام پر احادیث صحیحہ کا انکار‘ کبھی اہل بیت سے محبت کے نام پر صحابہ کرام و اہل بیت سے بغض کا اظہار اور کبھی فقہأ و اولیأ کرام سے عقیدت و اتباع کے نام پر ان کی تعلیمات سے انحراف‘ اسلامی اخلاق و تہذیب کا انکار اور اس کے مقابلہ میں مغربی تہذیب کا پرچار‘ یہ سب کچھ مشاہدہ میں آتا رہتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کا جو اعتقاد و اعتماد‘ دین اور اہل دین پر قائم ہے‘ جو کہ بڑی کوششوں‘ محنتوں اور قربانیوں کے بعد قائم ہوا ہے‘ کسی طرح اسے متزلزل کیا جائے‘ اس کے بعد اگلی کوشش میں اسے یکسر نیست و نابود کردیا جائے۔ کبھی حفظ قرآن کو طوطے کی رٹ‘ کبھی احادیث صحیحہ کو غیر معتبر‘ کبھی فقہاء کرام کی تقلید کو حرام‘ کبھی علماء کرام کی بات ماننے کو احبار و رہبان کی عقیدت و محبت میں گرفتار کہہ کر ان سب چیزوں کی عظمت و اہمیت کم کرنے‘ بلکہ یکسر ختم کرنے کی جہد مسلسل کی جارہی ہے‘ اگر ایسے محققین کی تحقیقات‘ ان کی سوچ اور ان کے نظریات کی ایک فہرست مرتب کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام کب کا مٹ چکا ہے‘ اور اسلام کی عملی تصویر و نمونہ کہیں بھی موجود نہیں۔ انہیں جدید محققین میں سے ایک نام پروفیسر ہارون الرشید کا ہے‘ جنہوں نے اپنی کتاب ”اردو کا دینی ادب“ کے دیباچہ میں بڑے غصہ اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں لکھا ہے:
”اس کتاب میں کسی عالم کے لئے ”مولانا“ کا لقب استعمال نہیں کیا گیا‘ (اقتباس کی بات دوسری ہے) اس لئے کہ اللہ ہی ہمارا مولا ہے‘ کوئی مخلوق اس لقب کی مستحق نہیں ‘ قرآن کا ارشاد ہے: ”ان اللّٰہ مولا کم نعم المولیٰ ونعم النصیر“(یقیناً اللہ ہی تمہارا مولیٰ ہے اور وہ اچھا مولیٰ اور اچھا مدد گار ہے)‘ اس کے برخلاف اللہ کی پناہ! ہم نے ہزاروں ”مولا“ اور ”مولانا“ بنالیئے ہیں‘ علماء کو ”مولانا“ کہنے اور لکھنے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے… الخ۔“
موصوف کی اس ”تحقیق جدید“ سے پہلے چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا:
۱:… ہر علاقہ‘ قوم ‘ ادارے اور علم و فن میں کچھ خاص خاص اصطلاحات ہوتی ہیں جن سے ہر ایک کی شناخت بحیثیت عہدہ‘ منصب اور فضل و کمال ہوتی ہے‘ ایک فوجی ادارہ کو لے لیجئے‘ سپاہی سے لے کر آرمی چیف تک کتنے‘ عہدے‘ رینک یا مناصب ہیں کہ ہر ایک کے علیحدہ نام ہیں‘ یہاں تک کہ ہر ایک کا یونیفارم /وردی بھی مختلف ہے‘ اسی طرح کسی بھی ادارہ کو لے لیجئے‘ جب ایسے اداروں یا کسی بھی شعبہ سے وابستہ ماہرین کی بحیثیت عہدہ ان کی اس خاص اصطلاح اور پہچان پر اعتراض نہیں تو علماء کے لئے ”مولانا“ کی خاص اصطلاح پر اتنی جھنجھلاہٹ اور پریشانی کیوں ہے؟ یا مثلاً: آقائے دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ”صلی اللہ علیہ وسلم“ کا لفظ مخصوص ہونا‘ دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کے لئے ”علیہ السلام“ صحابہ کرام کے لئے ”’رضی اللہ عنہم“ اولیاء اللہ کے لئے ”رحمہم اللہ تعالیٰ“ اور عام مسلمانوں کے لئے ”مرحومین“ کہا جاتا ہے‘ قرآن و حدیث میں ان مقدس و مطہر اور برگزیدہ شخضیات کے لئے کہیں ان القابات کا ذکر نہیں‘ تو کیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ چونکہ قرآن و حدیث میں ان کا کوئی ذکر نہیں‘ لہٰذا ان عظیم شخصیات کے لئے ”صلی اللہ علیہ وسلم‘ علیہ السلام‘ رضی اللہ عنہم‘ رحمہم اللہ تعالیٰ‘ یا مرحومین“کہنا جائز نہیں‘ بلکہ گناہ اور شرک ہے؟ ۲:… عربی ادب اور لغت عربی کے ماہرین جانتے ہیں کہ عربی زبان میں بکثرت ایسا آیا ہے کہ ایک ہی لفظ ہوتا ہے‘ لیکن مختلف استعمالات میں اس کے مختلف معانی ہوتے ہیں‘ چنانچہ ایک جگہ اس کا معنی ایک ہے ‘دوسری جگہ اس کا معنی اس سے مختلف ہوتا ہے ‘ چنانچہ قرآن و حدیث میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں‘ مثلاً: قرآن کریم میں کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ کے لئے ”رؤف رحیم“ آیا ہے اور یہی لفظ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے‘ جیسا کہ ارشاد ہے:
”لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم“ (التوبہ:۱۲۸)
ترجمہ:”آیا ہے تمہارے پاس رسول تم میں کا بھاری ہے اس پر جو تم کو تکلیف پہنچے حریص ہے تمہاری بھلائی پر ایمان والوں پر نہایت شفیق و مہربان ہے۔“ اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس معنی میں رؤف و رحیم ہیں‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی میں رؤف و رحیم نہیں ہیں‘ لیکن یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لے بھی آیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم میں ”مالک“ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوا ہے‘ اور یہی لفظ جہنم کے نگران فرشتہ کے لئے بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے‘ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
”ونادوا یا مالک لیقض علینا ربک “ (الزخرف: ۷۷)
ترجمہ:۔ ”اور وہ پکاریں گے اے مالک! تاکہ فیصلہ کرے ہمارے بارے میں تیرا رب۔“
۳:… اسی طرح قرآن و حدیث اور لغت عرب میں ”مولیٰ“ کے بھی کئی معنی آئے ہیں: رب‘ مالک‘ مدد گار‘ کارساز‘ آقا‘ سردار‘ آزاد کرنے والا‘ غلام‘ آزاد کردہ غلام اور دوست وغیرہ۔
۴:… لغت عرب کے لحاظ سے لفظ ”مولا“ ادنیٰ اور اعلیٰ دنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے‘ لیکن ہمارے عرف میں دین دار عوام‘ مشائخ اور اکابرین اسلام نے دین و شریعت کا علم حاصل کرنے والوں کی عزت و احترام کے لئے اس لفظ کو علماء دین کے لئے اتنی کثرت سے استعمال کیا ہے کہ اب یہ لفظ ان کی پہچان اور قریب قریب ان کے لئے مختص ہوگیا ہے‘ حتی کہ جب بھی ”مولانا“ کا لفظ کہا جاتا ہے تو ایک عامی آدمی کا ذہن بھی فوراً اس طرف جاتا ہے کہ یہ شخص قرآن و حدیث‘ فقہ اور ان سے متعلقہ علوم کا ماہر یا ان کو جاننے والا عالم دین ہی ہو گا۔ چونکہ ایسے دین بیزار طبقہ کا مقصد قرآن کو سمجھنا اور اپنے آپ کو قرآن کے تابع بنانا نہیں ہوتا بلکہ ان کا منشور دین کے مسلمہ اصولوں سے انحراف اور الحاد ہوتا ہے‘ چاہے انہیں اس کے لئے قرآن کریم میں تحریف و تلبیس کرنا پڑے یا ایک آیت کو اپناکر قرآن کریم کی دوسری آیات سے اعراض وانکار کرنا پڑے‘ یہ لوگ اس سے بھی دریغ نہیں کرتے‘ حالانکہ مفسرین کا اصول ہے کہ: ”القرآن یفسر بعضہ بعضاً“کہ قرآن کریم کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ علماء کرام عربی گرامر کے اصول و قواعد کی روشنی میں ہر لفظ کا معنی‘ مفہوم اور مصداق وہی متعین کرتے ہیں جو اس مقام کے مناسب ہوتا ہے۔ بے شک حقیقی مولیٰ اللہ تعالیٰ ہے‘ اور کمال ولایت اسی کو زیبا ہے‘ جس معنی میں اللہ تعالیٰ کو ”مولیٰ“ کہا جاتا ہے‘ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو ”مولیٰ“ یا ”مولانا“کہنا جائز نہیں‘ لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے غیر اللہ کو مولیٰ کہنا جائز ہے‘ کیونکہ قرآن و حدیث میں یہ لفظ اللہ کے علاوہ دوسروں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے: مثلاً: قرآن کریم میں ارشاد ہے:
۱:۔ ”ولکل جعلنا موالی مماترک الوالدان والاقربون۔ (النساء:۳۳)
ترجمہ:۔”اور ہر کسی کے لئے ہم نے مقرر کردیئے ہیں وارث اس مال کے کہ چھوڑ مرے ماں باپ اور قرابت والے۔“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے میت کے ورثاء کو ”موالی“ فرمایا ہے‘ جو ”مولیٰ“ کی جمع ہے۔
۲:۔”وضرب اللہ مثلاً رجلین احدہما ابکم لایقدر علیٰ شئی وہو کل علی مولاہ اینما یوجہہ لایأت بخیر۔ “ (النحل:۷۶)
ترجمہ:۔”اور بتائی اللہ نے ایک دوسری مثال دو مرد ہیں ایک گونگا‘ کچھ کام نہیں کرسکتا اور وہ بھاری اپنے صاحب پر جس طرف اس کو بھیجے نہ کرکے لائے کچھ بھلائی۔“ اس آیت میں غلام کے مالک کو ”مولیٰ“ کہا گیا ہے۔
۳:۔ ”انی خفت الموالی من ورائی وکانت امرأتی عاقراً۔“ (مریم:۵)
ترجمہ:۔ ”اور میں ڈرتا ہوں اپنے بھائی بندوں سے اپنے پیچھے اور عورت میری بانجھ ہے۔“ اس آیت میں اپنے قرابت داروں کو ”موالی“ کہا گیا ہے جو ”مولیٰ“ کی جمع ہے۔
۴:۔ ”فان لم تعلموا آباء ہم فاخوانکم فی الدین وموالیکم۔“ (الاحزاب:۵)
ترجمہ:۔ ”پھر اگر نہ جانتے ہو ان کے باپ کو تو تمہارے بھائی ہیں دین میں اور رفیق ہیں۔“ اس آیت میں وہ مسلمان بھائی جن کے والد کا علم نہیں‘ ان کو مولیٰ یعنی دوست کہہ کر بلانے کا حکم ہے۔
۵:۔”مأواکم النار ہی مولاکم وبئس المصیر۔“ (الحدید:۱۵)
ترجمہ:۔”تم سب کا گھر دوزخ ہے وہی ہے رفیق تمہاری اور بُری جگہ جاپہنچے۔“ اس آیت میں کافروں سے کہا گیا کہ دوزخ کی آگ تمہارا ”مولی“ یعنی رفیق ہے۔
۶:۔’فان اللہ ہو مولاہ وجبریل وصالح المومنین‘ والملائکة یعد ذالک ظہیر۔“ (التحریم:۴)
ترجمہ:۔”تو اللہ ہے اس کا رفیق اور جبرئیل اور نیک بخت ایمان والے اور فرشتے اس کے پیچھے مددگار ہیں۔“ اس آیت میں اللہ تعالیٰ‘ حضرت جبریل اور نیک مسلمانوں کو پیغمبرِ اسلام کا مولیٰ یعنی دوست فرمایا گیا ہے‘ ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو مولا‘ یا مولانا کہنا صحیح اور درست ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی زبان مبارک سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو ”مولا“ اور ”مولانا“ فرمایا ہے‘ جیسا کہ کئی احادیث مبارکہ اس پر شاہد ہیں:
۱:۔ ”عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: مولی القوم من انفسہم۔“ (بخاری‘ ج:۲‘ص:۱۰۶۴)
ترجمہ: ۔”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قوم کا آزاد کردہ غلام اسی قوم کا شمار ہوگا۔“ اس حدیث میں قوم کے آزاد کردہ غلام کو ”مولی“ کہا گیا ہے۔
۲:۔ ”کان سالم مولی ابی حذیفة یؤم المہاجرین الاولین واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔“ (ایضاً)
ترجمہ: ”سالم جو ابو حذیفة رضی اللہ عنہ کے غلام تھے‘ مہاجرین اولین اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی امامت کراتے تھے۔“ اس حدیث میں صحابہ کرام نے حضرت سالم کو ”مولیٰ ابی حذیفہ“ کہا ہے۔
۳:۔ امام بخاری نے باب مناقب بلال ابن رباح مولی ابی بکر کے عنوان سے باب قائم کیا ہے۔ (بخاری‘ ج:۱‘ ص:۵۳۰)
۴:۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ کو فرمایا: ”انت اخونا ومولانا۔“ (بخاری ج:۱‘ ص:۵۲۸) یعنی آپ ہمارے بھائی اور آزاد کردہ غلام ہیں۔ ان تمام آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے صراحتاً یہ ثابت ہوا کہ اگرچہ حقیقی ”مولیٰ“ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ وہی کامل و اکمل مولیٰ ہے‘ لیکن اس کے باوجود قرآن و حدیث میں مولیٰ کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں پر بھی کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ قرآن و حدیث اور اجماع امت سے اللہ کے علاوہ دوسروں کو ”مولانا“ کہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے‘ لیکن خواہش پرستی اور انانیت کی انتہا دیکھئے کہ یہ لوگ باغیانہ‘ متکبرانہ اور گستاخانہ ذہن اور اندازِ فکر کی بنا پر قرآن و حدیث کو جھٹلارہے ہیں‘ اجماع امت کو چھوڑ رہے ہیں‘ مگر اپنی جہالت ‘ خودرائی‘ سرکشی‘ نفس پرستی اور خواہش پرستی پر اڑے اور ڈٹے ہوئے ہیں۔
واللہ یقول الحق وہو یھدی السبیل

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین