بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

علاقائی ثقافتی میلے اور اسلام!

علاقائی ثقافتی میلے اور اسلام!

یکم دسمبر سے کراچی میں ایک ثقافتی میلہ منعقد کیا جارہا ہے جس میں سندھی، پنجابی، پٹھانی اور بلوچی ثقافتوں کی نمائش کی جائے گی۔ اسلامی لغت ’’ثقافت‘‘کے لفظ سے ناآشنا ہے۔ قرآن کریم، حدیث نبوی اور دیگر اسلامی ذخائر میں یہ لفظ کہیں نہیں ملتا۔ آنحضرت a نے اپنی بعثت کا مقصد مکارمِ اخلاق کی تکمیل قرار دیا، مگریہ کہیں نہیں فرمایا کہ میں ’’ثقافت‘‘ کی تعلیم کے لیے آیاہوں۔ دراصل انگریزی میں’’ کلچر‘‘ کا لفظ تہذیب وتمدن اور اسلوبِ زندگی کے معنی میں رائج تھا۔ہمارے عرب اُدباء نے اس کا ترجمہ ’’ثقافت‘‘ سے کرڈالا اور جب سے یہ لفظ مسلمانوں میں کثرت سے استعمال ہونے لگا، مگریہ مہمل لفظ آج تک شرمندۂ مفہوم ومعنی نہیں ہوا۔ ہرشخص نے اپنے ذوق کے مطابق اس کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کی اور آج کل عموماً اُسے رقص وسرود، ناچ رنگ، فحاشی اور عیاشی کے مناظر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ خیر !کچھ بھی ہو، کہنے کی بات یہ ہے کہ اس اسلامی ملک میں ان علاقائی ثقافتوں کی ترویج ونمائش اور حوصلہ افزائی کا کیا مقصد ہے؟ ’’سندھی ثقافت‘‘ آخر کیا بلا ہے؟ اس سے مراد محمد بن قاسمؒ کی ثقافت ہے یا راجہ داہر کی؟ ’’پنجابی ثقافت‘‘ کیا چیز ہے؟ کیا راجہ اجیت سنگھ کی ثقافت کا احیا مقصود ہے؟ ’’سندھی‘‘ ایک مسلمان بھی ہوسکتا ہے اور کافر بھی۔ ’’پنجابی‘‘ ایک مومن بھی ہوسکتا ہے اور ایک سکھ بھی۔’’بلوچی‘‘ بھی ایک مسلم بھی ہوسکتا ہے اور ایک یہودی بھی۔ جب آپ سندھی، پنجابی اور بلوچی ثقافتوں کی نمائش کریںگے تو وہ ایک مسلم وکافر کی مشترکہ میراث ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان کو بحیثیت مسلمان کے اس سے کیا دلچسپی ہے؟ کیا پاکستان انہی چیزوں کو نمایاں کرنے کے لیے بنایا گیا، جن میں دنیا بھر کے کافروں کی تسلی کا سامان تو ہو، مگر اسلام اور مسلمانوں کو ان سے کوئی واسطہ نہ ہو؟ اگر یہ ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں کے شہری مسلمان ہیں تو ان سب کے لیے ایک ہی ثقافت ہوسکتی ہے: قرآن حکیم کی تعلیمات اور آنحضرت a کا اسوۂ حسنہ۔ عقل وایمان کا یہ کیسا المیہ ہے کہ اسلام، اسلامی تعلیمات اور اسوۂ نبوی کی کسی کو فکر نہیں، مسلمانوں کے اخلاق ومعاشرت کی اصلاح کی طرف کسی کو توجہ نہیں اور زندہ کیا جارہا ہے تو ان تہذیبوں کو؟ اس کے لیے ہزاروں، لاکھوں روپیہ اس مفلس ملک اور بے بس قوم کا صرف کیا جارہا ہے۔ اور یہ بات بھی شاید ہمارے اربابِ حل وعقد کے سوا کسی کی عقل میں نہیں آئے گی کہ ایک طرف تو زبانی جمع خرچ کے طور پر چاروں صوبوں کے درمیان اتفاق واتحاد کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے، علاقائی عصبیت پھیلانے والوں کو ملک وملت اور قوم ووطن کے غدار کے خطاب سے نوازا جاتا ہے، اور دوسری طرف ہزاروں روپیہ خرچ کرکے علاقائی ثقافتوں کو ابھار کر علاقائی عصبیت کی چنگاری کو ہوا دی جاتی ہے۔ ان سندھی، پنجابی، پٹھانی، بلوچی ثقافتوں کو جب اچھالاجائے گا تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہوگا کہ لوگوں میں سندھیت اور پنجابیت، پشتونیت اور بلوچیت کا احساس ابھرے گا، صوبوں کے درمیان منافست اور منافرت بیدار ہوگی اور علاقائی عصبیت کا بھوت عریاں رقص کرنے لگے گا۔ ایک وطن، ایک قوم، ایک ملت اور ایک مقصد کا احساس اگر کسی کے گوشۂ قلب میں موجود ہو تو وہ بھی دب کررہ جائے گا۔ کہیں یہ ثقافتی میلے، یہ علاقائی ناچ رنگ کی نمائش، ملک کے مزید حصے بخرے کرنے کی سازش تو نہیں؟ کیا یہ مسلمانوں میں مزید جنگ وجدال برپاکرنے کی تمہید تو نہیں؟ ان علاقائی ثقافتی میلوں کا ایک اور درد ناک پہلو بھی نہایت اہم ہے۔ اس وقت پورا ملک ہو شرباگرانی اور قلتِ رسد کی لپیٹ میں ہے۔ پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں قحط کے سے آثار نمودار ہورہے ہیں، لوگوں کو سترپوشی کے لیے کپڑا اور جسم وجان کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے قوت لایموت کا حصول بھی مشکل ہورہا ہے، خشک سالی نے آئندہ فصل کے لیے بھی بیم وخوف کی شکل پیدا کردی ہے، بجلی اور پانی کی قلت سے زمین بنجر اور کھڑی فصلیں خشک ہو رہی ہیں، حالات کے دباؤ نے لوگوں میں اندیشہ ہائے دور ودراز پیدا کردیئے ہیں، ہر شخص فکرمند نظر آتا ہے۔ اگر کسی کے دل میں رحم وانصاف کی کوئی رمق ہوتواُسے سوچنا چاہیے کہ ان سنگین حالات میں یہ ملک ان ثقافتی عیاشیوں کا متحمل ہے؟ ان حالات میں توبہ واستغفار اور انابت الی اللہ کی ضرورت ہے یا ان مختلف علاقوں کے ناچ رنگ کے ڈراموں کی؟ خدارا! اس ملک پر رحم کیجئے! اس قوم پر رحم کیجئے! قوم وملک کو ان لعنتوں میں گرفتارکرکے خدا کے غضب کو دعوت نہ دیجئے! اگر اسلامی ملک کی اصلاح وفلاح اور مسلمانوں کے امن وسکون کے اسباب مہیا کرنا آپ کے بس کی بات نہیں ہے تو کم از کم اُنہیں تباہی وبربادی کے جہنم میں تو نہ دھکیلئے: ’’مرا بخیر تو امید نیست بد مرساں‘‘

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین