بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علامہ ابن امیر حاجؒ اور ان کی علمی خدمات

علامہ ابن امیر حاجؒ اور ان کی علمی خدمات

 

علامہ ابن امیر حاج  رحمۃ اللہ علیہ  ان جلیل القدر ہستیوں میں سے ایک ہیں، جن کی تصانیف اہلِ علم میں کافی مقبول ہیں اور انہیں وقعت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، تحقیق کا کام کرنے والوں کو ان سے استغناء نہیں ہوسکتا، خصوصاً فقہ واصول فقہ میں انہوں نے ایسا گراں قدر کام کیا ہےکہ جس کا صحیح اندازہ انہی حضرات کو ہوسکتا ہےجنہیں ان علوم کے ساتھ گہرا شغف ہو۔ ان کی کتب ’’مصادر و مآخذ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں، اور بعد میں آنے والے حضرات نے ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے، بلکہ فقہ، اصولِ فقہ اور فتاویٰ پرلکھی گئی شاید ہی کوئی مستند کتاب ایسی ہو جس میں ان کی مؤلفات کا حوالہ موجود نہ ہو۔ ان میں سے زیادہ مشہور اصولِ فقہ میں ’’التقریر والتحبیر‘‘ اور فقہ میں ’’حلبۃ المجلي‘‘ہے۔ 
لیکن جہاں تک علامہ ابنِ امیر حاج  ؒکی ذات کا تعلق ہے تووہ بھی ان بہت سے فقہاء واہلِ اصول کی طرح ہے جن کے ساتھ پچھلوں نے انصاف نہیں کیا، انہیں یکسر فراموش کردیا، نہ ان کی حیات واحوالِ زندگی پر کوئی کتاب لکھی گئی، اور نہ ان کے علمی کارنامےیکجا محفوظ کرکے لوگوں میں اُجاگر کیے گئے۔ 
علامہ ابن امیر حاج  ؒدیگر اکابرین کی طرح نہایت متواضع اور شہرت وناموری سے دور رہنے والے تھے، لیکن اصاغر کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنے اکابرین کی مساعیِ جمیلہ، علمی خدمات اور اعمالِ صالحہ کا تذکرہ کرنے سے کترائیں، اور ان کی تحصیلِ علم، اس کی اشاعت اور دینِ حق کی سربلندی کے لیے کی گئی جد وجہد اور خدمات پر پڑےگمنامی کے پردے چاک کرنے کے بجائےان سے بے اعتنائی کریں۔ 
حقیقت تو یہ ہے کہ ان اکابرین کا ہم پر حق ہےکہ ہم امت کے سامنے ان کے تذکرے، حالاتِ زندگی، اور بالخصوص ان کا علمی مقام ومرتبہ، علم کے حصول اور اس کی نشر واشاعت کے سلسلے میں ان کا طرز وطریقہ درست انداز میں پیش کریں، تاکہ بعد میں آنے والے ان سے استفادہ کرسکیں۔ ذیل میں انہی اکابرین میں ایک جلیل القدر ہستی علامہ ابن امیر حاج  ؒ اور ان کی علمی خدمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے:

نام ونسب اور ولادت

ان کا مکمل نام ’’ابو عبد اللہ شمس الدین محمد بن محمد بن محمد بن حسن الحلبي‘‘ ہے، ان کے دادا کی طرف نسبت کرکے انہیں ’’ابن امیر حاج‘‘ کا لقب دیا گیا، اسی طرح ’’ابن الموقت‘‘ کے لقب سے بھی مشہور ہوئے۔ ان کی ولادت ۸ ۱ربیع الاول سن ۸۲۵ ھ بمقام حلب ہوئی۔ (۱)

ابتدائی تعلیم

ان کی ابتدائی تعلیم اپنے شہر ’’حلب‘‘ میں ہوئی، چنانچہ حفظِ قرآن اپنے علاقے کے ایک شیخ ابراہیم الکفرناوی کے پاس کیا۔ أربعین للنووي، المختار، تصریف الجرجاني، اور صرف ونحو وغیرہ کی دیگر کتابیں اپنے شہرکے مشائخ کے پاس ہی پڑھیں۔ (۲)

تحصیلِ علم کے لیے سفر

علامہ ابن امیر حاج  ؒ چونکہ ایک علمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے، وقت کے بڑے علماء میں ان کے والد اور دادا کاشمار ہوتا تھا، اس لیے ایک تو علمی ماحول، اور دوسرا ان کا پنا شوق، لہٰذا جلد ہی انہوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرلی، اورپھر اپنے عہد کے بڑے فقہاء ومحدثین، اور علم میں رسوخ وپختگی رکھنے والے مشائخ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفادے کی غرض سے عازمِ سفر ہوئے، چنانچہ حلب سے ’’حماۃ‘‘ کا سفر کیا، اور وہاں کے مشائخ سے علم حاصل کیا، پھر قاہرہ تشریف لے گئے، اسی طرح انہوں نے حرمین شریفین اور بیت المقدس کا سفر بھی کیا۔(۳)

حافظ ابن حجرؒ سے تلمُّذ

علامہ ابن امیر حاج  ؒنے اپنے وقت کے راسخین فی العلم اور چوٹی کےعلماء سے استفادہ کیا، چنانچہ قاہرہ جاکر حافظ ابن حجرؒکی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے، ان سےاحادیث کا سماع کیا، اور علامہ عراقیؒ کے اصولِ حدیث میں ’’الفیۃ‘‘ نامی منظوم رسالے کی شرح، اسی طرح اور بھی بعض کتابوں کی تعلیم حاصل کی۔ (۴)
 

علامہ ابن الہمامؒ سے تعلق

علامہ ابن امیر حاج  ؒنےاپنے استاذ ابن الہمامؒ سے کافی استفادہ کیا تھا، ان سے فقہ واصولِ فقہ کی تعلیم حاصل کی، اور صرف شاگردی اختیار نہیں کی تھی، بلکہ استاذ وشاگرد کے درمیان گہرا تعلق اور قلبی لگاؤ تھا، جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہےکہ علامہ ابن امیر حاج  ؒ اپنے استاذ علامہ ابن الہمامؒ کا جب تذکرہ کرتے تو ان کی تعریف، اوصاف والقابات کی ایک طویل فہرست ذکرکرتے تھے، نیز ان کی زیارت کو اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھتے تھے، چنانچہ علامہ ابن الہمامؒ کی طرف جانے کے سلسلے میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’فطار العبد إليہ بجناحين۔‘‘ (۵)
’’یعنی بندہ اُڑ کر ان کے پاس جاپہنچا۔‘‘ 
اسی طرح علامہ ابن الہمامؒ کو بھی اپنے شاگرد کی علمی قابلیت پر اعتبار، بلکہ اعتراف تھا، چنانچہ انہوں نے علامہ ابن امیر حاج  ؒ کو اپنی کتاب’’التحریر‘‘ کی شرح کرنے کی طرف متعدد بار توجہ دلائی، جیساکہ انہوں نےاپنی شرح ’’التقریر والتحبیر‘‘ کے مقدمہ میں اس بات کی تصریح کی ہے۔ (۶)
علامہ ابن الہمامؒ کا ’’فتح القدیر‘‘ میں ابن امیر حاج  ؒ کا تذکرہ کرنا
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ علامہ ابن الہمامؒ نے اپنی شرح ’’فتح القدیر‘‘ میں ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے بطورِ مثال اپنے شاگرد ابن امیر حاج  ؒ کا تذکرہ کیا ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
’’لو قال أنت ابن فلان: يعني جدہ ہو صادق، لأنہ قد ينسب إلی الجد مجازا متعارفا وفي بعض أصحابنا ابن أمير الحاج وأمير الحاج جدہ۔‘‘ (۷)
یعنی اگر کسی آدمی نے دوسرے شخص کو اس کے دادا کی طرف نسبت کرکے یہ کہا کہ: ’’تم فلاں کے بیٹے ہو‘‘ تو وہ سچا ہوگا، (اوریہ تہمت نہیں ہوگی) کیونکہ دادے کی طرف پوتے کو منسوب کرنا مجازِ متعارف ہے، اور ہمارے ایک ساتھی ’’ابن امیر حاج‘‘ ہیں، (یعنی امیر حاج کا بیٹا) حالانکہ امیر حاج اس کا دادا ہے، والد نہیں۔ 

رفیقِ درس علامہ سخاویؒ سے استفادہ وافادہ

حضرات محدثین اور دیگر اہلِ علم نے آدابِ طالب علم میں یہ بات لکھی ہےکہ :
’’لا يستنکف عن التعلم ممن ہو دونہ في سنٍ۔‘‘ (۸)
یعنی ’’طالب علم کو چاہیےکہ وہ اپنے سے کم عمر سےبھی علم حاصل کرنے میں شرم وعار محسوس نہ کرے۔‘‘
اسی طرح یہ بھی لکھا ہےکہ علم میں اس وقت تک پختگی اور کمال حاصل نہیں ہوسکتا جب تک اپنے سے بڑے، ہم عمر اور چھوٹے، یعنی ہر صاحبِ علم (خواہ چھوٹا ہو یا بڑا) سے علم نہ حاصل کرے۔ (۹)
اور علامہ ابن امیرؒ بھی ایسے ہی حقیقی طالب علموں میں سے تھے، چنانچہ انہوں اپنے ساتھی اور رفیقِ درس علامہ سخاویؒ سے استفادہ کیا، اوربعض کتب ان سے پڑھیں، حالانکہ وہ ان سے چند سال چھوٹے تھے۔ اسی طرح علامہ سخاویؒ نے بھی علامہ ابن امیر حاج  ؒ سے استفادہ کیا ہے، چنانچہ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ سخاویؒ فرماتے ہیں:
’’وقد سمعت أبحاثہ وفوائدہ وسمع مني بعض القول البديع وتناولہ مني۔‘‘ (۱۰)

اساتذہ وشیوخ

علامہ ابن امیر حاج  ؒ کے متعدد اساتذہ وشیوخ میں سے بعض کے اسمائےگرامی درج ذیل ہیں:
۱- حافظ ابن حجرؒ: ابو الفضل احمد بن علی عسقلانی (متوفی: ۸۵۲ھ)۔ ۲- علامہ ابن الہمامؒ: کمال الدین محمد بن عبد الواحد سیواسی (متوفی: ۸۶۱ھ)۔ ۳- ابن خطیب ؒ: علاء الدین علی بن محمد طائی (متوفی: ۸۴۵ھ)۔ ۴- شہاب الدین احمد بن ابی بکر بن الرسام حلبیؒ (متوفی: ۸۴۴ھ)

تصانیف وتالیفات

علامہ ابن امیر حاج  ؒنے متعدد علوم مثلاً: تفسیر، فقہ، اصولِ فقہ وغیرہ میں بہت سی کتابیں تصنیف کی تھیں، جن میں سے بعض کے نام ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں: (۱۱)
۱: ذخیرۃ القصر في تفسیر سورۃ العصر
۲: التقریر والتحبیر، جوکہ علام ابن لہمامؒ کی اصولِ فقہ میں لکھی کتاب ’’التحریر‘‘ کی شرح ہے، اور اپنے موضوع میں بے مثال کتاب ہے۔ 
۳:حلبۃ المجلي وبغیۃ المہتدي في شرح منيۃ المصلي وغنيۃ المبتدي، فقہ کی ایک شاندار کتاب ہے۔ 
۴: شرح المختار، علامہ ابن مودود موصلی کی کتاب کی شرح ہے۔ 
۵: داعي منار البيان لجامع النسکين بالقرآن
۶: منیۃ الناسک في خلاصۃ المناسک 
۷: أحاسن الحوامل في شرح العوامل

اہلِ علم کی آپ سے متعلق آراء

بہت سے حضرات نے آپ کی علمی قابلیت اور مہارت کی گواہی دی ہے، اور آپ کو بلند اوصاف اور عمدہ القاب سے نوازا ہے۔ 
۱: ابن العماد حنبلیؒ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’کان إمامًا عالمًا علامۃً مصنفًا صنف التصانيفَ الفاخرۃَ الشہيرۃَ وأخذ عنہ الأکابرُ وافتخروا بالانتساب إليہ۔‘‘ (۱۲)
یعنی’’ وہ امام، عالم، علامہ اور مصنف تھے، متعدد مشہور اور گراں قدر کتب تصنیف کیں، حضرات اکابرین نے ان سے علم حاصل کیا، اور ان کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا باعثِ فخر سمجھا۔ ‘‘
۲: علامہ سخاویؒ    تحریر کرتے ہیں:
’’ وکان فاضلًا مفننًا دينًا قويَ النفس محبًا في الرياسۃ والفخر۔‘‘ (۱۳)
۳: اسی طرح متعدد حضرات نے آپ کو مفسّر، فقیہ، اصولی وغیرہ جیسے بلند مرتبہ اوصاف سے نوازا ہے۔ (۱۴)

مخالفین کی طرف سے تکالیف

علامہ ابن امیر حاج  ؒ ایک سچے، کھرے اور حق گوعالمِ دین تھے، دینِ حق یا علمی کاموں میں چشم پوشی اور مداہنت سے کام نہیں لیتے تھے، لیکن اس کے لیے اشتعال آمیز طریقہ نہیں اپناتے، بلکہ عمدہ اسلوب سےتنقید کرتے اور اپنا مافی الضمیر بیان کرتے تھے، چنانچہ جب اپنے استاذ علامہ ابن الہمامؒ کی شرح ’’فتح القدیر‘‘ پر کچھ اشکالات پیش آئے تو آپ نے ان کی خدمت میں وہ اعتراضات تحریری طور پر پیش کیے۔ (۱۵)
لیکن نقد وتنقید میں ایسی احتیاط کے باوجود مخالفین ان کو ایذاء وتکلیف دینے سے باز نہیں آئے، چنانچہ جب انہوں نے مکہ مکرمہ جاکر درس وتدریس اور افتاء کا کام شروع کیا تومخالفین نے ان کو تکالیف پہنچاکر وہاں سےہجرت کرنے پرمجبور کیا، پھر جب آپ وہاں سے بیت المقدس تشریف لائےتو تقریباً دو ماہ ہی ٹھہر پائے تھے کہ پھر مخالفت شروع ہوگئی اور آپ کو واپس اپنے وطن آنا پڑا۔ (۱۶)

انتقال پُر ملال

علامہ ابن امیر حاجؒ تقریباً دو ماہ بیمار رہے، اور رجب المرجب سن ۸۷۹ھ جمعہ کی رات کو آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے، اور بہت بڑی تعداد نے جنازے میں شرکت کی، نیز آپ کی وفات سے چالیس دن پہلے آپ کی زوجہ کا انتقال ہوا، رحمہما اللہ وإیّانا۔ (۱۷)

حواشی وحوالہ جات

۱: الضوء اللامع لأہل القرن التاسع للسخاوي، (۹/۲۱۰)، الناشر: دار الجيل، بيروت
۲: المصدر السابق
۳: معجم المفسرين، عادل نويہض، (۲/۶۲۱)، الناشر: مؤسسۃ نويہض الثقافيۃ۔ بيروت، ط: ۱۴۰۹ھ-۱۹۸۸ء
۴: الفوائد البہيۃ في تراجم الحنفيۃ للکنوي، (ص:۲۴۳)، الناشر: دار السعادۃ، ط: ۱۳۲۴ھ- والضوء اللامع للسخاوي، (۹/۲۱۰)
۵: التقرير والتحبير لابن أمير حاج، (۱/۸)، الناشر: دار الکتب العلميۃ۔ بيروت، ط: ۱۴۱۹ھ- ۱۹۹۹ء
۶: المصدر السابق
۷: فتح القدير لابن الہمام، (۵/۳۲۱)، الناشر: دار الفکر، بيروت
۸: النکت الوفيۃ بما في شرح الألفيۃ للبقاعي، (۲/۳۷۰)، الناشر:مکتبۃ الرشد ناشرون، ط: ۱۴۲۸ھ-۲۰۰۷ء
۹: تدريب الراوي للسيوطي، (۲/۵۹۲)، الناشر: دار طيبۃ
۱۰: الضوء اللامع للسخاوي، (۹/۲۱۰)
۱۱: ہديۃ العارفين، إسماعيل بن محمد أمين البغدادي، (۲/۲۰۸)، الناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت
۱۲: شذرات الذہب لابن العماد الحنبليؒ، (۷/۳۲۷)، الناشر: دار الکتب العلميۃ، بيروت
۱۳: الضوء اللامع للسخاوي، (۹/۲۱۰)
۱۴: معجم المؤلفين، عمر رضا کحالۃ، (۱۱/۲۷۴)، الناشر: دار إحياء التراث العربي، بيروت – والأعلام للزرکلي، (۷/۴۹)، الناشر:دار العلم للملايين، ط:۲۰۰۲ء
۱۵: البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع للشوکاني، (۲/۲۵۴)، الناشر: دار المعرفۃ، بيروت
۱۶: الضوء اللامع للسخاوي، (۹/۲۱۱)
۱۷: المصدر السابق

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین