بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علامہ سید محمد یوسف بنوری اور خدمات حدیث

علامہ سید محمد یوسف بنوری اور خدمات حدیث


ہندوستان کے مشہور علمی ادارے ”مرکز الشیخ ابی الحسن الندوی للبحوث والدراسات الاسلامیة“ اعظم گڑھ یوپی میں صفر ۱۴۲۸ھ مطابق مارچ ۲۰۰۷ ء کو دو روزہ بین الاقوامی علمی سیمینار بعنوان ” ہندوستان اور علم حدیث تیرہویں اور چودہویں صدی میں“ منعقد ہوا ،جس میں جامعہ دارالعلوم فلاح دارین گجرات کے رئیس مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی نے بعنوان خاص” دور حاضر کے حافظ ابن حجر عسقلانی وانور شاہ کشمیری ثانی ، علم حدیث کے رمز شناس ، محدث جلیل علامہ محمد یوسف بنوری  اور خدمات حدیث “پراپنا قیمتی مقالہ پیش کیا ، قارئین بینات کے لیے برصغیر میں حضرت بنوری کی خدمات حدیث کے حوالے سے یہ معلوماتی مقالہ قسط وار پیش خدمت ہے ۔

ہندوستان اور علم حدیث
تیرہویں صدی اور چودہویں صدی ہجری میں برصغیر ہند کی سرزمین پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت رہی کہ ان دونوں صدیوں میں بے شمار علماءِ محدثین وفقہاء پیدا ہوئے جنہوں نے اس فن شریف کی تدریس وتالیف اور اس کی طباعت ونشر کے ذریعہ ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ یہ علماءِ محدثین اپنے بلند علمی مقام کے ساتھ تقویٰ وطہارت‘ اخلاص وللہیت اور دعوت الی اللہ کے کاموں میں بھی امتیازی شان کے حامل تھے‘ ان کی انتھک محنت اور شبانہ روز جدوجہد کے سبب پورے عالم اسلام میں ان کے عظیم کارناموں کا اعتراف کیا گیا‘ نیز علم حدیث میں ان کے انہماک کے سبب شروحاتِ حدیث میں ان کی تالیفات کا قابلِ ذکر ذخیرہ وجود میں آگیا جس کو پورے عالم اسلام کے علمی حلقوں میں بنظرِ استحسان دیکھا گیا‘ ان محدثین کے قابلِ فخر تلامذہ اور مسترشدین نے علمِ حدیث کی نشر واشاعت اور دعوت وتبلیغ کی زبردست خدمات انجام دیں اور یہ سلسلہ الی یومنا ہذا بفضلہ تعالیٰ جاری وساری ہے۔ ان ہی عظیم محدثین میں حضرت علامہ محدث العصر سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ رحمةً واسعةً کی ذات گرامی بھی شامل ہے جنہوں نے تقریباً نصف صدی تک علومِ اسلامیہ اور خصوصاً سنت نبویہ (علیٰ صاحبہا الف الف صلوة) کی اہم خدمت انجام دی اور تدریس وتالیف کے ذریعہ اس فن شریف میں قابلِ قدر اضافہ فرمایا۔
فجزاہ اللہ عنا وعن جمیع المسلمین خیر الجزاء
مختصر حالاتِ زندگی
محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ۶/ربیع الثانی ۱۳۲۶ھ مطابق ۱۹۰۸ء میں ضلع مردان کے ایک چھوٹے گاؤں مہابت آباد میں ایک علمی اور دینی گھرانے میں پیدا ہوئے‘ آپ کے دادا امیر احمد خان بڑے ذی وجاہت بزرگ تھے ان کے محلہ میں صرف وہی شخص سکونت کرسکتا تھا جو نماز کا پابند ہو‘ آپ کی دادی صاحبہ سیدہ فاطمہ بھی ولیہ تھیں‘ حضرت بنوری فرماتے تھے کہ مجھے دعاؤں کا ذوق اپنی دادی صاحبہ سے حاصل ہوا‘ میں نے بہت چھوٹی عمر میں ظفر جلیل شرح حصن حصین پڑھ لی تھی‘ اس کتاب سے دعائیں بھی یاد کیں اور اردو بھی سیکھی۔ آپ کے والد ماجد سیدمولانا زکریا نجیب الطرفین سید تھے اور صاحبِ حال بزرگ‘ جید عالم دین‘ حاذق طبیب اور تعبیر رؤیا کے امام تھے‘ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے‘ والدہ محترمہ قبیلہ محمد زئی کابل کے شاہی خاندان سے تھیں۔
ابتدائی تعلیم
محدث العصر رحمة اللہ علیہ اپنی خود نوشت سوانح حیات میں تحریر فرماتے ہیں:
”قرآن پاک اپنے والد ماجد اور ماموں سے پڑھا‘ امیر حبیب اللہ خان کے دور میں افغانستان کے دار الحکومت کابل کے ایک مکتب میں علم صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں‘ اس دور کے مشہور استاذ شیخ حافظ عبد اللہ بن خیر اللہ پشاوری شہید ۱۳۴۰ھ ہیں‘ علاوہ ازیں فقہ‘ اصول فقہ‘ منطق‘ معانی وغیرہ مختلف فنون کی متوسط کتابیں پشاور اور کابل کے اساتذہ سے پڑھیں“۔(بینات بنوری نمبر‘ ص:۹)
دار العلوم دیوبند میں
کابل سے واپسی کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا‘یہاں آپ نے مشکوٰة المصابیح کے درجہ میں داخلہ لیا‘ دارالعلوم دیوبند میں آپ نے اپنے وقت کے مشہور اساتذہ سے مختلف علوم وفنون کی کتابیں پڑھیں‘ آپ کے اساتذہ میں مفتی محمد شفیع دیوبندی‘ مولانا غلام رسول خان‘ مولانا محمد ادریس کاندھلوی‘ مفتی عزیز الرحمن دیوبندی‘ مولانا عبد الرحمن امروہی‘ علامہ شبیر احمد عثمانی اور خاتم المحدثین حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری ایسے اساطین علم وفضل اور نابغہٴ روزگار شخصیات شامل ہیں۔ دارالعلوم میں جب کچھ اختلاف شروع ہوا اور علامہ سید محمد انورشاہ کشمیری اپنے بعض رفقاء کے ساتھ مستعفی ہوکر گجرات کے مشہور مدرسہ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل سملک‘ ضلع سورت تشریف لے گئے تو مولانا بنوری بھی اپنے محبوب استاذ کے ہمراہ ڈابھیل روانہ ہوگئے اور جامعہ ڈابھیل میں دورہ کی تکمیل فرمائی۔ علامہ سید محمد انور شاہ نے چند ہی دنوں میں آپ کی صلاحیتوں اور اعلیٰ استعداد کا اندازہ لگالیا اور استاذ وشاگرد میں ایسا قوی تعلق پیدا ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت کشمیری کے علوم کا آپ کو وارث بنادیا‘علامہ محمد انور شاہ کشمیری کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت حافظہ‘ ذکاوت‘ متون وشروح حدیث کی وسیع معلومات‘ رجال وتاریخ‘ جرح وتعدیل‘ طبقات رواة کی واقفیت‘ تقویٰ وزہد کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا‘ علامہ بنوری نے اپنی خداداد صلاحیت کے سبب اپنے استاذ کے ان علوم سے بھر پور استفادہ فرمایا۔
علامہ کوثری کے علوم سے استفادہ
ہندوستان کے ان نابغہٴ روزگار اساتذہ کے علاوہ علامہ بنوری نے عالم اسلام کے معروف عالم اور محقق علامہ محمد زاہد الکوثری سے بھی بھر پور فیض اٹھایا۔ علامہ بنوری نے لکھا ہے کہ: ”میں شیخ سے اس زمانہ میں ملا جب میں مجلس علمی ڈابھیل کی طرف سے ”فیض الباری“ اور ”نصب الرایة“ کی طباعت کے لئے مصر گیا‘ میں نے شیخ سے علماء ہند کا تعارف کرایا۔ علامہ بنوری نے شیخ زاہد الکوثری  کے بارے میں لکھا ہے:
”وہ ایک ایسے شخص تھے جو انتہائی وسعت علمی‘ حیران کن مہارت‘ دقت نظر‘ خارق عادت حافظہ‘ محیرانہ استحضار جیسی خصوصیات کے ساتھ ساتھ علوم روایت کے تمام انواع واقسام‘ علم درایت کے تمام مقاصد ومدارک‘ مکارم اخلاق‘ خصائل حمیدہ‘ تواضع‘ قوت لایموت پر قناعت‘ زہد وتقویٰ‘ مصائب پر صبر واستقامت‘ کریمانہ ذات‘ اپنے خزائن علمیہ اور معارف گنجینہ میں سخاوت کے جامع تھے اس کے ساتھ ساتھ بسیطہٴ ارض کے مختلف گوشوں کے نادر مخطوطات اور دنیا کے کتب خانوں کی معلومات پر وسیع علم رکھتے تھے‘ مزید براں دین کی آبرو کی حفاظت پر حمیت وغیرت اور ملت اسلامیہ تک حق بات پہنچانے میں صاف گو اور بے باک تھے“۔ (مقدمہٴ مقالات کوثری بحوالہ خصوصی نمبر ص:۱۳۱)
اسی سفر میں شیخ الاسلام مصطفی صبری سے بھی ملاقات کی اور ان کی خدمت میں اپنے استاذ شاہ محمد انور رحمة اللہ علیہ کی کتاب ”مرقاة الطارم فی حدوث العالم“ پیش کی‘ شیخ صبری اس سے بہت محظوظ ہوئے اور اپنی کتاب ”موقف العقل والنقل“ میں اس کا ذکر کیا۔
اجازتِ حدیث
علامہ بنوری کو حدیث شریف کی اجازت مندرجہ ذیل مشائخ ومحدثین سے حاصل تھی:
۱- امام العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری ۲- حضرت مولانا عبد الرحمن امروہوی
۳- شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ۴- علامہ شبیر احمد عثمانی
۵- حضرت مفتی عزیز الرحمن دیوبندی ۶- شیخ حسین بن محمد الطرابلسی
۷- الشیخ العلامہ محمد زاہد الکوثری ۸- الشیخ عمر حمدان المقدسی المالکی
۹- الشیخ محمد بن حبیب اللہ بن مایابی الشنقیطی ۱۰- الشیخ خلیل الخالدی المقدسی
۱۱- شیخہ امة اللہ بنت الشیخ عبد الغنی مہاجرہٴ مکہ مکرمہ۔
(بینات خصوصی نمبر ص:۷۴-۷۲)
مولانا محمد یوسف لدھیانوی تحریر فرماتے ہیں: ”یہاں اس لطیفہ کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ دیوبند کے مورث اعلیٰ دو بزرگ ہیں ایک علمِ حدیث میں اور دوسرے طریقت وسلوک میں چنانچہ علماء دیوبند کا علمی رشتہ حضرت شاہ عبد الغنی مجددی ثم مدنی سے وابستہ ہے‘ حضرت نانوتوی اور حضرت گنگوہی ان کے بلاواسطہ شاگرد رشید ہیں‘ حضرت شیخ الہند اور حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری ثم مدنی کو ان کے بالواسطہ تلمذ اور بلا واسطہ اجازت حدیث حاصل ہے‘ دیوبند کا سلسلہٴ طریقت قطب عالم سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے پیوستہ ہے دور اول اور دور دوم کے سارے اکابر دیوبند حضرت حاجی امداد اللہ کے خلفاء ومسترشدین ہیں۔ حضرت بنوری زمانہ کے لحاظ سے تو اکابر دیوبند کے طبقہٴ چہارم میں آتے ہیں لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ انہیں حضرت شاہ عبد الغنی سے صرف ایک واسطہ سے اجازت حدیث حاصل ہے: عن المحدثة أمة اللہ بنت الشاہ عبد الغنی عن أبیہا‘ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بھی صرف ایک واسطہ سے اجازت وخلافت حاصل ہے (یعنی آپ کو حضرت نگینوی سے اور انہیں حضرت حاجی صاحب سے نیز آپ کو حضرت حکیم الامت تھانوی سے اور ان کو حضرت حاجی صاحب سے) حضرات محدثین کی اصطلاح کے مطابق علو سند کا یہ شرف اس زمانہ میں بہت کم حضرات کو حاصل ہوگا۔ (خصوصی نمبر ص:۷۳۲-۷۳۱)
وہ مشائخ کرام جن کو شیخ بنوری نے روایت ِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی:
۱- شیخ حسن مشاط مالکی‘ متوفی ۱۳۹۹ھ ۲- شیخ ابراہیم ختنی‘ متوفی ۱۳۸۹ھ
۳- شیخ سلیمان بن عبد الرحمن الصنیع ۱۳۹۷ھ ۴- شیخ عبد العزیز عیون السود حمصی
۵- شیخ دکتور مصطفی السباعی متوفی ۱۳۸۳ھ ۶- شیخ دکتور تقی الدین الندوی
۷- شیخ عبد الفتاح ابوغدة الحلبی
علامہ شبیر احمد عثمانی کی شہادت وتزکیہ
علامہ عثمانی نے آپ کو جو اجازتِ حدیث مرحمت فرمائی اس میں تحریر فرمایا کہ:
”وہو فی ما اری- ولا ازکی علی اللہ احدا- صالح‘ راشد‘ مسترشد‘ مستقیم السیرة‘ جید الفہم‘ ذو مناسبة قویة بالعلوم‘ مستعد لتدریسہا“۔
اور اس سے قبل تحریر فرمایا ہے:
”فجد واجتہد فی اکتساب علم السنة والقرآن وبرع فیہ وفاق اقرانہ ماشاء اللہ“۔
حضرت عثمانی نے اپنے ایک گرامی نامہ میں تحریر فرمایا: ”مجھے جو قلبی تعلق آپ کے ساتھ ہے وہ خود آپ کو معلوم ہے‘ مجھے بہت سی علمی توقعات آپ کی ذات سے ہیں‘ سنن ابی داؤد کے درس سے میری تمنا پوری ہوئی‘ میں مدت سے چاہتا تھا کہ اس درجہ کا کوئی سبق آپ کے ہاں ہو‘ الحمد للہ آپ کا درس مقبول ہے۔ (خصوصی نمبر ص:۷۳۹)
امیر شریعت شاہ عطاء اللہ کے تأثرات
ایک بار حضرت بنوری ملتان تشریف لے گئے حضرت امیر شریعت علیل تھے‘ عیادت کے لئے ان کے در دولت پر حاضری دی‘ حضرت امیر شریعت خود باہر تشریف لائے‘آپ سامنے کھڑے ہیں‘ مگر شاہ جی پوچھتے ہیں: کون؟ آپ نے سمجھا کہ شاید علالت کی وجہ سے پہچان میں فرق آگیا اس لئے عرض کیا: محمد یوسف بنوری‘ شاہ جی نے پھر پوچھا: کون؟آپ سمجھے کے شاید مرض کی وجہ سے سماعت میں بھی فرق آگیا ہے‘ اس لئے ذرا بلند آواز سے کہا: محمد یوسف بنوری‘ فرمایا: نہیں ‘ نہیں‘ بلکہ انور شاہ‘ یہ کہہ کر آپ سے لپٹ گئے
درس وتدریس
اللہ تعالیٰ نے حضرت بنوری کو ہرفن میں مہارت تامہ عطا فرمائی تھی‘ عربی زبان وادب میں ایسی مہارت تھی کہ آپ کی تحریر وگفتگو سن کر عرب علماء متعجب ہوکر جھوم جھوم جاتے تھے مگر آپ کا خصوصی ذوق فن تفسیر اور حدیث پاک میں اشتغال تھا‘ آپ نے حدیث پاک کی جن کتابوں کا گہرائی اور توجہ سے مطالعہ فرمایا اس کی فہرست طویل ہے‘ شاید ہمارے دور کے بہت کم اہل علم نے ان کتب کا مطالعہ کیا ہوگا۔
مجلس علمی ڈابھیل سملک
حضرت مولانا احمد رضا بجنوری تلمیذ رشید حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری تحریر فرماتے ہیں: ”راقم الحروف کو مولانا محمد میاں سملکی نے ۱۳۴۹ھ میں ڈابھیل بلایا اور حضرت شاہ صاحب کی سرپرستی میں مجلس علمی کی بنیاد ڈال کر اس کے کام احقر کے سپرد کردیئے‘ پھر کچھ عرصہ قیام کرکے وہ بھی افریقہ چلے گئے۔ حضرت شاہ صاحب کی وفات ۱۳۵۲ھ کے بعد مجلس علمی کی سرپرستی ان کے جانشین علامہ محقق مولانا عثمانی نے منظور فرمائی‘ اس وقت احقر نے مولانا بنوری کو پشاور سے جامعہ ڈابھیل بلانے کی تحریک کی‘ اور مہتمم صاحب جامعہ کی منظوری حاصل کرکے وہاں بلالیا۔ موصوف نے درسی خدمات کے ساتھ مجلس علمی کے کاموں میں بھی میری اعانت وشرکت کی‘ حضرت شاہ صاحب کی مکمل سوانح عمری اعلیٰ درجہ کی فصیح وبلیغ عربی میں تالیف کی جو مجلس سے اسی وقت شائع ہوگئی تھی۔ حضرت شاہ صاحب کی وفات کے بعد ہی حضرت مولانا بدر عالم صاحب نے مجلس علمی کی تحریک پر فیض الباری مرتب کی اور حضرت مولانا عبد العزیز صاحب گوجرانوالہ نے نصب الرایة کی تصحیح ووتحشیہ کی خدمت انجام دی‘ ان تینوں کتابوں کو لے کر احقر اور مولانا بنوری نور اللہ تعالیٰ مرقدہ حرمین شریفین ہوتے ہوئے مصر گئے‘ اور وہاں نو دس ماہ رہ کر ان کو طبع کرایا‘ ساتھ ہی وہاں کے اکابر علماء کرام اور کتب خانوں سے استفادہ بھی کرتے رہے‘ مصر کا یہ سفر ۱۳۵۷ھ میں ہوا تھا‘ مصر سے واپسی کے دوران حجاز مقدس جانا ہوا وہاں سعودی فرماں روا ملک عبد العزیز سے ملاقات ہوئی‘ انہوں نے حجاز کے علماء اور کتب خانوں کے لئے فیض الباری کے سو نسخے خریدے۔ مصر سے واحس ہوکر یہ طے کیا گیا کہ مولانا بنوری ”العرف الشذی“ پر کام کریں تاکہ حضرت شاہ صاحب کے علوم وکمالات کو زیادہ سے زیادہ بہتر صورت میں نمایاں کیا جاسکے۔
غیر معمولی تلاش وجستجو
حضرت محدث بنوری نے تلاش وتفحص اور مظان وغیر مظان سے اپنے شیخ کے علوم کی تخریخ وتوضیح کا حق ادا کردیا ہے‘ محدث کشمیری بحربے کراں تھے‘ آپ کے درس میں حدیث کی روایت ‘ درایت اور دوسرے مسائل کے سلسلہ میں دوسرے علوم وفنون کے حوالے آجاتے تھے‘کہیں صرف ونحو کا مشکل حوالہ آجاتا‘ کہیں علم وفلسفہ کا کوئی مسئلہ زیر بحث آجاتا‘ پھر ایسی کتابوں کے حوالے آجاتے جو عام طور پر اہل علم کے یہاں متداول نہیں تھیں‘ مولانا نے متداول اور غیر متداول کتابوں سے مسائل نکالنے میں کسر نہیں اٹھا رکھی اور اس کے لئے بے نظیر محنت کی شاندار مثال قائم کی‘ چند مسئلوں کی تحقیق کے لئے کئی کئی کتابوں کی ورق گردانی کرنی پڑی تب جاکر مسئلہ دستیاب ہوا۔ خود فرماتے ہیں: ”میں نے اپنی قوت وطاقت تخریج ومأخذ سے مطلع ہونے پر پوری طرح صرف کی‘ ورق گردانی‘ مظان اور غیر مظان سے مسئلہ نکالنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی‘ کبھی میں ایک مسئلہ کی تلاش میں گھڑیاں ہی نہیں کئی کئی راتیں اور دن گذار دیتا اور اس کے لئے ایک ایک کتاب کی مجلدات پڑھتا اور جب مجھے اپنی متاع گم گشتہ مل جاتی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہتا‘ شیخ نے دوران درس جس کتاب کا حوالہ دیا ہوتا اس سے مسائل نکالنے کا التزام کرکھا تھا‘ لہذا میں کتاب سیبویہ‘ رضی شرح کافیہ‘ دلائل الاعجاز‘ اسرار البلاغہ‘ عروس الافراح‘ کشف الاسرار دیکھنے پر مجبور تھا جس طرح میں شروحِ حدیث کی اہم کتابیں فتح الباری‘ عمدة القاری اور فقہ مذاہب میں شرح مہذب‘ مغنی لابن قدامہ اور رجال میں کتب رجال دیکھنے پر مجبور تھا اگر میری جوانی‘ بحث وجستجو کا شوق اور شیخ کے جواہر پارے سمیٹنے کا عشق نہ ہوتا تو میں اس بار گرں کا اہل نہیں تھا‘ حدیث کی اہم کتابوں میں سے کسی کتاب کی شرح میرے لئے اس کٹھن کام سے بہت زیادہ آسان تھی۔ (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین