بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علماء بنوری ٹاؤن اور فروغ علم

علماء بنوری ٹاؤن اور فروغِ علم!

الحمد للّٰہ حمدًا متوالیًا والصّلٰوۃُ والسّلامُ علٰی سیدِ الرُّسل والأنبیاء وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ الأتقیاء وعلٰی علماء أمتہٖ البررۃِ النبلاء ۔ أمابعد! فأعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم: ’’إِنَّمَا یَخْشٰی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَائُ۔‘‘ (۱) وقال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ العلماء ورثۃُ الأنبیائ۔‘‘ (۲) قرآن کریم، فرقانِ حمید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے انسان کو دو بنیادی مقاصد کی تکمیل و برآری کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ ایک مقصد کو عمومی عنوان کے تحت ’’وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إلَّا لِیَعْبُدُوْنَ‘‘ (۳) کہہ کر بیان فرمایا، یعنی انسان و جن کا مقصد ِتخلیق‘ خالق کی بندگی بجا لانا ہے۔ دوسرا مقصد خصوصی عنوان کے تحت ’’وَ إِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً‘‘ (۴)   کہہ کر بیان فرمایا۔ ان دونوں آیتوں کا مفہوم یکجا کرنے سے تخلیق انسانی کا مقصد یہ عیاں ہوتا ہے کہ خالق کائنات کی بندگی اس کی ہدایات کی روشنی میں، اس کے منشأ کے مطابق بجالانا، تخلیق انسانی کا مقصد ہے۔ اب خالق کا منشأ عام مخلوق کو کیسے معلوم ہو، اس کے لیے حق تعالیٰ شانہٗ نے بیچ کا ایک ایسا واسطہ متعین فرمایا ہے جواعلیٰ صلاحیتوں کا حامل ہوکر خالق سے ہدایات لے اور بشری اوصاف سے باوصف ہونے کی بنا پر اپنی قوم کو اس کی زبان، محاورے اور تعبیروں کے ذریعہ سمجھائے۔ یہ واسطہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کا ہے: ’’ وَمَاأَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رَّسُوْلٍ إلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ‘‘  (۵) یہ سلسلۂ نبوت پہلے انسان حضرت آدم m سے شروع ہوکر خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیa پر ختم ہوا اور آپ a خالق کائنات کا آخری پیغام انسانیت تک پہنچا کر دنیا سے پردہ فرماگئے۔ اور اس پیغام کو آگے بڑھانے اور پہنچانے کی ذمہ داری اپنی امت کے چیدہ چنیدہ اور برگزیدہ ہستیوں کے سپرد فرماگئے، ان ہستیوں کو علمائے امت کہا جاتا ہے جو تبلیغ دین، تحفظِ دین اور تفہیم دین میں اپنی قوموں اور اپنے خطوں کے لیے اب وہی حیثیت رکھتے ہیں جو اپنے زمانے میں انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی حیثیت تھی، اسی وراثت ِمنصبی اور نیابت ِنبوی کونبی اکرم a نے ’’العلماء ورثۃ الأنبیائ‘‘ کہہ کر باور کرایا ہے۔ چنانچہ ان علماء امت نے ہر دور میں اپنا فرضِ منصبی بحسن وخوبی انجام دیا ہے۔ ہم تقریب وتفہیم کے لیے ماضی قریب کے دریچوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں متحدہ ہندوستان کی علمی تاریخ میں تبلیغ دین، تفہیم قرآن، تشریح اسلام، بیانِ حدیث، احیاء ملت اور تجدید ِ دین کے روایتی و موروثی منصب پر فائز خانوادۂ ولی اللّٰہی نظر آتا ہے، جنہوں نے بارہویں صدی ہجری میں برصغیر میں عمارتِ اسلام کو سنبھالا دیا، اور مسلمانوں کے سیاسی زوال کے آغاز پر حق تعالیٰ شانہٗ نے ہندوستان پر شاہ ولی اللہ قطب الدین احمد دہلوی بن شاہ عبدالرحیم دہلویv (۶) کے وجودِ مسعود کو علمی دنیا کا بادشاہ بناکر اہل ہند پر اپنا خاص کرم فرمایا، چنانچہ شاہ نے جہاں وطنی وحدت، ملی استحکام اور امت کی شیرازہ بندی کے لیے سیاسی و عملی کاوشیں اٹھائیں وہیں پر تعلم و تعلیم کا ایسا نظام متعارف کروایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ ہندوستان میں علوم دینیہ کی نشأۃ واحیاء کروائی۔(۷) چنانچہ آپ نے مدرسہ رحیمیہ (۸) کے ذریعہ ایک ایسا درسگاہی نظام متعارف کروایا جو اپنے نصابِ تعلیم کے اعتبارسے ہندوستان میں منفرد نظام تعلیم کے مقام تک رسائی پاگیا۔ آپ کے نصاب تعلیم میں علوم آلیہ یعنی لغوی اور معقولی فنون کے علاوہ علوم عالیہ یعنی قرآن وسنت کی باقاعدہ درس وتدریس اور ترجمہ و تشریح شامل کی جس سے ملت ِاسلامیہ ہند کو علماء راسخین میسر آئے، جنہوں نے انگریزی تسلط اور قبضہ کے دوران مکاتب قرآنیہ اور مدارس دینیہ جیسے مشاغل کے ذریعہ تحفظِ دین اور تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیا۔چنانچہ اسی سلسلہ کی عمدہ لازوال بے مثال اور منفردی کڑی دارالعلوم دیوبند بھی ہے۔ دارالعلوم دیوبندنے ولی اللّٰہی فکر و عزم کے ساتھ دنیائے اسلام کو دین اسلام کی تعلیم و ترویج کا ایک منظم و مربوط نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم متعارف کروایا۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند نے پہلے ہزاروں لاکھوں تشنگانِ علوم دینیہ کو اپنے چشمۂ فیض سے فیض یاب کیا اور پھر اس چشمہ کا ہر فیض یافتہ ایک دریا بن کر دنیائے اسلام کو سیراب کرتا چلا گیا۔ اسی قسم کے ایک علمی دریا کو دنیا محدث العصر حضرت علامہ محمد یوسف بنوری v (م: ۱۳۹۷ھ/ ۱۹۷۷ئ) کے نام سے جانتی ہے، جنہوںنے ۱۹۵۴ء میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ بنوری ٹاؤن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جو اپنے علمی، دعوتی، فکری اور تعلیمی کردار کی بدولت اربابِ دارالعلوم دیوبند کے بقول پاکستان میں دیوبند ثانی کے رتبہ کا بجا حقدار ہے۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کی دینی، دعوتی، تعلیمی اور تصنیفی خدمات ایک وسیع و عریض میدان ہے، جس میں سے ایک ایک موضوع پر تخصص (P.H.D) ہوسکتی ہے اور ہونی چاہیے، جیسا کہ دنیاجانتی اور مانتی ہے۔ میرے پیش نظر صرف یہ ہے کہ جامعہ علوم اسلامیہ کو اللہ تعالیٰ نے دینی خدمات، اعتماد و استناد، شہرت و قبولیت، مرجعیت و مقبولیت کے اس بامِ عروج تک پہنچایا ہے، ظاہر ہے کہ ادارے افراد سے چلتے ہیں، کسی بھی ادارے کی کارکردگی کا حسن و خوبی یا فضل و کمال اس کے عالی ہمت رجال کار کے امتیازی اوصاف و کمالات کا آئینہ دار ہوتا ہے، اس لیے میں نے اپنی تحقیق و جستجو کی عنانِ توجہ جامعہ کے ایسے ہی اربابِ فضل و کمال کی شخصیات و تعارف کی طرف مبذول کرنا چاہی، تاکہ ان اصحابِ علم و فضل کا علمی و عملی امتیاز میرے لیے اور میرے جیسے دیگر طلبۂ علم کے لیے مشعل راہ بن سکے اور کسی حدتک امت ِمسلمہ کے ان محسنین کاحق و فرض بھی ادا ہوسکے۔ تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اپنی خدمات کی نصف صدی طے کرچکی ہے، اس دوران دسیوں نہیں، سینکڑوں اکابر و مشائخ اس جامعہ کی تعلیم و ترقی میں ساجھی بن کر اپنا اگلا جہاں سنوار چکے ہیں، ان میں سے ہر ایک کی خدمات لازوال، یادگار اور عظیم تذکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ نیز ان میں سے بعض تاحال اس گلشن علم کی زینت بنے ہوئے ہیں، جیسے: حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب مدظلہم جو جامعہ کے ابتدائی طلبہ اور اولین معماروں میں حضرت بنوری v کے معتمدِخاص اور معاون خصوصی رہے ہیں اور ابھی اس گلشن کے مالی و نگہبان کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح حضرت مولانا محمد انور بدخشانی صاحب I حضرت بنوریv  کے خاص شاگرد اور علم و فن کے چلتے پھرتے کتب خانہ کا درجہ رکھتے ہیں اور متعدد عربی و فارسی تصانیف کے حامل ہیں جن میں درسی کتب کی تسہیل، منطق وفلسفہ، علم حدیث و قرآن، ترجمہ و تفسیر قرآن شامل ہیں، نیز حا ل ہی میں آپ کے فارسی ترجمۂ قرآن کو سعودی حکومت نے ہزاروں کی تعداد میں شائع کرکے اہل فارس کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہے،  فجزاہم اللّٰہ جمیعًا۔ مگر میں اپنے اس تحقیقی مقالہ کا موضوع جامعہ کی صرف دس اہم شخصیات کو بناسکا ہوں جن کی علمی، تصنیفی یاذاتی حیثیت سے دنیائے علم کا تقریباً ہر طالب علم آشنا ہے، جن میں حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری v کا تعارف و تذکرہ بانی ِجامعہ کے طور پر شامل تحقیق کیا گیا ہے، جس میں حضرت بنوری v کا علمی مقام و مرتبہ ، آپ کی علمی و تصنیفی خدمات اور آپ کے دعوتی و تحریکی کارنامے مختصر انداز میں اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔(۹) حضرت بنوری v کے علمی کارناموں میں سب سے نمایاں کارنامہ آپ کی علمی یادگار اور صدقۂ جاریہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ہے۔ بنوری ٹاؤن کاتعلیمی نظم و نسق، تعلیمی و تدریسی شعبہ جات اور تحقیقی و تصنیفی اور اشاعتی و نشریاتی شعبوں کا اجمالی تعارف بھی میری تحقیق کا حصہ ہے۔ علاوہ ازیں جامعہ کی جن نامور ہستیوں کی علمی و عملی زندگی کو بطور خاص راقم نے موضوعِ سخن بنایاہے، ان میں سابق مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی ولی حسن ٹونکی v، علم حدیث و رجال کے امامِ زمانہ، عظیم محقق ومؤلف حضرت مولانا محمد عبدالرشید نعمانی v، حدیث و تفسیرکے عظیم استاذ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے بانی و مبانی رکن حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی v، تحقیق و تالیف کے یگانہ روزگار حضرت مولانا محمد اسحاق سندیلوی v، پیکراخلاص مجسم غیرت وحمیت وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحبv، صاحب ِفکر و نظر حضرت مولانا محمد طاسین صاحب v، صاحب علم و عمل شہید ِاسلام حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی شہیدv، تحقیق و تصنیف کے مردِ میدان، نظم وضبط کی عمدہ مثال حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید v اور آخر میں امتِ مسلمہ کے غم خوار، حدیث و فقہ کے جامع، عظیم محدث حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر نظام الدین شامزی شہید w کا تذکرہ شامل بحث کیا گیا ہے۔ ان اکابرِملت نے اپنی تعلیم و تدریس، تصنیف و تحقیق، دعوت و تبلیغ، اصلاح و ارشاد اور دین کے مختلف شعبوں میں اپنی نمایاں خدمات کے ذریعہ امت کی رہبری، معاشرے کی اصلاح کے لیے جو کاوشیں اٹھائی ہیں، ان کا تعارف و تذکرہ علماء بنوری ٹاؤن کی خدمات کی ایک نمایاں تصویر کے طور پر زیر ِتحقیق لایا گیا ہے۔ ان اساطینِ علم کی مشترکہ یادگار جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن زمانے کی نظرمیں کس علمی و امتیازی حیثیت پر فائز ہے اور اندرونِ ملک و بیرونِ ملک بالخصوص اسلامی و خلیجی ممالک میں اس ادارے کی علمی حیثیت کیا ہے؟ اپنے اس مقالے میں اس پہلو کو اجاگر کرنے کی سعی بھی کی گئی ہے۔ نیز اس وقت جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن دین اسلام کی تعلیم و تدریس کے علاوہ مختلف موضوعات پر تحقیق و تالیف، دین کی نشر و اشاعت، قرآن و سنت کی تبلیغ و ترویج، دینی امور میں اعتدال و توسط کی تاکید و تلقین، اصلاحِ معاشرہ کی کد و کاوش، اُخوت و بھائی چارہ کے فروغ، وطنی و ملی وحدت و یکجہتی اور مذہبی رواداری و ہم آہنگی جیسے عظیم مقاصد کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ جامعہ کا یہ فکری و عملی درس حاصل کرنے والے وارثانِ علوم نبوی اندرونِ ملک و بیرون ملک اسی نہج پر مصروف کار ہیں۔ الحمدللہ! ملک کا کوئی حصہ اور دنیا کا کوئی ملک بلکہ دنیا کا کوئی گوشہ شاید ہی ایسا ملے جہاں بلاواسطہ یا بالواسطہ جامعہ کا یہ فیض نہ پہنچا ہو، بلکہ بعض معاصر اہل علم جنہیں پاکستان کے مختلف شہروں اور دنیا کے مختلف ممالک میں دینی مناسبات سے جانے کا اتفاق ہوا وہ اپنے مشاہدات زبانی و تحریری طور پر بیان کرتے ہوئے معلوم ہوئے ہیں کہ ہمیں دنیا میں جہاں بھی جانے کا اتفاق ہوا، کسی بھی جگہ دین کے کسی شعبہ میں کسی کو نمایاں طور پر مصروف خدمت پایاتومعلوم کرنے پراس کاتعلق جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی سے معلوم ہوا۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے چشمۂ فیض سے سیراب ہوکر دنیا کو سیراب کرنے کا یہ کام اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں سے لیا اُسے جہاں حق تعالیٰ شانہٗ کاانتخاب کہاجائے گا وہاں بانیِ جامعہ حضرت بنوری v کااخلاص اوراکابربنوری ٹاؤن کی مخلصانہ کوششوں کا ثمر بھی کہا جائے گا۔ اسی فیض عام کے چشمۂ اخلاص سے روشناس کرانے کے لیے بندہ نے یہ کوشش کی کہ جامعہ کے سن تاسیس۱۹۵۴ء سے لے کر ۲۰۰۵ء تک چندنمایاں اہل علم کاتعارف پیش کیاجائے، تاکہ جامعہ کے فیض سے فیض یاب ہوکر میدانِ عمل میں اترنے والوں کواپنے مشائخ کی تعلیمی وعملی زندگی کے کچھ گوشے سامنے رکھنے میں مددمل سکے۔اللہ تعالیٰ اس کوشش کوبارآورفرمائے اورہم سب کاحامی وناصرہو۔ حواشی وحوالہ جات ۱:… الفاطر:۲۸۔ ۲:… صحیح البخاری،کتاب العلم،باب العلم قبل القول والعمل، ج:۱،ص:۱۶،ط: قدیمی۔ـسنن الترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ،ج:۲،ص:۹۷،ط:قدیمی۔ ۳:… البقرۃ:۳۰۔        ۴:… الذاریات:۵۶۔            ۵:… ابراھیم:۴۔ ۶:… شاہ ولی اللہ vکے والدگرامی شاہ عبدالرحیمv المتوفی:۱۱۳۱ھ نے خواجہ بختیارالدین کاکیv کو خواب میں دیکھا فرمارہے تھے کہ اللہ تمہیں فرزنددے گا، اس کانام میرے نام پررکھنا ۔ والدگرامی نے آپ کانام ولی اللہ رکھا،کچھ مدت بعدخواب جب ذہن میں آیاتو ان کا نام قطب الدین احمد تجویز کیا۔(امام شاہ ولی اللہ اوران کے افکارونظریات ،مولاناعطاء الرحمن قاسمی،ط:مکتبہ خلیل لاہور) ۷:… ملاحظہ ہو:تذکرہ حضرت شاہ ولی اللہؒ، مولانا مناظر احسن گیلانیؒ، ط: نفیس اکیڈمی۔ امام شاہ ولی اللہؒ اوران کے افکارو نظریات ، مولاناعطاء الرحمن قاسمی، ط:مکتبہ خلیل لاہور۔ علماء ہند کا شاندار ماضی، مولانا سید محمد میاںؒ، ط:رشیدیہ اردوبازار۔ ۸:…مدرسہ رحیمیہ کی بنیادشاہ صاحب v کے والدماجدشاہ عبدالرحیم v نے خودرکھی ،ان کے وصال کے بعدشاہ ولی اللہv نے اس مدرسہ کامنصب صدارتِ تدریس سنبھالا۔ یہ مدرسہ اسی مقام پرواقع ہے جہاں شاہ صاحبv اورآپؒ کی اولادکے مزارمبارکہ ہیں، جو مہندیوں کے نام سے مشہورہے۔        (امام شاہ ولی اللہؒ اور ان کے افکار و نظریات، مولانا عطاء الرحمن قاسمی، ط:مکتبہ خلیل لاہور) ۹:…آپؒ کے مفصل حالات زندگی اورخدمات جاننے کے لیے ملاحظہ ہو۔ماہنامہ بینات کی قابل قدر خاص اشاعت ’’محدث العصرؒ نمبر‘‘ بیاد:محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ۔ شائع کردہ :مکتبہ ماہنامہ بینات ،بنوری ٹاؤن کراچی۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین