بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علمائے دیوبند کی تواضع کی چند جھلکیاں

علمائے دیوبند کی تواضع کی چند جھلکیاں

    اﷲ رب العزت کے دربارِ اقدس میں عزت ومرتبہ دلانے والی صفت، صفت عبدیت ہے، جو خاصہ ہے تو اضع کا۔ اور اسی دربار میں ذلیل ورسوا کرنے والی چیز تکبر ہے، اسی خصلت ِرذیلہ کی وجہ سے ابلیس لعین راندۂ درگاہ ہوا اور ہمیشہ کے لیے لعنت ِخداوندی کا مستحق ٹھہرا، أعاذنا اللّٰہ منہ۔     اگر اخلاص، تواضع اور عبدیت کے کمالاتِ حسنہ سے اپنے کو مزین کر لیا جائے تو پھر ایسے شخص کے لیے اطاعت ِخداوندی اور تقرب عنداﷲ کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی تھوڑی سی خدمت بھی حق تعالیٰ شانہٗ کے یہاں بہت زیادہ وزنی او رمقبول ہوتی ہے اور دنیا میں بھی اس کے دور رس اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔     افضل البشر، خدائے بزرگ وبرتر کے بعد سب سے بزرگ ہستی، خاتم الرسل، حضرت محمد a کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ a کے خادمِ خاص حضرت انس q فرماتے ہیں:     ’’آپ a زمین پر بیٹھ جاتے، بکری کا دودھ دوہ لیتے اور غلام کی دعوت بھی قبول فرمالیتے او رارشاد فرماتے: اگر مجھے ایک دست گوشت کی طرف دعوت دی جائے تو اُسے بھی قبول کر لوں گا او راگر بکری کا ایک پایہ ہدیہ کیا جائے تو وہ بھی قبول کر لوں گا۔‘‘                (شرح السنۃ للبغوی)     ایک مرتبہ کسی سفر میں چند صحابہؓ نے ایک بکری ذبح کرنے کا ارادہ فرمایا او راس کا کام تقسیم فرمایا، ایک نے اپنے ذمہ ذبح کرنا لیا، دوسرے نے کھال نکالنا، کسی نے پکانا، حضور a نے فرمایا کہ: پکانے کے لیے لکڑی اکٹھی کرنا میرے ذمہ ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! یہ کام ہم خود کر لیں گے۔ حضور a نے فرمایا: یہ تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ تم لوگ اس کو بہ خوشی کر لو گے، لیکن مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میں مجمع میں ممتاز رہوں اور اﷲ جل شانہٗ بھی اس کو پسند نہیں فرماتے۔ (الرحیق المختوم)     حضرت عائشہ t سے سوال کیا گیا کہ رسول اﷲ a گھر میں کیا کرتے تھے ؟ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا: ’’رسول اﷲ a بھی انسانوں میں ایک انسان تھے، اپنے کپڑے میں خود جوں تلاش کر لیتے ( کہ کسی کے کپڑوں سے نہ آگئی ہو ) بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے، اپنا کپڑا سِی لیتے، اپنا کام خود کرتے، اپنا جوتا گانٹھ لیتے اور وہ تمام کام سر انجام دیتے جو مرد اپنے گھروں میں انجام دیتے ہیں او رگھر  والوں کی خدمت کرتے، جب مؤذن کی آواز سنتے تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔‘‘ ( سنن الترمذی)     یہ نبی اکرم a کے اخلاق حسنہ کی ایک ادنیٰ سی جھلک ہے، آپ a کی ایک ایک ادا سے تواضع، عاجزی اور عبدیت کا ظہور ہوتا ہے۔ آپ a کی یہ مبارک ادائیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہوئی ساڑھے تیرہ سو سال کے بعددیوبند کے فرزندوں میں پوری طرح روشن چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح دمکتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ سنت نبویہ l کا پورے کا پورا نمونہ ان قدسی صفات سے منور نفوس میں پوری طرح نظر آتا ہے۔ آپ a کے اخلاقِ کریمانہ کی ہر خصلت کو ان حضرات نے سینے سے لگایا اور ثابت کر دکھایا کہ عاشق رسول کون ہے اور گستاخ رسول کون ہے۔     سرکار دو عالم a کے اصحاب s کے بعد علمائے حق میں سورج کی طرح چمکتا ہوانام علمائے دیو بند کا ہے۔دیوبند کے پروانوں میں سے جس پر بھی انگلی رکھ دی جائے، وہی بے مثال نظر آتا ہے۔ جب حضرت علامہ محمد انور شاہ صاحب کشمیریvکی وفات ہوئی تو لاہور میں ان کی یاد میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں خطاب کرتے ہوئے شاعر مشرق نے کیا خوب کہا: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا     پھر کہا کہ اسلام کی آخری پانچ سو سالہ تاریخ علامہ انور شاہ کشمیری vکی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، ایسا بلندپایہ عالم او رفاضل جلیل اب پیدا نہ ہو گا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شاعر مشرق کی اس بات کا مصداق صرف حضرت کشمیریؒ ہی نہ تھے، بلکہ حضرت کے اساتذہ، تلامذہ، ہم عصر سب ہی دُریکتا تھے۔     ذیل میں گلستانِ دیوبند کے چند پھولوں کی تھوڑی تھوڑی خوشبو بطور نمونہ پیش کی جائے گی، ضرورت ہے کہ ان حضرات کی سوانح کا مستقل مطالعہ کرتے ہوئے اپنے لیے راہِ عمل کو منتخب کیا جائے کہ ان نفوسِ قدسیہ کی قوتِ عمل سامنے ہونے کے بعد ہمارے لیے راہِ عمل سے فرار ممکن نہیں رہ جاتا۔ حضرت مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی v     حضرت اقدس، مولانا محمدیعقوب نانوتوی vکے والد ماجد اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی وحضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی w کے استاذ تھے، بڑے ہی منکسر مزاج، صاحب مروت، خوش اخلاق، متقی، عبادت گزار اور سادہ طبیعت انسان تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نفسانیت ان کے قریب بھی نہیں پھٹکی۔ ان کا ایک واقعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی v نے ’’قصص الاکابر‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ مولانا مملوک علی vہمیشہ دہلی آتے اورجاتے، جب کاندھلہ سے گزرتے تو باہر سڑک پر گاڑی چھوڑ کر ملنے آتے، مولانا مظفر حسین صاحب vاول یہ پوچھتے کہ کھانا کھا چکے یا کھاؤ گے؟ اگر کہتے ’’کھا چکا‘‘ تو پھر کچھ نہیں او راگر نہ کھائے ہوئے ہوتے تو کہہ دیتے کہ میں کھاؤں گا۔ تو مولانا پوچھتے کہ رکھا ہوا لا دوں یاتازہ پکوا دوں؟ چناں چہ ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ رکھا ہوا لادو، اس وقت صرف کھچڑی کی کھرچن تھی، اسی کو لے آئے اور فرمایا کہ رکھی ہوئی تو یہی تھی، انہوں نے کہا بس! یہی کافی ہے۔  پھر جب رخصت ہوتے تو مولانا مظفر حسین صاحب vان کو گاڑی تک پہنچانے جاتے تھے، یہی ہمیشہ کا معمول تھا۔‘‘ ( سیرت یعقوب ومملوک، ص:۳۴،۳۵)      سبحان اﷲ! سادگی، بے تکلفی، حسن معاشرت کی کیسی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ مولانا مظفر حسین کاندھلوی vکا خلوص اور بغیر کسی تصنع کے کھرچن کا پیش کرنا او رمولانا مملوک علی صاحب v کا اُسے بغیر کسی ناگواری کے بے حد خندہ پیشانی سے قبول کرنا، کتنی بہترین زندگی کی طرف راہ دکھاتا ہے، جس میں سکون ہی سکون ہے۔ حضرت مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی v     آپ حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب v کے شاگرد اورحضرت شاہ عبدالغنی صاحب محدث دہلوی v کے ہم سبق تھے۔’’آپ ایک مرتبہ تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں ایک بوڑھا ملا، جو بوجھ لیے جارہا تھا، بوجھ زیادہ تھا او روہ بمشکل چل رہا تھا، حضرت مولانا مظفر حسین صاحب vنے یہ حال دیکھا تو اس سے وہ بوجھ لے لیا اور جہاں وہ لے جانا چاہتا تھا، وہاں پہنچا دیا، اس بوڑھے نے ان سے پوچھا، اَجی ! تم کہاں رہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ بھائی میں کاندھلہ میں رہتا ہوں۔ اس نے کہا ’’ وہاں مولوی مظفر حسین بڑے ولی ہیں‘‘ اور یہ کہہ کر ان کی بڑی تعریفیں کیں، مگر مولانا نے فرمایا’’ اور تو اس میں کوئی بات نہیں ہے، ہاں! نماز تو پڑھ لیتا ہے ‘‘ اس نے کہا: واہ میاں ! تم ایسے بزرگ کو ایسا کہو؟ مولانا نے فرمایا: میں ٹھیک کہتا ہوں، وہ بوڑھا ان کے سر ہو گیا، اتنے میں ایک اور شخص آیا، جو مولانا کو جانتا تھا، اس نے بوڑھے سے کہا: بھلے مانس ! مولوی مظفر حسین یہی ہیں، اس پر وہ بوڑھا مولانا سے لپٹ کر رونے لگا۔‘‘ (اکابر دیوبند کیا تھے؟ :۱۰۰۔ ارواح ثلاثہ:۱۴۸) حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی v     آپ بہت خوش مزاج او رعمدہ اخلاق تھے، مزاج تنہائی پسند تھا، اکثر خاموش رہتے، اس لیے ہر کسی کو کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا، تعظیم سے نہایت گھبراتے تھے، بے تکلف ہر کسی کے ساتھ رہتے، اپنے کو مولوی کہلانے سے خوش نہیں ہوتے تھے، کوئی نام لے کر پکارتا تو خوش ہوتے۔(بیس بڑے مسلمان:۱۱۷)      ایک بار حضرت نانوتوی vجارہے تھے، ایک جولا ہے نے بوجہ سادگی کے اپنا ہم قوم سمجھ کر آپ سے پوچھا:’’ صوفی جی! آج کل سوت کا کیا بھاؤ ہے؟‘‘ حضرت نے ذرا بھی ناگواری کا اظہار کیے بغیر فرمایاکہ ’’بھائی! آج بازار جانا نہیں ہوا، اس لیے معلوم نہیں کہ کیا بھاؤ ہے۔‘‘ (اصلاحی مضامین:۵۲)     مولوی امیر الدین صاحب vنے فرمایا کہ ایک مرتبہ بھوپال سے مولانا کی طلبی آئی اور پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر کی۔ میں نے کہا ’’ اے قاسم! تو کیوں نہیں جاتا؟‘‘ تو فرمایا کہ ’’ وہ مجھے صاحب کمال سمجھ کر بلاتے ہیں او راسی بنا پر وہ پانچ سو روپے دیتے ہیں، مگر اپنے اندر میں کوئی کمال نہیں پاتا، پھر کس بنا پر جاؤں؟‘‘ میں نے بہت اصرار کیا، مگر نہیں مانے۔ ( اصلاحی مضامین:۱۵۹) حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی v     حضرت کا ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب نے آپ کو کھانے کی دعوت دی، آپ نے قبول فرمالی، اس شخص کا گاؤں فاصلے پر تھا، لیکن اس نے سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا، جب کھانے کا وقت آیا تو آپ پیدل ہی روانہ ہو گئے، دل میں یہ خیال بھی نہیں آیا کہ ان صاحب نے سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا، سواری کا انتظام کرنا چاہیے تھا، بہرحال اس کے گھر پہنچے، کھانا کھایا، کچھ آم بھی کھائے، اس کے بعد جب واپس چلنے لگے تو اس وقت بھی اس نے سواری کا کوئی انتظام نہیں کیا، بلکہ الٹا یہ غضب کیا کہ بہت سارے آموں کی گٹھڑی بنا کر حضرت کے حوالے کر دی کہ حضرت! یہ کچھ آ م گھر کے لیے لیتے جائیں۔ اس اﷲ کے بندے نے یہ نہ سوچا کہ اتنی دور جانا ہے اور سواری کا کوئی انتظام بھی نہیں ہے، کیسے اتنی بڑی گٹھڑی لے کر جائیں گے؟ مگر اس نے وہ گٹھڑی مولانا کو دے دی اور مولانا نے وہ قبول کر لی اور اٹھا کر چل دیے۔ اب ساری عمر مولانا نے کبھی اتنا بوجھ اٹھایا نہیں، شہزادوں جیسی زندگی گزاری، اب اس گٹھڑی کو کبھی ایک ہاتھ میں اٹھاتے، کبھی دوسرے ہاتھ میں اٹھاتے چلے جارہے ہیں، یہاں تک کہ جب دیوبند قریب آنے لگا تو دونوں ہاتھ تھک کر چور ہو گئے، نہ اس ہاتھ میں چین، نہ اس ہاتھ میں چین، آخر کار اس گٹھڑی کو اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیا، جب سر پرر کھا تو ہاتھوں کو کچھ آرام ملا تو فرمانے لگے: ہم بھی عجیب آدمی ہیں، پہلے خیال نہیں آیا کہ اس گٹھڑی کو سر پر رکھ دیں، ورنہ اتنی تکلیف نہ اُٹھانی پڑتی۔ او راب مولانا اس حالت میں دیوبند میں داخل ہو رہے ہیں کہ سر پر آموں کی گٹھڑی ہے، اب راستے میں جو لوگ ملتے، وہ آپ کو سلام کر رہے ہیں، آپ سے مصافحہ کر رہے ہیں، آپ نے ایک ہاتھ سے گٹھڑی سنبھال لی اور دوسرے ہاتھ سے مصافحہ کرتے رہے، اسی حالت میں آپ اپنے گھر پہنچ گئے اور آپ کو ذرا برابر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ کام میرے مرتبے کے خلاف ہے اور میرے مرتبے سے فروتر ہے۔ بہرحال! انسان کسی بھی کام کو اپنے مرتبے سے فروتر نہ سمجھے، یہ ہے تواضع کی علامت۔         (اصلاحی خطبات،ج:۳،ص:۴۳) حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی v     حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی v نے ارشاد فرمایا کہ: ایک مرتبہ حضرت حاجی صاحب v کے پاس ایک شخص آئے اور عرض کیا: ایسا وظیفہ بتلا دیجیے کہ خواب میں حضور a کی زیارت نصیب ہو جائے۔ حضرت نے فرمایا کہ: آپ کا بڑا حوصلہ ہے! ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ روضہ مبارک کے گنبد شریف ہی کی زیارت نصیب ہو جائے۔     اﷲ اکبر! کس قدر شکستگی وتواضع کا غلبہ تھا، اس پر حضرت والا (تھانوی  صاحب v) نے فرمایا کہ: یہ سن کر ہماری آنکھیں کھل گئیں۔ حضرت کی عجیب شان تھی، اس فن کے امام تھے، ہر بات میں شانِ محققیت وحکمت ٹپکتی تھی، یہی وجہ ہے کہ حضرت کے خادموں میں سے کوئی محروم نہیں رہا، ہر شخص کی اصلاح وتربیت اس کی حالت کے مطابق فرماتے تھے۔     (ملفوظات حکیم الامت،ج:۱،ص:۹۲)     ایک سلسلۂ گفتگو میں ( حضرت تھانوی v) نے فرمایا کہ مولانا محمد حسین صاحب الہ آبادی vسے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ نے حاجی صاحب v میں کیا دیکھا کہ جس کی وجہ سے خادمانہ تعلق رکھ لیا؟ فرمایا اسی وجہ سے تو تعلق قائم کیا کہ وہاں کچھ نہیں دیکھا۔ مطلب یہ تھا کہ کوئی تصنع کی بات نہیں دیکھی تھی، خوب ہی جواب دیا، واقعی بات تو یہ ہے کہ اپنے بزرگوں میں ایسی باتوں کا نام ونشان نہ تھا، بہت سادہ وضع اور متبع سنت تھے، دوسروں کی کسی قسم کا ڈھونگ نہ تھا، پس یہی طرز قابل پسند ہے۔                                               ( ملفوظات حکیم الامت،ج:۲،ص:۳۳۶) امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی v     شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب v فرماتے ہیں:’’حضرت گنگوہی نورا ﷲ مرقدہٗ کے متعلق مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں کہ: سچی تواضع او رانکسارِ نفس جتنا امام ربانی میں دیکھا گیا، دوسری جگہ کم نظر سے گزرے گا، حقیقت میں آپ اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھتے تھے، بحیثیت تبلیغ جو خدماتِ عالیہ آپ کے سپرد کی گئیں تھیں، یعنی ہدایت وراہ بری، اس کو آپ انجام دیتے، بیعت فرماتے، ذکر وشغل بتلاتے، نفس کے مفاسد وقبائح بیان فرماتے او رمعالجہ فرماتے تھے،مگر بایں ہمہ اس کا کبھی وسوسہ بھی آپ کے قلب پر نہ گزرتا تھا کہ میں عالم ہوں او ریہ جاہل، میں پیر ہوں اور یہ مرید، میں مطلوب ہوں اور یہ طالب، مجھے ان پر فوقیت ہے، میرا درجہ ان کے اوپر ہے، کبھی کسی نے نہ سنا ہو گا کہ آپ نے اپنے خدام کو خادم یا مستوسل یا منتسب کے نام سے یاد فرمایا ہو، ہمیشہ اپنے لوگوں سے تعبیر فرماتے اور دعا میں یاد رکھنے کی اپنے لیے طالبین سے بھی زیادہ ظاہر فرماتے تھے، ایک مرتبہ تین شخص بیعت کے لیے حاضر آستانہ ہوئے، آپؒ نے ان کو بیعت فرمایا اور یوں ارشاد فرمایا کہ :’’ تم میرے لیے دعا کرو، میں تمہارے لیے دعا کروں گا، اس لیے کہ بعض مرید بھی پیر کو تیرا لیتے ہیں۔‘‘۔                 ( آپ بیتی:،ج:۲،ص:۲۴۱، بحوالہ تذکرہ الرشید،ج:۲،ص:۱۷۴)      بریلی کے مولوی احمد رضا خان نے اکابر دیوبند کی تکفیر اور ان پرسب وشتم کا جو طریقہ اختیار کیا تھا، وہ ہر پڑھے لکھے انسان کو معلوم ہے، ان فرشتہ صفت اکابر پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی، لیکن حضرت گنگوہی v نے جو اس دشنام طرازی کا سب سے بڑا نشانہ تھے، ایک روز اپنے شاگرد رشید حضرت مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی صاحب vسے فرمایا: ’’اَجی! دور کی گالیوں کا کیا ہے ؟ پڑی ( یعنی بلا سے ) گالیاں ہوں، تم سناؤ، آخر اس کے دلائل تو دیکھیں، شاید کوئی معقول بات ہی لکھی ہو تو ہم ہی رجوع کریں۔‘‘              (ارواح ثلاثہ،ص:۲۱۱)     اﷲ اکبر! حق پرستوں کا شیوہ کہ مخالفین، بلکہ دشمنوں کی باتیں بھی ان کی دشنام طرازیوں سے قطع نظر، اس نیت سے سنی جائیں کہ اگر اس سے اپنی کوئی غلطی معلوم ہو تو اس سے رجوع کر لیا جائے۔                                                              ( اکابر دیوبند کیا تھے؟،ص:۱۱۴) شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی v     مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب v لکھتے ہیں:’’میری عمر پندرہ سولہ سال کی ہو گی کہ دارالعلوم کی قدیم عمارت نودرہ کے عقب میں ایک عظیم الشان دارالحدیث تعمیر کرنے کی تجویز ہوئی، اس کے لیے بڑی گہری بنیادیں نودرہ کی عمارت سے متصل کھودی گئیں، اتفاقِ وقت سے بڑی تیز بارش ہوئی او رکافی دیر تک رہی، یہ زمین کچھ نشیب میں تھی، بارش کے پانی سے ساری بنیادیں لبریز ہو گئیں، دارالعلوم کی قدیم عمارت کو خطرہ لاحق ہو گیا، فائربریگیڈئیر انجنوں کا زمانہ نہیں تھا اور ہوتا بھی تو ایک قصبہ میں کہاں؟     حضرت شیخ الہند v کو اس صورت حال کی اطلاع ملی تو اپنے گھر میں جتنی بالٹیاں اور ایسے برتن تھے جن سے پانی نکالا جاسکے، سب جمع کرکے حضرت کے مکان پر جو طالب علم اور دوسرے مریدین جمع رہتے تھے، ان کو ساتھ لے کر ان پانی سے بھری گہری بنیادوں پر پہنچے اور بدست خود بالٹی سے پانی نکال کر باہر پھینکنا شروع کیا، شیخ الہند v کے اس معاملہ کی خبر پورے دارالعلوم میں بجلی کی طرح پھیل گئی، پھر کیا پوچھنا، ہر مدرس اور ہر طالب علم اور ہر آنے جانے والا اپنے اپنے برتن لے کر اس جگہ پہنچ گیا اور بنیادوں کا پانی نکالنا شروع کیا، احقر بھی اپنی قوت وحیثیت کے مطابق اس میں شریک تھا،  میں نے دیکھا کہ چند گھنٹوں میں یہ سارا پانی بنیادوں سے نکل کر کیچڑ رہ گیا تو اس کو بھی بالٹیوں سے صاف کیا گیا۔ اس کے بعد ایک قریبی تالاب پر تشریف لے گئے اور طلبہ سے کہا کہ اس میں غسل کریں گے۔ حضرت v اول عمر سے سپاہیانہ زندگی رکھتے تھے، پانی میں تیراکی کی بڑی مشق تھی، حضرت کے ساتھ طلبہ بھی جو تیرنا جانتے تھے،وہ درمیان میں پہنچ گئے، مجھ جیسے آدمی جو تیرنے والے نہ تھے، کنارے پر کھڑے ہو کر نہانے لگے۔ یہ واقعہ تو خود احقر نے دیکھا او ر سیرو شکار میں طلبہ کے ساتھ بے تکلف دوڑنا بھاگنا، تالابوں میں تیرنا یہ عام معمولِ زندگی تھا، جس کے بہت سے واقعات دوستوں اور بزرگوں سے سنے ہیں۔ دیکھنے والے یہ نہ پہچان سکتے تھے کہ ان میں کون استاد اور کون شاگرد؟ ‘‘                                    ( چند عظیم شخصیات،ص:۱۱) مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن v     حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی صاحب v تحریر فرماتے ہیں:’’حضرت مفتی صاحبv  منصب اور عہدہ کے لحاظ سے دارالعلوم دیوبند کے مفتی اکبر ( بعد کی اصطلاح میں صدر مفتی) تھے، تفسیر یا حدیث کا کوئی سبق بھی پڑھا دیتے تھے، اس کے ساتھ وہ نقش بندی مجددی طریقہ کے صاحب ارشاد شیخ بھی تھے۔ حضرت شاہ عبدالغنی مجددی v کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ رفیع الدین دیوبندیv کی راہ نمائی اور تربیت میں راہِ سلوک طے کی تھی اوران ہی کے مجاز تھے۔ وہ دارالعلوم کے اس وقت کے اکابر واساتذہ میں سب سے بڑے، بلکہ سب کے بڑے تھے اور سب ہی ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ حضرت مفتی صاحبv میں جو کمال بہت ہی نمایاں تھا، جس کو ہم جیسے صرف ظاہری آنکھیں رکھنے والے بھی دیکھتے تھے، وہ ان کی انتہائی بے نفسی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ اﷲ کے اس بندہ کے اندر وہ چیز ہے ہی نہیں جس کا نام نفس ہے، یہ بات عام طور پر مشہور تھی کہ گھروں کے جو کام نوکروں اور نوکرانیوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، حضرت مفتی صاحب v عند الضرورت وہ سب کام ( جیسے گھر میں جھاڑو دینا، برتنوں کا دھونا، مانجھنا وغیرہ) یہ سب بے تکلف، بلکہ بشاشت اور خوشی کے ساتھ کر لیتے ہیں۔ آس پاس کے غریب گھرانوں کے پیسے پیسے، دو دو پیسے کا سودا بھی خرید کے بازار سے لادیتے ہیں،  دوسروں کے پھٹے جوتے لے جاکر ان کی مرمت کرالیتے ہیں۔ راقم سطور شہادت دے سکتا ہے کہ بے نفسی کا ایسا کوئی دوسرا نمونہ اس عاجز نے نہیں دیکھا۔‘‘                                              ( تحدیث نعمت،ص:۱۲۷) امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیریv     حضرت مولانا محمد یوسف بنوریv فرماتے ہیں کہ طلاق کے ایک مسئلہ میں کشمیر کے علما میں اختلاف ہو گیا، فریقین نے حضرت شاہ صاحبv کو حَکَم بنایا، حضرت شاہ صاحب vنے دونوں کے دلائل غور سے سنے، ان میں سے ایک فریق اپنے موقف پر ’’فتاویٰ عمادیۃ‘‘ کی ایک عبارت سے استدلال کر رہا تھا، حضرت شاہ صاحب vنے فرمایا:’’ میں نے دارالعلوم کے کتب خانہ میں فتاویٰ عمادیہ کے ایک صحیح قلمی نسخے کا مطالعہ کیا ہے، اس میں یہ عبارت ہر گز نہیں ہے، لہٰذا یا تو ان کا نسخہ غلط ہے، یا یہ لوگ کوئی مغالطہ انگیزی کر رہے ہیں۔‘‘     ایسے علم وفضل اور ایسے حافظے کا شخص اگر بلند بانگ دعوے کرنے لگے تو کسی درجہ میں اس کو حق پہنچ سکتا ہے، لیکن حضرت شاہ صاحب v اس قافلۂ رشدوہدایت کے فرد تھے جس نے’’من تواضع للّٰہ‘‘ کی حدیث کا عملی پیکر بن کر دکھایا تھا، چنا ںچہ اسی واقعہ میں جب انہوں نے حضرت بنوری v کو اپنا فیصلہ لکھنے کا حکم دیا تو انہوں نے حضرت شاہ صاحب الحبر البحر(عالم متبحر) کے دو تعظیمی لفظ لکھ دیے، حضرت شاہ صاحبv نے دیکھا تو قلم ہاتھ سے لے کر زبردستی خود یہ الفاظ مٹائے اور غصہ کے لہجے میں مولانا بنوریv سے فرمایا:’’آپ کو صرف مولانا محمد انور شاہ لکھنے کی اجازت ہے۔‘‘     پھر ایسا شخص جو ہمہ وقت کتابوں ہی میں مستغرق رہتا ہو، اس کا یہ جملہ ادب وتعظیم کتب کے کس مقام کی نشان دہی کرتا ہے کہ:’’ میں مطالعہ میں کتاب کو اپنا تابع کبھی نہیں کرتا، بلکہ ہمیشہ خود کتاب کے تابع ہو کر مطالعہ کرتاہوں‘‘۔     چناں چہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب v فرماتے ہیں کہ:’’ سفر وحضر میں ہم لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ لیٹ کر مطالعہ کر رہے ہوں یا کتاب پر کہنی ٹیک کر مطالعہ میں مشغول ہوں، بلکہ کتاب کو سامنے رکھ کر مؤدب انداز سے بیٹھتے، گویا کسی شیخ کے آگے بیٹھے ہوئے استفادہ کر رہے ہوں۔‘‘     اور یہ بھی فرمایا کہ:’’ میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد اب تک دینیات کی کسی کتاب کا مطالعہ بے وضونہیں کیا۔‘‘                                              ( اکابر دیوبند کیا تھے؟،ص:۹۷) حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی v     مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب v  فرماتے ہیں کہ : ’’حقیقت یہ ہے کہ علمائے دیوبند کا جو خاص امتیاز ہے، وہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو مٹانا، اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا، جب میں تھانہ بھون میں حاضر ہوا، حضرت v کو اﷲتعالیٰ نے ایک شانِ جلال او رایک رعب اور وجاہت عطا فرمائی تھی، چہرہ مبارک بڑا وجیہ تھا، اگر وہ اپنی وجاہت کو چھپانا بھی چاہیں تو نہیں چھپا سکتے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود طالب علموں اور دوسرے لوگوں میں ملے جلے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے مغرب کے بعد آپ کو دیکھا کہ ایک صاحب کرتا اُتار ے ہوئے، صرف پائجامہ پہنے ہوئے، حوض کے پاس چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں، میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا او رمجھے پتہ بھی نہیں کہ یہ حضرت والا لیٹے ہوئے ہیں او رپاس میں طلبہ بھی تھے، بعد میں پتہ چلا کہ حضرت والا لیٹے ہوئے ہیں۔     اس طرح ان حضرات کی خاص شان تھی، یہ چیز دنیا میں شاذونادر ہی ملتی ہے، یہ خصوصی وصف اﷲتعالیٰ نے ان بزرگوں کو دیا تھا، افسوس! اب ہمارے پاس بزرگوں کی صحبت حاصل نہیں رہی، صرف مدارس اورکتابیں رہ گئی ہیں، اﷲ تعالیٰ ہمارے اندر بھی یہ وصف پیدا فرما دے، آمین۔‘‘      (مجالس مفتی اعظم،ص:۵۲۶)     حضرت تھانوی v کے معمولات میں یہ بات لکھی ہے کہ آپؒ نے یہ عام اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی شخص میرے پیچھے نہ چلے، میرے ساتھ نہ چلے، جب میں تنہا کہیں جار ہاہوں تو مجھے تنہا جانے دیا کرو۔ حضرت فرماتے کہ یہ مقتدا کی شان بنانا کہ جب آدمی چلے تو دو آدمی اس کے دائیں طرف اور دو آدمی اس کے بائیں طرف چلیں، میں اس کو بالکل پسند نہیں کرتا، جس طرح ایک عام انسان چلتا ہے، اسی طرح چلنا چاہیے۔     ایک مرتبہ یہ اعلان فرمایا کہ اگر میں اپنے ہاتھ میں کوئی سامان اٹھا کر جارہا ہوں تو کوئی شخص آکر میرے ہاتھ سے سامان نہ لے، مجھے اسی طرح جانے دے، تاکہ آدمی کی کوئی امتیازی شان نہ ہو اور جس طرح ایک عام آدمی رہتا ہے، اس طریقے سے رہے۔         ( اصلاحی خطبات،ج:۵،ص:۳۲) شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی v     مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریv سے روایت ہے کہ یوپی کی ایک جگہ میری تقریر تھی، رات کو تین بجے تقریر سے فارغ ہو کر لیٹ گیا، نیند اور بیداری کے درمیان تھاکہ مجھ کو محسوس ہوا کہ کوئی میرے پاؤں دبا رہا ہے، میں نے کہا کہ لوگ اس طرح دباتے رہتے ہیں، کوئی مخلص ہو گا۔ مگر اس کے ساتھ یہ معلوم ہورہا تھا کہ یہ مُٹھی تو عجیب قسم کی ہے، باوجود راحت کے نیند رخصت ہوتی جارہی تھی، سر اٹھایا تو دیکھا کہ حضرت مدنی ہیں! فوراً پھڑک کر چار پائی سے اتر پڑا اور ندامت سے عرض کیا، حضرت! کیاہم نے اپنے لیے جہنم جانے کا خود سامان پہلے سے کم کر رکھا ہے کہ آپ بھی ہم کو دھکا دے کر جہنم بھیج رہے ہیں ؟! شیخ نے جواب دیا کہ آپ نے دیر تک تقریر کی تھی، آرام کی ضرورت تھی اور آپ کی عادت بھی تھی اور مجھ کو سعادت کی ضرورت۔ ساتھ ہی نماز کا وقت بھی قریب تھا، میں نے خیال کیا کہ آپ کی نماز ہی نہ چلی جائے، تو بتائیے! حضرت! میں نے کیا غلط کیا ہے؟۔          ( بیس بڑے مسلمان،ص:۵۱۵)     مولانا عبداﷲ فاروقی حضرت رائے پوری v سے بیعت تھے،  لاہور دہلی مسلم ہوٹل میں برسہا برس خطیب رہے، ان کا بیان ہے کہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا اور مولانا مدنی v کے ہاں قیام کیا، ایک روز جب مولانا کے ساتھ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے گیا تو میں نے مولانا کا جوتا اٹھالیا، مولانا اس وقت تو خاموش رہے، دوسرے وقت جب ہم نماز پڑھنے کے لیے گئے، تو مولانا نے میرا جوتا اٹھاکر سر پر رکھ لیا، میں پیچھے بھاگا، مولانا نے تیز چلنا شروع کر دیا، میں نے کوشش کی کہ جوتالے لوں، نہیں لینے دیا، میں نے کہا کہ خدا کے لیے سر پر تونہ رکھیے، فرمایا! عہد کرو کہ آئندہ حسین احمد کا جوتا نہ اٹھاؤ گے۔ میں نے عہد کر لیا، تب جوتا سر سے نیچے اتار کر رکھا۔            ( بیس بڑے مسلمان،ص:۵۱۶)     یہ چند شخصیات کا ادنیٰ سا او رمختصر سا نمونہ پیش کیا گیا ہے، ورنہ اکابر علماء دیوبند کا چمنستان ایسا وسیع، خوشبو دار اور پھل دار ہے کہ پوری دنیا اس سے فیض حاصل کر رہی ہے اور کرتی رہے گی، یہ حضرات نبی اکرم a کے علوم واعمال کو اپنے سینوں میں اتارنے والے، شب وروز میں انجام پانے والے، ہر ہر عمل سے متعلق سنت نبویہ l کو اپنانے والے اور ہر ہر فرد تک اُسے پہنچانے والے تھے۔ اس گلستان کے ہر ہر پھول کی تاریخ پر کتب تک لکھی جاسکتی ہیں اور لکھی گئیں، ضرورت ہے کہ ان حضرات کی سوانح کو مستقل مطالعہ میں رکھ کر ان کی صفاتِ قدسیہ کو اپنایا جائے۔     اﷲ رب العزت ہم سب کو ان اکابرین کی صفات کو اپنانے کی اور ان کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین