بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علمِ اصولِ حدیث کا تعارف اہم کتب اور محدثین وفقہاء کے منہج میں فرق 

علمِ اصولِ حدیث کا تعارف

اہم کتب اور محدثین وفقہاء کے منہج میں فرق 


اصولِ حدیث کا مختصر تعارف

علمِ اصولِ حدیث جو سند اور متن کے احوال کو پہچاننے کے قواعد کانام ہے، اسے ’’علمُ مُصطلَح الحدیث‘‘ بھی کہا جاتا ہے، یہ علم حضراتِ محدثین کے مناہج اور نقلِ روایت میں ان کی مخصوص شرائط کا نام ہے، جو زمانۂ روایت کے شروع سے ہی محدثین کےہاں رائج ہیں، وقت گزرنے کےساتھ ساتھ ان شرائط میں مزیدتنقیح اور ترمیم ہوتی چلی آئی اور اُصولِ حدیث کی مختلف انواع کے عنوانات قائم ہوتے چلے گئے، علامہ عز الدین ابن جماعہ ؒ(متوفی : ۸۱۹ھ) نے علمِ حدیث کی مختصر تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
’’علم الحديث: علمٌ بقوانينَ يُعرف بہا أحوالُ السند والمتْن۔‘‘(۱)

اُصولِ حدیث کی تقسیم

علمِ اُصولِ حدیث کو دوبنیادی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
۱- علمِ روایتِ حدیث: یعنی تحملِ حدیث اور اداءِ حدیث کےمختلف طرق اور الفاظِ حدیث کے ضبط وغیرہ کا علم۔ (یہ علمِ حدیث کا ابتدائی درجہ ہے)
۲- علمِ درایتِ حدیث: یعنی سند اورمتنِ حدیث کی جانچ پڑتال کے قواعد وضوابط اورمعنی حدیث سے استنباطِ احکام کے اُصولوں کا علم (۲)۔ (یہ علمِ حدیث میں مہارت کا مقام ہے)

اُصولِ حدیث کی انواع کی تعداد

علمِ اُصولِ حدیث کی متعدد انواع بیان کی گئی ہیں، امام المحدثین حافظ ابن الصلاح  ؒ(متوفی: ۶۴۳ھ) نےاپنی مشہور کتاب ’’معرفۃ أنواع علم الحديث‘‘ میں اُصولِ حدیث کی (۶۵) انواع درج فرمائی ہیں، جبکہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ (متوفی:۹۱۱ھ) نے ’’تدريب الراوي‘‘ میں اُصولِ حدیث کی (۹۳) انواع ذکر فرمائی ہیں اور بعض حضرات نےان کےعلاوہ مزیدانواع بھی شمار کرائی ہیں۔

اُصولِ حدیث کے انواع کی سند اور متن سے تعلق کی نوعیت

حدیثِ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہمارے پاس رُواتِ سند کےواسطہ سےپہنچی ہے اور بغیر سند کے کوئی بھی حدیث معتبر نہیں ہوتی، اس وجہ سےفنِ حدیث میں سند کو متن کے جزوِ لازم کی طرح سمجھا جاتا ہے، گویا حدیث کے دو حصے ہیں: ۱- سند، ۲- متن۔
حضراتِ محدثین عملی طور پر پہلے سندِحدیث کی جانچ پڑتال کرتے ہیں، اس کے بعد متن سے بحث کرتے ہیں، بلکہ زیادہ تر اُن کی محنت کی جولان گاہ سند ہی ہوتی ہے، چنانچہ اُصولِ حدیث کی ایک سو (۱۰۰) کے قریب انواع میں سےتقریباً ساٹھ فیصد (۶۰%) انواع کا تعلق سندسے، پینتیس فیصد(۳۵%) انواع کا تعلق متن سے اور پانچ فیصد (۵%) انواع کا تعلق معنی حدیث سے ہے، بلکہ اگرغور کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہےکہ اصطلاحاتِ متن (یعنی مرفوع، موقوف، مقطوع، متصل، معلق، مرسل، معضل، منقطع، صحیح، حسن اور ضعیف وغیرہ) کا قیام ہی سند (والی انواع) سے بحث پر موقوف ہوتا ہے اور یہ تمام اصطلاحاتِ متن‘ سند کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں، گویا ان سب اصطلاحات اور القاباتِ متن کی بنیادسند ہی ہے، اس لیے علمِ حدیث کی لذت کوپانے کےلیے متن سے پہلے سندکے مباحث کو سیکھنا اوران کی عملی ممارست انتہائی ضروری ہے۔

اُصولِ حدیث کی فطری اور تدریجی ترتیب

مبتدی طالب علم کو اُصولِ حدیث کے مباحث اس طرح بتدریج پڑھنے چاہئیں کہ وہ ’’طالبِ حدیث سے محدث‘‘ تک کے سفر کوبآسانی سمجھ سکے، اُس کا ذہن سندِ حدیث کےاُصولوں سے الفاظِ حدیث سےمتعلق مباحث کی طرف اور الفاظِ حدیث کےاُصولوں سے معنی حدیث کے مباحث کی طرف بتدریج منتقل ہو اور وہ اُصولِ حدیث کےآپس کے تعلق اوران میں سے موقوف اور موقوف علیہ کو پہچان کر ہر راویِ حدیث اور اُس کی روایت کی فنی حیثیت کا اچھی طرح اِدراک کرسکے۔ 
فطری ترتیب کے مطابق علمِ اُصولِ حدیث کے مباحث کا اِجمالی نقشہ اس طرح ہوسکتا ہے: 
المقدمۃ:’’نشأۃُ علم مُصْطَلح الحديث، وتاريخُ تدوينہٖ، وأشہرُ المصنفات فيہ۔‘‘
الباب الأول: ’’آدابُ الروايۃ، وکيفيۃُ ضبطہا، وطرقُ تحملہا، وصيغُ أدائہا۔‘‘ 
الباب الثاني: ’’الإسنادُ وما يتعلق بذٰلک من معرفۃ شخصيۃ الرواۃ وسيرتہم الذاتيۃ۔‘‘ 
الباب الثالث: ’’صفۃُ من تُقبَل روايتُہٗ ومن تُردُّ روايتُہٗ، وما يتعلق بذٰلک من جرح الرواۃ وتعديلہم۔‘‘ 
الباب الرابع: ’’الخبرُ وأقسامُہٗ من حيثُ عددِ طرقہٖ، ومن حيثُ القبول والردّ، ومن حيثُ الاتصال والانقطاع، وغير ذٰلک مما طالَ فِہْرِسُہٗ۔‘‘ 

 

اُصولِ حدیث کی تدوین

علمِ اُصولِ حدیث کی باقاعدہ تدوین کاکام تقریباً چوتھی صدی ہجری کے وسط میں شروع ہوا اور اس حوالے سے قاضی ابو محمد رامَہُرمُزیؒ (متوفی: ۳۶۰ھ) نے اپنی مشہور کتاب ’’المُحدِّثُ الفاصلُ‘‘ تصنیف فرمائی، جس میں انہوں نے روایتِ حدیث کے سلسلے میں محدثین کے اصول وقواعد کو اپنے طور پر منضبط کرنے کی کوشش کی۔
قاضی ابو محمد رامَہُرمُزی رحمہ اللہ سے پہلے اگرچہ علماءِ حدیث نے اس فن کےبعض مباحث کو تحریری طور پر جمع کیا تھا، مگران کا کام فن میں کوئی مستقل تصنیف کے طور پر نہ تھا، بلکہ وہ ایک طرح کے جزوی مباحث تھے، چنانچہ بعض محدثین نے اپنی کسی حدیثی کتاب کےمقدمہ میں چند حدیثی مباحث جمع فرمادیے، جیسے:سننِ دارِمی اور صحیح مسلم کا مقدمہ ہے اوربعض حضرات نےجمعِ روایات اورشرحِ حدیث کے ضمن میں علمِ اصولِ حدیث کی کسی نوع پر بحث کردی، جیسے:جامع ترمذی، شرح معانی الآثار اور شرح مشکل الآثار وغیرہ میں اس طرح بکثرت ہے۔ 
بعض حضرات نے اصولِ استنباط اور اصولِ فقہ کے موضوع پر بحث کے دوران بعض حدیثی اصولوں کی تنقیح کردی، جیسے: امام شافعیؒ (متوفی:۲۰۴ھ) کی کتاب ’’الرسالۃ‘‘ اور مشہور حنفی فقیہ عیسیٰ بن اَبانؒ (متوفی:۲۲۱ھ) کے رسالہ ’’الحُجَج الصَّغيرُ‘‘ میں بعض حدیثی مباحث مذکورہیں اور بعض حضرات نے اس موضوع کی کسی ایک نوع کولے کر اس پر مستقل رسالہ مرتب فرمادیا اور اس طرح کا کام زیادہ ہوا ہے، جیسے: امام علی ابن المدینیؒ (متوفی: ۲۳۴ھ) کے رسائل(۳)، امام ترمذیؒ (متوفی: ۲۷۹ھ) کا رسالہ ’’العِللُ الصغير‘‘، امام بزارؒ (متوفی:۲۹۲ھ) کا رسالہ ’’شروطُ القُبول والردِّ‘‘ اور امام طحاویؒ (متوفی:۳۲۱ھ) کا رسالہ ’’التَّسْويَۃُ بين حدَّثَنا وأخبرنا‘‘ ہے۔
اسی طرح بعض حضرات نے اپنی کتاب کے تعارف میں بعض اہم حدیثی مباحث کو پرودیا ہے، جیسے: امامِ ابوداودؒ (متوفی: ۲۷۵ھ) کی طرف سے اہلِ مکہ کے نام لکھا جانےوالا خط بہت سے اہم حدیثی مباحث کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ 
چوتھی صدی ہجری کے بعد اُصولِ حدیث کے موضوع پراختصار اور تفصیل کےساتھ بہت سی کتابیں لکھی گئیں، بعض حضرات نےفن کے تمام مسائل پر مشتمل جامع کتب تصنیف فرمائیں اور بعض نے مخصوص اصطلاحات کو لے کر ان سے متعلق ائمۂ حدیث کی تفصیلی آراء کو جمع کر دیا، چنانچہ ذیل میں چار مختلف عنوانات کے تحت اس حوالے سےلکھی جانے والی پینتالیس (۴۵) اہم کتب کے نام درج کیے جاتے ہیں:

علمِ اصولِ حديث پر جامع کتب

۱-’’مَعرِفۃُ عُلوم الحديث‘‘ لأبي عبد اللہ الحاکم النَّيْسابوريؒ (المتوفی ۴۰۵ھ)۔
۲- ’’الکفايۃ في علم الروايۃ ‘‘ لحافظ المشرق الخطيب البغداديؒ (المتوفی ۴۶۳ھ)۔
۳- ’’مَعرِفۃُ أنواع علم الحديث‘‘ للحافظ ابن الصلاح الشَّہْرَزُوْريِؒ (المتوفی ۶۴۳ھ)۔
۴- ’’إرشاد طلاب الحقائق إلی معرفۃ سنن خير الخلائقﷺ‘‘ للإمام النوويؒ (المتوفی ۶۷۶ھ)۔
۵- ’’التقريب والتيسير لمعرفۃ سنن البشير النذيرﷺ‘‘ للإمام النوويؒ (المتوفی ۶۷۶ھ)۔
۶- ’’تدريب الراوي في شرح تقريب النَّوَاوي‘‘ لجلال الدين السيوطيؒ (المتوفی ۹۱۱ھ)۔
۷- ’’النُّکت علی کتاب ابن الصلاح‘‘ لبدر الدين محمد بن عبد اللہ الزرکشيؒ (المتوفی ۷۹۴ھ)۔
۸- ’’الشذا الفيَّاح من علوم ابن الصلاح‘‘ لبرہان الدين الأبناسيؒ (المتوفی ۸۰۲ھ)۔
۹- ’’مَحاسن الاصطلاح وتضمين کتاب ابن الصلاح‘‘ لسراج الدين البُلقينيؒ (المتوفی ۸۰۵ھ)۔
۱۰- ’’التقييد والإيضاح لما اُطلقَ واُغلقَ من کتاب ابن الصلاح‘‘ للحافظ العراقيؒ (المتوفی ۸۰۶ھ)۔
۱۱- ’’النُّکت علی کتاب ابن الصلاح‘‘ للحافظ ابن حجر العسقلانيؒ (المتوفی ۸۵۲ھ)۔
۱۲- ’’التبصِرۃُ والتذکِرۃُ‘‘ المعروف بـ ’’ألفيۃ الحديث‘‘ للحافظ زين الدين العراقيؒ (المتوفی ۸۰۶ھ)۔
۱۳-’’شرح التبصرۃ والتذکرۃ‘‘ للحافظ زين الدين العراقيؒ (المتوفی ۸۰۶ھ)۔
۱۴- ’’النُّکت الوفيۃ بما في شرح الألفيۃ‘‘ لبرہان الدين إبراہيم بن عمر البِقاعيؒ (المتوفی ۸۸۵ھ)۔
۱۵- ’’فتح المغيث بشرح ألفيۃ الحديث‘‘ للحافظ شمس الدين السخاويؒ (المتوفی ۹۰۲ھ)۔
۱۶-’’فتح الباقي بشرح ألفيۃ العراقي‘‘ للشيخ زکريا الأنصاريؒ (المتوفی ۹۲۶ھ)۔
۱۷-’’مِنْحۃ المغيث بشرح ألفيۃ الحديث‘‘ للشيخ محمد إدريس الکانْدِہْلَوي (المتوفی ۱۳۹۴ھ)۔
۱۸-’’الاقتراح في بيان الاصطلاح‘‘ للحافظ ابن دقيق العيدؒ (المتوفی ۷۰۲ھ)۔
۱۹- ’’المنہل الروي في مختصر علوم الحديث النبويﷺ‘‘ لبدر الدين ابن جماعۃؒ (المتوفی ۷۳۳ھ)۔
۲۰- ’’الموقظۃ في علم مصطلح الحديث ‘‘ للحافظ شمس الدين الذہبيؒ (المتوفی ۷۴۸ھ)۔
۲۱-’’اختصار علوم الحديث‘‘ للحافظ ابن کثير الدِّمَشْقيؒ (المتوفی ۷۷۴ھ)۔
۲۲-’’التذکرۃ في علوم الحديث‘‘ للحافظ سراح الدين ابن الملقنؒ (المتوفی ۸۰۴ھ)۔
(۲۳) ’’جواہر الأصول في علم حديث الرسولﷺ‘‘ لفصيح الدين الہرويؒ (المتوفی ۸۳۷ھ)۔
(۲۴) ’’نزہۃ النظر في توضيح نُخْبَۃ الفکر في مُصْطَلَح أہل الأثر‘‘ للحافظ ابن حجر العسقلانيؒ (المتوفی ۸۵۲ھ )۔
(۲۵) ’’توضيح الأفکار لمعاني تنقيح الأنظار‘‘ للأمير الصنعانيؒ (المتوفی ۱۱۸۲ھ)۔
(۲۶) ’’ظفر الأماني بشرح مختصر السید شریف الجرجاني‘‘ لعبد الحي اللکنويؒ (المتوفی ۱۳۰۴ھ)۔
(۲۷) ’’قواعد التحديث من فنون مُصْطَلح الحديث‘‘ لجمال الدين القاسميؒ (المتوفی ۱۳۳۲ھ)۔
(۲۸) ’’توجيہ النظر إلٰی أصول الأثر‘‘ للشيخ طاہر بن صالح الجزائريؒ (المتوفی ۱۳۳۸ھ) ۔
(۲۹) ’’منہج النقد في عُلوم الحديث‘‘ للدکتور نور الدين عِتْرؒ (المتوفی ۱۴۴۲ھ)۔

یہ سب کتابیں فن کے تقریباً تمام اہم مباحث کو جامع ہیں، ان میں بعض کتابیں مفصل اور بعض متوسط پیرائے میں ہیں، درج بالا سطور میں کتابوں کے نام ذکر کرتے ہوئے مؤلفین کی وفیات کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، بلکہ ان کتب کےآپس کے رشتوں اورتعلق کو مدِنظر رکھا گیا ہے، کتاب نمبر(۳) اپنے موضوع کی سب سے اہم اور’’ اُمُّ الکتب‘‘ کہلاتی ہے اور علمِ اصولِ حدیث کے موضوع پر بعد کی اکثر کتابیں اسی کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں، چنانچہ سطورِ بالا میں ہماری ذکر کردہ کتب میں سے کتاب نمبر(۴) مقدمہ ابن الصلاح کا اختصار ہے، کتاب نمبر(۵) اختصار الاختصارہے اورکتاب نمبر (۶)اختصار الاختصار کی شرح ہے، کتاب نمبر(۷) سے نمبر(۱۱) تک پانچ کتابیں مقدمہ ابن الصلاح پر فوائد اور اس پر نکت ہیں۔
کتاب نمبر(۱۲)اسی مقدمہ ابن الصلاح کا منظومہ ہے، جو کہ ہزار اشعار پرمشتمل ہے، کتاب نمبر(۱۳)خود ناظم کی طرف سے اس منظومہ کی شرح ہے اور کتاب نمبر (۱۴) اس شرح پر تعلیقات ہیں، جبکہ بعد کی تین کتب (یعنی نمبر۱۵، ۱۶ اور ۱۷) اس منظومہ کی اہم شروحات میں سے ہیں، کتاب نمبر (۱۸) سے نمبر(۲۴) تک سات کتب اگرچہ متوسط یا مختصر ہیں، مگر فن کی عمدہ کتب میں سے ہیں، اس فہرست کی آخری پانچ کتب بہت اہم، جامع اورفن کے مسائل کی عمدہ ترتیب پر مشتمل ہیں۔ 

خاص علم الاسناداور آدابِ روایت پر اہم کتب

(۱) ’’المحدث الفاصل بين الراوي والواعي‘‘ للقاضي أبي محمد الرامَہُرمُزي (المتوفی ۳۶۰ھ)۔
(۲) ’’الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع‘‘ للخطيب البغداديؒ (المتوفی ۴۶۳ھ)۔
(۳) ’’جامع بيان العلم وفضلہ وما ينبغي في روايتہ وحملہ‘‘ لابن عبد البر الأندَلُسيؒ (المتوفی ۴۶۳ھ)۔
(۴) ’’الإلماع إلٰی مَعْرِفۃ أصول الروايۃ وتقييد السَّماع‘‘ للقاضي عياض اليحصُبيؒ (المتوفی ۵۴۴ھ)۔

یہ تمام کتب خاص اسنادی مباحث، لطائفِ سند اور آدابِ روایت کو جاننے کے لیے بہت زیادہ مفید ہیں۔

قواعدِ جرح وتعدیل پرمشتمل اہم کتب
 

(۱) ’’مقدّمۃ الجرح والتعديل‘‘ لابن أبي حاتم الرازي ( المتوفی ۳۲۷ھ)
(۲) ’’الجواب عن أسئلۃ في الجرح والتعديل‘‘ للحافظ المنذريؒ (المتوفی ۶۵۶ھ)
 (۳) ’’مقدمۃ ميزان الاعتدال في نقد الرجال‘‘ للحافظ الذہبيؒ (المتوفی ۷۴۸ھ)
(۴) ’’قاعدۃ في الجرح والتعديل‘‘ لتاج الدين السُّبکيؒ (المتوفی ۷۷۱ھ)
(۵) ’’الرفع والتکميل في الجرح والتعديل‘‘ للعلامۃ محمد عبد الحي اللکنويؒ (المتوفی ۱۳۰۴ھ)

یہ تمام کتب جرح وتعدیل کے اصول وقواعد پرمشتمل ہیں، بطورِ خاص آخری کتاب فن کی اہم جزئیات کوجامع ہے۔

حضرات محدثین اور فقہاءِ کرام کے منہج میں فرق

حضراتِ محدثین اورفقہاءِ کرام دونوں کا ہی حدیث سے تعلق ہے اور دونوں ایک دوسرے کےفریق نہیں ہیں، البتہ حدیث سے ان کےتعلق اور کام کی نوعیت میں کچھ فرق ہے، اس سلسلےمیں ان کے معیارات الگ الگ ہیں اور معیار کا یہ فرق در اصل ان حضرات کےاغراض ومقاصد کے مختلف ہونے کی وجہ سےہے، چنانچہ ذیل میں اس سلسلےکے چند امتیازی فروق ذکر کیے جاتے ہیں:
(۱) محدثین کی غرض الفاظِ حدیث کی حفاظت واشاعت ہے، جبکہ فقہاء کا اصل ہدف معنی حدیث کی حفاظت واشاعت ہے، اسی لیےفقہاءِ کرام کی توجہات کا مرکز ’’حدیث من حیث التشریع واستنباط الأحکام‘‘ہوتی ہے۔
(۲) محدثین کے بیشتر اُصولوں کا تعلق الفاظِ حدیث کے ثبوت اور ان کی تنقیح سے ہوتا ہے، یہ حضرات سندِ حدیث سے تفصیلی بحث کرتے ہیں، بلکہ ان کے اُصولوں میں نصف سے زائد انواع کا تعلق ہی اسنادِ حدیث سے ہے، جبکہ فقہاء کے اُصولوں میں اکثریت کا تعلق معنی حدیث سے ہے، باقی سندسےمتعلق ان کےہاں صرف ثبوتِ حدیث کی حد تک اجمالی بحث کی جاتی ہے۔
(۳) قبولِ حدیث میں حضرات محدثین بعض ایسی شرائط عائد کرتے ہیں جو فقہاء کے ہاں معتبر نہیں ہوتیں، جیسے: بعض مرتبہ حضراتِ محدثین کسی حدیث میں ایسا شذوذ اورایسی علتِ اسنادیہ بیان کرتے ہیں کہ فقہاءِ کرام کے ہاں وہ معتبر نہیں ہوتی، چنانچہ اسی کو ذکر کرتےہوئےساتویں صدی ہجری کے مشہور محدث اور شافعی فقیہ ابن دقیق العیدؒ (متوفی:۷۰۲ھ) نے فرمایا: ’’محدثین کی بیان کردہ بعض علتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو فقہاء کے ہاں معتبر نہیں ہوتیں‘‘۔(۴)
(۴) منہج وشرائط کےمختلف ہونے کی وجہ سےان حضرات کے مابین نتائج کےباب میں یہ فرق ہو سکتا ہے کہ حضرات محدثین کے ہاں کوئی حدیث غیر معتبر اور شدید ضعیف قرار پائے، جبکہ فقہاءِ کرام کے ہاں وہ قابلِ عمل ہو، چنانچہ اسی بات کو بیان کرتے ہوئے علامہ ابن الجوزیؒ (متوفی۵۹۷ھ) نے فرمایا ہے: ’’محدثین کے نزدیک کسی حدیث کے شاذ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ فقہاء کے ہاں بھی ناقابلِ قبول ہو اور احکام میں دلیل نہ بن سکے۔‘‘(۵)
(۵) عمل بالحدیث کےسلسلے میں محدثین کا عمومی طرز یہ ہے کہ وہ حدیث کے ظاہری معنی کو لیتے ہیں اور تعارض کے وقت تطبیق اور نسخ متعین نہ ہونے کی صورت میں قوتِ سند کی بنیادپرراجح مرجوح کا فیصلہ کرتے ہیں، جبکہ فقہاءِکرام اس موقع پر قرآنِ کریم، احادیثِ مرفوعہ، شریعتِ مطہرہ کے عمومی قواعد، صحابہؓ وتابعینؒ کے تعامل وفتاویٰ جات، حکم کی علت، شارع کی غرض اور حدیث کے ثبوت اور دلالت کے لحاظ سےمراتب وغیرہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئےاس کی عملی حیثیت متعین کرتے ہیں اور بسااوقات دیگر نصوص میں موجود شواہد وقرائن کی بنیاد پر یہ حضرات حدیث کے ظاہری معنی کو چھوڑ دیتے ہیں، گویا فقہاءِ کرام کی نظر دُور رَس ہے، چنانچہ اسی بنا پر دوسری صدی ہجری کے عظیم محدث امام اعمش ؒ(متوفی ۱۴۸ھ) نےایک موقع پرفہمِ حدیث میں امام اعظم ابو حنیفہؒ (متوفی:۱۵۰ھ) کے کمالِ بصیرت کو دیکھا، تو ان کو مخاطب کرکےفرمایا: ’’یا معشر الفقہاء! أنتم الأطباء ونحن الصيادِلۃ‘‘(۶) (یعنی آپ حضرات ہی ماہر طبیب ہیں اور ہم تومحض دوا فروش ہیں)۔
حدیث کے طالب علم کوچاہیے کہ وہ محدثین اور فقہاء دونوں کے اُصولوں کی حقیقت کو سمجھے اور ان میں سے ہر ایک کو اپنےدرجے پر رکھے، تاکہ علم کا حق ادا ہو اور شکوک وشبہات کا دروازہ بند ہوجائے۔

اصولِ حدیث میں منہجِ حنفیہ پر مشتمل کتب

اصولِ حدیث کےوہ مباحث، جوبراہِ راست احکامِ فقہیہ پراثراندازہوتےہیں اور جن کا کسی درجے میں فقْہ الحدیث اوراستنباط الاحکام سےتعلق ہوتا ہے، ان مباحث سے عموماًفقہاء کرام ہی تفصیل سے بحث کرتے ہیں اوران میں بسااوقات فقہاء کرام کی آراء محدثین سے مختلف ہوجاتی ہیں، اس سلسلے میں فقہاء احناف کےمنہج اور اُن کی آراء کوجاننےکےلیےایک تو کتبِ اصولِ فقْہ کی’’بحث السنۃ‘‘ کواچھی طرح پڑھناچاہیے کہ یہی ان کی آراء کےمعلوم ہونے کا اصل مقام ہےاور اس کےساتھ بطورِ خاص یہ کتابیں دیکھ لینی چاہئیں:
(۱) ’’قفْو الأثر في صفْو علوم الأثر‘‘ لرضي الدين ابن الحنبلي (۹۷۱ھ)۔
(۲) ’’إمعان النظر في شرح شرح نخبۃ الفکر‘‘ للملا محمد أکرم السنديؒ (المتوفیٰ حوالي (۱۱۳۰ھ)۔
(۳) ’’عمدۃ الأصول في حديث الرسولﷺ‘‘ للشيخ محمد شاہ الدہلويؒ (المتوفی ۱۳۰۵ھ)۔
(۴) ’’مَبادئ علم الحديث وأصولہ‘‘ لشيخ الإسلام العلامۃ شبير أحمد العثمانيؒ (المتوفی ۱۳۶۹ھ)۔
(۵) ’’قواعد في عُلوم الحديث‘‘ للعلامۃ ظفر أحمد العثمانيؒ (المتوفی۱۳۹۴ھ)۔
(۶) ’’دراسات في أصول الحديث علی منہج الحنفيۃ‘‘ للشيخ عبد المجيد الترکماني حفظہ اللہ ۔

(۷) ’’حدیث کےاصول ومصطلحات منہجِ حنفی کی روشنی میں‘‘ازمولانا محمد عبد اللہ لاجپوری حفظہ اللہ۔
ان میں سے آخری دوکتابیں بہت زیادہ جامع ہیں اور سہل الوصول بھی ہیں۔

فائدہ: اُصولِ حدیث اوراُصولِ فقہ میں نمایاں امتیازات

اصولِ حدیث اور اصولِ فقہ کےدرمیان فروق درج ذیل ہیں:
(۱) اُصولِ حدیث درحقیقت نقلِ حدیث کے اُصول ہیں، یہ نفسِ حدیث کے اُصول نہیں ہیں، اسی وجہ سےحدیث کا وجوداور اس کا ظہور ان اُصولوں پر موقوف نہیں، جبکہ اُصولِ فقْہ واقعی نفسِ فقْہ کے اُصول ہیں، اسی وجہ سے فقْہ کا وجود اور اس کا ظہور ان ادلہ واُصولِ فقْہ پر موقوف ہوتا ہے اور انہی اُصولوں کی بنیاد پر فقہی مسائل مستنبط کیے جاتے ہیں۔ 
 (۲)اُصولِ فقہ کا زیادہ تعلق قرآن وحدیث کے معنی ومفہوم اور فقہی حکم کےاستنباط سےہوتاہے، جبکہ اُصولِ حدیث کا غالب تعلق الفاظِ حدیث سے اور پھر اُن کےثبوت کی خاطر علم الاسناد اور علمِ جرح و تعدیل سے ہوتا ہے۔

 

حواشی و حوالہ جات

 

۱- ’’تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي‘‘ : ۲/۲۴، ط: دار اليسر، المدينۃ المنورۃ 
۲- ’’النکت الوفيۃ بما في شرح الألفيۃ‘‘ للبقاعي: ۱/۶۳-۶۴، ط: مکتبۃ الرشد، الرياض 

۳- امام حاکم رحمہ اللہ (متوفی:۴۰۵ھ) نے ’’معرفۃ علوم الحديث‘‘ (ص:۷۱) میں ان کے اُنتیس (۲۹) حدیثی رسائل کے نام شمار کرائے ہیں۔
۴- انظر: ’’الاقتراح في بيان الاصطلاح‘‘ لابن دقيق العيد، ص: ۵، ط: دار الکتب العلميۃ، بيروت 
۵- انظر: ’’فتح الملہم بشرح صحيح مسلم‘‘ للعثماني: ۱/۱۳۶، ط: دار إحياء التراث العربي، بيروت 
۶- ’’مناقب أبي حنيفۃ وصاحبيہ‘‘ للحافظ الذہبي، ص: ۳۵، ط: إحياء المعارف النعمانيۃ، حيدر آباد الدکن 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین