بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علامہ سید محمد یوسف بنوری اور خدمات حدیث (تیسری قسط)

علامہ سید محمد یوسف بنوری اور خدمات حدیث (۳)


ہندوستان کے مشہور علمی ادارے ”مرکز الشیخ ابی الحسن الندوی للبحوث والدراسات الاسلامیة“ اعظم گڑھ یوپی میں صفر ۱۴۲۸ھ مطابق مارچ ۲۰۰۷ ء کو دو روزہ بین الاقوامی علمی سیمینار بعنوان ” ہندوستان اور علم حدیث تیرہویں اور چودہویں صدی میں“ منعقد ہوا ،جس میں جامعہ دارالعلوم فلاح دارین گجرات کے رئیس مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی نے بعنوان خاص” دور حاضر کے حافظ ابن حجر عسقلانی وانور شاہ کشمیری ثانی ، علم حدیث کے رمز شناس ، محدث جلیل علامہ محمد یوسف بنوری  اور خدمات حدیث “پراپنا قیمتی مقالہ پیش کیا ، قارئین بینات کے لیے برصغیر میں حضرت بنوری کی خدمات حدیث کے حوالے سے یہ معلوماتی مقالہ قسط وار پیش خدمت ہے ۔

سنن ترمذی پر عربی زبان میں ایک گراں قدر مضمون
امام ترمذی کی کتاب پر حضرت بنوری کا دمشق کے مجلة المجمع العلمی العربی میں ایک اہم مضمون شائع ہوا تھا‘ جس میں شیخ نے امام ترمذی کی کتاب کی خصوصیات پر محدثین وائمہ کے کلام کو سامنے رکھ کر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے‘ ذیل میں اس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے: #:․․․․امام ترمذی نے اپنی کتاب میں احادیث نبویہ کو آٹھ قسموں میں جمع کردیا ہے: ۱- عقائد ودینی اصول ۔ ۲- شرعی احکام‘ عبادات ومعاملات اور حقوق العباد سے متعلق احادیث ۔ ۳- تفسیر قرآن۔ ۴- آداب واخلاق۔ ۵- سیرت وشمائل نبوی۔ ۶- مناقب صحابہ رضی اللہ عنہم۔ ۷- رقاق ‘ وعظ ونصیحت اور ترغیب وترہیب سے متعلق احادیث (جسے کتاب الزہد کا نام دیا جاتاہے) اور ترمذی کی کتاب الزہد کی نظیر صحاح ستہ میں نہیں ملتی۔ ۸- علامات قیامت سے متعلق احادیث۔ یہ اقسام اگرچہ صحیح بخاری میں بھی ہیں لیکن وہ شروط کی سختی کے سبب احادیث کے ذخیرہ کو جمع نہ کر سکے۔ ترمذی کی کتاب الزہد‘ کتاب الدعوات‘ کتاب التفسیر کا مقابلہ بخاری شریف کے ان ابواب سے کریں‘ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ #:․․․ امام ترمذی نے احادیث پر صحت‘ حسن ‘ غرابت اور ضعف کے اعتبار سے جو حکم لگایا ہے‘ وہ پڑھنے والوں اور تحقیق کرنے والوں کے لئے بہت نافع اور اہم چیز ہے۔ #:․․․․امام ترمذی نے اپنی کتاب میں ائمہ کے مذاہب اور امت کے تعامل کو خوب عمدگی سے اس طرح بیان کیا ہے کہ اختلافی مسائل بیان کرنے والی دیگر کتب احکام وغیرہ بہت سی کتابوں سے مستغنی کردے‘ امام ترمذی کی یہ ایک خصوصیت ہے جس میں کوئی بھی ان کا شریک نہیں ‘ صحابہ وتابعین کے مذاہب پر مطلع ہونا اور ایسے مذاہب جن پر عمل متروک ہوچکا ہے جیسے کہ شام کے امام اوزاعی‘ عراق کے امام سفیان ثوری‘ خراسان کے امام اسحاق ابراہیم مروزی وغیرہ حضرات کے مذاہب پیش کرنا یہ بڑا دقیق ونادر علم ہے جس پر لوگ صرف امام ترمذی اور ان کی کتاب کے ذریعہ ہی مطلع ہو سکتے ہیں۔ #:․․․ امام ترمذی نے فقہاء امت کے مذاہب کو دوقسموں پر تقسیم کیا اور ہرقسم کے لئے الگ باب قائم کیا جس میں اس مسئلہ کو ثابت کرنے والی حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس طرح سے احکام سے متعلق متعارض احادیث کو دو باب میں تقسیم کردیا‘ امام ترمذی بسااوقات ایک قسم کی تائید کرتے ہیں اور اس کو تفقہ یا تحدیث یا تعامل کے اعتبار سے راجح قرار دیتے ہیں یا دونوں میں جمع ہوسکے تو تطبیق دیتے ہیں۔ #:․․․سند میں مذکورہ رواة اگر کنیت کے ساتھ ہوں تو ان کا نام بتلادیتے ہیں اور اگر نام سے مذکور ہوں تو ان کی کنیت‘ عام طور سے ایسا اس مقام پر کرتے ہیں جہاں غموض اور خفاء یا ضرورت ہو‘ علماء حدیث نے اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں جن میں دولابی کی کتاب ”الاسماء والکنی“ سب سے عمدہ ہے۔ #:․․․روایات ذکر کرکے امام ترمذی جرح وتعدیل کرتے ہیں اور کسی خاص شرط کے پابند نہ ہونے کی تلافی اس جرح وتعدیل سے کیا کرتے ہیں اور حدیث کا درجہ‘ صحت‘ حسن اور غرابت کے اعتبار سے متعین کرکے اس کمی کو پورا کردیتے ہیں۔ #:․․․․امام ترمذی حدیث نقل کرنے کے بعد بسا اوقات نہایت عمدہ حدیثی ابحاث اور اسنادی فوائد لاتے ہیں جو اور کتابوں میں نہیں پائے جاتے‘چنانچہ حدیث کے موصول‘ مرسل‘ موقوف اور مرفوع ہونے کو بتلاتے ہیں کہ راوی حدیث صحابی ہے یا تابعی اور حدیث کا درجہ کیا ہے؟ #:․․․عام طور سے امام ترمذی ہر باب میں حدیث کے متعدد طرق اور ساری روایات ذکر کرنے کے بجائے صرف ایک حدیث ذکر کرتے ہیں اور ایک طریق ہی لاتے ہیں‘ خصوصاً احکام سے تعلق رکھنے والی احادیث میں‘ اسی لئے جامع ترمذی میں احادیث احکام کا ذخیرہ کم ہے‘ البتہ اس کی تلافی وہ اس طرح کرتے ہیں کہ اس باب میں اور موضوع سے متعلق دیگر جن صحابہٴ کرام  سے احادیث مروی ہیں ان کو ذکر کردیتے ہیں اور اس طرح سے اس باب میں جتنے صحابہ سے احادیث ہوتی ہیں ان کی تعداد معلوم ہوجاتی ہے‘ جو ائمہٴ نقد ومحققین کے یہاں بڑی قابل قدر خدمت ہے اور ذوق قدیم وجدید دونوں کے لئے بڑی پر کیف خدمت ہے‘ وہ ”فی الباب عن فلان وفلان“ کہہ کر اسی استیعاب سے نام گنوادیتے ہیں کہ جس کی تفتیش وتخریج کے لئے ہزاروں صفحات اور بیسیوں بڑی بڑی جلدوں کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی بعض اوقات وہ حدیث نہیں ملتی۔ امام ترمذی کی ”وفی الباب“ والی احادیث کی تخریج حافظ ابن حجر عسقلانی نے ”اللباب“ نامی کتاب میں کی لیکن سیوطی ا سکو ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ مجھے وہ کتاب مل نہ سکی‘ حضرت شیخ بنوری فرمایا کرتے تھے کہ: میں نے حرمین شریفین‘ قاہرہ اور آستانہ کے عظیم الشان کتب خانوں میں اسے تلاش کیا لیکن ”اللباب“ نہ مل سکی‘ حافظ ابن حجر سے پہلے ان کے شیخ حافظ عراقی نے بھی امام ترمذی کی ”وفی الباب“ والی احادیث کی تخریج کی تھی وہ بھی کہیں دستیاب نہیں‘ حافظ ابن سید الناس یعمری اور حافظ عراقی نے اپنی شروح میں ”ما فی الباب“ کی تخریج کا التزام کیا ہے۔ #:․․․․امام ترمذی مشکل احادیث کی گاہے بگاہے تفسیر وتاویل بھی کرتے جاتے ہیں‘ کبھی اپنے الفاظ میں اور کبھی ائمہٴ فن کے کلام سے‘ جیسے کہ کتاب الزکوٰة میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث ”ان اللہ یقبل الصدقة ویأخذہا بیمینہ․․․ الخ“ ذکر کی اور فرمایا: اہل علم اس حدیث اور اس جیسی ذات وصفات سے متعلق احادیث کے بارے میں یہ فرماتے ہیں ”ان احادیث میں جس طرح آیا ہے اسی طرح تسلیم کیا جائے گا اس کی کیفیت نہیں معلوم کریں گے‘ امام مالک بن انس‘ سفیان ثوری اور عبد اللہ بن مبارک وغیرہ حضرات اس جیسی صفات الٰہیہ سے متعلق احادیث کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بغیر کیفیت اور حقیقت بیان کئے اسی طرح اس کو مان لو‘ یہی علماء اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔ #:․․․امام ترمذی باب میں غریب احادیث لاتے ہیں اور صحیح اور مشہور احادیث کو چھوڑ دیتے ہیں اور ”وفی الباب عن فلان وفلان“ میں اس کی طرف اشارہ کردیتے ہیں۔ یہ کوئی عیب نہیں ہے‘ اس لئے کہ اس حدیث میں جو ضعف اور عیب ہوتا ہے امام ترمذی اس کی صراحت کردیتے ہیں‘ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح امام نسائیاپنی کتاب میں جب حدیث کے طرق بیان کرتے ہیں تو پہلے جو کمزور یا غلط ہوتا ہے اسے لاتے ہیں پھر اس کے مخالف صحیح اور قوی کو لاتے ہیں۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مجلة المجمع العلمی العربی: ج: ۳۲ ص:۳۰۸)
عوارف المنن مقدمہٴ معارف السنن
حضرت بنوری نے معارف السنن کا ایک مفصل مقدمہ لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا مگر اس کی ایک جلد کتابی شکل میں طبع ہوسکی‘ اس مقدمہ کا دوتہائی حصہ مکمل ہوچکا تھا مگر افسوس کہ بقیہ کام ادھورا ہی رہ گیا۔
وللہ الامر من قبل ومن بعد۔
معارف السنن شرح جامع الترمذی
یہ کتاب حضرت علامہ بنوری کا ایک عظیم کارنامہ شمار ہوتی ہے‘ طلبہٴ حدیث شریف اور اہل علم کے لئے نادر تحفہ ہے‘ اس شرح کی تألیف میں جو نہج انہوں نے اختیار کیا ہے وہ اس طرح ہے: باب کو ذکر کرنے کے بعد وہ مسئلہ تحریر فرماتے ہیں جو ترجمة الباب سے مستنبط ہوتا ہے‘ پھر ائمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں مسئلہ کا مالہا وماعلیہا بیان فرماتے ہیں‘ کبھی حدیث الباب کے دیگر مدلولات ومصداقات ذکر فرماتے ہیں اور کبھی شروع میں راوی کے حالات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں نیز الفاظِ حدیث کی شرح فرماتے ہیں‘ کبھی ترجمة الباب قائم کرنے سے امام ترمذی کے مقصد کو بیان فرماتے ہیں‘ اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر حفظہ اللہ تعالیٰ نے بہت جامع تبصرہ فرمایا ہے‘ موصوف معارف السنن کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں:
”انہ اوسع شرح لمذاہب الائمة المتبوعین من مصادرہا الموثوقة وبیان تعامل الامة واوثق مصدر لأدلة الامام ابی حنیفة رحمہ اللہ فی الخلافیات بین الائمة واکمل شرح لجامع الترمذی من جہة استیفاء المباحث حدیثاً وفقہاً واصولاً وما الی ذلک من مہمات علمیة واحسن شرح لحل المشکلات وتوضیح المغلقات بعبارات ادبیة واسلوب رائع واجمل شرح لاقوال امام العصر مسند الوقت الشیخ محمد انور شاہ الکشمیری رحمہ اللہ فی شرح الحدیث فی امالیہ ومؤلفاتہ ومذکراتہ المخطوطة ورسائلہ المطبوعة واشمل کتاب یحتوی علی فوائد من شتی العلوم ونفائس الابحاث روایة ودرایة‘ فقہا وحدیثا‘ عربیة وبلاغة وابدع تالیف جمع بین جمال التعبیر وحسن الترتیب ومتانة البحث ورزانة البیان واستقصاء کل باب من غرر النقول لاولی الالباب وصلی اللہ علی سیدنا محمد وآلہ واصحابہ وسلم“۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مدظلہ فرماتے ہیں کہ:
”شیخ بنوری کی تصانیف میں جامع ترمذی کی شرح معارف السنن ساڑھے تین ہزار صفحات پر مشتمل ہے‘ چھ ضخیم جلدوں میں نہایت اہم تصنیف ہے“۔
شیخ جامعہ ازہر فضیلة الاستاذ شیخ عبد الحلیم محمود کی رائے ملاحظہ فرمائیں‘ فرماتے ہیں:
”ابن حجر عسقلانی اور علامہ عینی کی شروح حدیث پر ”معارف السنن“ کی اعلیٰ توجیہات‘ بے مثال طرز استدلال اور ادب ومعانی نے سبقت حاصل کرلی ہے‘ نیز انہوں نے شیخ بنوری کے فن حدیث میں بلند مقام کو ان الفاظ سے سراہا‘ یہ مرد مجاہد جب مصر آتا ہے تو ہم ان کا ایک چوٹی کے عالم اور محدث کی حیثیت سے استقبال کرتے ہیں“۔
حضرت مولاناسلیم اللہ خان صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ابتدائی دو جلدوں کے مطالعہ سے اس شرح کی جو خصوصیات ہمارے سامنے آئیں وہ بالاختصار پیش خدمت ہیں:
۱- علامہ محمد انور شاہ کشمیری کی قیمتی آراء اور سنہری تحقیقات کو بڑی شرح وبسط کے ساتھ حسین پیرایہ میں پیش کیا گیا ہے۔ ۲- ”العرف الشذی“ کے مبہم یا موہم مقامات کا تشفی بخش حل پیش کرتے ہوئے امام الحدیث علامہ کشمیری کے نقطہٴ نظر کی عمدہ تشریحات کی گئی ہیں۔ ۳- حافظ ابن حجر‘ علامہ شوکانی‘ مولانا مبارک پوری اور دیگر حضرات کی طرف سے احناف پر کئے گئے اعتراض کا نہایت ہی خوش اسلوبی سے ازالہ کیا گیا ہے۔ ۴- اسنادی مباحث میں معرکة الآراء موضوعات پر انتہائی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے اور اختلاف کی صورت میں قول فیصل بھی ذکر کردیا گیا ہے۔ ۵- فقہی اور اسنادی تحقیقات کے علاوہ بعض نحوی‘ لغوی‘ کلامی اور اصولی مسائل پر نفیس اور عمدہ تحقیقات اور قیمتی فوائد اس شرح کی زینت ہیں۔ ۶- متقدمین مثل امام طحاوی وغیرہ کی طرح متأخرین مثل حضرت شاہ ولی اللہ ‘ حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی‘ علامہ نیموی اور شیخ لکھنوی کی تحقیقات وآراء کو بھی اس شرح میں مولانا مرحوم بہت اہتمام کے ساتھ درج کرتے ہیں۔ ۷- بعض حضرات صحابہ  وتابعین وائمہ فقہ وحدیث کے احوال اس شرح میں اس قدر بسط وتفصیل کے ساتھ آگئے ہیں کہ یکجا کسی دوسرے مقام پر اتنی تفصیل کے ساتھ ملنا دشوار ہے۔ ۸- خاص خاص مسائل پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کا بہت اچھا تعارف کرایاہے‘ جس کو دیکھ کر قاری میں ان کتابوں کے مطالعہ کا شوق کروٹیں لیتا ہے۔ ۹- نقل مذاہب میں یہ احتیاط برتی گئی ہے کہ اصل مأخذ سے ہی ان کو لیا گیا ہے مثلاً شوافع کا مذہب کتب شوافع کی مراجعت کے بعد درج کیا گیا ہے اسی طرح یہ احتیاط حنابلہ اور مالکیہ کے مذاہب کا ذکر کرتے وقت کی گئی ہے‘ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ تسامح فی النقل کی وہ خامی جو دوسرے مذاہب کو نقل کرتے وقت بالعموم پیش آجاتی ہے اس سے یہ شرح محفوظ ہے۔ ۱۰- احناف کے اقوال نقل کرتے وقت عموماً متقدمین کی کتابوں پر اعتماد کیا گیا ہے‘ نیز احناف میں صرف ان حضرات کی تحقیقات کو نقل کیا گیا ہے جن کا مرتبہ حدیث میں مسلم ہے‘ جیسے امام طحاوی‘ عینی اور صاحب بدائع وغیرہ۔ تلک عشرة کاملة (خصوصی نمبر ص:۹۵-۳۹۴) حضرت مولانا محمد منظور نعمانی تلمیذ شیخ محمد انور شاہ کشمیری جنہوں نے ندوة العلماء میں ترمذی شریف کا درس دیا ہے تحریر فرماتے ہیں: ”معارف السنن کے مطالعہ سے مولانا بنوری مرحوم کی علمی خصوصیات اور خاص کر فن حدیث میں ان کے رسوخ وتبحر اور وسعت مطالعہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے‘ حضرت الاستاذ الامام الکشمیری قدس سرہ کی خاص تحقیقات سے واقفیت کا سب سے زیادہ مستند ذریعہ بھی اس عاجز کے نزدیک معارف السنن ہی ہے“ (خصوصی نمبر ص:۶۸۰)
خود علامہ بنوری نے معارف السنن کے بارے میں تحریر فرمایاہے:
”فہذہ ہی ”معارف السنن“ وما ادراک ما ہی ”معارف السنن“ شرح لانفاس امام العصر المحدث الکبیر الکشمیری فی درس ”جامع الترمذی“ وتوضیح لأمالیہ وجمع دررہ المبعثرة فی مذکر انہ وتآلیفہ‘ بتعبیر قاسیت فیہ العناء وترتیب طال لاجلہ الرقاد واستیفاء لکل موضوع من غرر النقول عثرت علیہا بعد بحث طویل․․․ الخ‘ (خصوصی نمبر ص:۲۰۴)
(جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین